9 فروردین 1378 ہجری شمسی مطابق 29 مارچ 1999 کو اپنے اس خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے ایذہ کے قبائل سمیت ملک بھر کے قبائل کو سماجی نظام میں اہم کردار کا حامل قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ متعدد مواقع پر قبائل نے اسلامی نظام کی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے سبھی لوگوں اور خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم کی ضرورت پر زور دیا۔
اس خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌اللَّه ‌الرّحمن ‌الرّحیم
الحمد للَّه ربّ العالمین. و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌ القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین.

آج میرے لئے بہت اچھا دن ہے کہ جو میں آپ لوگوں سے، 'ایذہ' کے مخلص خواتین و حضرات سے ملاقات کر رہا ہوں۔ دو سال قبل خوزستان کے دورے میں، میں نے آپ لوگوں سے وعدہ کیا تھا کہ پہلی فرصت میں، اس شہر کا دورہ کروں گا اور آج الحمد للہ، اس دن جو وعدہ میں نے کیا تھا، وہ پورا ہو گیا۔
آپ کا علاقہ ان علاقوں میں سے ہے جو افرادی قوت کے لحاظ سے معروف اور مختلف ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ یہ قبائلی علاقہ ہے اور بختیاری اور اس علاقے کے دیگر با غیرت قبائلی ہمارے ملک کے سماجی نظام میں، پرکشش لوگ ہيں۔ با صلاحیت ہیں اور اچھے انسانی و قبائلی صفات کے حامل ہيں۔ یقینا قبائلی بنجارے ملک کے جس علاقے میں بھی ہیں، ملک کی سرحدوں اور اس علاقے کے لئے، مفید ہوتے ہیں۔ قبائل، ایرانی قوم کا سرمایہ ہیں۔ اس علاقے کے بختیاری اور دیگر قبائل نے پوری تاریخ میں یہ ثابت کیا ہے کہ وہ دین و ایمان کے پابند اور ملک کی خودمختاری کے وفادار اور ملک و قوم کے مستقبل کا درد رکھنے والے ہيں۔ اس علاقے کے قبائلیوں میں عظيم شخصیتوں نے، انقلاب اور مسلط کردہ جنگ کے دوران، اہم کارنامے انجام دیئے۔ اسی لئے اس علاقے کو شہیدوں کا علاقہ کہا جاتا ہے۔ آج بھی میں جب یہاں موجود مجمع کو دیکھ رہا ہوں تو مجھے ان میں جذبات و عزم سے بھرے نوجوان چہرے نظر آ رہے ہيں۔ الحمد للہ خواتین و مرد سب خوش و خرم ہیں۔ یہ آپ لوگوں کے لئے بہت بڑا سرمایہ ہے۔ علاقے کے با ایمان و قابل ستائش لوگوں کی اخلاقی خصوصیات کے بعد اس علاقے میں سب سے پہلے جو چیز نظر آتی ہے، وہ اس علاقے پر برسہا برس تک مسلط کردہ محرومیت و پسماندگی ہے۔ ظالمانہ طرز حکومت اور غیر عوامی حکومتوں میں عوام کو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا ہے۔ نوجوان، بوڑھے، مرد و عورت میں بھی کوئي فرق نہيں ہوتا۔ غیر جمہوری اور آمرانہ نظام حکومت میں ان سب کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اس علاقے کو ایک الگ تھلگ اور دور دراز کا علاقہ سمجھا جاتا تھا؛ گویا یہ علاقہ ایران کا حصہ ہی نہيں تھا! اسلامی نظام اور اسلامی جمہوریہ ایران میں، معاملہ بالکل بر عکس ہے۔ اسلامی جمہوری نظام میں عوام، اصلی محور ہیں۔ عوام اور ان کے رہن سہن پر توجہ دی جاتی ہے۔ ظالمانہ دور حکومت میں جن لوگوں کو زمیں دار، بڑے لوگ اور بڑے بڑے عہدوں کا اہل سمجھا جاتا تھا، اسلامی نظام میں انہیں ایک عام آدمی سمجھا جاتا ہے۔ ایک عام آدمی کی طرح ان سے بات کی جاتی ہے، نہ کہ ایک قبیلے کی طرح اور نہ ہی ہزاروں انسانوں کی طرح کہ جن میں سے ہر ایک کے اپنے الگ افکار و نظریات ہوتے ہیں۔ اسلامی نظام میں، حکومت کے لئے قریب اور دور کے علاقے یکساں ہیں۔ اسلامی جمہوری حکومت اور حکام کا فریضہ ہے کہ ہر جگہ حتی الامکان حاضری درج کرائيں اور وہ ایسا کرتے بھی ہیں؛ لیکن چونکہ پسماندگی برسہا برس سے تھی، دور دراز کے اور پسماندہ علاقوں میں حالات میں بہتری بہت بڑا کام ہے، لہذا اس میں زيادہ وقت لگ رہا ہے۔
میں یہاں دو طبقات یعنی عوام اور حکام سے بات کر رہا ہوں۔ آپ عوام سے عرض کروں گا کہ یہ علاقہ بھلے ہی معاشی اعتبار سے اور سہولتوں اور ترقی کے لحاظ سے پسماندہ ہو لیکن اسے بالکل پیشرفتہ اور تمام ضروری سہولتوں سے آراستہ علاقہ بنایا جا سکتا ہے؛ کیونکہ اس علاقے میں با صلاحیت افرادی قوت موجود ہے اور اس افرادی قوت پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ ماہرین کی تربیت کرنا چاہئے اور امور کو ان با صلاحیت لوگوں کے حوالے کر دینا چاہئے تاکہ یہ علاقہ ویسی ہی ترقی کرے جیسا کہ اس کا حق ہے۔ قدرتی وسائل اور انسانی صلاحیتیں دونوں ہی یہاں موجود ہیں۔ دو سال قبل خوزستان کے دورے کے دوران، اس صوبے کے لئے خرچ ہونے والے بجٹ کا اہم حصہ، اس علاقے کو دیا گيا اور میں نے اس دورے میں جب پوچھا تو مجھے بتایا گیا کہ اس بجٹ کا بڑا حصہ خرچ کیا جا چکا ہے۔ لیکن علاقے کی ضرورت، اس سے کہیں زیادہ ہے۔ میں جب رپورٹیں پڑھتا ہوں اور اس بار قریب سے اس شہر کا مشاہدہ کر رہا ہوں اور علاقے پر غور کر رہا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اس علاقے میں زیادہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ میرا خطاب حکام سے بھی ہے۔ انتظامیہ، عدلیہ اور سیکوریٹی کے حکام سے عرض کروں گا کہ اس طرح کے علاقوں پر خاص طور سے زیادہ توجہ دیں۔ کیونکہ ان علاقوں میں ماضی کی بے اعتنائی کی تلافی بھی ہونی ہے۔ انقلاب سے قبل کے دور میں، ان علاقوں پر ظلم کیا گيا ؛ سنجیدگی اور دل میں درد رکھنے والے محنتی افراد کو ذمہ داریاں دینے کا عمل ان علاقوں میں، ملک کے ديگر علاقوں سے کئ گنا زيادہ ہونا چاہئے تاکہ چند سال بعد اس مقام تک علاقے کو پہنچایا جائے جو اس کا حق ہے۔

