قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ ملک کے حکام اور خاص طور پر اقتصادی شعبے کے عہدیداران کو چاہئے کہ تعلیم و تربیت کے مسئلے میں اور اساتذہ کے معیشتی امور کے بارے میں خاص طور پر اور دیگر محکموں سے بالاتر ہوکر توجہ دیں اور یاد رکھیں کہ اس شعبے پر ہر طرح کا خرچ در حقیقت مستقبل کے لئے سرمایہ کاری ہے۔
16 اردیبہشت 1394 ہجری شمسی مطابق 6 مئی 2015 کو قائد انقلاب اسلامی نے اپنے اس خطاب میں ایٹمی مذاکرات کے موقع پر امریکی حکام کی حالیہ دھمکیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے زور دیکر کہا کہ میں دھمکیوں کے سائے میں مذاکرات سے اتفاق نہیں کرتا، خارجہ پالیسی کے عہدیداروں اور مذاکرات کاروں کو چاہئے کہ ریڈ لائنوں اور بنیادی خطوط کو ملحوظ رکھیں اور مذاکرات کا سلسلہ آگے بڑھانے کے ساتھ ہی ملت ایران کی عظمت و وقار کا بھی دفاع کریں اور کسی طرح کا دباؤ، زور زبردستی، تحقیر اور دھمکی برداشت نہ کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں ایٹمی مذاکرات کے موقع پر ملت ایران کے سلسلے میں امریکی حکام کے حالیہ بیانوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کئی اہم نکات کی نشاندہی کی۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے سب سے پہلے ایک مسلمہ حقیقت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: گزشتہ پینتیس سال کے دوران اسلامی نظام کے دشمنوں نے بارہا رجز خوانی تو خوب کی ہے لیکن انہیں ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام کی عظمت و ہیبت کا بخوبی اندازہ تھا۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله ‌الرّحمن‌ الرّحیم‌
و صلّی الله علی محمّد و اله الطّاهرین‌

عزیزان گرامی آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں! آپ نے اپنی پاکیزہ سانسوں سے اس فضا کو اس حسینیہ کو معطر کر دیا۔ واقعی استاد کی سانس بڑی پاکیزہ خوشبو رکھتی ہے۔ جس فضا میں بھی اساتذہ موجود ہوں اس کے بارے میں انسان کو یقین رہتا ہے کہ اس فضا اور اس جگہ پر اللہ تعالی کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں گی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ سب کو توفیقات عطا فرمائے کہ آپ اس عظیم کام کو، اس عظیم ذمہ داری کو، آپ محترم اساتذہ بھی اور تعلیم و تبیت کے شعبے سے وابستہ آپ محترم حکام بھی، بہترین انداز میں انجام تک پہنچائيں۔
رجب کا مہینہ ہے، یہ ترانہ جو آپ نے پیش کیا اس میں بھی ماہ رجب، ماہ توسل، ماہ دعا اور ماہ توجہ الی اللہ کی طرف اشارہ تھا۔ اس باشرف مہینے میں، مومنین دعائیں پڑھتے ہیں، اللہ تعالی کی بارگاہ میں التجا کرتے ہیں؛ اَللهُمَّ فَاهدِنی هُدَی المُهتَدینَ وَ ارزُقنی اجتِهادَ المُجتَهِدینَ وَ لا تَجعَلنی مِنَ الغافِلینَ المُبعَدین (۲) یہ تینوں فقرے کیسی اہمیت کے حامل ہیں؟! آخری فقرہ مغفرت سے متعلق ہے جو تمام کاموں کی اساس و بنیاد ہے:۔ وَ اغفِر لی یَومَ الدّین (۳) ہدایت یافتہ لوگوں والی ہدایت، محنت و مشقت کرنے والوں کی جفاکشی، آپ اس دعا میں اللہ تعالی سے یہ چیزیں طلب کرتے ہیں۔ آپ غور کیجئے! اگر یہی دو صفات ہمارے اور آپ کے اندر پیدا ہو جائیں تو تمام مشکلات حل ہو جائيں گی۔ ہدایت یافتہ لوگوں کی ہدایت ہمیں حاصل ہو جائے اور ہماری رفتار و گفتار اور منش میں تاریخ بشریت کے جفاکشوں کی سعی و محنت نمایاں ہو جائے۔ تیسرے فقرے میں ایک اندیشے کی جانب اشارہ ہے؛ وَ لا تَجعَلنی مِنَ الغافِلینَ المُبعَدین، غفلت بہت بڑی مصیبت ہے۔ صحیح راستے سے غفلت، ہدف سے عفلت، توانائیوں سے غفلت، مواقع سے غفلت، دشمن سے غفلت، آج ہمارے اور آپ کے دوش پر جو ذمہ داریاں ہیں ان سے غفلت۔ ہماری سب سے بڑی دشمن غفلت ہے۔ وہ پہلا دشمن جو ہمیں ہمارے دوسرے دشمنوں کے سامنے ذلیل و خوار کر سکتا ہے یہی غفلت ہے۔ وَ لا تَجعَلنی مِنَ الغافِلینَ المُبعَدین، اس غفلت کا نتیجہ ہے دوری۔ اللہ تعالی سے دوری، ہدف سے دوری، کامیابی سے دوری۔ دعا کے مندرجات معرفت سے لبریز ہیں، توحید سے معمور ہیں، ان میں درس زندگی پنہاں ہے۔ یہ ہیں دعائیں۔ آپ اس توجہ سے دعاؤں کو پڑھئے اور اس مہینے کی فضا اور ماحول سے بہرہ مند ہوئیے۔
