نئے سال کی آمد اور عید نوروز کی مناسبت سے، ایک بار پھر ایران کی پوری قوم، خاص طور پر اس مبارک و ملکوتی بارگاہ میں موجود آپ برادران عزیز خواہ وہ مخلص و پرجوش مشہدی عوام ہوں یا مختلف شہروں سے تشریف لانے والے زائر ہوں کہ جنہوں نے اس صحن اور امام رضا علیہ السلام کے روضے کے دیگر صحنوں کو اپنے با ایمان وجود سے معمور کر دیا ہے ان سب کی خدمت میں مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
بہت جلد، اگلے ایک دو ہفتے کے دوران، دو بڑی اسلامی عیدوں کی آمد ہے، عید الاضحی اور عید غدیر۔ میں ابھی سے ان دونوں عظیم اسلامی عیدوں پر آپ لوگوں کو اور دنیا کے تمام مسلمانوں کی خدمت میں پیشگی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میری نصیحت ہے کہ آپ سب، ذي الحجہ کے پہلے مبارک عشرے اور خاص طور پر یوم عرفہ کی قدر کریں؛ خاص طور سے وہ لوگ جنہيں یوم عرفہ کے مبارک موقع پر اس مقدس مقام پر باریابی کی توفیق حاصل ہو۔
اس طرح کے بڑے مواقع در اصل رحمن و رحیم و عزيز و حکیم خدا کے ساتھ اپنے قلبی و روحانی رابطے کو مزید مضبوط کرنے کے سنہری مواقع ہیں کیونکہ انسان کی تمام توانائیوں اور کانئات کے ہر ذرے کی ہر صلاحیت کا منبع اور محرک رضائے خدا اور مرضی پروردگار ہے۔ ہم اس معنوی رشتے کے ذریعے خود کو طاقت و عزت و حکمت کے اس عظیم مرکز سے جتنا زیادہ جوڑ سکیں ہمیں اتنا ہی زیادہ فائدہ ہوگا۔ میں نئے ہجری شمسی سال کے آغاز کے موقع پر سب سے پہلے تو عید نوروز کے سلسلے میں ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں اور پھر اس چیز کے بارے میں گفتگو کروں گا جسے ایک عظیم اور پیش پیش رہنے والی قوم ہونے کے ناطے ہمارا فرض کہا جاتا ہے۔
عید نوروز کے بارے میں، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ عید نوروز پر اسلام نے خاص توجہ دی ہے۔ حالانکہ یہ عید اور یہ دن اسلام سے قبل بھی منایا جاتا رہا ہے، لیکن اس دن کے سلسلے میں اسلام کا موقف تعمیری اور حکمت آمیز رہا ہے۔ دنیا کی کچھ معروف پروپیگنڈہ کمپنیاں کہ جو ہمارے اسلامی و جمہوری ملک اور قوم کی ہر چیز کی مخالفت کرتی ہيں، مخاصمت کرتی ہيں اور الزام تراشی کرتی ہيں، اس معاملے میں بھی ایرانی قوم کے ساتھ زیادتی کر رہی ہیں۔ یہ مشینریاں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہیں کہ اسلام اور انقلاب عید نوروز اور ایرانی روایتوں کے خلاف ہے لیکن یہ صحیح نہيں ہے۔
میں چاہتا ہوں کہ پیارے نوجوان خاص طور پر اعلی تعلیم یافتہ نوجوان، اس بات پر خاص توجہ دیں کہ اسلام دیگر ملکوں یا قوموں یا پھر اپنے سے قبل کے زمانے سے چلی آ رہی روایتوں کے سلسلے میں حکمت، باریک بینی و وسعت نظری کے ساتھ موقف اختیار کرتا ہے۔ جس چیز میں بھی بہتر ہونے کی گنجائش ہوتی ہے اسلام اسے قبول کر لیتا ہے اور اسے صحیح سمت و معانی عطا کرتا ہے اور لوگوں میں اسے عام کر دیتا ہے۔ مثال کے طور پر حج کے بہت سے مناسک جیسے طواف، سعی اور قربانی کرنا یہ سب اسلام سے قبل رائج روایتیں ہیں۔ اسلام نے ان روایتوں کو اپنایا، ان میں سے شرک آمیز، مادیاتی اور غلط پہلوؤں کو ہٹایا اور اسے توحیدی رنگ عطا کیا، ان روایتوں کو گہرائي سے سمجھا اور ایک سبق کی طرح لوگوں میں پھر رائج کر دیا۔ یہ بہت حیرت انگیز اور اہم کارنامہ ہے۔ عید نوروز اور قدیم روایتوں کے سلسلے میں بھی یہی ہوا ہے۔ اسلام نے عید نوروز کو تسلیم کیا۔ اسے انسانی، اسلامی اور روحانی معانی عطا کئے اور لوگوں میں دوبارہ رائج کیا۔ نئے سال کی آمد کے لمحے ميں آپ اسلام کے حکم سے، خدا سے رابطہ قائم کرتے ہيں اور کہتے ہيں: «یا مقلّب القلوب و الابصار. یا مدبر الّلیل والنهار. یا محوّل الحول و الاحوال»؛ اے وہ کہ جو دلوں اور آنکھوں کو بدلتا ہے۔ اے وہ جو رات و دن کو بدلتا ہے اے وہ جو حالات اور احوال کو بدلتا ہے، ہماری حالت بھی بہترین حالت بنا دے «حوّل حالنا الی احسن الحال»۔
