قائد انقلاب اسلامی نے 20 فروردین 1394 ہجری شمسی مطابق 9 اپریل 2015 کو اپنے اس خطاب کا آغاز اس تمہید سے کیا کہ بعض افراد یہ سوال کر رہے ہیں کہ قائد انقلاب اسلامی نے حالیہ ایٹمی مذاکرات کے سلسلے میں کسی موقف کا اظہار کیوں نہیں کیا۔ آپ نے فرمایا: قائد انقلاب کی جانب سے موقف کا اظہار نہ کئے جانے کی وجہ یہ ہے کہ کسی موقف کے اظہار کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ملک کے حکام اور ایٹمی امور کے ذمہ دار افراد یہ کہہ رہے ہیں کہ ابھی کام انجام نہیں پایا ہے اور دونوں فریقوں کے درمیان کوئی بھی موضوع لازم الاجراء ہونے کی حد تک نہیں پہنچا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایران کے ایٹمی پروگرام کی نگرانی کے عمل کے سلسلے میں فرمایا: کوئی بھی غیر معمولی نگرانی کا میکینزم جو نظارت کے اعتبار سے ایران کو ایک الگ ملک بنا دے، قابل قبول نہیں ہے بلکہ نگرانی اسی دائرے میں ہونی چاہئے جس دائرے میں دنیا میں عام طور پر انجام دی جاتی ہے، اس سے زیادہ نہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس کے بعد اپنی تقریر میں یمن کے انتہائی اہم واقعات کا ذکر کرتے ہوئے زور دیکر کہا کہ یمن کے خلاف جارحیت کرکے سعودیوں نے بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے اور علاقے میں بہت بری بدعت کی بنیاد رکھ دی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ ان دنوں یمن میں سعودی حکومت کے اقدامات غزہ میں صیہونیوں کے جرائم سے مماثلت رکھتے ہیں۔ آپ نے اس مسئلے کے دو انتہائی اہم پہلوؤں کا جائزہ لیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے ملت یمن کے خلاف فوجی کارروائی کو مجرمانہ، نسل کشی اور بین الاقوامی سطح پر قانونی چارہ جوئی کے قابل فعل قرار دیا اور فرمایا کہ کسی ملک کے بچوں کو مارنا، گھروں کو مسمار کرنا بنیادی انفراسٹرکچر اور قومی سرمائے کو نابود کرنا بہت بڑا جرم ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ یقینی طور پر سعودیوں کو اس مسئلے میں نقصان اٹھانا پڑے گا اور وہ کسی بھی حالت میں فتحیاب نہیں ہوں گے۔
قائد انقلاب اسلامی نے خارجہ سیاست کے میدان میں سعودیوں کے ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: گوناگوں سیاسی مسائل کے بارے میں سعودیوں سے ہمارے اختلافات ہیں لیکن ہم نے ہمیشہ یہ کہا کہ وہ خارجہ سیاست کے میدان میں متانت اور وقار کا ثبوت دیتے ہیں، لیکن چند ناتجربہ کار جوانوں نے اس ملک کے امور اپنے ہاتھ میں لے لئے ہیں اور متانت اور ظاہر داری کے پہلو پر وحشی پنے کے پہلو کا غلبہ ہو رہا ہے اور یہ عمل یقینا انہیں نقصان پہنچائے گا۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم
و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین و لعنة الله علی اعدائهم اجمعین. اللّهمّ صلّ علی فاطمة و ابیها و بعلها و بنیها عدد ما احاط به علمک.

میں اس مبارک و مسعود یوم ولادت کی مبارکباد پیش کرتا ہوں تمام عاشقان ولایت، عاشقان نبوت، عاشقان خاندان پیغمبر اور حقیقی فضیلتوں کے شیدائیوں کو۔ آپ تمام عزیزوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ میں ہر شخص خاص اہمیت اور مقام و منزلت کا مالک ہے۔ جس پر میں ابھی روشنی ڈالوں گا اور کچھ معروضات پیش کروں گا۔ اپنے معروضات کا آغاز کرنے سے پہلے جناب آہی مرحوم رحمۃ اللہ علیہ کو یاد کرنا چاہوں گا جو بڑے فرض شناس، منظم، محنتی اور ہمدرد خطیب تھے۔
میں آہی مرحوم کو سنہ انیس سو ساٹھ کے عشرے کے آغاز کے وقت سے جانتا ہوں۔ شعراء و ذاکرین اہل بیت کی ایک جماعت مشہد آئی تھی؛ جناب آہی صاحب اس میں بہت سرگرم تھے۔ البتہ بہت زیادہ آشنائی نہیں ہوئی تھی، میں نے انہیں دیکھا تھا اور پہچانتا تھا۔ میری ان سے دور کی آشنائی تھی۔ میں انہیں برسوں دور سے دیکھتا رہا۔ بعد میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اللہ تعالی ان کے درجات کو بلند کرے۔ آہی مرحوم حقیقت میں بڑے منظم، فریضہ شناس، ہمدرد اور خاص طور پر ذاکرین و شعراء کی برادری کے تعلق سے بہت ذمہ دار انسان تھے۔ ہر سال ہم یہاں ان کی زیارت کرتے تھے۔ اللہ کی رحمتیں نازل ہوں مرحوم پر۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور ہماری بھی بخشش کا سامان فراہم کرے!