ہمارے عظیم المرتبت شہید آیت اللہ مطہری کی یاد منانے کی مناسبت سے ہفتہ استاد کا اعلان کیا گیا۔ شہید مطہری یوں تو بہت سی ممتاز خصوصیات کے مالک تھے، لیکن میری نظر میں ان کی شخصیت کی نمایاں پہچان ان کا استاد ہونا تھا۔ وہ استاد تھے، تدریس کے شعبے سے تعلق رکھتے تھے، یونیورسٹی میں استاد تھے، روزہ مرہ کی زندگی میں بھی استاد تھے، ان کی تقاریر بھی تدریس کا درجہ رکھتی تھیں، ان میں درس ہوتا تھا۔ کیونکہ ان کے یہاں خلوص تھا، کیونکہ ان کے یہاں کاوش اور جانفشانی تھی، سعی و کوشش تھی۔ میں نے اس عظیم ہستی کی علمی کاوشوں کے نمونے قریب سے دیکھے ہیں۔ ہر موضوع پر وہ نوٹس تیار کرتے تھے۔ جب بھی کہیں کوئی اہم نکتہ نظر آتا فورا اسے نوٹ کر لیتے تھے اور اسے اس کی معینہ جگہ پر رکھتے تھے۔ انھوں نے مجھے کچھ لفافے دکھائے تھے جن میں الگ الگ موضوعات سے متعلق نوٹس تھے۔ اس وقت بھی مجھے بہت تعجب ہوا تھا کہ اتنی مستقل مزاجی، اتنی محنت اور مربوط کاوش! اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج اس شخص کی شہادت کو 35 سال ہو رہے ہیں، مگر ان کی کتابیں اور ان کی باتیں آج بھی زندہ ہیں۔ وہی کتابیں، وہی باتیں، وہی ہدایات آج ہماری موجودہ نسل کے کام آ رہی ہیں، محققین کو فائدہ پہنچا رہی ہیں۔ البتہ میں یہ نہیں کہتا کہ بس یہی کافی ہے۔ ظاہر ہے بہت سی نئی باتیں اور نئے خیالات نمودار ہوتے رہتے ہیں۔ نئے شبہے اور اشکالات پیش آتے ہیں، لہذا کچھ لوگوں کو چاہئے کہ شہید مطہری کے انداز میں کام کریں۔ یہ نام ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔
آج میں بنیادی طور پر جو معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں، وہ در حقیقت تعلیم و تربیت کے شعبے سے متعلق چند نکات ہیں۔ کچھ اور بھی مسائل ہیں شاید وہ بھی زیر بحث آئیں مگر آج ہمارا بنیادی موضوع ہے تعلیم و تربیت کا مسئلہ۔ یہ مسئلہ میرے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تعلیم و تربیت کا شعبہ فی الواقع مستقبل کی دنیا کی تعمیر کا اصلی مرکز و گہوارا ہے۔ ظاہر ہے ہمارا ایک مستقبل ہے۔ بیس سال پچیس سال بعد ایسی نسل زمام امور اپنے ہاتھ میں لے گي جو آج وجود میں آ رہی ہے، جو آج تیار ہو رہی ہے۔ اس کو وجود میں لانے کا کام استاد اور تعلیم و تربیت کا شعبہ انجام دے رہا ہے۔ آپ ایک نسل تیار کر رہے ہیں، آپ اسے کیسے تیار کریں گے؟ اس چیز کی بہت اہمیت ہے۔ ملک کا مستقبل، ہماری دنیا کا مستقبل، تعلیم و تربیت کے شعبے کی آج کی محنتوں اور کاوشوں پر منحصر ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ہمارے پاس اتنی اہمیت کا حامل کوئی اور محکمہ نہیں ہے۔ بیشک یونیورسٹی میں بھی تعلیم دی جاتی ہے۔ دینی مدارس میں بھی تعلیم دی جاتی ہے۔ سماجی ماحول میں بھی انسان کو تربیت ملتی ہے۔ لیکن استاد کی تاثیر بے مثال ہے۔ استاد کے سامنے موجود یہ مخاطب جو آج کا بچہ اور مستقبل کا مرد یا عورت ہے، اس کی فکر اور اس کے مزاج کی تعمیر میں استاد کا اہم کردار ہے۔ بچپن میں اور دس بارہ سال کی عمر تک استاد کا کردار عدیم المثال ہوتا ہے۔ یہ کردار نہ ماں، نہ باپ اور نہ معاشرہ کوئی بھی ادا نہیں کر سکتا۔ یہ ہے استاد کا مرتبہ، یہ ہے تعلیم و تربیت کے شعبے کا مقام۔ عوام کی زندگی سے براہ راست رابطے کے پہلو سے بھی دیکھا جائے تو عوام کا سب سے زیادہ رابطہ تعلیم و تربیت کے ادارے سے ہے۔ آپ کے پاس تقریبا ایک کروڑ تیس لاکھ اسکولی طالب علم ہیں۔ ان طلبہ کے والدین جن کی تعداد تقریبا دو کڑوڑ ساٹھ لاکھ ہوگی، اس طرح یہ تعداد تین کروڑ نوے لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ اساتذہ اور تعلیم و تربیت کے کارکنان کی مجموعی تعداد دس لاکھ تک ہے۔ تقریبا چار کروڑ انسان براہ راست اس محکمے سے وابستہ ہیں۔ آپ کی نظر میں اور کون سا شعبہ ایسا ہے جو معاشرے سے اتنا موثر اور قریبی رابطہ رکھتا ہو؟ تعلیم و تربیت کے شعبے پر اتنی زیادہ تاکید جو ہم کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے۔