میرے پیارو! میرے بھائیو! اور نوجوانو! جن کے نورانی چہروں سے یہ مجمع مزین ہے اور آپ لوگوں میں، حوصلہ، حرارت و امید و شوق بھی زیادہ ہے! سب کے سب اس بات پر توجہ دیں؛ اسلامی جمھوری نظام میں حکام کا مقصد، ایسے سماج کی تعمیر ہے کہ جس میں عوام کے لئے دنیوی و اخروی امور، روح و جسم، روحانیت اور دنیوی امور ایک ساتھ مہیا ہوں اور اسلامی جمہوری نظام، دشمنوں کے دعوؤں کے بر خلاف کہ جس کا وہ عالمی سطح پر پروپگنڈہ کرتے ہيں، یہ نہیں کہتا کہ ہمیں عوام کے دنیوی امور سے کوئی مطلب نہيں ہے اور ہم صرف عوام کے دین کی فکر کرتے ہيں! نہیں۔ عوام کا دین، یعنی فرائض پر یقین رکھنا اور منصفانہ انداز میں اور ضروری سہولتوں کے ساتھ زندگی گزارنا۔ انسان کی سب سے بڑی ضرورت، انصاف ہے۔ دنیا بھر کے آمروں، انسانیت کے دشمنوں نے انسانیت پر جو کاری ضرب لگائی ہے وہ بے انصافی کی ضرب ہے۔ آج دنیا کے غریب ملکوں اور پسماندہ قوموں کے لوگ، بھوک امتیازی سلوک اور بھیانک غربت نیز اخلافی برائیوں کا شکار ہیں اور ان سب کی وجہ بے انصافی ہے۔ ورنہ اگر دنیا ميں حالات ایسے ہوتے کہ دنیا کے تمام لوگ، نچلی سطح کی زندگی گزار رہے ہوتے، تو حالات، انسانیت کے لئے اتنے تلخ نہ ہوتے۔
بڑي طاقتیں امن کا جھوٹا نعرہ لگاتی ہیں، تاکہ دوسروں کے حقوق کو پامال کیا جائے اور دنیا کے مختلف علاقوں کے مظلوم انسانوں کے حقوق پر قبضے کا راستہ صاف ہو، بڑی خاموشی سے اسے ہڑپ کر لیا جائے اور کوئي اعتراض بھی نہ کرے! کہتے ہیں کہ فلسطین کے غاصب افراد یعنی صیہونیوں کو صاحب خانہ سے صلح کرنی چاہئے؛ یعنی گھر کے مالک اپنا دعوی واپس لے ليں! اس صلح و امن کے معانی جس کا آج دنیا پروپگنڈہ کر رہی ہے، یہ ہیں! صلح ان لوگوں کے درمیان جن میں سے کوئی فریق دوسرے پر ظلم و زیادتی نہ کر رہا ہو، قابل ستائش ہے۔ ورنہ «و من قتل مظلوماً فقد جعلنا لولیّه سلطانا» (1)؛ جس پر ظلم ہوا وہ اپنے حق کا مطالبہ کر سکتا ہے. فلسطینی عوام غاصبوں سے اپنے حق کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ ایشیا اور افریقہ کے پسماندہ اور مظلوم عوام کو کہ جن کے ملکی وسائل کو صدیوں سے یا کم سے دسیوں برس سے، ترقی یافتہ ملکوں کے غنڈے، علمی ذرائع اور فوجی و سیاسی وسائل کے ذریعے لوٹ رہے ہیں اور ان کے حقوق کھا رہے ہیں، اپنے حق کا ان غنڈوں سے مطالبہ کرنے کی چھوٹ ہونی چاہئے۔ ایسا امن جس کا مطلب یہ ہو کہ کسی کو اپنے حق کے مطالبے کی مجال نہ رہے اس کی اسلامی نظام حمایت نہيں کرتا۔ انسانوں کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ انصاف ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران، انصاف کے نعرے کے ساتھ داخلی امور میں بھی اور بین الاقوامی سطح پر بھی، دیگر اقوام کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب رہا ہے؛ کیونکہ ایران کا موقف ان کے دلوں کی آواز ہے۔ تمام شعبوں میں، جو چیز اسلامی جمہوریہ ایران کی پالیسیوں میں فیصلہ کن ہے وہ انصاف ہے۔ انصاف کا مطلب یہ ہے کہ انسانی سماج میں، عالمی سطح پر اور ایرانی قوم میں، ہر شخص اپنے اس فطری حق کو استعمال کر سکے جو اسے خداوند عالم نے دیا ہے۔ تاکہ اس کی صلاحیتیں پروان چڑھیں اور تعلیم کے حصول اور روزگار کے ذرائع اور ایجادات و اقدامات کے لئے راہیں ہموار ہوں۔