تین باتیں میں عرض کروں گا۔ ایک بات آپ سے متعلق ہے۔ مدح سرائی اور ذکر اہل بیت کے بارے میں ہے جسے آپ نے مقدس پیشے کے طور پر اختیار کیا ہے۔ ایک دوسری بات ایٹمی مسئلے کے تعلق سے عرض کرنی ہے جو آج ہمارے ملک کا اہم مسئلہ بن گیا ہے۔ ایک بات یمن کے تعلق سے کہنی ہے۔ یہ تینوں موضوعات آج میں اجمالی طور پر آپ عزیزوں کے سامنے بلکہ ملت ایران کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا۔
جہاں تک پہلے موضوع کا تعلق ہے تو اہل بیت کا ذکر اور مدح سرائی واقعی بڑا باشرف فن ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ تاریخ میں ایسے افراد گزرے ہیں جو ظالموں کی، ستمگروں کی اور استبدادی قوتوں کی مدح کرتے تھے، تعریف و توصیف کرتے تھے۔ آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں۔ آج بھی دنیا میں ایسے افراد ہیں جو دنیا کے پست ترین انسانوں کی مدح و ثنا کرتے ہیں۔ یا قیمت حاصل کرے، یا گھٹیا اور پلید قیمت وصول کرکے ان کے قلم یہ کام انجام دیتے ہیں۔ مگر آپ اس کے بالکل برخلاف، اپنی زبان، اپنی سانسیں، اپنا گلا اور اپنی فنکارانہ صلاحیتیں فضیلتوں کو بیان کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ خاندان پیغمبر خاندان فضیلت ہے، سراپا فضیلت ہے۔ خورشید کی مدح سرائی کرنے والا خود اپنی ذات کا بھی مداح ہوتا ہے۔ آپ خاندان پیغمبر کی فضیلتوں کو بیان کرکے، در حقیقت خود اپنی مدح بھی کرتے ہیں اور اپنے اس فن کے شرف اور بلند مرتبے کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ چند سال قبل میں نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے متعلق اسی نشست میں صغیر اصفہانی مرحوم کے یہ اشعار پڑھے تھے:۔

در حدیث آمد که اندر لیلة‌ الاسراء پیمبر
اشترانی دید، من خود اشتری زان کاروانم
گر نداری باور و حجّت همی خواهی نظر کن
بر کتاب مدح او در دست من کاین هست بارم

اللہ کی رحمتیں نازل ہوں صغیر اصفہانی پر۔ تو گویا آپ کے ہاتھ میں توصیف فضیلت کی کتاب ہے۔ یہ بہت بڑا شرف ہے۔ کتنے خوش قسمت ہیں آپ۔ اس فن و ہنر کی قدر کیجئے۔ ان خصوصیات اور اس موقع سے استفادہ کیجئے۔ یہ تو رہا مدح سرائی کے تعلق سے پہلا نکتہ۔
دوسرا نکتہ؛ آج ملک کے اندر ذاکرین اور شعراء کے پاس بہت بڑا موقع ہے۔ آپ نشستوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ بڑے اجتماعات ہوتے ہیں۔ بسا اوقات ہزاروں افراد جن میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہوتی ہے آپ کی محفل و مجلس میں شرکت کرتے ہیں، آپ کی خطابت، آپ کا قصیدہ اور مرثیہ سنتے ہیں۔ اس سے بہتر کیا موقع ہو سکتا ہے؟ سامعین کی اتنی بڑی تعداد، سننے اور سیراب ہونے کے مشتاق یہ قلوب، تربیت کے جوہر سے آراستہ ہونے کے لئے آمادہ اتنے سارے افراد۔ یہ بہترین موقع ہے۔ اِغتَنِمُوا الفُرَص فَاِنَّها تَمُرُّ مَرَّ السَّحاب (مواقع کو غنیمت جانئے کیونکہ وہ بادلوں کی مانند تیزی سے گزر جاتے ہیں)۔ اس موقع کو غنیمت جانئے، اس موقع سے بنحو احسن استفادہ کیجئے۔
تیسرا نکتہ؛ اس موقع کا بہترین استعمال کیا ہو سکتا ہے؟ دینی معارف کی تبلیغ، انہیں چیزوں کی تبلیغ کہ ان عظیم ہستیوں نے، عظمت و فضیلت کے ان پیکروں نے جن کے لئے جان کی بازی لگائی، بے پناہ مصائب برداشت کئے، بے پناہ تکلیفیں اٹھائیں، عاشور کا سانحہ رونما ہوا، صدر اسلام کے اندوہناک واقعات رونما ہوئے۔ یہ سب کس لئے تھا؟ دینی معارف و تعلیمات کی تبلیغ کے لئے تھا۔ تو آپ اس موقع کو دینی معارف و تعلیمات کی تبلیغ و ترویج کے لئے، نوجوان نسل کو دین پر عمل پیرا ہونے کی ترغیب دلانے کے لئے، شریعت کی پابندی کے لئے، عصر حاضر کی بڑی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی ترغیب دلانے کے لئے استعمال کریں۔ آج ہمارے ملک کو، ہماری قوم کو، دنیائے اسلام کو درست طرز فکر کی ضرورت ہے، صحیح طرز عمل کی احتیاج ہے، استقامت و پائيداری کی ضرورت ہے۔ ملت ایران ایک نمونہ ہے۔ اس قوم کے درمیان نوجوان نسل گاڑی کو حرکت میں لانے والے 'انجن' کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ نوجوان آپ کے ہاتھ میں ہیں۔ یعنی اگر آپ غور کیجئے تو محسوس کریں گے کہ ایک طرح سے پوری دنیائے اسلام کو حرکت میں لانے والے انجن کی چابی آپ کے ہاتھ میں ہے۔ دینی حقائق و تعلیمات کی تبلیغ کیجئے۔
پاکیزہ بنے رہنے کے لئے، پاکیزہ زندگی گزارنے کے لئے، اسلامی طرز زندگی کے لئے، حقیقی معنی میں مسلمان بننے کے لئے، نیک عاقبت کے لئے عوام کی جو ضرورتیں ہیں، ان نوجوانوں کی جو ضرورت ہیں، ان سے انہیں آگاہ کیجئے۔ یہ لوگ آپ کے اختیار میں ہیں۔ طول تاریخ میں کب ایسا دور گزرا کہ اس کثرت سے مجالس و اجتماعات کا انعقاد ہو اور اس میں اتنی کثیر تعداد میں نوجوان جمع ہوں اور ان کے دل آپ کے اختیار میں ہوں۔ ہمارے زمانے میں، ہماری نوجوانی کے ایام میں مشہد مقدس میں اگر تمام ذاکرین اور شعراء کو شمار کیا جاتا تو کل تعداد پانچ چھے سے زیادہ نہیں تھی۔ تہران میں اس سے کچھ زیادہ رہے ہوں گے۔ مگر آج اتنی مجالس و اجتماعات، اتنے مقرر اور سخنور، فن و ہنر کا یہ عالم، اتنے خوش الحان افراد، شعراء بھی اپنی ذمہ داری پوری کر رہے ہیں، اشعار کہہ رہے ہیں۔ اس موقع کا بہترین انداز میں استعمال کیجئے۔ یہ رہا ایک اور اہم نکتہ۔