میں اس محکمے کے بارے میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں، ویسے میں بارہا یہ بات کہہ چکا ہوں (4) مگر ایک بار پھر دہراتا ہوں کہ ایسے محکمے پر ہم جو بھی سرمایہ خرچ کرتے ہیں وہ در حقیقت خرچ نہیں بلکہ سرمایہ کاری ہے۔ تعلیم و تربیت کے شعبے کے اقتصادی مسئلے کو اس نگاہ سے دیکھنا چاہئے۔ تعلیم و تربیت کے شعبے کا اقتصادی معاملہ دیگر شعبوں کی مانند نہیں ہے۔ یہاں آپ جو کچھ بھی خرچ کر رہے ہیں وہ در حقیقت سرمایہ کاری ہے۔ یہ بنیادی اور اصلی بات ہے جس پر میں چاہوں گا کہ ملک کے حکام، حکومتی عہدیداران اور عوام توجہ دیں۔ یہ تو رہی تعلیم و تربیت کے شعبے کی اہمیت کی بات۔
اس وسیع شعبے میں اصلی محور، اصلی ذمہ دار اور صاحب پرچم جو در حقیقت اس شعبے کو چلا رہا ہے اور جس کے لئے ضروری وسائل کی فراہمی میں سب کو تعاون اور مدد کرنی چاہئے وہ کون ہے؟ وہ استاد ہے۔ اس شعبے کا مرد میدان استاد ہے۔ گوناگوں محکمے، مختلف ادارے، مختلف دستاویزات، درسی کتب، سب کے سب اس اصلی علمبردار کو کمک پہنچانے کا کام کرتے ہیں۔ اچھا استاد وہ ہستی ہے کہ جس کا اثرا جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا، عدیم المثال ہے۔ اگر ہمیں اچھا استاد مل جائے، خواہ وہ مکتب کی تعلیم کے دوران ہی کیوں نہ ہو، عظیم انسانوں کی تربیت کر سکتا ہے۔ چنانچہ آپ دیکھئے کہ اساتذہ نے ایسے انسانوں کی پرورش کی ہے۔ اچھا استاد عظیم انسانوں، نمایاں ہستیوں اور نامور اشخاص کی تعمیر کر سکتا ہے، انھیں وجود عطا کر سکتا ہے، خواہ وہ ادارہ جس میں یہ استاد موجود ہے، بہت اچھا اور سازگار نہ بھی ہو۔ یعنی استاد اصلی محور ہے۔
استاد کو کیا کرنا ہے؟ میں نے اس سلسلے میں کچھ باتیں نوٹ کی ہیں؛ استاد ایسی نسل تیار کر سکتا ہے جس کے اندر یہ خصوصیات ہوں؛ یہ نسل دانا ہو، صاحب ایمان ہو، خود اعتمادی کے جذبے سے سرشار ہو، امید و نشاط سے پر ہو، جسمانی اور فکری صحتمندی سے آراستہ ہو، روشن فکر ہو، عزم و ارادے کی مالک ہو، کم خرچ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ نتیجہ پیش کرنے والی ہو۔ استاد ایسی نسل کی تربیت کرتا ہے۔ یہ کوئی عام بات نہیں ہے۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ استاد انبیاء کا عمل انجام دیتا ہے، یہ جملہ ہم دہرا دیتے ہیں، ہمیں اس بات کی گہرائی میں اترنا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ یُزَکّیهِم وَ یُعَلِّمُهُمُ الکِتابَ وَ الحِکمَة؛(۵) یہ ہے انبیاء کا عمل۔ انبیاء کا کام ہے بشریت کو راہ نجات پر لے جانا۔ انبیاء کا کام ہے اعلی مرتبے پر فائز انسانی معاشرے کی تشکیل۔ یہ ہے انبیاء کا عمل۔ ہمیں کہنا چاہئے کہ استاد در حقیقت انبیاء کے پیشے سے وابستہ ہے۔ تعلیم و تدریس انبیاء کا پیشہ ہے۔ یہ ہوتا ہے استاد۔ ظاہر ہے کہ اس کے کچھ تقاضے اور لوازمات بھی ہوں گے۔ لوازمات میں ایک اقتصاد کا مسئلہ ہے جس کا میں نے ذکر کیا۔ تعلیم و تبیت کی اقتصادیات، اساتذہ کی اقتصادیات، یہ سب تقاضوں اور لوازمات میں ہیں۔ ہم حکومتی اداروں کو در پیش مسائل سے آگاہ ہیں۔ جو مسائل اور مشکلات انھیں در پیش ہیں ان سے ہم لاعلم نہیں ہیں، لیکن حکومتی عہدیداروں کے اندر یہ عزم ہونا چاہئے کہ تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دینی ہے۔ میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ یہ سرمایہ کاری ہے، اس سے منافع ملنے والا ہے، اس سے 'ایڈڈ ویلیو' حاصل ہونے والی ہے۔ یہ صرف خرچ اور بجٹ صرف کرنا نہیں ہے۔ حکومتی اداروں میں اور حکومتی فیصلوں میں اسے سب سے ترجیحی امور میں رکھا جانا چاہئے۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو دشمن اس کا فائدہ اٹھائے گا، آپ خود ملاحظہ کر ہی رہے ہیں۔ دشمن اسی حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے ذرائع ابلاغ کی مدد سے، اپنی نشریات کی مدد سے، اپنے عناصر کی مدد سے، اسلام اور اسلامی نظام کے بدخواہ افراد کی مدد سے، ان وسائل اور ان حربوں کی مدد سے اپنا کام کرے گا۔ البتہ ہمارے اساتذہ بیدار بھی ہیں، شریف و نجیب بھی ہیں، اہل ایمان بھی ہیں۔ واقعی مجھے اس پر پورا یقین ہے۔ ہم نے ان برسوں کے دوران اس کا تجربہ کیا ہے۔ آج بھی ہم ملکی سطح پر دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے اساتذہ دشمن کی سازشوں سے بے خبر نہیں ہیں۔ یہ جو بعض افراد معیشت کے نام پر نعرے بازی کرتے ہیں اور ان نعروں کے ساتھ کچھ فتنہ انگیز اور سیاسی مفادات پر مبنی نعرے بھی شامل کر دیتے ہیں، سب جانتے ہیں کہ ان لوگوں کی نیت صاف نہیں ہے۔ یہ ہنگامہ اساتذہ سے ہمدردانہ جذبے کے تحت نہیں کیا جا رہا ہے۔ اس کے پیچھے کچھ اور ہی اہداف ہیں۔ اسی طرح کوئی غیر ملکی نشریاتی ادارہ اس موضوع پر اپنی سرگرمیاں شروع کر دیتا ہے! آپ خود بھی مشاہدہ کر رہے ہیں، اس وقت بھی یہ لوگ اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں، یہ سب ہمدردی کے تحت نہیں ہے۔ یہ اسلامی نظام کے لئے مشکلات پیدا کرنے کے مقصد سے ہے۔ اس کا ہدف اسلامی نظام کے لئے درد سر کھڑا کرنا ہے۔ یہ اسلام سے، ملک کی خود مختاری سے اور اسلامی جمہوری نظام سے دشمنی اور بغض و کینے کے سبب ہے۔ بہرحال ان لوگوں کو کوئی موقع نہیں دینا چاہئے۔ حکومتی ادارے اور مالیاتی و اقتصادی مسائل کے ذمہ دار افراد اس نکتے پر توجہ دیں، اسے اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔ یہ رہی ایک بات۔ البتہ جیسا کہ میں نے عرض کیا؛ اساتذہ محتاط رہیں، ویسے خوش قسمتی سے ہمارے اساتذہ پوری طرح محتاط ہیں۔ بعض افراد ہیں جو ہر ممکن طریقے سے اسلامی نظام کو اور اسلامی انقلاب کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں، ڈنک مارتے ہیں، زہر افشانی کرتے ہیں۔ اسلامی نظام انہیں برداشت نہیں ہے۔ ایسے لوگ (اساتذہ کی نام نہاد خیر خواہی کے) نعرے بازی کرتے ہیں، یہ اساتذہ سے محبت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ وہ اسلامی نظام کی خامیاں تلاش کرنے کی فکر میں ہیں۔ اگر انھیں کوئی اور مسئلہ نظر آ جائے تو اس کے بارے میں بھی نعرے بازی کرنے لگتے ہیں۔ مسائل کو اپنے مفاد کے مطابق استعمال کرتے ہیں۔
ایک اور اہم مسئلہ ٹیچرز ٹریننگ یونیورسٹی کا ہے۔ میں نے پہلے بھی وزیر محترم سے اپنی ملاقات میں اور اساتذہ کے اجتماعات سے خطاب میں اس موضوع پر گفتگو کی۔ یہ یونیورسٹی بہت اہم ہے۔ وہ عمل جس کے تحت اساتذہ کا انتخاب ہوتا ہے تدریس و تعلیم و تربیت کے لئے، وہ صحتمند محفوظ اور اسلام و انقلاب کے معیاروں کے مطابق ہونا چاہئے۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو نتیجہ وہی نکلے گا جو آپ چاہتے ہیں۔ اللہ تعالی بھی اس سے خوشنود ہوگا، ملک کے مستقبل کے لئے بھی یہ بہت اہم اقدام ہوگا۔ کیونکہ میں نے عرض کیا کہ استاد باوقار اور ملک کی امیدوں پر پوری اترنے والی نسل تیار کرنے میں کامیاب ہوگا۔ لیکن اگر ان باتوں کو ملحوظ نہ رکھا گیا تو یہ ثمرات نہیں ملیں گے۔ ٹیچرز ٹریننگ یونیورسٹی میں نصاب اور کتب کے مضامین بھی بہت اہم ہیں، اس کے اساتذہ کی بھی بہت اہمیت ہے اور اکیڈمک بورڈ بھی محوری حیثیت رکھتا ہے۔ یہ طے ہونا چاہئے کہ ہم کس کو، کس طرح کے انسان کو پہلے تربیت کے مراحل سے گزارنے اور اس کے بعد اسے قوم کے بچوں کی تعلیم و تربیت اور عظیم انسانوں کی تعمیر کی ذمہ داری سونپنے جا رہے ہیں؟ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ بنابریں صلاحیتوں کا مسئلہ، اساتذہ کا مسئلہ، درسی کتب کا مسئلہ اور یونیورسٹی کی درسی کتب کے مضمون کا مسئلہ بہت اہم ہے۔
ایک اور اہم موضوع تعلیم و تربیت کے شعبے میں بنیادی اصلاحات کا بھی ہے۔ خوش قسمتی سے آج وزیر محترم نے اشارہ بھی کیا اور جو اقدامات انجام دئے گئے ہیں اجمالی طور پر ان کی تشریح بھی کی۔ میں نے پہلے بھی اس کی رپورٹ دیکھی تھی۔ بنیادی اصلاحات کے مسئلے میں صورت حال یہ ہے کہ سبھی نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ تعلیم و تربیت کے شعبے میں بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ملک میں رائج تعلیم و تربیت کا یہ قدیمی نظام، اگر اس میں کوئی اور خرابی نہ ہو تب بھی یہ خامی اپنی جگہ پر مسلمہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں جو جدت عملی نظر آنی چاہئے وہ نہیں ہے۔ اگر صرف یہی اتنی خامی ہوتی تب بھی انسان اسے ترک کرکے بنیادی اصلاحات کا آغاز کر دیتا۔ اصلاحاتی دستاویز جو دو تین سال قبل تیار کی گئی اور جس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گيا (6) اور اس کی بنیاد پر منصوبہ بندی بھی شروع ہو گئی، تعلیم و تربیت کے شعبے کے ممتاز اور نمایاں ماہرین کی نگاہ میں بھی بہت اہم اور محکم دستاویز ہے۔ جو لوگ اس میدان کے ہیں، ان امور کی مہارت رکھتے ہیں، وہ سب اس دستاویز کی تائید کر رہے ہیں۔ ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ یہ دستاویز بڑی محنت سے، بڑی عرق ریزی کے بعد اور بہت وقت صرف کرکے تیار کی گئی ہے۔ سب نے مدد کی جس کے نتیجے میں بحمد اللہ یہ دستاویز تیار ہوئی اور اس کے ابلاغ کا عمل بھی انجام پا گیا۔ تعلیم و تربیت کے شعبے کے ماہرین اعتراف کرتے ہیں، ان کا بھی یہی نظریہ ہے کہ دستاویز بہت اہم اور محکم ہے۔ اب اس دستاویز پر عمل ہونا چاہئے۔ البتہ اس طرح کے امور میں فوری نتیجے کی امید نہیں کرنی چاہئے۔ یہ ایسی چیزیں نہیں ہیں کہ جن کے نتائج ایک سال، دو سال یا پانچ سال میں ظاہر ہو جائیں۔ یہ ایسے امور ہیں جن میں صبر سے کام لینا پڑتا ہے، بہت سے اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے، مربوط مساعی کی ضرورت ہوتی ہے۔
ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اس دستاویز کی کلی شکل کا خیال رکھا جانا چاہئے۔ بتایا گیا کہ دستاویز کی بعض شقوں پر عمل کیا گیا ہے، یہ اچھی بات ہے، لیکن اس کی تمام شقوں پر عمل ہونا چاہئے۔ یہ بہم مربوط ایک مجموعہ ہے۔ اگر ہم بعض شقوں کو مثلا چالیس شقوں کو عملی جامہ پہنائیں اور بقیہ شقوں کو نظر انداز کر دیں تو ہمیں نتیجہ نہیں ملے گا۔ اس دستاویز کی شقوں کے باہمی تلازم کو قائم رکھنا چاہئے۔ جب اس دستاویز کی تمام شقوں پر عمل ہو جائے گا، تب کام آگے بڑھے گا، اس میں سرعت پیدا ہوگی اور بخوبی انجام پائے گا۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ ملک کے تعلیم و تربیت کے شعبے کے پورے سسٹم کو اس دستاویز سے آشنا کرانا چاہئے۔ سب کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس دستاویز کے تقاضے کیا ہیں؟ پرائمری اسکول اور ہائي اسکول کی سطح پر تدریس میں مصروف استاد کو علم ہونا چاہئے کہ بنیادی اصلاحات کی یہ دستاویز اس سے کیا چاہتی ہے۔ اسکول کے پرنسپل کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس دستاویز کی روشنی میں طلبہ کے تعلق سے اس کے فرائض کیا ہیں؟ اس دستاویز کے مطالبات کا تعین ہونا چاہئے۔ اس دستاویز کے مطالبات اور تقاضوں کو تعلیم و تربیت کے شعبے میں وسیع سطح پر متعارف کرانے اور سمجھانے کے لئے منصوبہ بندی کی جانی چاہئے۔
ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ قومی میڈیا اور ذرائع ابلاغ اس سلسلے میں مدد کریں۔ بلکہ یہ تجویز بھی ہے کہ قومی نشریاتی ادارہ ایک چینل اسی مقصد کے لئے شروع کرے، جو اس موضوع کی تشریح کر سکے اور لوگوں کو اس بارے میں حقائق سے آگاہ کرے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ تعلیم و تربیت کے شعبے کے عہدیداران قومی نشریاتی ادارے کے عہدیداران کے ساتھ بیٹھیں، نشریاتی ادارے (آئی آر آئی بی) کے حکام تعاون کریں۔
اس دستاویز کے سلسلے میں ایک اہم موضوع ہے جس کی جانب وزیر محترم نے بھی اشارہ کیا، وہ ہے چھٹیں ترقیاتی منصوبے کی ظرفیت و صلاحیت۔ اس وقت چھٹیں ترقیاتی منصوبے کی پالیسیاں تدوین کی جا رہی ہیں، اس کے بعد اس منصوبے کی تدوین عمل میں آئے گی اور اس کا نفاذ ہوگا۔ اس ترقیاتی منصوبے میں تعلیم و تربیت کے موضوع کو بھی ضرور مد نظر رکھا جائے تاکہ یہ اندازہ رہے کہ سنہ 2025 میں تعلیم و تربیت کے شعبے میں ہم کیا چیزیں حاصل کر چکے ہوں گے۔
ایک اور بھی اہم کلیدی نکتہ ہے، یہ میں تعلیم و تربیت کے شعبے کے حکام سے عرض کرنا چاہوں گا کہ آپ محتاط رہئے کہ روز مرہ کی معمولی اور سطحی تبدیلی بنیادی اصلاحات کی جگہ نہ لینے پائیں، ہم ان معمولی سی تبدیلیوں پر ہی اکتفا نہ کریں، اسی پر ہم خوش نہ ہو جائیں کہ اصلاحات انجام پا گئي ہیں۔ سطحی تبدیلیوں کی اہمیت نہیں ہے۔ مقصد بنیادی اصلاحات ہیں جن کے ذریعے اس عمارت کی بتدریج تعمیر نو ہو جائے، یہ اہم ہے۔
