حضرت امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی رحلت کی ساتویں برسی، ایرانی عوام اور مسلمین عالم کے لئے انتہائی تلخ یاد کی تجدید کی تاریخ اور ایسا دن ہے جب ایرانی قوم اپنے رہبر کبیر حضرت امام ( خمینی رحمت اللہ علیہ) کے تئیں اپنے احساسات و جذبات کا اظہار کرتی ہے۔ یہ مجلس جیسا کہ احساس ہوتا ہے اور نظرآتا ہے، ہر سال پہلے سے زیادہ پرجوش، پرشکوہ طریقے سے اور زیادہ با مقصد انداز میں منعقد ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس قوم نے حضرت امام ( خمینی رحمۃ اللہ علیہ) اور انقلاب کے دشمنوں کی کوششوں کے برخلاف اپنے امام اور انقلاب کے راستے کو ترک نہیں کیا ہے اور دشمنوں کی آنکھیں یہ دیکھ کر بے نور ہوتی جا رہی ہیں کہ امام ( خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کامیاب ہیں۔
کامیابی دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک کامیابی وہ ہوتی ہے جو انسان خود دیکھتا ہے؛ جو حکومت کی تشکیل اور دشمنان انقلاب کی نابودی تھی اور امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے اس کو خود اپنی چشم مبارک سے دیکھا۔ ایک کامیابی جو اس کامیابی سے بھی زیادہ اہم اور زیادہ پائیدار ہے، فکر و راہ اور مدعا کی کامیابی ہے۔ یہ وہی کامیابی ہے جو انبیائے الہی کو اپنی زندگی میں تمام سختیاں برداشت کرنے کے بعد حاصل ہوئی۔ یہ ایک مفکر اور عظیم انسان کی فکر اور نظریئے کی کامیابی ہے۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کو یہ کامیابی بھی حاصل ہوئی۔ ہر سال آپ کی برسی کی یہ پرشکوہ مجالس اور آپ کی یاد منانے کا مطلب یہی ہے۔
اپنے عزیز امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی تحریک کے بارے میں ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں جس میں ایک درس پایا جاتا ہے۔ گزارش ہے کہ صاحبان فکر و نظر، مسائل پر غور و فکر کرنے والے اور سیاسی بصیرت رکھنے والے حضرات، اس مسئلے پر غور کریں اور اس پر توجہ دیں۔
آپ جانتے ہیں کہ حضرت امام خمینی (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی تحریک، امام حسین علیہ الصلاۃ و السلام کی تحریک سے بہت زیادہ مشابہت رکھتی ہے اور انقلاب حسینی کو ہی اس میں نمونہ عمل بنایا گیا ہے۔ اگرچہ وہ تحریک، یعنی امام حسین علیہ الصلاۃ و السلام کی تحریک اپنے اصحاب و انصار کے ساتھ آپ کی شہادت پر منتج ہوئی اور یہ تحریک امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی کامیابی پر؛ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ ایک ہی طرح کی فکر ایک ہی بات اور ایک ہی انداز دونوں تحریکوں میں پایا جاتا ہے۔ وقت کے تقاضے الگ الگ تھا؛ اس لئے وہ تحریک، امام حسین علیہ الصلاۃ و السلام کی شہادت پر اور یہ تحریک، امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی حکومت پر منتج ہوئی۔ یہ بالکل واضح اور روشن ہے۔ دونوں تحریکوں میں جو خصوصیات نمایاں طور پر پائي جاتی ہیں، ان میں سے ایک استقامت ہے۔ لفظ استقامت اور اس کے معنی سے، سرسری طور پر عبور نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ یہ بہت اہم ہے۔