آخری نکتہ ہے انحراف سے پرہیز، غیر معتبر چیزیں بیان کرنے سے اجتناب، نوجوانوں کے عقائد میں پیچیدگیاں پیدا کرنے سے اجتناب۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم کوئی ایسی بات کہہ دیتے ہیں جس سے ہمارے نوجوان سامع کے ذہن میں ایک گرہ پیدا ہو جاتی ہے۔ اب اس گرہ کو کھولے کون؟ ہم اپنے ناقص بیان سے یا اپنے غلط بیان سے یا بے توجہی کی وجہ سے یا پھر غیر ذمہ دارانہ روش کی وجہ سے اس نوجوان کے ذہن میں یہ گرہ ڈال دیتے ہیں، اس کے عقیدے میں پیچیدگی پیدا کر دیتے ہیں، اب یہ گرہ کھلے گی کیسے؟ یہ بڑی اہم ذمہ داری ہے۔ حضرت سید الشہدا کی عظمت آپ کی شہادت کی وجہ سے ہے، آپ کی عظمت راہ خدا میں پیش کی جانے والی قربانیوں کی وجہ سے ہے، آپ کی عظمت ایثار و قربانی کی وجہ سے ہے؛ ہر چیز کی قربانی، تمام پسندیدہ چیزوں کی قربانی کی وجہ سے ہے۔ اب ہم سید الشہدا کی شان میں منعقدہ مجلس یا محفل کو اتنا ہلکا اور خفیف بنا دیں کہ چند نوجوان اپنے کپڑے اتار کر اچھلیں کودیں اور انہیں احساس بھی نہ ہو کہ کیا کہہ رہے ہیں تو کیا یہ مناسب ہے؟ یہی اس نعمت کا شکر ہے جو اللہ نے آپ کو عطا کی ہے؟ یہ اچھی آواز ایک نعمت ہے۔ محفل اور مجلس کو سنبھال لینے کی صلاحیت ایک نعمت ہے۔ یہ ایسی خصوصیات ہیں جو اللہ تعالی نے سب کو عطا نہیں کی ہیں، مگر آپ کو عنایت کی ہیں۔ آپ ان نعمتوں کا شکر ادا کیجئے۔ میں ذاکرین اور شعراء کی برادری کو تہہ دل سے چاہتا ہوں، آپ کے لئے دعا کرتا ہوں۔ خداوند عالم ان شاء اللہ آپ کی توفیقات میں اضافہ کرے، آپ کی مدد فرمائے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی عرض کر دوں کہ ایرانی معاشرے کے اندر اور علاقائی سطح پر دیکھا جائے تو ذاکرین اور شعراء سے ہماری بڑی توقعات وابستہ ہیں۔ میں حضرت صدیقہ طاہرہ، معصومہ، راضیہ، مرضیہ سلام اللہ و سلام جمیع انبیائہ و ملائکتہ و عبادہ الصالحین علیھا کی شان میں کچھ نہیں عرض کر سکتا۔ آپ نے اپنی گفتگو میں کچھ باتیں بیان کیں۔ میری زبان کچھ بھی عرض کرنے سے قاصر ہے۔ لہذا اس موضوع سے میں اسی طرح گزر جانا چاہتا ہوں۔
دوسرا موضوع ہے ایٹمی مسئلہ۔ بعض لوگوں نے سوال کیا اور اب بھی کر رہے ہیں کہ فلاں نے ایٹمی مسئلے کے بارے میں کسی موقف کا اظہار کیوں نہیں کیا؟ جواب یہ ہے کہ کسی موقف کے اظہار کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ ہمارے حکام نے، ایٹمی مسئلے سے متعلق ہمارے عہدیداروں نے اور متعلقہ امور انجام دینے والے افراد نے ہمیں بتایا ہے کہ ابھی کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ دونوں فریقوں کے درمیان کوئی بھی لازم الاجراء فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ تو پھر کیسا اظہار رائے؟ اگر مجھ سے کوئی پوچھے کہ آپ موافق ہیں یا مخالف تو میں کہوں گا کہ نہ مخالف ہوں نہ موافق۔ کیونکہ ابھی کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ ابھی کوئی کام پورا نہیں ہوا ہے۔ ساری مشکل انہیں تفصیلات اور جزوی امور کے تعلق سے ہے جن کے بارے میں طے پایا ہے کہ دونوں فریق بیٹھ کر بحث کریں گے۔ یہ بات خود عہدیداروں نے بھی کہی ہے۔ ہم سے بھی کہی ہے اور انٹرویو وغیرہ میں عوام کے سامنے بھی اعلان کیا ہے۔ ساری مشکل اس کے بعد والے دور میں ہے۔ عین ممکن ہے کہ ہمارا مد مقابل فریق جو ضدی، عہد شکن، معاملات میں بددیانتی کرنے والا، بہانے تراشنے والا، سودے بازی کرنے والا، پیچھے سے حملہ کرنے والا، اس طرح کی حرکتوں کا مرتکب ہونے والا اور سیاہ کارکاردگی والا فریق ہے، تفصیلات اور جزوی امور کے موقع پر ہمارے ملک کو، ہماری قوم کو اور ہمارے مذاکرات کاروں کو کسی دائرے میں محصور کرنے کی کوشش کرے۔ ابھی ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے، ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو لازم الاجراء ہو۔ یہ جو مبارک بادیں دی جا رہی ہیں۔ اس حقیر کو مبارکباد دیتے ہیں یا دوسروں کو مبارکباد پیش کرتے ہیں، یہ بے معنی ہے۔ کیسی مبارکباد؟! اب تک جو کچھ ہوا ہے اس سے نہ تو معاہدے اور معاہدے پر منتج ہونے والے مذاکرات کی گارنٹی ملتی ہے اور نہ ہی اس میں معاہدے کے مضمون اور مندرجات کی ضمانت ہے۔ کسی چیز کی ضمانت نہیں ہے۔ اس میں تو اس بات کی بھی ضمانت نہیں ہے کہ مذاکرات انجام تک پہنچیں گے اور ایک معاہدے پر پہنچ کر ختم ہوں گے۔ اب تک جو کچھ ہوا اس کی یہ حیثیت ہے۔ سب کچھ آئندہ پیش آنے والی چیزوں پر منحصر ہے۔
میں ایٹمی مسئلے کے تعلق سے چند نکات عرض کرنا چاہوں گا۔ یقینا میں کبھی بھی امریکا سے مذاکرات کے سلسلے میں پرامید نہیں رہا۔ اس کی وجہ کوئی توہم نہیں بلکہ تجربات ہیں۔ ہم نے تجربہ کیا ہے۔ ایک دن ایسا آئے گا جب بظاہر ہم نہیں ہوں گے، آپ لوگ ان شاء اللہ ان ایام کے دوران پیش آنے والے واقعات، ان کی تفصیلات اور تحریری نوٹس سے باخبر ہوں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہمیں یہ تجربہ کہاں سے حاصل ہوا۔ ہم نے تجربہ کیا ہے۔ لیکن میں پرامید نہیں تھا اس کے باوجود میں نے امریکا سے مذاکرات، اس خاص مسئلے میں امریکا سے گفتگو کی مخالفت نہیں کی۔ میں نے موافقت کی۔ میں نے مذاکرات کاروں کی بھرپور طریقے سے حمایت کی اور اب بھی حمایت کر رہا ہوں۔ وہ معاہدہ جو ملت ایران کے مفادات کو یقینی بنائے اور جس سے ملت ایران کے وقار کو تحفظ حاصل ہو، میں سو فیصدی اس کی حمایت کروں گا، اس کا خیر مقدم کروں گا۔ اس کو سب جان لیں! اگر کوئی کہتا ہے کہ ہم معاہدے کے یا کسی مشترکہ نقطے تک رسائی کے مخالف ہیں تو یہ درست نہیں ہے، یہ بات خلاف حقیقت اور سچائی کے خلاف ہے۔ اگر ایسا معاہدہ ہوتا ہے جو قوم کے مفادات کو، ملک کے مفادات کو تحفظ دے تو میں اس کی موافقت کروں گا۔ البتہ ہم نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ معاہدہ نہ کرنا، برا معاہدہ کرنے سے بہتر ہے۔ یہ بات امریکی بھی کہتے ہیں۔ یہ فارمولہ بالکل صحیح فارمولہ ہے۔ معاہدہ نہ کرنا اس معاہدے سے بہتر ہے جس میں قوم کے مفادات پامال ہوتے ہوں، قوم کا وقار مجروح ہوتا ہو، اتنی عظمتوں کی مالک ملت ایران کی تحقیر کی جائے۔ ایسے میں معاہدہ نہ کرنا شرف کی بات ہے۔ یہ تو رہی ایک بات۔ یہ پہلا نکتہ ہے۔
اگلا نکتہ یہ ہے کہ میں مذاکرات کی جزوی باتوں اور تفیصلات میں کوئی مداخلت نہیں کرتا اور آئندہ بھی نہیں کروں گا۔ میں نے بنیادی امور، اصلی خطوط، کلیدی دائرے اور ریڈ لائنوں سے ملک کے حکام کو ہمیشہ آگاہ کیا ہے۔ بنیادی طور پر صدر محترم کو جن کے ساتھ پابندی سے میری میٹنگ ہوتی رہتی ہے، اسی طرح کچھ مواقع پر محترم وزیر خارجہ کو بھی اصلی اور کلی خطوط سے باخبر کیا ہے۔ تفصیلات اور فروعی باتیں جن کا بنیادی خطوط کی حفاظت سے کوئی تعلق نہیں ہے، وہ میرے مد نظر نہیں ہیں۔ یہ چیزیں ان کے اختیار میں ہیں، وہ اپنے انداز سے کام کر سکتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ مذاکرات کی تمام تفصیلات اور تمام جزوی باتیں قائد انقلاب کی نگرانی میں ہیں تو یہ بات درست نہیں ہے۔ البتہ اس سلسلے میں مجھے ذمہ داری کا احساس ہے اور میں ہرگز لا تعلق نہیں ہوتا۔ کچھ کلی باتیں ہیں کہ جن میں بعض کا ابھی ذکر کروں گا۔ اس سے پہلے بھی عوام سے اپنے خطاب میں ان کا ذکر کر چکا ہوں اور حکام کو ان کے بارے میں زیادہ مفصل انداز میں بتا چکا ہوں۔
تیسرا نکتہ؛ جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ امور کی انجام دہی میں مصروف افراد پر مجھے پورا اعتماد ہے۔ اسے آپ ذہن میں رکھئے۔ یہ حضرات جو مصروف عمل ہیں، ایسے افراد ہیں کہ جن پر ہمیں پورا اعتماد ہے۔ ان کے بارے میں مجھے کسی طرح کا کوئی شبہ نہیں ہے اور ان شاء اللہ آئندہ بھی کسی طرح کے شک و تردد کی کوئی گنجائش پیدا نہیں ہوگی۔ ان کے بارے میں مجھے کسی طرح کا کوئی شک و تردد نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود مجھے سخت تشویش ہے۔ اس تشویش کی وجہ یہ ہے کہ مد مقابل فریق بہت بڑا دھوکے باز، دروغ گو اور عہد شکن ہے اور صحیح سمت کے برخلاف اقدام کرنے والا ہے۔ یہ کیفیت ہے مد مقابل فریق کی۔ اس کا ایک نمونہ اسی قضیئے میں نظر آ گیا۔ جب ہمارے مذاکرات کاروں کی گفتگو ختم ہو گئی تو اس کے چند گھنٹے بعد وائٹ ہاؤس سے مذاکرات کی تشریح میں ایک بیان جاری ہوا۔ یہ بیان جو انہوں نے جاری کیا اور جس کا نام رکھا فیکٹ شیٹ اس میں اکثر باتیں خلاف حقیقت ہیں۔ یعنی وہ مذاکرات کے بارے میں اور جن چیزوں پر اتفاق رائے ہوا ہے ان کے بارے میں جو تشریح پیش کر رہے ہیں وہ ایک غلط، خلاف حقیقت اور تحریف آمیز تشریح ہے۔ اس بیان کو میں نے دیکھا۔ چار پانچ صفحات کا ہے۔ یہ چار پانچ صفحات دو تین گھنٹے کے اندر تو تیار ہوئے نہیں۔ اسی دوران جب مذاکرات انجام پا رہے تھے، یہ بیان تیار کر لیا گیا تھا۔ آپ توجہ کیجئے کہ مد مقابل فریق اس طرح کا ہے۔ آپ سے بعض موضوعات کے بارے میں گفتگو کر رہا ہے کہ اتفاق رائے پیدا ہو، لیکن اسی دوران جب آپ سے بات کر رہا ہے، ایک ایسا بیان تیار کرتا ہے جو آپ کے اور اس کے درمیان ہونے والی گفتگو کے برخلاف ہے۔ پھر جیسے ہی مذاکرات ختم ہوتے ہیں، فورا وہ بیانیہ جاری کر دیتا ہے۔ اس طرح کا ہے مد مقابل فریق۔ یہ فریق عہد شکن اور دھوکے باز ہے۔ ایک بیان دیتے ہیں پھر چپکے سے کہتے ہیں کہ یہ بیان ظاہر داری کے لئے ہے۔ یہ بیان اس لئے ہے کہ ملک کے اندر مخالفین کے سامنے سبکی نہ ہو۔ اس لئے کچھ باتیں وہ لوگ لکھ دیتے ہیں۔ لیکن اس کا ہم سے کوئی ربط نہیں ہے۔ اگر ان باتوں کو بنیاد بنا کر کام کرنا ہے جو انہوں نے لکھی ہیں تو ہرگز اسے عمل کی بنیاد قرار نہیں دیا جا سکتا۔ البتہ وہ لوگ ہمارے بارے میں بھی اسی طرح کی بات کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ممکن ہے جب مذاکرات انجام پا جائیں تو قائد انقلاب کی طرف سے ظاہری طور پر مخالفت کا اظہار کیا جائے۔ 'کافر سب کو اپنا ہم مشرب سمجھتا ہے۔' ہم اپنے عوام سے جو بات کرتے ہیں وہ باہمی اعتماد کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ عوام کو اس کمزور حقیر پر اعتماد ہے اور مجھے اس قوم کی ایک ایک فرد پر بھروسہ ہے۔ قوم کے اجتماعی اقدام پر اعتماد ہے۔ میرا عقیدہ ہے کہ «یَدُ اللهِ مَعَ الجَماعَة». میرا ایمان ہے کہ دست الہی ہے جو کاموں کو انجام تک پہنچا رہا ہے۔ آپ 22 بہمن (مطابق گیارہ فروری اسلامی انقلاب کی سالگرہ کی تاریخ) کو دیکھئے۔ اس شدید سردی میں، اتنی سختیوں کے باوجود۔ اسی طرح یوم القدس کے موقع پر دیکھئے تو اس تپتی دھوپ میں روزے کے عالم میں کون ہے جو عوام کو سڑکوں پر لے آتا ہے؟ سڑکوں پر آکر انہیں کیا ملتا ہے؟ ہم دست قدرت الہی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ ہمیں عوام کے اس عمومی اقدام پر اعتماد ہے، عوام کے احساسات و جذبات پر اعتماد ہے، عوام کے اس صدق و بصیرت پر اعتماد ہے۔ ہم آپس میں گفت و شنید کا سلسلہ رکھتے ہیں۔ ہمارا مد مقابل فریق کسی اور انداز سے عمل کرتا ہے اور ہمیں بھی اپنے جیسا سمجھتا ہے۔ اس بنا پر اس حقیر کی تشویش قائم ہے۔ اب مجھے تشویش ہے کہ یہ لوگ کیا کرتے ہیں اور کام کیسے انجام پائے گا۔