خوشی کا مقام ہے کہ حالات بھی سازگار ہیں۔ میں ملکی سطح پر جائزہ لیتا ہوں تو نظر آتا ہے کہ آج تعلیم و تربیت کے شعبے کے آپ عہدیداران کے حالات اس شعبے کے معیار کو بلند کرنے اور اس اہم اور حساس ادارے کی بنیادی اصلاحات کے لئے بہت مناسب ہیں۔ ایک وقت تھا جب ہمارے یہاں اسکولی طلبہ کی تعداد اٹھارہ ملین تھی، آج تیرہ ملین سے کم ہے، یہ ایک اچھا موقع ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ تعلیمی مراکز میں جگہ کی تنگی تھی اور بہت سے اسکول دو تین شفٹوں میں چلا کرتے تھے۔ آج بحمد اللہ وہ حالات نہیں ہیں۔ ملک کے بیشتر علاقوں میں اسکولوں کی حالت اچھی ہے۔ لوگوں میں دلچسپی بھی ہے جو آتے ہیں اور اس شعبے سے وابستہ ہوتے ہیں، یہ سلسلہ قائم رہنا چاہئے۔ اس طرح آج حالات سازگار ہیں بنیادی اصلاحات کے لئے۔ بحمد اللہ ملک میں امن و استحکام ہے۔ حکومتی عہدیداران بہت دلچسپی سے کام کر رہے ہیں۔ آج ایسا دور ہے کہ ہم تعلیم و تربیت کے شعبے کو معیار و مضمون کے اعتبار سے اور بنیادی ڈھانچے کے اعتبار سے ایک اساسی مقام تک پہنچا سکتے ہیں۔ میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ اس بنیادی تبدیلی میں محوری حیثیت کے مالک اساتذہ ہیں۔ اس میدان میں جو لوگ مرکزی مقام پر کھڑے ہیں وہ عزیز اساتذہ ہیں۔ میں پورے ملک کے اساتذہ کی خدمت میں سلام و تہنیت پیش کرتا ہوں اور میری دعا ہے کہ اللہ تعالی تمام اساتذہ کی مدد و تائید فرمائے۔
تعلیم و تربیت کے موضوع سے ہٹ کر بھی ایک نکتہ ہے جو ملک کے کلیدی مسائل کا جز ہے اور وہ اسلامی جمہوری نظام کے سلسلے میں دشمنوں کا رویہ ہے۔ گزشتہ 35 سال کے دوران عظیم عوامی شراکت کی ہیبت و جلالت ہمیشہ اسلامی جمہوریہ کے دشمنوں کو مرعوب کرتی رہی ہے۔ انھوں نے بڑی رجز خوانی کی، جہاں تک ممکن تھا کوششیں کرکے بھی دیکھ لیا، مگر ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام کی ہیبت ان پرہمیشہ طاری رہی۔ ہمیں اس ہیبت و جلالت کو قائم رکھنا چاہئے۔ یہ ہیبت اسی طرح محفوظ رہنی چاہئے۔ یہ زمینی سچائی بھی ہے۔ صرف خیالی ہیبت نہیں ہے۔ ہمارا ملک ایک بڑا ملک ہے۔ سات کروڑ سے زیادہ آبادی ہے۔ دنیا کے بہت سے خطوں کے مقابلے میں زیادہ پرانی تاریخ و ثقافت ہے۔ شجاعت اور عزم و ارادے کی مالک قوم ہے جو اپنی شناخت اور اپنے تشخص کا دفاع کرتی ہے۔ اس کا ایک نمونہ آٹھ سالہ مقدس دفاع میں نظر آیا۔ اس آٹھ سالہ مدت میں دنیا کی ساری طاقتیں، مشرق و مغرب کی قوتیں اور ان کے آلہ کار، ان سے وابستہ رجعت پسند حکومتیں سب نے مل کر ملت ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ سب ناکام رہے۔ اب اگر دنیا والوں کی نگاہوں میں ایسی قوم کی ہیبت ہے تو یہ فطری بات نہیں ہے؟! اس عظمت و جلالت کی حفاظت کی جانی چاہئے۔ ہمارا نظام ایسا نظام ہے کہ مختلف ملکوں کے سیاسی حکام نے اور ان افراد نے جنھیں حقائق کا علم ہے، ہم سے یہ بات کہی بھی ہے، بعض نے خود ہم سے یہ بات کہی اور بعض کا دل نہیں چاہا کہ ہم سے کہیں تو انھوں نے اپنے افراد کے درمیان یہ بات کہی جس کی اطلاع ہمیں ملی کہ ایران کے خلاف جو پابندیاں لگائی گئی ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران پر جو دباؤ ڈالا جا رہا ہے، اگر وہ کسی اور ملک کے خلاف ہوتا تو وہ ملک منہدم ہو چکا ہوتا، بکھر چکا ہوتا، مگر اسلامی جمہوریہ ایران کو دھچکا تک نہیں پہنچا! یہ کو‏ئی معمولی بات نہیں ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ البتہ عالمی تشہیراتی مشینری اپنے سامعین و قارئین کی نگاہوں کے سامنے ایک حجاب، ایک پردہ اور ایک طرح کا غبار ایجاد کئے ہوئے ہے اور بہت سے حقائق کو نگاہوں کے سامنے آنے سے روک دیتی ہے، مگر اس کے باوجود دنیا میں بہت سے لوگ ہیں، بہت سی قومیں ہیں اور خاص طور پر وہ جو ہم سے قریب ہیں، حقائق ان کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں رہتے۔ دنیا کے تمام سیاسی رہنما حقائق کو دیکھ رہے ہیں۔ آپ ان کی باتوں پر نہ جائيے! مغرب، یورپ امریکا اور دیگر خطوں کے سربراہان، سیاسی حکام اور مختلف اداروں کے ترجمان بسا اوقات بے سر پیر کی باتیں بھی کرتے ہیں، لیکن دل ہی دل میں وہ بھی ملت ایران کی اس عظمت کو، اس ہیبت و جلالت اور اس اقتدار اور اس لیاقت کو تسلیم کرتے ہیں۔ سب کچھ ان کی نظر کے سامنے ہے، لیکن بیان دیتے ہیں تو ان کا انداز کچھ اور ہوتا ہے۔