دیکھئے! نوروز اور سال کی تبدیلی مطلب نئے سال کا آنا اور پرانے سال کا جانا، روحانی پہلوؤں کا حامل ہو گیا۔ اسلام لوگوں سے کہتا ہے کہ «اغتسل و البس و انظف ثیابک» غسل کریں، صاف ستھرے رہیں اور کپڑے صاف ستھرے پہنیں۔ یہاں نئے کپڑوں کی بات نہيں ہے، ایک دوسرے سے ملنے جائيں؛ صلہ رحم کریں؛ خوش وخرم رہيں، اپنے جذبہ امید کو قوی رکھیں اور پیڑ پودوں کی بہار کے ساتھ ہی اپنے دل میں بھی بہار لائيں۔
عید نوروز کے سلسلے میں اسلام کا موقف یہ ہے۔ اسی لئے ہم ایرانی، نوروز کو پسند کرتے ہيں اور اس موقع پر جشن مناتے ہیں۔ لیکن ہمارا جشن، صاف ستھرا ہوتا ہے۔ اسلام تمام قدیمی روایتوں کے سلسلے میں یہی رویہ اپناتا ہے۔ ویسے کچھ ایسی روایتیں بھی ہوتی ہيں جن میں اصلاح ممکن نہيں ہوتی۔ جیسے اسلام آگ پر سے کودنے جیسی خرافات پر خاموش ہے اور اس کی تصدیق نہيں کرتا؛ لیکن اس کی نظر میں اس بات میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے کہ مثال کے طور پر عید کے وقت کسی موقع پر لوگ، کھلے میدان میں جائيں، ہرے بھرے میدانوں اور صحراؤں میں جائيں، فطرت سے قریب ہوں اور صاف ستھری تفریح سے محظوظ ہوں۔
یہ چیز جہالت آمیز طریق کار سے مختلف ہے۔ جہالت آمیز طریقہ کار میں اگر عوام کوئي فائدہ مند روایت بھی جاری رکھتے ہيں تو اسے بے معنی بنا دیا جاتا ہے۔ اس لئے آپ دیکھتے ہیں کہ غیر ملکی ریڈیو نشریات کے پروپگنڈوں میں، تحویل سال کے موقع کے بارے میں زيادہ بات نہيں کی جاتی؛ لیکن ہجری شمسی سال کے آخری بدھ کے سلسلے میں، کئ دنوں قبل سے ہی تقریبا تمام غیر ملکی ریڈیو نشریات نے اس سلسلے میں گفتگو کی!
یہ اسلامی نقطہ نظر کے بر عکس ہے! یقینا وزارت داخلہ کے کچھ عہدیداروں نے غلطی کی اور در اصل غیر ملکی ریڈیو نشریات کے پروپیگنڈوں کی تصدیق کر دی! لیکن وزارت داخلہ کے مخلص عہدیداروں اور محترم وزير داخلہ نے جو الحمد للہ خود عالم دین اور سید ہیں، فورا غلطی کا تدارک کیا۔ آپ غور کیجئے کہ تحویل سال کے موقع پر لوگ کہاں جمع ہوتے ہيں! کل امام رضا علیہ السلام کے روضے کے اطراف میں آدھی رات تک، تل رکھنے کی بھی جگہ نہیں تھی! شیخ بہائي کی قبر تک اور ہر جگہ لوگ عبادت کے لئے زمین پر بیٹھے تھے! مطلب یہ ہے کہ وہ عید نوروز، روحانی جذبے کے ساتھ منا رہے تھے۔ یا کل رات، آدھی رات کو، ہزاروں عقیدت مند اپنا گھر باراور اہل خانہ اور اپنی نیند چھوڑ کر امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے مزار پر گئے۔ یہ ہے معنوی پہلو۔ ہاں اب کوئي ایسا بھی ہوتا ہے جو غلطی اور نادانی کی وجہ سے، امام رضا علیہ السلام کے روضے، امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے مزار، حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کے روضے اور روحانی تقریبات کے بجائے تخت جمشید میں جاتا ہے! یقینا تخت جمشید، معماری کا شاہکار ہے۔ ہر آدمی، معماری کے شاہکار کی تعریف کرتا ہے اور چونکہ یہ ہمارا اور ایرانیوں کا ہے اس لئے وہ اس پر فخر بھی کرتا ہے؛ لیکن یہ صورت حال اس صورت سے مختلف ہے کہ ہم لوگوں کے دل و دماغ کو، ایسی سمت میں موڑیں جہاں روحانیت و معنویت کا نام و نشان نہ ہو بلکہ شیطنت اور جبر کی علامت ہو! انہی عمارتوں میں جو آج، ایک دو ہزار برس بعد ویران ہو چکی ہيں، کسی زمانے میں، اسی عید نوروز کے موقع پر، خدا جانے کتنے بے گناہوں کو جابر و ظالم بادشاہوں کے تخت کے سامنے قتل کر دیا جاتا تھا اور کتنی آرزوئيں خاک ہو جاتی تھیں! اس میں کوئي فخر نہيں۔