اگلا نکتہ؛ کچھ لوگوں نے حمایت کی اور بعض نے مخالفت کی۔ ہمارے اخبارات و جرائد میں، ہمارے ملک کے پرنٹ میڈیا میں، ویب سائٹوں وغیرہ میں بعض نے ستائش کی اور بعض نے مخالفت کی۔ میرے خیال میں مبالغہ آرائی سے بچنا چاہئے اور عجلت پسندی سے بھی اجتناب کرنا چاہئے۔ ہمیں توجہ سے دیکھنا چاہئے کہ کیا ہوتا ہے؟ البتہ میں نے یہ بات خود عہدیداران سے بھی کہی ہے کہ وہ سامنے آکر عوام کو اور خاص طور پر اہم شخصیات کو تفصیلات اور جزوی باتوں سے باخبر کریں۔ ہمارے پاس اس میں کوئی رازداری کی بات نہیں ہے، چھپانے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ یہ طرز عمل عوام سے ہمدلی کا مصداق عینی بھی ہے۔ ہمدلی اور ہم زبانی جس کا ہم نے اعلان کیا ہے، وہ کوئی جبرا پیدا کی جانے والی چیز نہیں ہے۔ یہ حکم جاری کرکے انجام دیا جانے والا عمل نہیں ہے کہ کوئی فرمان جاری کر دے کہ عوام ہمدلی کا مظاہرہ کریں اور عوام جواب دیں کہ جیسا آپ کا حکم! اس طرح ہمدلی پیدا نہیں ہوتی۔ ہمدلی کا جذبہ ایک پھول کی مانند ہوتا ہے، پھول کے ایک پودے اور بیل کی مانند ہوتا ہے۔ اس پودے کو زمین میں لگانے کی ضرورت ہے۔ پھر اس کی نگہداشت کی جانی چاہئے، اس کی آبیاری کی جانی چاہئے، اسے نقصان پہنچانے سے اجتناب کیا جانا چاہئے۔ تاکہ ہمدلی کا یہ جذبہ پروان چڑھے۔ اس کے بغیر ہمدلی کا جذبہ پیدا نہیں ہو سکتا۔ ہمدلی تو ہم زبانی سے بھی بہتر چیز ہے، البتہ ہم زبانی بھی بہت اچھی چیز ہے۔

ای بسا هندو و ترک هم ‌زبان
ای بسا دو ترک چون بیگانگان
پس زبان محرمی خود دیگر است
همدلی از هم ‌زبانی بهتر است

ہمدلی ضروری ہے۔ ہمدلی پیدا کی جانی چاہئے۔ ہمدلی کو پروان چڑھانا چاہئے۔ سب سے یہ میری سفارش ہے۔ یہ ہمدلی کا جذبہ پیدا کرنے کا بہترین موقع ہے۔ کچھ لوگ مخالفت کر رہے ہیں، اعتراض کر رہے ہیں۔ تو کوئی بات نہیں ہے۔ ہمارے حکام تو صداقت پسند افراد ہیں، قومی مفادات سے گہری وابستگی رکھنے والے افراد ہیں۔ مخالفت کرنے والوں میں جو سرکردہ اور اہم شخصیات ہیں انہیں دعوت دی جائے۔ ان کی باتوں کو سنا جائے۔ بہت ممکن ہے کہ ان کی باتوں میں کوئي ایسا نکتہ مل جائے کہ جس کو ملحوظ رکھا جائے تو ان کا کام بہتر انداز میں آگے بڑھے۔ اگر کوئی خاص نکتہ نہیں ہے تو انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کی جائے۔ اسے کہا جائے گا ہمدلی۔ یہ ہے جذبات و احساسات میں یگانگت پیدا کرنے کی کامیاب کوشش، جس کے نتیجے میں افعال اور اعمال میں یگانگت پیدا ہوتی ہے۔ میرے خیال میں یہ لوگ ایک ساتھ بیٹھیں، بحث کریں، ایک دوسرے کی بات سنیں۔ اب ممکن ہے کہ کوئی یہ کہے کہ جناب تین مہینے سے زیادہ کا وقت نہیں بچا ہے۔ تو بات یہ ہے کہ اگر تین مہینہ بڑھ کا چار مہینہ ہو گیا تو آسمان تو زمین پر نہیں آ جائے گا۔ اس میں کیا حرج ہے؟ چنانچہ انہوں نے بھی ایک زمانے میں مذاکرات کو سات مہینہ ملتوی کر دیا تھا۔ کوئی بات نہیں ہے۔ اگر ہمدلی اور ہم زبانی پیدا کرنے کے لئے اور باہمی طور پر تبادلہ خیال میں کچھ وقت صرف ہو گیا تو کیا حرج ہے؟! اگر کچھ وقت صرف ہو گیا اور وہ آخری فیصلہ نہیں ہو پایا بلکہ فیصلے کچھ مدت کے لئے ملتوی ہو گئے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ یہ رہا ایک اور اہم نکتہ۔
اس کے بعد اگلا نکتہ یہ ہے کہ یہ مذاکرات جو اس وقت انجام پا رہے ہیں، جس کا ایک حصہ امریکیوں کے ساتھ گفت و شنید پر مشتمل ہے، صرف اور صرف ایٹمی مسائل تک محدود ہیں۔ ہم کسی بھی دوسرے مسئلے میں امریکا سے کوئی بات نہیں کریں گے۔ یہ بات سب جان لیں۔ نہ علاقے کے مسائل کے بارے میں، نہ گوناگوں داخلی موضوعات کے بارے میں، نہ عالمی مسائل کے بارے میں، اس مذاکرات اور گفتگو کا ایک ہی موضوع ہے ایٹمی مسائل۔ ہاں یہ ایک تجربہ ہو سکتا ہے۔ اگر مد مقابل فریق اپنی دائمی کجروی سے دست بردار ہو گیا تو یہ ہمارے لئے ایک تجربہ ہوگا کہ چلئے ٹھیک ہے کسی اور موضوع کے بارے میں بھی ان سے بات کی جا سکتی ہے۔ لیکن اگر ہم نے دیکھا کہ نہیں، جو کجروی ہمیشہ دیکھنے میں آتی تھی وہ اب بھی قائم ہے، اب بھی وہ غلط راستے پر ہی جا رہے ہیں تو ظاہر ہے کہ اس سے ہمارا ماضی کا تجربہ و نظریہ اور بھی مستحکم ہو جائے گا۔ ہمارا مد مقابل فریق ساری دنیا نہیں۔ اس نکتے پر توجہ دی جائے۔ کبھی کبھی بیانوں میں سننے کو ملتا ہے اور جس پر مجھے شکایت بھی رہی ہے کہ بعض احباب بھی کہہ دیتے ہیں عالمی برادری! عالمی برادری تو وہ لوگ کہتے ہیں۔ ہمارے مد مقابل عالمی برادری نہیں ہے۔ ہمارے مد مقابل ایک امریکا اور تین یورپی ممالک ہیں، بس۔ یہی لوگ ہیں جو اس مسئلے میں ملت ایران کے سامنے پنی ضد، عہد شکنی، کج روی اور خباثت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ان میں ایک امریکا ہے اور تین یورپی ممالک ہیں کوئی اور ہمارے مد مقابل نہیں ہے۔ ابھی دو ڈھائي سال پہلے شہر تہران میں ڈیڑھ سو سے زیادہ ممالک کے اعلی نمائندے آئے، تہران میں ناوابستہ تحریک کے اجلاس میں تقریبا پچاس ملکوں کے سربراہ جمع ہوئے تھے۔ دو تین سال پہلے کی بات ہے۔ یہ سو سال پہلے کا واقعہ نہیں ہے۔ ابھی حال ہی میں یہ اجلاس ہوا ہے۔ یہ ہے عالمی برادری۔ اب اگر ہم کہیں کہ بین الاقوامی برادری کو ہم پر اعتماد ہونا چاہئے تو سوال یہ ہے کہ عالمی برادری کہاں ہے؟! عالمی برادری کو تو ہمارے اوپر پورا اعتماد ہے۔ انہیں ملکوں میں بعض ایسے ہیں جہاں عوام اپنی حکومتوں کو پسند نہیں کرتے۔ یہ رہا ایک اور نکتہ۔