میں نے مذاکرات کے بارے میں اور ایٹمی مسائل وغیرہ کے بارے میں بارہا کہا ہے۔ بہت باتیں کہہ چکے ہیں، جو کچھ بیان کرنا تھا بیان کر چکے ہیں۔ لیکن سب توجہ رکھیں، خارجہ پالیسی سے متعلق حکام اور دیگر مختلف شعبوں کے حکام، اسی طرح معاشرے کی اہم شخصیات سب دھیان رکھیں کہ اگر کوئی قوم اپنے تشخص اور اپنی عظمت و جلالت کا اغیار کے مقابلے میں دفاع نہ کر سکے تو وہ یقینا ذلت اٹھائے گی۔ اس میں کوئی کلام ہی نہیں ہے۔ اپنے تشخص اور اپنی شناخت کی قدر کرنا چاہئے۔ دشمن دھمکیاں دیتا ہے۔ ابھی چند روز قبل امریکا کے دو سرکاری عہدیداروں نے فوجی حملے کی دھمکی دی (7)۔ ان عہدیداروں سے ہمیں کوئی مطلب نہیں ہے جن کے پاس کوئي اہم اور حساس عہدہ نہیں ہے۔ مگر میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ دھمکیوں کے سائے میں مذاکرات کا کیا مفہوم رہ جاتا ہے؟ ہم دھمکیوں کے سائے میں مذاکرات کریں! گویا مذاکرات کے دوران ایک تلوار ہمارے سر پر لٹکتی رہے! ملت ایران ایسی نہیں ہے۔ ملت ایران کو دھمکیوں کے سائے میں مذاکرات پسند نہیں ہیں۔ وہ کیوں دھمکیاں دیتے ہیں؟! اتنی بکواس کیوں کرتے ہیں؟! کہتے ہیں؛ اگر ایسا نہ ہوا، ویسا نہ ہوا تو ممکن ہے کہ ہم ایران پر حملہ کر دیں۔ پہلی بات تو یہ کہ یہ تمہاری حماقت ہے! دوسری بات یہ کہ سابق امریکی صدر کے زمانے میں، اس وقت بھی یہ لوگ دھمکیاں دیتے تھے، میں نے کہا تھا کہ 'مارو اور بھاگ لو' والا زمانہ ختم ہو چکا ہے (8)۔ اب ایسا نہیں ہے کہ آپ سوچیں کہ حملہ کرکے بھاگ نکلیں گے۔ جی نہیں۔ آپ کے پاؤں یہاں پھنس جائیں گے اور ہم تعاقب کریں گے۔ ملت ایران ہرگز کسی کو یہ اجازت نہیں دیگی کہ اس سے تعرض کرے، ہم پیچھا کریں گے۔ یہ بات سب مد نظر رکھیں۔ ہمارے مذاکرات کار بھی مد نظر رکھیں۔ جو ریڈ لائنیں اور اساسی خطوط معین کر دئے گئے ہیں، ہمیشہ ان کے مد نظر رہیں، جو یقینا ان کے مد نظر ہیں۔ یقینا ان کی نظر ان خطوط پر ہے اور وہ ہرگز انھیں عبور نہیں کریں گے۔ مگر یہ بھی برداشت نہیں کیا جائے گا کہ وہ بیٹھ کر مسلسل دھمکیاں دیتے رہیں۔ دھمکی کا کیا مطلب ہے؟ آپ کو مذاکرات کی احتیاج ہم سے کم نہیں ہیں۔ ہم بیشک چاہتے ہیں کہ پابندیاں ہٹا لی جائيں، لیکن اگر پابندیاں نہ ہٹائی گئیں تب بھی ہم دوسرے راستے سے اپنے امور چلا سکتے ہیں، یہ ثابت ہو چکا ہے۔ ایک دن میں نے یہ موضوع اٹھایا (9) اور آج بحمد اللہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ماہرین اقتصادیات، مختلف شعبوں کے حکام، ملکی معیشت کے امور سے تعلق رکھنے والے افراد سب مستقل یہی بیان دے رہے ہیں اور بار بار کہہ رہے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کہ ملک کے اقتصادی مسائل کے حل کا دارومدار ان پابندیوں کے خاتمے پر ہے اور ہماری اقتصادی مشکلات تبھی ختم ہوں گی جب ہمارے اوپر عائد پابندیاں ہٹ جائيں گی۔ ہماری اقتصادی مشکلات ہمارے عزم و ارادے سے حل ہوں گی، ہماری نیت و خواہش سے حل ہوں گي اور خود ہمارے ہاتھوں اور ہماری اپنی تدابیر کی مدد سے حل ہوں گی۔ پابندیاں لگی رہیں یا اٹھا لی جائیں۔ البتہ پابندیاں ہٹ جائیں تو یہ کام زیادہ آسان ہوگا، اگر پابندیاں لگي رہیں تو قدرے مشکل ہوگا، لیکن پھر بھی ممکن ہے۔ مذاکرات کے سلسلے میں ہماری پوزیشن ایسی ہے۔ لیکن امریکی حکومت کو ان مذاکرات کی واقعی شدید احتیاج ہے۔ یہ لوگ اپنی کارکردگی میں یہ اساسی اور کلیدی موضوع شامل اور پیش کر سکتے ہیں کہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کو مذاکرات کی میز پر لانے میں اور اپنی بات اس پر مسلط کرنے میں کامیاب ہو گئے (10)۔ انہیں اس چیز کی بڑی ضرورت ہے۔ فریق مقابل کو ان مذاکرات کی ضرورت ہم سے زیادہ ہے اور اگر زیادہ نہیں ہے تو کم بھی نہیں ہے۔ پھر کیوں دھمکیاں دیتے ہیں؟ جو مذاکرات دھمکیوں کے زیر اثر ہوں میں ان سے متفق نہیں ہوں۔ جائیں مذاکرات کریں، بات کریں، اتفاق رائے تک پہنچیں! اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اس شرط پر کہ بنیادی خطوط کو ملحوظ رکھیں۔ مگر کسی بھی صورت میں کوئی زبردستی برداشت نہ کریں، کسی دھونس میں نہ آئیں، تحقیر برداشت نہ کریں، دھمکی سے متاثر نہ ہوں۔