امام حسین علیہ الصلاۃ و السلام کے تعلق سے استقامت اس شکل میں تھی کہ وہ (یزیدی) حکومت قائم ہوئی۔ ابھی اس نے اپنی سیاہ کاریاں شروع نہیں کی تھیں۔ کچھ دنوں کے بعد امام حسین علیہ الصلاۃ و السلام نے فیصلہ کیا کہ یزید کی ظالمانہ حکومت کے سامنے نہیں جھکیں گے۔ مجاہدت یہاں سے شروع ہوئی۔ اس فاسد اور بدعنوان حکومت کے سامنے سر نہیں جھکانا ہے، جس نے دین کے راستے کو بالکل بد ل دیا تھا۔ امام علیہ السلام مدینے سے اس نیت کے ساتھ نکلے تھے۔ بعد میں جب مکے میں آپ نے محسوس کیا کہ نصرت کرنے والے ہیں تو آپ نے قیام کا ارادہ کیا۔ ورنہ بنیاد اس حکومت کی مخالفت اور اس کے خلاف قیام تھا، جو حسینی اصولوں کے مطابق، قابل قبول نہیں تھی۔
اس تحریک میں امام حسین علیہ الصلاۃ و السلام کو مشکلات کا سامنا ہوا، جو یکے بعد دیگرے رونما ہوئیں۔ آپ کو مکے سے نکلنا پڑا، آپ کربلا میں آئے اور پھر وہ دباؤ جو کربلا میں حضرت امام حسین علیہ الصلاۃ و السلام کی ذات گرامی پر پڑا، جملہ مشکلات میں سے تھا۔ جو عوامل بڑے کاموں میں انسان کا راستہ روک دیتے ہیں ان میں سے ایک عذر شرعی ہے۔ انسان کو واجب اور فریضے پر عمل کرنا ہوتا ہے؛ لیکن جب اس کی انجام دہی کسی بڑی مشکل کا سبب بن جائے، فرض کریں کہ ( یہ مسئلہ در پیش ہو جائے کہ) بہت زیادہ لوگ قتل ہو جائيں گے، تو انسان سوچتا ہے کہ اب اس کام کی انجام دہی اس کے لئے ضروری نہیں ہے۔ آپ دیکھیں کہ امام حسین علیہ الصلاۃ و السلام کے سامنے اس طرح کے شرعی عذر کتنے تھے جن میں ہر ایک، ہر ظاہر بیں انسان کو منصرف کر سکتا تھا! یکے بعد دیگرے، کتنی مشکلات درپیش ہوئیں۔ سب سے پہلے اہل کوفہ کا پلٹ جانا اور پھر حضرت مسلم کی شہادت کا واقعہ پیش آیا۔ فرض کریں اس منزل پر امام حسین علیہ الصلاۃ و السلام فرماتے کہ اب عذر شرعی آ گیا، فریضہ ساقط ہو گیا۔ ہم چاہتے تھے کہ یزید کی بیعت نہ کریں، لیکن بظاہر ان حالات میں ممکن نہیں ہے۔ لوگ بھی یہ صورتحال برداشت نہیں کر سکتے۔ بنابریں فریضہ ساقط ہو گیا۔ لہذا مجبوری اور ناچاری میں بیعت کئے لیتے ہیں۔
دوسرا مرحلہ واقعہ کربلا اور عاشورا کا ہے۔ اس منزل میں امام حسین علیہ السلام اس انسان کی طرح جو بڑے حوادث کو اس قسم کے استدلال سے ٹالنا چاہتا ہے، کہہ سکتے تھے کہ اس جلتے ہوئے صحرا میں عورتوں اور بچوں میں تاب باقی نہیں رہی، لہذا فریضہ ساقط ہے۔ یعنی جھک جاتے اور جو بات اب تک قبول نہیں کی تھی اب قبول کر لیتے۔ یا جب عاشور کے دن دشمن نے حملہ شروع کر دیا اور اصحاب حسینی کی ایک تعداد شہید ہو گئی، یعنی مشکلات بڑھ گئیں، اس وقت امام حسین علیہ الصلاۃ و السلام کہہ سکتے تھے کہ اب معلوم ہو گیا کہ مزید آگے نہیں بڑھا جا سکتا، مجاہدت نہیں کی جا سکتی۔ اس وقت پیچھے ہٹ جاتے۔ یا جب معلوم ہو گیا کہ امام حسین علیہ السلام شہید ہو جائیں گے اور آپ کی شہادت کے بعد آل اللہ، امیر المومنین اور رسول اسلام علیہما الصلاۃ و السلام کے اہل حرم اس بیابان میں، نامحرموں کے درمیان اکیلے رہ جائيں گے۔ اب ناموس کا مسئلہ پیش آ جاتا ہے۔ ایک غیرتمند انسان کے عنوان سے کہہ سکتے تھے کہ بس اب فریضہ ساقط ہو گیا ہے۔ مستورات کا کیا ہوگا؟ اگر اس راہ پر آگے بڑھیں اور قتل ہو جائيں تو اہل بیت رسول، امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام کی بیٹیاں، دنیا کی پاکيزہ ترین مستورات، دشمنوں میں، بے حیا و بے غیرت مردوں میں جو ناموس اور شرافت سے نابلد ہیں، تنہا رہ جائيں گی۔ لہذا فریضہ ساقط ہے۔
بھائیو اور بہنو! توجہ فرمائیں! واقعہ کربلا پر اس نقطہ نگاہ سے توجہ فرمائیں کہ اگر امام حسین علیہ السلام چاہتے تو بہت سخت مصیبتوں اور تلخ واقعات جیسے شہادت علی اصغر، خواتین کی اسیری، بچوں کی تشنگی، سارے نوجوانوں کا قتل کر دیا جانا اور واقعہ کربلا میں اس قسم کے بہت سے سانحات ہیں جن پر شریعت کے پابند ایک (عام ) فرد کی حیثیت سے توجہ دے کر اپنے فریضے اور عظمت کو فراموش کر سکتے تھے، قدم بہ قدم پیچھے ہٹ سکتے تھے، اور کہہ سکتے تھے کہ اب ہمارا کوئی فریضہ نہیں ہے، اب یزید کی بیعت کئے لیتے ہیں۔ اور چارہ کیا ہے؟ الضرورات تبیح المحذورات لیکن امام حسین علیہ السلام نے یہ نہیں کیا۔ یہ آپ کی استقامت کو ظاہر کرتا ہے۔ استقامت کا یہی مطلب ہے۔ استقامت کا مطلب ہر جگہ مشکلات کو برداشت کر لینا نہیں ہے۔ کسی بھی عظیم انسان کے لئے مشکلات کو برداشت کر لینا ان مسائل سے زیادہ آسان ہے جنہیں سادہ لوحی، رائج طریقوں اور شرعی اصولوں کے مطابق خلاف مصلحت سمجھا جا سکتا ہو۔ ان مسائل کو تحمل کرنا تمام مشکلات کو برداشت کرنے سے زیادہ مشکل ہے۔
ممکن ہے کسی سے کہا جائے کہ اس راستے پر نہ جاؤ ایذاؤں کا سامنا ہو سکتا ہے۔ مضبوط اور قوی انسان کہے گا تکلیف اور ایذاؤں کا سامنا ہوگا، کوئی مضائقہ نہیں ہے، ہونے دو، میں اس راستے پر جاؤں گا۔ یا کہا جائے کہ اس راستے پر نہ جاؤ، قتل کر دیئے جاؤگے عظیم اور بڑا انسان کہے گا؛ قتل ہوجاؤں گا، ہوجاؤں، کیا فرق پڑتا ہے؟ لیکن ایک موقع ایسا ہے جہاں ایذائیں پہنچنے، قتل ہو جانے اور محرومیت کا سامنا ہونے کی بات نہیں ہے۔ کہتے ہیں نہ جاؤ، ممکن ہے کہ تمھارے اس اقدام کی وجہ سے کچھ لوگ قتل کر دیئے جائيں۔ اب یہاں دوسروں کی جان کا معاملہ ہے۔ کہا جائے کہ نہ جاؤ؛ ممکن ہے کہ تمھارے اس راستے پر آگے بڑھنے کی وجہ سے، عورتوں، مردوں اور بچوں پر مصیبتیں آ جائيں۔ اس منزل میں ان لوگوں کے قدم بھی لڑکھڑا جائيں گے جن کے لئے قتل ہو جانا اہمیت نہیں رکھتا۔ اس منزل میں صرف اس کے قدم نہیں لڑکھڑائيں گے جس کی بصیرت اعلی درجے کی ہو اور وہ سمجھتا ہو کہ کتنا عظیم کام انجام دے رہا ہے۔ دوسرے اس کا نفس بہت قوی اور مضبوط ہو، نفس کمزور نہ ہو۔ کربلا میں امام حسین علیہ السلام نے ان دونوں خصوصیات کا ثبوت دیا۔ بنابریں واقعہ کربلا افق تاریخ پر خورشید تاباں کی طرح ظاہر ہوا اور یہ خورشید تاباں آج بھی موجود ہے اور تا ابد اس کی تابانی باقی رہے گی۔
میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس خصوصیت میں ہمارے امام ( خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے بھی امام حسین علیہ السلام کی پیروی کی ہے۔ بنابریں امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی اس خصوصیت نے انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ دوسرے آپ نے اپنے جانے کے بعد بھی کامیابی کی بقا کا انتظام کر دیا؛ آپ کی فکر کی کامیابی بھی اور راستے کی کامیابی بھی جس کا مظہر یہ عظیم اجتماع ہے اور عالمی سطح پر اس کا وسیع تر مظہر اسلام اور امام ( خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی راہ کی جانب لوگوں کا آنا ہے۔ یہ کامیابیاں آپ کی استقامت کی وجہ سے حاصل ہوئی ہیں۔
ایک دن امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) سے کہا گیا کہ اگر آپ نے یہ تحریک جاری رکھی تو حوزہ علمیہ قم ( قم کا دینی تعلیم کا مرکز) بند کر دیں گے۔ یہاں بات جان کی نہیں تھی کہ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کہتے کہ میری جان لے لیں، اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ بہت سے لوگ اپنی جان دینے کے لئے تیار ہو جائيں گے؛ لیکن جب یہ کہیں کہ آپ کا یہ اقدام حوزہ علمیہ قم کے بند ہو جانے کا سبب بنے گا۔ تو ہر ایک کے قدم لڑکھڑا جائيں گے۔ لیکن امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے قدم نہیں لڑکھڑائے؛ آپ نے اپنا راستہ نہیں بدلا اسی پر آگے بڑھتے رہے۔
ایک دن امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) سے کہا گیا کہ اگر اس راستے پر بڑھتے رہے تو ممکن ہے کہ سارے علما اور مراجع تقلید کو آپ کے خلاف ورغلائيں اور انھیں آپ کے خلاف کھڑا دیں۔ یعنی عالم اسلام میں اختلاف پیدا ہو جائے۔ اس منزل میں بہت سوں کے قدم لڑکھڑا جائيں گے، لیکن امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے قدم نہیں لڑکھڑائے اور آپ نے اپنا راستہ نہیں چھوڑا۔ یہاں تک کہ انقلاب کامیاب ہو گیا۔ بارہا امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) سے کہا گیا کہ آپ ایرانی قوم کو پہلوی حکومت کے مقابلے پر آنے کی دعوت دیتے ہیں، جو خون بہایا جا رہا ہے اس کا جواب کون دے گا؟ یعنی خون کو، نوجوانوں کے خون کو امام (خمینی) رضوان اللہ تعالی علیہ کے سامنے قرار دیا۔ ایک بڑے عالم دین نے انیس سو ترسٹھ یا چونسٹھ میں خود مجھ سے یہ بات کہی کہ پندرہ خرداد (پانچ جون) کو انہوں نے ( امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے) یہ اقدام کیا، ایسے بہت سے لوگ مارے گئے جو ہمارے بہترین نوجوان تھے۔ اس کا جواب کون دے گا؟ اس طرح کا طرز فکر تھا۔ یہ طرز فکر دباؤ پیدا کرتا تھا، ہر ایک کو راستے سے ہٹا سکتے تھے۔ لیکن امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے استقامت کی۔ آپ کی روح اور بصیرت کی عظمت یہاں ظاہر ہوتی ہے۔