آخری نکتہ در حقیقت میری ایک گزارش سے عبارت ہے۔ میری یہ گزارش ہے محترم عہدیداران سے جس سے میں انھیں باخبر کر چکا ہوں اور اس پر میری تاکید ہے۔ ایک چیز تو یہ ہے کہ وہ ذہن نشین رکھیں کہ ایٹمی شعبے میں حاصل ہونے والی ہماری کامیابیاں بہت قیمتی ہیں۔ اسے اچھی طرح جان لیں۔ اسے معمولی اور کم اہمیت کی چیز نہ سمجھیں۔ یہ بہت قیمتی چیز ہے۔ ایٹمی صنعت کسی بھی ملک کے لئے ایک ضرورت کا درجہ رکھتی ہے۔ اب اگر کچھ روشن خیال نما افراد قلم اٹھائیں اور لکھنے لگیں کہ جناب! ایٹمی صنعت لیکر ہمیں کیا کرنا ہے؟! تو یہ ایک فریب ہے۔ یہ بالکل وہی بات ہوئی جو قاجاریہ دور حکومت میں کہی جاتی تھی۔ جب تیل کی دریافت عمل میں آئی اور انگریز آ گئے اور تیل لے جانے کی کوشش کرنے لگے تو بعض قاجاری عمائدین حکومت نے کہا کہ ہم اس بدبودار متعفن سیاہ مادے کو لیکر کیا کریں گے۔ ان کو لے جانے دیجئے! آج یہی بات دہرائی جا رہی ہے۔ ایٹمی صنعت ملک کی اہم ضرورت ہے۔ توانائی کے لئے بھی اس کی ضرورت ہے، نیوکلیئر دواؤں کے لئے بھی اس کی بڑی ضرورت ہے، سمندر کے پانی کو میٹھے پانی میں تبدیل کرنے کے لئے بھی اس کی ضرورت ہے، اسی طرح زرعی و غیر زرعی شعبوں میں گوناگوں امور کے لئے اس کی احتیاج ہے۔ دنیا میں آج ایٹمی صنعت ایک پیشرفتہ اور انتہائی اہم صنعت ہے۔ اسے ہمارے نوجوانوں نے اپنی محنت سے حاصل کیا ہے۔ یہ ہمارے بچوں کی اندرونی صلاحیتوں اور توانائیوں کے طلوع کا نتیجہ ہے۔ آج ایک پسماندہ ملک کہتا ہے کہ اگر ایران یورینیم کی افزودگی کرے گا تو ہم بھی یورینیم افزودہ کریں گے۔ ٹھیک ہے جاؤ تم بھی یورینیم افزودہ کرو! اگر آتا ہے تو تم بھی کر لو! ہم نے یورینیم افزودہ کرنا کسی اور سے نہیں سیکھا ہے۔ یہ ہماری اندرونی صلاحیتوں کے پروان چڑھنے کا ثمرہ ہے۔ اگر تمہارے یہاں تمہاری قوم کے اندر یہ صلاحیت ہے تو جاؤں افزودہ کر لو! بعض ممالک ہیں جو بالکل بچکانہ انداز میں بیان بازیاں کرتے ہیں۔ یورینیم کی افزودگی کی ٹیکنالوجی اور ایٹمی شعبے میں جو دوسری کامیابیاں تاحال ملی ہیں، یہ بڑے عظیم ثمرات ہیں۔ یہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ یہ اس میدان میں ہمارے ابتدائی کام ہیں۔ اس صنعت کے میدان میں ابھی اور کام کیا جانا باقی ہے، پیشرفت ہونی چاہئے، ترقی ہونی چاہئے۔ چند جرائم پیشہ ممالک کہ یا تو انہوں نے ایٹمی ہتھیار استعمال کیا ہے جیسے امریکا اور یا اس کا تجربہ کیا ہے جیسے فرانس۔ فرانس نے ابھی دس بارہ سال پہلے سمندر میں لگاتار تین ایٹمی تجربے کئے جو بہت تباہ کن اقدام تھا، اس سے بحری ماحولیات نابود ہوکر رہ جاتی ہیں، تین ایٹمی تجربات وہ بھی بے حد خطرناک۔ دنیا میں کچھ معمولی سی چہ میگوئیاں ہوئیں اور پھر سب خاموش ہو گئے۔ سب ختم ہو گیا۔ یہ لوگ ہمیں نصیحت کر رہے ہیں! ہم ایٹمی دھماکہ نہیں چاہتے، ایٹمی تجربات نہیں کرنا چاہتے، ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش ہم نہیں کر رہے ہیں، اس وجہ سے نہیں کہ وہ ہمیں ایسا نہ کرنے کی ہدایت دے رہے ہیں، بلکہ ہم خود اپنی وجہ سے، اپنے دین اور اپنے طرز فکر کی وجہ سے یہ سب نہیں کر رہے ہیں۔ ہمارا شرعی فتوی بھی یہی ہے اور ہمارا عقلی فتوی بھی یہی ہے۔ ہمارا عقلی فتوی یہ ہے کہ ہمیں نہ تو آج اور نہ ہی کل کبھی بھی ایٹمی ہتھیار کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے جیسے ممالک کے لئے ایٹمی ہتھیار ایک درد سر ہے۔ اس وقت میں اس کی تفصیلات میں نہیں جاؤں گا۔ بنابریں ایٹمی شعبے میں ملنے والی کامیابیاں بہت قیمتی ہیں، بہت اہم ہیں، اس صنعت کے میدان میں کام کرنا اور ملک کو صنعتی بنانا بہت ضروری اور لازمی ہے۔ اس پر توجہ دی جانی چاہئے۔
حکام سے ہمارا دوسرا مطالبہ یہ رہا ہے اور ہم نے حکام سے کہا ہے کہ مد مقابل فریق پر ہرگز اعتماد نہ کریں۔ بہت اچھی بات ہے کہ حال ہی میں ہمارے ایک عہدیدار نے صریحی طور پر کہا کہ مد مقابل فریق پر ہمیں کوئی اعتماد نہیں ہے۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ ہم نے کہا کہ مد مقابل فریق پر اعتماد نہ کیجئے، اس کی مسکراہٹوں پے نہ جائیے، کسی دھوکے میں نہ رہئے۔ جو دلکش وعدے کرتا ہے، البتہ دلکش وعدے دلکش عمل نہیں، اس پر اعتماد نہ کیجئے۔ جب اس کی غرض نکل جائے گی تو وہ مڑ کر آپ کا مذاق اڑائے گا۔ یہ لوگ اس قدر پست ہیں۔ اس وقت ایک اتفاق رائے ہے جو ایک مفاہمتی نوٹ یا اعلامیے کی صورت میں جاری کیا گیا ہے، ابھی کوئی کام انجام تک نہیں پہنچا ہے، دونوں فریق کہہ رہے ہیں کہ کوئی بھی چیز ابھی لازم الاجراء نہیں ہے، اسی مرحلے میں جب یہ ذرا سا پیش قدمی ہوئی ہے تو آپ نے دیکھا کہ امریکی صدر ٹیلی ویزن پر دکھائی دئے کس حربے کے ساتھ اور کس انداز میں؟!