اب تو یہ لوگ دنیا میں بھی بے آبرو ہو چکے ہیں۔ آپ غور کیجئے! سعودی حکومت یمن کے مسئلے میں جو حرکت کر رہی ہے وہ کسی بھی اصول کے تحت اور کسی بھی طریقے سے توجیہ کے قابل نہیں ہے۔ کوئی اپنے جنگی طیارے دوسرے ملک میں بھیجے اس وجہ سے کہ آپ فلاں شخص کو صدر کیوں نہیں مانتے، فلاں شخص کو پسند کیوں نہیں کرتے؟! پھر عوام پر حملہ شروع کر دے، بنیادی تنصیبات کو نشانہ بنائے، جرائم کا ارتکاب کرے، بچوں اور عورتوں کا قتل عام کرے، ہر چیز پر حملہ کرے! اس کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا! امریکی حکام کا یہ حال ہے کہ اسی عظیم مجرمانہ اقدام کی اور اسی حرکت کی حمایت کر رہے ہیں جس کا کوئي جواز نہیں ہے۔ اس سے زیادہ بے آبروئی اور کیا ہو سکتی ہے؟ آج علاقے کی اقوام کی نگاہ میں امریکا کی کوئی عزت نہیں ہے۔ یہ حالت سب کی نگاہوں کے سامنے ہے۔ اس کے بعد بھی یہ لوگ صریحی طور پر کہتے ہیں کہ ہم حمایت کرتے ہیں (11)۔ انھیں شرم بھی نہیں آتی! اوپر سے ہم پر اعتراض کرتے ہیں کہ آپ کیوں مدد کر رہے ہیں؟ ہم طبی امداد بھیجنا چاہتے تھے، ہم بیماروں کے لئے دوائیں بھیجنا چاہتے تھے، ہم ہتھیار تو نہیں بھیج رہے تھے! انہیں ہمارے ہتھیاروں کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ یمن کی ساری چھاونیاں، یمنی فوج کے سارے مراکز انقلابی و مجاہد عوام اور تحریک انصار اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ انھیں ہمارے ہتھیاروں کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم ان کے لئے دوائیں بھیجنا چاہتے تھے۔ آپ نے آکر ایک قوم کے لئے دواؤں کی ترسیل پر پابندی لگا دی، اسے ایندھن سے محروم کر دیا اور یہ کہتے ہیں کہ کوئي ان عوام کی مدد نہ کرے! آپ نے ہلال احمر کو بھی خدمات انجام دینے کی اجازت نہیں دی۔ دوسری جانب یہ لوگ سعودیوں کو عسکری اطلاعات فراہم کر رہے ہیں، ہتھیار دے رہے ہیں، وسائل فراہم کر رہے ہیں، سیاسی طور پر حوصلہ افزائی بھی کر رہے ہیں، یہ لوگ بے آبرو ہو چکے ہیں۔ ملت ایران نے جو راستہ چنا ہے وہ متین و پروقار راستہ ہے، مستحکم اور نیک انجام تک پہنچانے والا راستہ ہے۔ توفیق خداوندی سے اور دشمنوں کے بغض و کینے کے باوجود یہ کارواں اپنی منزل پر پہنچے گا اور ملت ایران کامیاب و کامران ہوگی، دشمن دیکھیں گے کہ ملت ایران کے خلاف وہ اپنے شوم اہداف کی تکمیل میں ناکام ہو گئے ہیں۔
اللہ تعالی کی رحمتیں نازل ہوں ہمارے عزیز شہداء پر جنہوں نے جاں فشانی کی، ہمارے عظیم الشان قائد امام خمینی پر جنہوں نے ہمارے لئے یہ راستہ تعمیر کیا۔ اللہ کی رحمت نازل ہو آپ تمام اہل ایمان اور وفادار بھائیوں اور بہنوں پر جو اس انداز سے میدان عمل میں ڈٹے ہوئے ہیں۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

۱) قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل وزیر تعلیم و تربیت علی اصغر فانی نے ایک رپورٹ پیش کی۔
۲) اقبال‌ الاعمال، جلد ۲، صفحہ ۶۴۳
۳) ایضا
۴) منجملہ ملک کے اساتذہ اور علمی و ثقافتی شعبے کی شخصیات سے قائد انقلاب اسلامی کا مورخہ ۱۳۹۰/۲/۱۴ ہجری شمسی مطابق 4 مئی 2011 کا خطاب
۵) سوره‌ آل‌ عمران، آیت نمبر ۱۶۴ کا ایک حصہ «... ان کا تزکیہ کرے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے»
۶) ملک کے تعلیم و تربیت کے شعبے کی بنیادی اصلاحات کی کلی پالیسیوں کا نوٹیفکیشن مورخہ 30 اپریل 2013 کو جاری کیا گیا۔
۷) امریکا کے نائب صدر جو بائیڈن اور وزیر خارجہ جان کیری کے بیانوں کی جانب اشارہ جس میں انھوں نے ایران کے سلسلے میں سبھی آپشن میز پر موجود ہونے کی بات دہرائی تھی۔
۸) ملک کے اعلی عہدیداروں سے خطاب مورخہ 22 ستمبر 2007
۹) منجملہ ملک کے اعلی عہدیداروں سے 7 جولائی 2014 کا خطاب
۱۰) لوزان کا مشترکہ بیان جاری ہونے کے بعد امریکی صدر اوباما کے خطاب کی جانب اشارہ
۱۱) 26 مارچ 2015 کو امریکی وزارت خارجہ سے جاری ہونے والے بیان کی جانب اشارہ ہے جس میں امریکا نے یمن پر سعودی عرب کی جارحیت کی حمایت کا اعلان کیا۔