عید نوروز اچھی ہے، جشن کا انعقاد، خوشی منانا اور خوش رہنا اچھی بات ہے؛ لیکن صحیح طریقے سے۔ اسلام نے یہی کیا ہے۔ ہم بھی اللہ کے کرم سے، اسلام کی پیروی کرتے ہوئے اسی روایت کو جاری رکھتے ہیں۔ عوام کی بھی یہی مرضی ہے اور لوگوں کے دل و دماغ میں بھی یہی خواہش رچی بسی ہے۔ عوام کو ان چیزوں میں کوئي دلچسپی نہيں ہے جن میں صرف مادی پہلو ہوں اور اگر مادی پہلو کے ساتھ ساتھ گمراہی کی بھی آمیزش ہو تو عوام ان چیزوں سے کراہیت بھی محسوس کرتے ہيں۔
اور اب ملکی مسائل کے بارے میں ایک بات میں آپ لوگوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ملکی و عالمی حالات اور ایرانی قوم کو در پیش مختلف مسائل کے نشیب و فراز سے آگاہ ہونے کی ناطے میں اگر ایرانی قوم کی موجودہ ضرورت کو ایک لفظ میں بیان کرنا چاہوں تو یہ کہوں گا کہ وہ ضرورت، اتحاد اور قوم کے فرد فرد کے درمیان ایک دوسرے سے الفت و ہمدردی ہے۔ جب ملک میں خلوص و الفت کا ماحول ہوگا اور لوگ ایک دوسرے کو بھائيوں کی نظر سے دیکھیں گے، ویسے بھائي ہونے کا یہ مطلب نہيں ہے کہ مختلف امور میں ایک جیسے خیالات کے حامل ہوں بلکہ دو حقیقی بھائي بھی بہت سے مسائل میں مختلف نظریات کے حامل ہو سکتے ہيں۔ لیکن بھائي بھائي ہوتے ہيں، ان کے درمیان رشتہ اخوت، الفت اور محبت بدستور قائم رہتا ہے، تو ان حالات میں حکومت کو جو اسی قوم کا انتخاب ہوتی ہے، یہ موقع ملے گا کہ وہ اپنے اوپر عائد اہم ترین ذمہ داری کو پوری دلجمعی کے ساتھ انجام دے اور ملکی مسائل کا تصفیہ کرے۔ کیونکہ یہ حکومت کا فرض ہے اور حکومت کو اپنی ذمہ داریوں پر، پرسکون ماحول میں بغیر کسی کشیدگی اور تشویش کے عمل در آمد کے لئے، کشیدگی سے دور، پر سکون اور شفاف سماجی ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔
آج حکومت کی ایک بڑی ذمہ داری کیا ہے؟ آج حکومت کی بڑی ذمہ داری، عوامی زندگی کے روز مرہ کے مسائل کو حل کرنا ہے؛ چاہے وہ معاشی مسائل ہوں، جنھیں ترجیح حاصل ہے اور چاہے دیگر مسائل، یہ سب عوامی مسائل ہيں۔ سرکاری عہدے دار ہونے کی وجہ سے ہماری ذمہ داری، عوام کی خدمت کرنا ہے۔ ملکی حکام کو، عوام کے مسائل حل کرنے کے لئے عہدہ دیا گيا ہے۔ وہ اپنی ذمہ داری پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟ جب ملک کا ماحول سازگار ہو، کشیدگی نہ ہو، ہنگامے نہ ہوں اور لوگ ایک دوسرے سے دست بگریباں نہ ہوں۔ جب اتحاد ہوگا تو حکام کی جانب سے خدمات کے لئے ماحول بھی سازگار ہوگا۔ میرے عزیزو! میں اس بارے میں ذرا وضاحت سے بات کرتا ہوں۔ اسلامی جمہوریہ ایران ایک انقلابی نظام اور ایک اسلامی نظام کا مالک ہونے کی وجہ سے الگ الگ دشمن رکھتا ہے؛ مطلب یہ ہے کہ انقلاب کے اپنے دشمن ہیں، اسلام کے اپنے الگ دشمن ہیں اور کچھ لوگ انقلاب کے بھی دشمن ہیں اور اسلام کے بھی! خاص اور حساس جغرافیائي محل وقوع کی وجہ سے بھی ایران کے اپنے الگ دشمن ہيں؛ خاص طور پر سوویت یونین کی سلطنت کا شیرازہ بکھرنے اور ہمارے قرب و جوار میں اسلامی ملکوں کے وجود میں آنے کے بعد سے۔ کیونکہ ان ملکوں تک رسائی کا واحد راستہ ایران ہے۔ ان ملکوں میں سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھنے والے بہت سے سرمایہ کار اور بہت سی سامراجی حکومتیں جو ان ملکوں میں سرمایہ لے جاکر اپنے اہداف کی تکمیل چاہتی ہیں، یہ سوچتی ہیں کہ اگر ایران ہمارے قبضے میں ہوتا، اگر اس ملک میں ہمارا اثر و رسوخ ہوتا، جیسے انقلاب سے قبل امریکہ کا تھا، تو ہم کیا نہيں کر لیتے؟! لیکن موجودہ حالات میں ان کا کوئی اثر نہيں ہے تو فطری بات ہے کہ وہ ایران سے مخاصمت رکھیں گی! تو اس طرح سے ایرانی قوم اور یہ ملک، اپنی جغرافیائي پوزیشن کی وجہ سے بھی کچھ لوگوں کی مخاصمت کے نشانے پر ہے۔ ایرانی قوم اور اس ملک کے کچھ دشمن ہیں اس کی تاریخ کی وجہ سے۔ ایران نے عالمی سطح پر اپنے جن سیاسی و معاشی اہداف کا تعین کیا ہے اس کی وجہ سے بھی اس کے دشمن ہیں! البتہ یہ صورت حال ہم ہی سے مختص نہيں ہے، بلکہ بہت سے دیگر ملکوں کے بھی اسی طرح کے دشمن ہیں۔
تو ہمارے دشمن ہیں؛ ہمارے دشمن کیا کرتے ہیں؟ یہ وہ امور ہیں جن کے بارے میں میرا خیال ہے کہ ہماری نوجوان نسل کو ان پر خوب غور کرنا چاہئے۔ یہ جو میں نوجوان نسل کی بات کرتا ہوں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔ ہماری نوجوان نسل ان امور کی جانب سے غفلت نہیں برت سکتی، اپنی آنکھیں نہيں بند رکھ سکتی اور ہر ایک کی باتوں پر کان نہيں دھر سکتی۔ جی نہیں، ان سب چیزوں پر اسے غور کرنا چاہئے، یہ بڑی ذمہ داری ہے۔ یہ دشمن کیا کرتے ہیں؟ ان دشمنوں کا مقصد، اسلامی جمہوریہ ایران میں اثر و رسوخ پیدا کرنا ہے، جیسا کہ ہمارے کئی پڑوسی ملکوں میں ان کا اثر و رسوخ ہے، ایک حکومت کو ہٹاتے ہیں، دوسری کا تختہ الٹ دیتے ہیں، کسی حکومت کو کسی سیاسی معاہدے پر تو کسی کو کسی معاشی معاہدے پر مجبور کرتے ہيں اور ان کے ملکوں میں فوجی چھاونیاں بناتے ہيں! وہاں خوب سازو سامان اکٹھا کرتے ہيں اور وہاں کے منابع و ذرائع کو اپنے اہداف کی تکمیل کے لئے استعمال کرتے ہيں۔ بہت سے ملکوں میں یہی صورت حال ہے! تو ان حالات میں، اتنے وسیع قدرتی ذخائر کے ساتھ، ساٹھ ملین آبادی اور اتنے بڑے رقبے کے ساتھ ایران جیسے مالدار ملک میں اثر و رسوخ پیدا نہ کر پانے کی وجہ سے بہت سی بڑی عالمی کمپنیاں اور بڑی سیاسی و معاشی سامراجی طاقتیں، چراغ پا ہيں۔ بنابریں ان کا پہلا ہدف کیا ہے؟ ایران میں اثر و رسوخ پیدا کرنا! اس کے لئے وہ کیا کرتے ہيں؟ ان کے منصوبے وہی ہيں جنہيں آپ خود ان کے یا پھر ان کے ایجنٹوں کے ذریعے کئے جانے والے پروپیگنڈوں پر غور کرکے سمجھ سکتے ہيں۔ آج ان کے تشہیراتی پروپگنڈے ایران کے اندر تیار کئے جاتے ہيں بس خوش قسمتی ہے کہ حکومت مستحکم اور قوم با ایمان ہے، اسی لئے دشمنوں کو اب تک اپنے مقاصد میں کامیابی نہيں مل پائي ہے، لیکن بیدار رہنے کی ضرورت ہے۔
دشمنوں کے منصوبوں کے اہم عناصر کیا ہیں؟ سب سے پہلے تو جہاں تک ممکن ہو، جتنی ان کی طاقت ہو اور جتنا ان کے بس میں ہو، ایران میں معاشی مسائل پیدا کریں اور اسے بڑھا چڑھا کر پیش کریں؛ معاشی پابندیاں لگائيں اور مختلف کمپنیوں کے لئے سزا کا تعین کریں۔ یہی جو آپ سنتے رہتے ہيں؛ کسی ملک کی طرف سے بچھائي جانے والی پائپ لائن کے کام کو روک دیتے ہيں، ملکی تجارت میں خلل ڈالتے ہيں، جیسے دو برس قبل پوری دنیا میں یہ افواہ پھیلا دی گئ کہ ایران کے پستے سے کینسر ہوتا ہے۔ غیر پیٹرولیم اشیاء کے شعبے میں بھی جیسے بھی ان سے ہوتا ہے بازار میں سامان بھر دیتے ہيں، مختلف حکومتوں اور کمپنیوں سے سازباز کرتے ہيں، خلاصے کے طور پر یہ کہ ملک کو اقتصادی مسائل میں پھنسانا چاہتے ہيں۔ ان سب کے ساتھ اپنے پروپیگنڈوں میں، ملک کے معاشی مسائل کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ یقینا معاشی مسائل ہیں، لیکن ہماری حکومت بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہيں بیٹھی ہے، وہ سفارتی اورتجارتی شعبوں میں سرگرم ہے۔ وزارت خارجہ، وزارت صنعت، وزارت نقل و حمل اور وزارت پیٹرولیم، ہر ایک اپنی اپنی جگہ پر مصروف ہے، ہمیشہ سرگرم رہتی ہے۔ اتنی بڑی دنیا ہے دشمن بھی مصروف ہيں، ہمارے ہاتھ پیر بھی بندھے نہیں ہیں! ہم بھی کام کرتے ہیں اور ہمارے اقدامات بہت سے مواقع پر کامیاب بھی ہوتے ہيں؛ لیکن اغیار کے پروپیگنڈوں میں، ہمارے حکام کی ان سرگرمیوں پر خاموشی ہی رہتی ہے؛ یہ دشمن ہمیشہ اپنے پروپیگنڈوں میں مسائل کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہيں اور جھوٹے دعوے کرکے کہتے ہیں کہ ایران ایسا ہے، ایران ویسا ہے، افراط زر کی شرح اتنی بڑھ گئ ہے۔ حکومت دیوالیہ ہو چکی ہے وغیرہ وغیرہ ...! وہ عوام کے حوصلے کو پست کرنا چاہتے ہیں اور عوام کو اس مرحلے پر پہنچانا چاہتے ہيں جہاں لوگ یہ سوچنے لگیں، ہائے اب کیا ہوگا؟! جبکہ اگر عوام کو علم ہو کہ حکومت اور ان کے حکام کیا کر رہے ہيں تو ان کا حوصلہ بڑھے گا اور ان کے دلوں میں امید کی کرن پیدا ہوگی۔ یہ جو امام خمینی رحمت اللہ علیہ بارہا حکام سے کہا کرتے تھے اور ہم نے بھی بارہا تاکید کی ہے کہ حکام جو کام کرتے ہيں ان سے عوام کو آگاہ کریں، تاکہ عوام کو علم ہو کہ آپ کتنا کام کرتے ہيں، اس کی وجہ یہی ہے۔ تو معاشی امور میں مسائل کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا، سازش کا ایک حصہ ہے! دوسری طرف یہ دشمن، مختلف بہانوں سے، یہ کوشش کرتے ہيں کہ ملک کے سیاسی ماحول میں کشیدگی پیدا ہو، تاکہ خود اس سے بھی عوام میں عدم تحفظ اور بد نظمی کا احساس پیدا ہو۔ یہ دشمن ہر بہانے سے، سیکوریٹی امورکے بہانے، کسی شخص کے خلاف مقدمے یا پھر دو چار لوگوں کی ہلاکت کے بہانے سے، کہ جن کے بارے میں حکومت پوری سنجیدگی کے ساتھ اقدامات کر رہی ہوتی ہے، ماحول میں کشیدگی پیدا کرنا اور ہنگامہ آرائی شروع کر دیتے ہيں! ظاہر سی بات ہے؛ جب ہنگامہ ہوتا ہے تو عوام کا ایک حصہ، ایک طرف ہوتا ہے اور ایک حصہ دوسری طرف اور اس طرح سے عوام کے درمیان اختلافات پیدا ہو جاتے ہیں۔ دشمن بھی یہی چاہتے ہيں!
اس سازش کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ دشمن، عوام کے سامنے یہ بھی ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہيں کہ اعلی ملکی حکام کے درمیان، اختلافات ہيں! اب یہ حکام بے چارے جتنا بھی عوام سے کہیں کہ آپس میں ہمارے بڑے اچھے تعلقات ہیں، ہم ساتھ کام کرتے ہیں اور ہمیشہ ایک دوسری کی تعریف اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہيں، اس کا کوئي فائدہ نہیں ہوتا! وہ اپنی ہی بات کہے جاتے ہیں۔ یہ ظاہر کرتے ہيں کہ فلاں شخص، جو فلاں عہدے پر ہے، اس طرح سے سوچتا ہے اور فلاں شخص جو فلاں عہدے پر ہے اس کے بر خلاف سوچتا ہے! ہر ایک کے لئے ایک عنوان کا انتخاب کر لیتے ہیں! یہ سب دشمنوں کے اقدامات ہیں۔ اب آپ یہ نہ کہیں کہ کچھ ملکی رائٹر بھی دھوکا کھا جاتے ہیں اور وہی باتیں دہراتے ہيں! یہ باتيں، ان کی نہيں ہوتیں؛ اصل بات، دشمنوں کی سازش کا حصہ اور ان کا جزء ہوتی ہیں۔ جی ہاں؛ ان حالات میں، معاشی مشکلات بھی ہوتی ہيں، اور دشمن ان مسائل کو دس گنا بڑھا چڑھا کر بھی پیش کرتا ہے، سیاسی لحاظ سے بھی ہنگامہ کھڑا کرتا ہے اور عوام کے دلوں میں حکام کے خلاف بدگمانی بھی پیدا کرتا ہے؛ ایسے ماحول میں کیا ملکی حکام یا حکومت میں یہ طاقت ہے کہ وہ اطمینان کے ساتھ اپنا کام کرے !؟ فطری بات ہے کاموں میں تاخیر ہوگی۔ ایسا ہونا ناگزیر ہے۔