میں یہ دعوی نہيں کرتا کہ ہم اسلامی جمہوری نظام کے قیام کے بیس برسوں کے دوران، اپنے اس مقصد کی مکمل تکمیل میں کامیاب ہوئے ہیں۔ جی نہیں۔ ہم قبول کرتے ہيں کہ ہم کمیوں، کمزوریوں، عالمی دباؤ، مسلط کردہ جنگ اور اسلامی جمہوریہ ایران کی ترقی کی راہ میں پیدا کی جانے والی مختلف رکاوٹوں کی وجہ سے، اپنے اس بڑے مقصد کو مکمل طور پر پورا نہيں کر سکے ہیں؛ لیکن پھر بھی بہت آگے بڑھے ہيں۔ اسلامی جمہوری نظام نے اس سمت میں بڑے بڑے کام کئے ہیں۔ ہمارے پورے ملک میں، یہ آپ کا علاقہ ایذہ اور بہت سے دیگر علاقے ایسے ہیں جن پر برسہا برس سے سابق حکمرانوں نے بہت کم توجہ دی! انھیں بالکل یاد ہی نہیں رہا کہ کوئي ایذہ، کوئي بلوچستان، کوئي جنوبی خراسان یا کوئي پسماندہ علاقہ بھی ہے! انہیں ان علاقوں کی یاد ہی نہیں آئی۔ کوئي بھی گورنر اس طرح کے علاقوں کا دورہ نہيں کرتا تھا! عوام کا کوئی شمار ہی نہيں تھا۔ جیسا کہ میں نے ذکر کیا، اگر وہ ان علاقوں کے لوگوں سے گفتگو کرنا چاہتے تو کچھ ایسے زمینداروں سے جو عوام پر ظلم کرتے اور ان کے سامنے کورنش بجا لاتے، بات کر لیا کرتے تھے! عوام سے انہیں کوئي مطلب نہيں تھا۔ اسلامی جمہوری نظام نے اس دور کو بدل دیا ہے۔ اسلامی جمہوری نظام میں اشرافیہ کلچر کی کوئي جگہ نہيں ہے۔ لوگ، عوام اور قوم کا فرد فرد، یہی اکثریت جو انسانی جذبات کے حامل ہیں اور جو محنت و کوشش کرتے ہيں، حقوق انھیں کے ہیں۔ اگر ملک کو ترقی کرنی ہے تو یہ ترقی ان لوگوں کے ہاتھوں سے ہوگی۔ اسلامی جمہوری نظام، عوام کے اسی طبقے سے بات کرتا ہے۔ ہم ایسا کرنے میں کامیاب رہے اور اس پر خدا کا شکر ادا کرتے ہيں۔
شاہی جابرانہ ثقافت، عوام کو نظرانداز کرنے کی پالیسی اور خود کو بلا وجہ عام لوگوں سے بہتر سمجھنے والوں پر، جو علم یا کسی ہنر کی وجہ سے نہیں بلکہ زمیندار یا قبیلے کے سردار ہونے کی وجہ سے خود کو برتر سمجھتے ہیں، خصوصی توجہ دینے کا دور گزر گیا۔ اسلامی جمہوری نظام انسانوں کو، ان کے انسان ہونے کی وجہ سے اہم سمجھتا ہے اور انسانوں میں جس کا ایمان زیادہ مضبوط اور عمل صالح زیادہ، اس کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ با ایمان اور صالح عمل کرنے والوں میں سے جو بھی ہماری قوم کے اہداف کی تکمیل اور الہی اقدار کے لئے زیادہ کوشش کرتا ہے اس کی زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ سماجی اقدار، جسے بار بار دہرایا جاتا ہے، یہ ہیں۔ اقدار کوئي موہوم یا تصوراتی چیز نہيں ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ صاحب ایمان افراد، بے پروا، بے ایمان اور لا ابالی لوگوں سے بہتر ہیں لیکن انہیں حاصل ترجیح، مادی ترجیح نہيں ہے۔ جس انسان کے پاس ایمان ہوتا ہے اس کا عمل بھی ایمان کے مطابق ہونا چاہئے۔ ایمان، محض کہہ دینا یا زبانی جمع خرچ نہیں ہے۔ اس صورت میں آج کے نوجوان کو، جو مرکزی کردار کا حامل اور امید و نشاط سے بھرپور ہوتا ہے، نیک کام اپنے پورے وجود سے انجام دینا چاہئے۔ نیک کام، یعنی اپنے جسم اور اپنی روح کو سنوارنا یعنی پڑھنا، کام کرنا، فضول میں نہ ادھر ادھر نہ پھرنا، دیگر لوگوں کے ساتھ، اہل خانہ اور دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک، نیک کام کا مطلب ہے معاف کر دینا، دوسروں کی مدد کرنا اور تواضع و انکساری۔ یہ نیک اعمال ہیں۔ اعمال صالحہ میں وہ نیک کام سب سے اوپر ہوتا ہے جس میں مجاہدت بھی ہو۔ آپ لوگوں کے درمیان، وہ نوجوان جنہوں نے ہماری سرحدوں پر دشمنوں کے حملے کے وقت جہاد کیا اور اپنے ملک، اپنے اہل خانہ اور اپنی عزت و آبرو کا تحفظ کیا، انہيں زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ جو لوگ ملکی اہداف اور اسلامی اہداف کے لئے زیادہ سے زیادہ قربانیاں دینے پر تیار ہیں جو اپنے مفادات کو دوسرے درجے پر رکھتے ہیں اور مفاد عامہ کو پہلے درجے پر، جو با ایمان اور اچھے لوگ ہیں یقینا ان کی زیادہ اہمیت ہے۔
میرے عزيزو! پر جوش، محبت سے بھرے، بختیاری مہر و محبت سے معمور اور دیگر قبائل کے با ایمان نوجوان اور دیگر افراد جو یہاں موجود ہيں! جو چیز اہم ہے وہ با ایمان با حوصلہ اور محنتی نوجوانوں کی موجودگي ہے؛ اسی لئے یہ جو آپ دیکھتے ہيں کہ ملکی حکام، رضاکار فورس اور قربانی دینے والوں کو اہمیت دیتے ہیں تو اسکی وجہ یہی ہے۔ شہداء کے گھر والوں پر جو اتنی توجہ دی جاتی ہے اس کی وجہ ان کا نیک عمل ہے۔ اس کی وجہ وہ کوشش ہے جو انہوں نے خدا کی راہ میں کی ہے۔ جنگ سے متاثر فوجیوں پر جو اتنی توجہ دی جاتی ہے اور ان کے بارے میں تاکید کی جاتی ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے۔ یہ اقدار ہیں۔ یعنی اگر آپ ایک با ایمان، با مقصد، محنتی، کوشش کرنے والے اور جدوجہد کرنے والے، مجاہد فی سبیل اللہ ہیں تو آپ کو اس شخص پر ترجیح حاصل ہے جس میں یہ خصوصیات نہيں ہیں۔ یہ اسلامی اقدار ہيں۔ اسلامی نظام، ایسا نظام ہے جو عوام پر اور عوام کے کاندھوں پر ٹکا ہوتا ہے اور عوام کو ، انہی خصوصیات کے ساتھ، چاہے خواتین ہوں یا مرد خاص طور پر نوجوان طبقہ، یہ چاہئے کہ وہ سماج کو رفاہ کی طرف لے جائيں۔ اس سلسلے میں سب کے فرائض ہے۔ لیکن حکام کی ذمہ داری زیادہ سنگین ہے؛ انہیں نوجوانوں کے لئے وسائل فراہم کرنے چاہئے تاکہ وہ اس صحیح راستے پر آگے بڑھتے رہیں۔
ان رپورٹوں سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس علاقے میں ثقافتی اور کھیل کود کے وسائل کی بھی کمی ہے۔ یقینا اس پر توجہ دی جانی چاہئے۔ ایک اور بات آپ سے عرض کرتا ہوں؛ میرے عزیزو! ان قبائلی علاقوں میں کہ جہاں انسانی اوصاف وفور کے ساتھ نظر آتے ہيں، ایک خطرہ بھی ہے اور وہ خطرہ آپس میں قبائلی تعصب اور اختلافات کا خطرہ ہے؛ یعنی قبائلی جذبات کے ساتھ مختلف قومیتیں، ایک دوسرے سے اختلافات اور تنازعے مں نہ الجھ جائیں۔ ہوشیار رہیں کہ کہیں آپ کو اس سمت نہ دھکیل دیا جائے۔ جابرانہ نظام کی ایک خصلت یہ بھی تھی کہ وہ مختلف قبیلوں، مختلف قومیتوں اور الگ الگ قوموں کے درمیان اختلافات پیدا کرتا تھا تاکہ ان کو آپس میں لڑوا کر خود میدان جنگ سے دور رہے! ان کو آپس میں ہی مصروف رکھتے تھے اور عام طور پر قبیلوں کے درمیان اختلافات اور مقامی و خاندانی جنگ چھیڑ دیتے تھے۔ اگر کوئی تحقیق کرتا تو جھگڑے کے تار حکومت سے جڑے نظر آتے۔ اسلامی نظام کی پالیسی، اس قسم کے اختلافات کا خاتمہ اور اتحاد قائم کرنا ہے۔ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ ملکی سطح پر ایرانی قوم کو یک زبان و متحد ہونا چاہئے اور عالم اسلام میں مسلمانوں کو متحد ہونا چاہئے تو اس کی وجہ یہی ہے۔ اس علاقے کی سطح پر بھی ہم یہ کہتے ہیں کہ علاقے میں رہنے والے سبھی لوگ، تمام شہر، ضلعے اور گاؤں اور اگر قبائلی علاقہ ہے تو تمام قومیتیں، خاندان اور مختلف قبائل، ایک دوسرے کے ساتھ مہر و محبت سے رہیں، ایک دوسرے کا خیال رکھیں۔ خاص طور پر یہاں بھی میری مراد نوجوان ہیں کہ جن کے لئے اس طرح سے سوچنا، اتحاد کے بارے میں سوچنا اور اختلافات سے دور رہنا، زیادہ آسان ہے۔ اپنے ملک کے لئے ملکی سطح پر میرا جو اندازہ ہے، اسے چند جملوں میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ خدا کے فضل سے، عوام کے عزم و ارادے اور ملک و قوم کا درد رکھنے والے حکام کے اقدامات سے جو الحمد للہ پورے ملک میں مختلف عہدوں پر ہیں، ہمارا ملک مسائل کا تصفیہ کرنے اور بہت سے مسائل کو مکمل طور پر ختم کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
اسلامی جمہوری نظام کے دشمن، اسلامی جمہوری نظام کا مقابلہ نہیں کر پائے۔ بہت کوشش کی، اب بھی کوشش کر رہے ہيں، لیکن اسلامی جمہوری نظام کے مقابلے میں ٹک نہيں پائے! یہ میری بات نہيں ہے؛ خود ان کا بھی یہی کہنا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے امور کا جائزہ لینے کے لئے ان دشمنوں نے سیکڑوں کانفرنسوں اور سمیناروں کا اہتمام کیا تاکہ یہ پتہ لگائيں کہ کہاں سے ضرب لگائي جائے؟! سب کچھ کر بھی لیا ؛ لیکن اس کا جو نتیجہ سامنے آیا وہ ان اقدامات پر کی جانے والی سرمایہ کاری سے مطابقت نہيں رکھتا تھا اور انہوں نے تسلیم کیا کہ انہيں ہار ہو گئی! اسلامی جمہوری نظام دو وجوہات کی بناء پر، ایک وجہ عوام پر بھروسہ ہے اور دوسری وجہ اسلام پر ایمان اور دین پر گہرا عقیدہ ہے، ناقابل تسخیر ہے۔ وہ چوٹ پہنچانے کے لئے وار کرتے ہیں لیکن اسلامی جمہوری نظام اس وار کو پلٹ دیتا ہے۔ رکاوٹ کھڑی کرتے ہیں، لیکن اسلامی جمہوری نظام، رکاوٹوں کو عبور کر لیتا ہے۔ اس کی راہ میں مسائل کھڑے کرتے ہیں، لیکن مسائل اسے تباہ نہیں کر پاتے۔ جبکہ ان مسائل میں سے کوئي ایک مسئلہ بھی، اس علاقے میں موجود کسی بھی حکومت کو تباہ کرنے کے لئے کافی تھا!