اس کے علاوہ ہم نے حکام سے کہا اور عوام کے سامنے بھی عرض کروں گا کہ یہ چند مہینے جن کے دوران تفصیلات کے بارے میں مذاکرات انجام پانے والے ہیں، یہ مہینے بہت اہم ہیں، ان کے دوران یہ ہونا چاہئے کہ پابندیاں مکمل طور پر اور ایک ساتھ ختم ہوں۔ ان میں سے کوئی کہتا ہے کہ پابندیاں چھے مہینے میں ختم ہو جائیں گی، دوسرا کہتا ہے کہ نہیں، ممکن ہے ایک سال کا وقت لگ جائے، کوئی اور کہتا ہے کہ ایک سال سے بھی زیادہ کا وقت لگ سکتا ہے۔ یہ سب ان کی ہمیشہ کی چالیں ہیں۔ یہ باتیں ہرگز قابل اعتناء اور قابل قبول نہیں ہیں۔ اگر خداوند عالم کی مرضی یہ ہے اور معاہدہ ہوتا ہے تو پابندیاں معاہدے کے دن ہی مکمل طور پر ختم ہو جانی چاہئیں۔ یہ ضرور ہونا چاہئے۔ اگر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پابندیاں ایک خاص میکینزم کے تحت ہٹیں گي تو پھر ہم نے مذاکرات ہی کیوں کئے؟ پھر میز پر بیٹھنا، مذاکرات کرنا اور بحث کرنا سب کس لئے تھا؟ یہ سب اس لئے تھا کہ پابندیاں ہٹیں! اب اگر پابندیوں کی منسوخی کو کسی اور چیز سے مشروط کرنا ہے تو یہ قابل قبول نہیں ہے۔
اگلا نکتہ یہ ہے کہ میں نے محترم حکام کو متنبہ کیا ہے اور آپ کی خدمت میں بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہرگز یہ اجازت نہ دی جائے کہ نگرانی کے بہانے یہ لوگ ملک کے دفاعی اور سیکورٹی شعبے کے قریب جا سکیں۔ ہرگز نہیں۔ ملک کے فوجی حکام کو کسی بھی صورت میں یہ اجازت نہیں ہے کہ نگرانی کے نام پر یا تحقیقات کے نام پر یا اسی جیسے کسی اور بہانے سے اغیار کو ملک کی دفاعی اور سیکورٹی حدود کے قریب جانے کا موقع دیں یا ملک کے دفاعی شعبے کی پیشرفت و ترقی کے عمل کو روکیں۔ ملک کی دفاعی قوت میں اضافہ اور ملک کی دفاعی توانائی عسکری میدان میں ملت ایران کا محکم بازو ہے۔ یہ اسی طرح محکم اور طاقتور بنا رہنا چاہئے۔ اسی طرح مذاکرات میں مختلف خطوں میں مزاحمتی محاذ سے وابستہ برادران عزیز کی حمایت کے مسئلے میں کسی طرح کا کوئی خلل پڑنے کا موقع نہیں دینا چاہئے۔
ایک اور انتباہ یہ ہے کہ نگرانی کا کوئی بھی ایسا سسٹم جو غیر معمولی ہو اور نظارت کے اعتبار سے ایران کو بالکل الگ ملک بنا دے، ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔ یہی رائج نگرانی جو ساری دنیا میں عام طور پر انجام دی جاتی ہے وہی نگرانی ہونی چاہئے، اس سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔
اس موضوع سے متعلق آخری نکتہ یہ ہے کہ ایٹمی میدان میں مختلف پہلوؤں سے سائنسی اور فنی پیشرفت کا سلسلہ ہرگز رکنا نہیں چاہئے۔ ترقی کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے، ٹکنالوجی کی پیشرفت جاری رہنی چاہئے۔ اب ممکن ہے کہ ضرورت کے تحت اس میں کچھ محدودیتوں کو قبول کر لیا جائے، اس میں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ کچھ محدودیتیں قبول کر لیں مگر ٹکنالوجی کی ترقی حتمی طور پر جاری رہنی چاہئے اور یہ سلسلہ پوری قوت کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے۔ یہ ہمارے معروضات ہیں، اپنے برادران عزیز سے ہمارا یہی مطالبہ ہے۔ ہم نے نجی ملاقاتوں میں بھی یہ باتیں کہی ہیں۔ اس ڈیڑھ سال کے عرصے میں بنیادی طور پر صدر محترم سے اور شاذ و نادر کبھی کسی موقع پر مذاکرات کے ذمہ دار محترم وزیر خارجہ سے بھی ہم نے کہا ہے۔ یہ ہماری باتیں ہیں۔ اب ان مطالبات کو یہ حضرات مذاکرات کی کس روش کے ذریعے پورا کرتے ہیں، اس کا فیصلہ خود ان کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جائیں، بیٹھ کر غور کریں اور مذاکرات کی صحیح روش نکالیں، باخبر اور دیانت دار افراد سے مشورہ کریں، ناقدین کے نظریات کو بھی سنیں اور جو کچھ بھی ضروری ہے انجام دیں! یہ تو رہی ایٹمی مسئلے سے متعلق بات۔