افسوس کی بات ہے کہ معاشی مسائل کا زیادہ بوجھ، سماج کے نچلے طبقے پر پڑتا ہے۔ معاشی مسائل کمزور طبقے، سرکاری ملازمین، محنت کشوں، مسلح افواج کے اہلکاروں اور دینی طلبہ پر دباؤ کا باعث ہوتے ہيں۔ سب سے زيادہ بری حالت، دینی مدارس کے عام طلبہ کی ہوتی ہے کہ جن کے حالات سے عوام با خبر نہیں ہیں! چھوٹے تاجروں پر بھی معاشی دباؤ پڑتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ سماج کے کمزور طبقوں کو نشانہ بنانے والے یہ معاشی مسائل کہاں سے پیدا ہوتے ہيں؟ ایک وجہ نہيں ہے؛ بہت سی وجوہات ہیں: سب سے پہلے تو عالمی معاشی حالات اثر انداز ہوتے ہيں۔ آپ غور کیجئے! دنیا کے ایک حصے میں، یعنی یہیں مشرقی ایشیا میں، وہ ممالک جو کافی سرگرم ہیں اور حالیہ چند برسوں کے دوران، کافی اقتصادی ترقی کر چکے ہیں، اچانک تباہ ہو گئے۔ الحمد للہ ہمارا ملک، اس بحران سے محفوظ رہا۔ لیکن ملیشیا، انڈونیشیا، جنوبی کوریا اور اس طرح کے ملکوں کو کافی نقصان ہوا ہے۔ دنیا کے بہت سے ملکوں میں یہاں تک کہ کچھ ترقی یافتہ اور صنعتی ملکوں میں بھی، آج کل معاشی مسائل بے شمار ہيں، لیکن بڑی بڑی عالمی کمپنیاں ان مسائل کی خبروں پر پردہ ڈال دیتی ہيں! بہت سے مسائل کی وجہ تو وہ خود ہوتی ہيں۔ یہ ایک وجہ ہے جو فطری طور پر موثر ہے۔
ایک دوسری وجہ، افسوس کے ساتھ خود ہماری طرف سے بے توجہی میں، کی جانے والی غفلت ہے، جس کے ذمہ دار ہمارے ملک کے حکام ہیں! ایک اور وجہ وہ خاص مقاصد ہیں جن پر ایران اور ایرانی قوم کے سلسلے میں کام کیا جا رہا ہے۔ میرا یہ خیال ہے کہ تیل کی قیمتوں میں کمی کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے لیکن تیل کی قیمتوں میں کمی سے صرف ہمیں نقصان نہیں ہوتا، کچھ دیگر ملکوں کو، خود ان کے دوستوں کو بھی نقصان ہوتا ہے! آخرکار دباؤ اتنا زيادہ ہوا کہ خود وہ بھی رد عمل پر مجبور ہو گئے۔ ویسے اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام نے تیل کی قیمت میں تھوڑی بہتری لانے میں بہت موثر کردار ادا کیا ہے۔ امید ہے کہ یہ کوشش جاری رہے گی اور اس کے اچھے نتائج بر آمد ہوں گے۔ ملک کے اندر موجود کچھ لوگوں کی بے رحمی و قسی القلبی بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ یہ سارے اسباب مل کر، کچھ مسائل پیدا کرتے ہيں۔ تو اب سوال یہ ہے کہ ان مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے یا نہيں؟ یقینا حل کیا جا سکتا ہے؛ ہم ان سے زیادہ سخت مسائل کو بھی حل کر چکے ہيں۔ ہم ملکی وسائل، ملک کے اچھے قوانین کے سہارے، ان پر اخلاص کے ساتھ عمل کرکے اور اغیار پر سے انحصار ختم کرکے، بہت اچھے اقدامات کر سکتے ہيں اور بہت سے مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ جنگ کے بعد تعمیراتی دور کے بہت سے اقدامات کے اثرات، دھیرے دھیرے سامنے آ رہے ہيں۔ تعمیراتی دور میں انجام دیئے جانے والے کچھ کام، جن سے کچھ پر آج بھی حکومت عمل پیرا ہے، نہ ہوتے تو دوسرے ملکوں پر ہمارا انحصار آج سے بہت زیادہ ہوتا۔ اسی راستے پر آگے بڑھا جا سکتا ہے۔