اسلامی جمہوری نظام، ان دو وجوہات کی بناء پر اب تک ثابت قدمی سے ڈٹے رہنے میں کامیاب رہا ہے اور روز بروز طاقتور بھی ہو رہا ہے۔ بہرحال مسائل حل ہو جائيں گے اور چونکہ یہ نظام عوامی آراء کے سہارے قائم ہے اور حکام، عوام دوست ہیں اور خود عوام کے اندر سے نکل کر آئے ہیں، اس بنا پر وہ مادی مسائل کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں اور خدا کے فضل سے، وہ یہ مسائل بھی ختم کر دیں گے۔ آج ہمارا ملک، بیس سال قبل کی بہ نسبت علمی، صنعتی کامیابیوں اور مختلف شعبوں میں خود کفیل اور دوسروں سے بے نیاز ہونے کے معاملے میں بہت ترقی کر چکا ہے اور شہروں کی سطح پر ہونے والی ترقی کا ماضی سے کسی بھی طرح موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح تعلیمی شعبے میں، تعلیم یافتہ لوگوں کی تعداد کے سلسلے میں بھی آج آپ ملک میں کوئي بھی ایسا شہر نہيں تلاش کر سکتے جہاں یونیورسٹی نہ ہو، آپ کے اسی ایذہ شہر میں اوپن اسلامک یونیورسٹی موجود ہے۔ دوسرے علاقوں میں بھی پورے ملک میں، اعلی تعلیمی مراکز ہیں اور اعلی تعلیم کے حصول کا موقع فراہم ہے۔ یہ انتہائی اہم کامیابیاں اور قابل قدر علامتیں ہیں۔ اسی طرح رکاوٹیں بھی دور کر دی جائیں گی۔ میرا اندازہ ہے کہ خدا کے فضل سے ہمارا ملک، مستقبل قریب میں، اپنی بہت سی بڑی بڑی معنوی اور مادی احتیاجات کو اس طرح سے پورا کرکے دنیا کو دکھائے گا کہ عالم اسلام حیرت میں پڑ جائے گا۔
اس علاقے کے بارے میں میرا یہ خیال ہے کہ یہاں محنت، سعی و کوشش اور جذبہ ہمدردی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس علاقے میں صرف مسلسل کوشش و جد جہد کی کمی ہے۔ ملک اور صوبے کے دار الحکومتوں میں حکام کو اس علاقے کے بارے میں کئے گئے فیصلوں کے نفاذ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یقینا آپ بھائیوں اور بہنوں کو بخوبی علم ہے اور آپ کو پتہ ہے کہ حالیہ چند برسوں کے دوران حکومت کی مالی حالت، مختلف ملکوں پر - صرف ہمارے ملک پر نہیں - مسلط کئے گئے امور کی وجہ سے زیادہ اچھی نہيں رہی ہے اور آمدنی میں کمی ہوئی ہے۔ اگر آمدنی میں کمی نہ ہوتی، یقینا اس علاقے کے لئے ہماری جو خواہش ہے اس کی تکمیل زیادہ آسان ہوتی اور اس پر بہتر طریقے سے عمل در آمد کیا جاتا، لیکن پھر بھی پہلی بات تو یہ کہ معاشی صورتحال ان شاء اللہ بہتر ہوگی اور مسائل ختم ہوں گے اور دوسری بات یہ کہ حکام انہی وسائل کے ساتھ بہت کچھ کر سکتے ہيں، تندہی، توجہ اور باریک بینی کے ساتھ، اور مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ یہ احساس ذمہ داری ان میں ہوگا۔ حالانکہ مجھے علم ہے کہ ملک کے حکام پسماندہ علاقوں میں کام کرنے میں خود بھی دلچسپی رکھتے ہیں لیکن پھر بھی میں تاکید کرتا ہوں کہ آج، ان علاقوں پر دوگنی توجہ دی جائے جو گزشتہ شاہی حکومت کے دوران، ناانصافیوں اور ظلم و مسائل کا شکار رہے ہیں