اب یمن کا مسئلہ۔ سعودیوں نے اس علاقے میں بہت بری بدعت شروع کر دی ہے۔ البتہ ان سے غلطی ہوئی ہے، بہت بڑی بھول ہوئی ہے۔ آج سعودی حکومت یمن میں جو کام کر رہی ہے بعینہ وہی کارروائی ہے جو صیہونیوں نے غزہ میں کی تھی۔ اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک تو یہ کھلی جارحیت ہے، نسل کشی ہے، بین الاقوامی سطح پر قانونی چارہ جوئی کے قابل جرم ہے۔ بچوں کو مار رہے ہیں، گھروں کو مسمار کر رہے ہیں، بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر رہے ہیں، ایک ملک کی قومی ثروت کو نابود کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے، یہ بہت بڑی مجرمانہ کارروائی ہے۔ یہ تو قضیئے کا ایک پہلو ہے۔ اس قضیئے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس معاملے میں سعودیوں کو نقصان اٹھانا پڑے گا، خسارہ ہوگا۔ وہ ہرگز فتحیاب نہیں ہو پائیں گے۔ اس کی دلیل بالکل واضح ہے۔ دلیل یہ ہے کہ صیہونیوں کی عسکری توانائی ان سعودیوں کی فوجی طاقت سے کئی گنا زیادہ تھی۔ ان کے پاس ان سعودیوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ فوجی طاقت تھی۔ صیہونیوں کے سامنے بالشت بھر کا غزہ کا علاقہ تھا۔ یہاں سامنا ایک ملک سے ہے۔ کروڑوں کی آبادی والے ملک سے سامنا ہے۔ ایک پوری قوم، ایک وسیع و عریض ملک سے ہے۔ جب وہ غزہ میں فتح حاصل نہ کر پائے تو یہ بھی یہاں فتحیاب نہیں ہو سکیں گے۔ اگر صیہونی کامیاب بھی ہو جاتے تب بھی سعودیوں کی فتح کا امکان صفر فیصد کے برابر ہوتا جبکہ اس وقت ان کی فتح کا امکان صفر فیصد سے بھی کم ہے۔ یہ یقینا نقصان اٹھائیں گے۔ یقینی طور پر سعودیوں کی ناک زمین پر رگڑ دی جائے گی۔ مختلف سیاسی مسائل میں سعودیوں سے ہمارا اختلاف رائے ہے۔ لیکن ہم ہمیشہ یہ کہتے آئے ہیں کہ سعودی حکام اپنی خارجہ سیاست میں وقار اور متانت سے کام کرتے ہیں۔ اب یہ متانت بھی ان کے ہاتھ سے نکل گئی ہے۔ چند ناتجربہ کار نوجوانوں نے اس ملک کے امور کی باگڈور تھام لی ہے اور متانت و ظاہر داری کی جگہ وحشی پنے کا غلبہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ چیز ان کے لئے ضرر رساں ثابت ہوگی۔ میں سعودیوں کو خبردار کرتا ہوں؛ وہ فورا یمن میں اپنی یہ مجرمانہ کارروائی بند کریں، اس علاقے میں یہ روش قابل برداشت نہیں ہے۔
امریکا بھی ان کا دفاع کر رہا ہے، ان کی حمایت کر رہا ہے۔ یہ امریکا کی فطرت ہے۔ وہ ہر معاملے میں مظلوم کا ساتھ دینے کے بجائے ظالم کی طرفداری کرتا ہے، اس کریہ المنظر چہرے کی حمایت کرتا ہے۔ یہ اس کا مزاج ہے۔ اس مسئلے میں بھی وہ اسی پرانی روش پر عمل پیرا ہے۔ لیکن ان پر ضرب پڑے گی، انہیں شکست ہوگی۔ اب وہ ہنگامہ آرائی کریں گے کہ ایران یمن کے امور میں مداخلت کر رہا ہے۔ اچھا! تو یہ مداخلت ہے۔ ہم یہاں بیٹھ کر یہ جو دو باتیں کہہ دیتے ہیں یہ مداخلت ہو جاتی ہے اور اگر ان کے 'مجرم طیارے' یمن کے آسمان میں بدامنی پھیلاتے ہیں تو وہ مداخلت نہیں ہے! وہ اپنی اس مداخلت کے لئے ایسے ابلہانہ بہانے تلاش کرتے ہیں۔ یہ بہانے نہ تو بین الاقوامی اصولوں کے اعتبار سے قابل ہضم ہیں، نہ ہی قومیں اسے قبول کریں گی اور نہ ہی یہ اللہ کی نگاہ میں قابل قبول ہے۔ ان کے لئے لازم ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے ان جرائم کا سلسلہ بند کریں۔ یمنی قوم بہت عظیم قوم ہے، طویل اور پرانی تاریخ کی مالک قوم ہے، ہزاروں سال پر محیط اس کا ماضی ہے۔ اس قوم کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے، یہ توانائی پائی جاتی ہے کہ خود بیٹھ کر اپنی حکومت کا تعین کرے۔ البتہ کچھ لوگ یہ کوشش کر رہے ہیں کہ اقتدار کا خلا پیدا ہو جائے، ہنگامہ کھڑا ہو جائے، وہی بحران جو لیبیا میں پیدا ہوا ہے جس کے نتیجے میں لیبیا میں حد درجہ بری اور اندوہناک صورت حال پیدا ہو گئی ہے، وہی سب یمن میں بھی رونما ہو۔ لیکن خوش قسمتی کی بات ہے کہ وہ اپنے مقصد میں ناکام ہو گئے۔ مومن نوجوانوں نے، ملک سے ہمدردی رکھنے والے نوجوانوں نے، امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام کے راستے پر چلے والے ان افراد نے جن میں شیعہ، سنی، شافعی، زیدی اور حنفی سب شامل ہیں، استقامت کا مظاہرہ کیا اور دشمن کی یلغار کا سامنا کیا اور ان شاء اللہ وہ فتحیاب ہوں گے۔ فتح و کامرانی قوموں کا مقدر ہے۔
پالنے والے! ہمارے بھائیوں کو دنیا میں وہ جہاں کہیں بھی ہیں، کامیاب فرما۔ پروردگارا! دشمنان اسلام کو اور مسلم اقوام کے بدخواہوں کو دنیا میں ہر جگہ نگوں بخت اور نامراد رکھ۔ پروردگارا! ہمیں ہمارے فرائض سے آگاہ کر، اپنے فرائض پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما۔ ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی روح مطہرہ کو ان کے اولیاء کے ساتھ محشور فرما۔ شہدا کی پاکیزہ ارواح کو صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کی روح مطہرہ کے ساتھ محشور فرما۔

و السّلام علیکم و رحمة‌ الله و برکاته