میں نے تین چار برسوں سے مسلسل اور خاص طور پر تاکید کی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو، تیل پر ملک کا معاشی انحصار کم کیا جائے۔ تیل ہمارے پاس موجود سرمایہ ہے۔ یقینا قیمتی بھی ہے اور اس سے فائدہ بھی اٹھایا جانا چاہئے؛ لیکن اصل میں اس چیز کے بارے میں فیصلہ، اس کے مالکوں - کہ جو ہم ہیں - کے ہاتھ میں نہیں ہے، اغیار کے ہاتھوں میں ہے! فطری بات ہے کہ اگر کسی معیشت کا انحصار کسی ایسے سامان پر ہوگا جس کی قیمت کا تعین دوسروں کے ہاتھوں میں ہو تو اسی قسم کے مسائل پیدا ہوں گے؛ کبھی فی بیرل اٹھارہ یا بیس ڈالر تو کبھی قیمت اچانک ساڑھے سات اور آٹھ ڈالر فی بیرل تک گر جائے گی! ہمیں اس مادے کو اس طرح سے استعمال کرنے کی ضرورت نہيں ہے۔ ہم ملک کے اندر، موجود دوسرے بے پناہ وسائل و ذخائر سے استفادہ کر سکتے ہيں اور آج کل حکومت بھی اس پر غور کر رہی ہے۔ کئی برسوں سے اس سلسلے میں کوشش کی جا رہی ہے؛ لیکن میں یہ بھی آپ لوگوں سے عرض کر دوں کہ ملکی معیشت کی عمارت، پہلوی حکومت کے زمانے سے ہی غلط بنیادوں پر کھڑی کی گئی اور اسے ٹھیک کرنا اب تک تو بہت مشکل کام رہا ہے۔ خاص طور پر جنگ کے دوران کہ جب تعمیراتی و ترقیاتی امور کا موقع بھی نہيں تھا، تیل پر انحصار کی روش جاری رہی۔ روز بروز یہ انحصار بڑھتا گیا ؛ یا کم سے کم پہلے ہی کی طرح جاری رہا۔ ملکی حکام، مخلص حکومت اور اس ملک کے مستقبل سے محبت رکھنے والے اس روش کو بدل سکتے ہيں اور ان شاء اللہ وہ بدل دیں گے۔ دنیا کی تیل کمپنیاں اور ان سے وابستہ افراد اس وہم و گمان میں ہیں کہ یہ قوم ہمیشہ خود کو وابستہ رکھے گی۔ عزیزو! یقینا اس طرح کے فیصلوں کے لئے اخوت کا ماحول چاہئے۔ جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ حکومت، جیسی اس کی ذمہ داری ہے، بڑے بڑے کام اچھے ماحول میں، کھلی سوچ اور دباؤ کے بغیر انجام دے تو ملک کے ماحول میں اخوت و محبت ہونی چاہئے، مخاصمت کا ماحول نہیں! کچھ لوگ اس کے بر عکس کام کرتے ہیں؛ یہ لوگ حکومت کے حق میں نہيں بلکہ اس کے نقصان میں کام کرتے ہيں۔ دشمن بھی اپنے تشہیراتی پروپگنڈوں کے ذریعے اور لفظ 'آزادی' کا غلط استعمال کرکے، ہمیشہ ماحول کو خراب کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔
ہم نے برسوں قبل ایک جملہ سنا تھا وہ جملہ یہ تھا کہ ''اے آزادی! تیرے نام پر کیسے کیسے جرائم نہیں کئے جا رہے ہیں؟!'' آج ہمارے دشمن اسی جملے کی عملی شکل پیش کر رہے ہیں۔ اب امریکہ ہماری آزادی کا حامی بن گیا ہے؛ ہماری اظہار رائے کی آزادی کا! کیا آپ لوگوں نے برسہا برس اس ملک میں، بد عنوان اور پٹھو پہلوی حکومت کی حمایت نہيں کی ہے!؟ جبکہ اس حکومت کے دور میں کسی میں ایک لفظ بھی بولنے کی ہمت نہيں تھی! میں برسوں تک اسی شہر مشہد میں، اسی مدرسے میں، اسی گلی اور سڑک پر، انہی عوام کے ساتھ، جد و جہد میں مصروف رہا ہوں۔ اس دوران کسی عالم دین کو اتنی بھی اجازت نہیں تھی کہ وہ دینی تقریروں کے دوران صیہونیوں کی جانب سے فلسطینیوں کی سرزمین غصب کئے جانے کی جانب اشارہ بھی کرے! یہ ملک اس طرح کا تھا!(1) جی ہاں، اسرائيل مردہ باد اور وہ لوگ بھی مردہ باد جو اسرائيل کی حمایت کرتے ہيں اور وہ بھی مردہ باد جنہوں نے ان برسوں میں، صیہونیوں کے بارے میں ایک لفظ بھی بولنے کی اجازت نہیں دی! آج مغربی ملکوں میں اخباروں کو صیہونیوں کو برا بھلا کہنے کی اجازت نہيں ہے! ایک شخص(2) اپنی کتاب میں لکھتا ہے :'' یہودیوں نے، دوسری عالمی جنگ میں ہٹلر کے ہاتھوں خود کے قتل عام میں مبالغہ آرائی کی ہے تو اس کی کتاب پر پابندی تو عائد ہی کر دی جاتی ہے اس کے ساتھ ہی مصنف کو عدالت میں گھسیٹ لیا جاتا ہے! خود یہ لوگ، آزادی کے بارے میں اس طرح کے کام کرتے ہیں! آج دنیا میں امریکی حمایت یافتہ بہت سے ملک ہيں اور آزادی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے یہ لوگ بھی ہیں لیکن ان ملکوں میں کسی کو بھی اس بات کی اجازت نہيں ہے کہ وہ حکام کی مرضی کے خلاف ایک سطر بھی لکھ دے! ان کے اداروں میں، جمعے کی نماز میں، خفیہ ایجنسیاں خطیب جمعہ کو لکھا ہوا بیان دیتی ہیں تاکہ وہ منبر پر اسے پڑھے! آپ اگر آزادی کے حامی ہيں، تو ان سے کچھ کیوں نہیں کہتے؟ ایرانی قوم کو بیس سال ہو گئے ہیں یہ آزادی حاصل کئے۔ انقلاب نے ہمیں آزادی، قدرت بیان اور شجاعت عطا کی ہے۔ اسلام نے ہمیں آزاد کر دیا۔ اب امریکی آزادی کے نعرے کے بڑے حامی بن گئے ہیں اور آزادی کے نام پر عوام کے درمیان اختلافات پیدا کرتے ہیں! اختلاف کیوں پیدا کرتے ہيں؟ اس لئے تاکہ حکام، اپنا کام نہ کر سکیں۔ ہم جو اتحاد پر زور دیتے ہیں اس کی وجہ یہی ہے۔