میرے عزیزو! آپ کے اس پر جوش اجتماع اور اس خادم کے لئے آپ کے خلوص و اظہار عقیدت کے لئے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ خدا آپ سب کو توفیق عنایت فرمائے اور اپنا لطف و کرم آپ سب کے شامل حال کرے۔ آخری کچھ باتیں جو میں آپ سے کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہیں کہ آپ کوشش کریں کہ سماج میں ملنے والے اچھے مواقع سے، آپ سب خواتین و حضرات، زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائيں۔ مجھے یہ اچھا نہيں لگتا کہ کوئي گھرانہ اپنے نوجوانوں کو تعلیم کا موقع فراہم نہ کرے؛ جبکہ اسلامی جمہوری نظام نے گھرانوں اور نوجوانوں کو تعلیم کے حصول کا موقع دے رکھا ہے۔ مجھے یہ اچھا نہیں لگتا کہ غلط روایتوں کی بناء پر لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ لڑکیوں کو بھی تعلیم حاصل کرنا چاہئے؛ ان میں بے پناہ صلاحیتیں ہوتی ہيں۔ مجھے آپ لوگ جیسے با ایمان و پر جوش و مخلص و پاک طبیعت کے مالک لوگوں کے درمیان کسی بھی صورت میں، قبائلی و خاندانی اختلافات اور قومیتی تعصب اچھا نہیں لگتا۔ یہ بہت افسوس کی بات ہے۔ ایمانی اقدار کی بنیاد پر آپس میں بھائی چارہ قائم رکھیں- برادر ایمانی- خاص طور پر میں نوجوانوں سے کہہ رہا ہوں۔ میرے عزیزو! نوجوانو! اپنی جوانی کی قدر کرو اور جتنا ممکن ہو سکے اپنے اندر نورانیت و پاکیزگی پیدا کرنے کی کوشش کرو۔ نماز میں اور خدا کے حضور تضرع و خشوع کو اہمیت دو۔ آپ یہ جان لیجئے کہ کوئي بھی سماج اسی وقت سعادت و کامرانی سے ہمکنار ہو سکتا ہے کہ جب پاکیزگی و معنویت سے لبریز ہو۔ جنگ کے دوران ہمیں جو کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں وہ سب نوجوانوں کی اسی معنویت و پاکیزگی کی برکت سے تھیں۔ جس نوجوان میں معنویت و پاکیزگی زيادہ ہوگي وہ ملک کے لئے زیادہ فائدہ مند اور ملک کی خودمختاری کے لئے زیادہ افادیت کا مالک ہوگا۔ کچھ لوگ، نوجوانوں کو فضولیات کی جانب دھکیلنے کی کوشش کرتے ہيں۔ یہ نہیں ہونا چاہئے، جہاں تک ممکن ہو نوجوانوں کو معنویت اور دین و عبادت کی سمت لے جائیے۔ یہ ملک کے مستقبل اور علاقے کے مستقبل کے لئے بھی بہت زیادہ فائدہ مند ہے۔ پیارے نوجوانوں کو کوشش کرنی چاہئے کہ جہاں بھی ملک کو ان کی ضرورت ہو، اپنا فرض پورا کرنے کے لئے وہاں موجود رہيں۔ رضاکار فورس کا یہی مطلب ہے۔ ہم رضاکار فورس کا جو اتنا احترام کرتے ہيں اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کے جس حصے میں بھی اس کی ضرورت ہوتی ہے وہ وہاں موجود ہوتی ہے۔ کہیں بچوں کو ٹیکا لگانے کے لئے، پولیو وکسینیشن کے لئے، کہیں دشمنوں سے لوہا لینے کے لئے تو کہیں نظم و نسق کے لئے تو کہيں سرحدوں کی حفاظت کے لئے۔ اپنے اندر یہ جذبہ پیدا کریں، بھلے ہی رضاکار فورس کا حصہ نہ ہوں لیکن اپنے اندر رضاکار فوجی کا جذبہ پیدا کریں۔ امید ہے کہ خداوند عالم آپ سب با ایمان نوجوانوں کو تمام خواتین و حضرات کی اپنے فضل و کرم سے بہرہ مند فرمائے گا، خدا کے بھروسے اور اس پر توکل کرتے ہوئے آپ سب کو خدا کی پناہ میں دیتا ہوں۔

و السّلام علیکم و رحمة اللَّه و برکاته

(1) اسراء: ۳۳