میرے عزیزو! آج ، ملک کے ہر علاقے میں آپ لوگوں کے درمیان اتحاد، کوئي رسمی یا نمائشی چیز نہيں ہے؛ ایک اہم ضرورت ہے۔ متنازعہ امور نہ اٹھائيں، نظریاتی اختلافات کو بنیاد نہ بنائیں، جن امور پر اتفاق ہے ان کو بنیاد قرار دیں۔ یہ سارے لوگ، مسلمان ہیں۔ ہمارے عوام، اسلام اور قرآن کے حامی ہیں۔ عوام اپنے انقلاب سے محبت کرتے ہيں، امام خمینی اور عزت نفس کا تحفظ کرنے والے مجاہدوں سے محبت کرتے ہيں ؛ ان باتوں پر توجہ دیں۔ کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی خاص چیز کو بہانہ بنائے۔ مثال کے طور پر کبھی کسی نے کوئي بات کہہ دی تو اس پر آکر ہنگامہ کھڑا کرے! یا عدلیہ نے اگر کسی کے خلاف کارروائی کی تو اس بہانے سے ہنگامہ کھڑا کرے! یا کسی سکیورٹی، معاشی یا سیاسی ادارے میں کسی شخص نے کوئي اقدام کیا تو اس کو ہنگامے کی وجہ بنا دے! یہ ہنگامے ملک کو نقصان پہنچاتے ہيں۔ کیوں؟ کیوں کہ ان سے عوام کے دلوں میں ایک دوسرے سے فاصلہ پیدا ہوتا ہے اور یہ سب کچھ آزادی کے نام پر ہوتا ہے! آزادی خدا اور انقلاب کا تحفہ ہے۔ آزادی عوام کا حق اور ان کی فطرت کا حصہ ہے۔ لیکن ان سب کا آزادی سے کوئي تعلق نہيں ہے؛ یہ سب دشمنوں کی سازش ہے۔ ميں آج اپنے ملک کے عزیز عوام کے لئے، بیداری، ذہانت، اسلام سے تمسک، امام خمینی سے تمسک، امام خمینی کی راہ پر گامزن ہونے کو کہ 'یہ سال انہی سے مخصوص ہے' اتحاد، برادری و اخوت و محبت کے پرچم کو بلند کرنے کو سب سے زیادہ ضروری سمجھتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ اس بڑی قومی و دینی خواہش کو ، حضرت بقیہ اللہ الاعظم کی پاکیزہ دعاؤں میں جگہ ملے گی اور ہمارے امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) مسائل کے حل اور ترقی کی راہوں کے کھلنے اور ہماری قوم کے دلوں میں حوصلہ بڑھنے کے لئے دعا کریں گے، ہم بھی بارگاہ رب العزت میں دعا کرتے ہيں:
پروردگارا! تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ ہماری قوم کو تمام میدانوں میں کامیابی عطا فرما، اس کے دشمنوں کو سرنگوں و ناکام فرما، ہمارے عوام میں بیداری و ایمان، التزام و توکل کو کئ گنا بڑھا دے، اپنے حکام کے ساتھ اس کے رابطے کو مزيد مستحکم کر دے۔ پروردگارا! تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ، ہمارے امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کا دل ہم سے خوش کر دے۔ حکام کو خدمت کی توفیق عنایت فرما۔ اس ملک، اس قوم اور کمزور طبقوں کے مسائل کو اپنے فضل و کرم و حکمت و قدرت سے حل کر دے اور ہمارے امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) ارواحنا لہ الفداء کے ظہور میں تعجیل فرما۔
و السّلام علیکم و رحمة اللَّه و برکاته
(1) یہاں پر عوام نے اسرائيل مردہ باد کے نعرے لگائے اور قائد انقلاب نے اس کی تایید کرتے ہوئے تقریر جاری رکھی۔
(2) راجر گارودی، فرانس کے معروف مصنف جنہیں اپنی کتاب میں یہ جملہ لکھنے کی وجہ سے مقدمے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