بہرحال؛ یہ سب ظالم شاہی حکومت کے خلاف مجاہدت کے تعلق سے تھا۔ ہمارے لئے جو درس ہے وہ انقلاب کی کامیابی کے بعد کے دور سے تعلق رکھتا ہے۔ سبھی اس نکتے پر توجہ دیں، جیسا کہ میں نے عرض کیا، سیاسی بینش اور فکر رکھنے والے مبصرین اور تحلیل و تجزیہ کرنے والے اس پر کام کریں۔ یہ بہت اہم ہے۔
اسلامی جمہوریہ تشکیل دے دی گئی۔ اس سے پہلے ظالم شاہی حکومت کے خلاف جدوجہد تھی۔ جب اسلامی جمہوریہ تشکیل دے دی گئی اور اسلامی جمہوری نظام قائم ہو گیا تو جدوجہد کا دائرہ وسیع تر ہو گیا۔ جدوجہد کی شکل بدل گئی لیکن دائرہ وسیع تر ہو گیا۔ عالمی دشمنوں کی جانب سے اسلامی جمہوری نظام کے خلاف تحریک شروع ہو گئی۔ عالمی دشمن کون ہیں؟ عالمی دشمن وہ ہیں جنہیں ہم عالمی سامراج کہتے ہیں۔ عالمی سامراج میں، دنیا میں زور زبرستی کرنے والی سبھی خود سر طاقتیں اور اقوام عالم پر خود کو مسلط کرنے والی بے حیا اور غنڈہ صفت قوتیں شامل ہیں۔ یہ عالمی سامراج ہے۔ اسلامی جمہوریہ کے خلاف مہم کیوں چلا رہا ہے؟ اس سوال کا جواب طولانی ہے اور بارہا بیان کیا جا چکا ہے۔ مختصر طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کے مفادات خطرے میں پڑ گئے ہیں۔ ان کی توسیع پسندی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ مسلم ملکوں کے درمیان اسلامی جمہوریہ ایران کی موجود گی نے ان ملکوں پر ان کے تسلط کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ بہرحال اسلامی جمہوری نظام کے خلاف سخت دشمنی شروع کر دی گئی۔ مخالفت کی اس مہم میں ہر قدم پر، اگر امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی جگہ پر کوئی کمزور انسان ہوتا تو ان رکاٹوں کے سبب تحریک روک دیتا اور یہ عذر پیش کرتا کہ اتنے بڑے سامراج کے خلاف جدوجہد نہیں کی جا سکتی۔ کوئی چارہ نہیں ہے؛ لہذا عقب نشینی کرتے ہیں۔ لیکن امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے عقب نشینی نہیں کی۔
دو تین واقعات پر توجہ فرمائيں تو اس کی اہمیت واضح ہو جائے گی۔ ایک؛ ایران پر ہمہ گیر سیاسی حملہ کیا جاتا ہے۔ سبھی تشہیراتی اداروں نے مل کے گزشتہ چند سال میں ہم پر سیاسی حملے کئے۔ ان کا مقصد ہمیں مفلوج کر دینا تھا۔ بعض اوقات سیاسی حملہ ملکوں کو عاجز کر دیتا ہے۔ آج جب کہ ریڈیو اور ٹیلیویژن کے پروپیگنڈے پوری دنیا پر چھائے ہوئے ہیں،عام طور پر حکومتوں کو سیاسی حملوں سے زیادہ خوفزدہ کرتے ہیں؛ اس لئے کہ یہ حملہ اقوام کے افکار پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اسلامی جمہوری نظام کے خلاف ہر طرف سے یہ حملہ شروع کیا۔ لیکن ہماری قوم محکم اور صاحب بصیرت ہے، اس لئے اپنی جگہ سے نہیں ہلی۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے یہ نہیں کہا کہ اب جبکہ سب ہمارے خلاف ہیں تو پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ یہ نہیں کہا کہ اکیلے امریکا کے خلاف جدوجہد کی جا سکتی ہے، لیکن امریکا اور سوویت یونین، دونوں سے ایک ساتھ کیسے جدوجہد کر سکتے ہیں؟ اس لئے کہ اس زمانے میں دنیا دو بلاکوں میں بٹی ہوئی تھی اور دونوں بلاک ہمارے خلاف متحد ہو گئے تھے۔ ہمارے خلاف ان کے اندر اتفاق رائے اور یکجہتی تھی۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے استقامت سے کام لیا؛ پیچھے نہیں ہٹے۔ اپنی بات، اپنے نعرے اور اپنے راستے کو ترک نہیں کیا۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی زبان پر ان باتوں میں سے ایک لفظ بھی نہیں آیا جو دشمن چاہتے تھے کہ آپ کی زبان پر آئیں۔ یہ 'استقامت حسینی' ہے۔ آج کے معیار اور قالب میں امام حسین علیہ السلام کی استقامت و پائیداری ہے۔ یا جب مسلط کردہ جنگ شروع ہوئی۔ آپ سوچیں کہ وہ ملک جو ظالم شاہی حکومت کے دور میں برباد ہو چکا ہے، اس کی تعمیر نو اور اتنے کام کی ضرورت ہے، ناگہاں دشمن اس پر حملہ کر دیتا ہے اور جو کچھ باقی بچا ہے اس کو بھی ختم کر رہا ہے۔ ریلوے لائن اڑا دیتا ہے، تیل صاف کرنے کی ریفائنریاں برباد کر دیتا ہے، تیل کی برآمدات کا عمل روک دیتا ہے، فولاد کے کارخانوں کو برباد کر دیتا ہے۔ اس منزل میں جو بھی ہو اس حملے پر گھٹنے ٹیک دے گا۔ حملہ آور صرف عراقی حکومت نہیں تھی۔ سب کو معلوم تھا کہ عراقی حکومت کے ساتھ، سوویت یونین بھی ہے، فرانس بھی ہے، نیٹو بھی ہے، امریکی ماہرین بھی ہیں اور سبھی ہیں۔ اگر امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) ارادے کے کمزور ہوتے تو ممکن تھا کہ اس مرحلے میں کہتے کہ اب فریضہ ہم سے ساقط ہو گیا ہے۔ یہ چاہتے ہیں کہ ہم اسلامی قوانین پر زیادہ اصرار نہ کریں؛ بہت اچھا، نہیں کریں گے! یہ چاہتے ہیں کہ ہم اسرائیل کے خلاف جدوجہد نہ کریں، بہت اچھا نہیں کریں گے۔ دباؤ بہت زیادہ ہے، کیا کریں؟ لیکن امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے یہ نہیں کہا بلکہ استقامت کی۔ اس کے بعد جب آپ نے قرارداد قبول کی تو یہ دباؤ کی وجہ سے نہیں تھا۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے قرار داد مشکلات کی اس فہرست کی وجہ سے قبول کی تھی جو اس وقت کے اقتصادی امور کے ذمہ داروں نے آپ کے سامنے پیش کی تھی اور ثابت کیا تھا کہ ملک میں توانائي نہیں ہے، اتنے بھاری اخراجات کی جںگ اب نہیں چلا سکتا۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) مجبور ہو گئے اور آپ نے قرار داد منظور کر لی۔ یہ قرارداد ڈر سے قبول نہیں کی گئی تھی۔ دشمن کی یلغار کی وجہ سے قبول نہیں کی گئی تھی۔ امریکا کی دھمکی کی وجہ سے قبول نہیں کی گئی تھی۔ اس وجہ سے قبول نہیں کی گئی تھی کہ ممکن ہے کہ امریکا جنگ میں مداخلت کرے۔ اس لئے کہ امریکا اس سے پہلے سے ہی جنگ میں مداخلت کر رہا تھا۔ اگر پوری دنیا اس جںگ میں مداخلت کرتی تب بھی امام (خمینی رضوان اللہ علیہ) اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے والے نہیں تھے! یہ ایک داخلی مسئلہ تھا۔ مسئلہ کچھ اور تھا۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد امام رضوان اللہ تعالی علیہ کی دس سال کی زندگی میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں آیا کہ دشمن کی دھمکیوں کی سختی کی وجہ سے، چاہے وہ کتنی ہی وسیع کیوں نہ ہوں، امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) تردد میں مبتلا ہوتے۔ یہ وہی جذبہ حسینی تھا۔
جںگ میں جانوں کا زیاں ہوتا ہے۔ ایک انسان کی جان بھی امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے لئے بہت عزیز تھی۔ آپ بعض اوقات انسانوں کی تکالیف کو محسوس کرکے آنسو بہاتے تھے یا آپ کی آنکھوں میں آنسو جمع ہو جاتے تھے۔ ہم نے بارہا امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی اس حالت کا مشاہدہ کیا ہے۔ آپ بہت مہربان اور رحم دل انسان تھے۔ آپ کا قلب محبت اور انسانیت سے سرشار تھا۔ لیکن محبت وعطوفت سے سرشار یہی قلب، شہروں پر بمباری پر نہ لرزا اور آپ کے پیروں میں لغزش نہیں آئی۔ انقلاب کے سبھی دشمنوں نے اس دس سال میں سمجھ لیا تھا کہ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کو ڈرایا نہیں جا سکتا۔ یہ بہت بڑی نعمت تھی کہ دشمن یہ سمجھ رہے تھے کہ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) جیسی ہستی کو ڈرا دھمکا کے میدان سے باہر نہیں کیا جا سکتا۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے اپنی درخشاں شخصیت اور منش سے پوری دنیا پر ثابت کر دیا تھا کہ اس ہستی کو میدان سے باہر نہیں کیا جا سکتا۔ دھمکیوں سے، دباؤ سے اور دھمکیوں پر عمل کرکے، کسی بھی طرح آپ کو آپ کے راستے سے منصرف نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا وہ انقلاب کو تحمل کرنے پر مجبور ہو گئے۔
ہماری بحث کا ماحصل دو جملے ہے۔ البتہ یہ ماحصل بحث طلب ہے اور اس کو وسعت دی جا سکتی ہے۔ اول یہ کہ تحریک عاشورا کا واضح اور روشن پہلو بلکہ راہ تحریک عاشورا، استقامت امام حسین علیہ السلام ہے۔ دوسرے یہ کہ ہمارے عظیم امام رضوان اللہ تعالی علیہ نے اپنی منش اپنی زندگی اور اپنی تحریک میں اسی راہ حسینی کا انتخاب کیا اور اسی بنا پر اسلامی جمہوریہ کی بقا کو یقینی بنا سکے۔ اسی بنا پر دشمن آپ کو دباؤ اور دھمکی کے ذریعے منصرف نہ کر سکے۔ اس لئے کہ دشمن پر آپ نے ثابت کر دیا کہ دباؤ کا آپ پر کوئی اثر نہیں ہے۔ دھمکی بے اثر ہے۔ حملہ بے اثر ہے۔ یہ تحریک اور یہ رہبر ایسی تحریک اور ایسی ہستی نہیں ہے کہ ان باتوں سے اپنے راستے سے پلٹ جائے۔ یہ دو جملے اس بحث کا ماحصل ہیں جو میں نے آپ کے سامنے پیش کی ہے۔
اس سے نتیجہ اخد کیا جا سکتا ہے! ہم اپنے عزیز امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے پیرو ہیں، آپ عزیزوں سے، عزیز ایرانی قوم سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے ابتدائے انقلاب سے لیکر آج تک سترہ سال میں دشمنوں کی تمام تر دھمکیوں اور دباؤ کے باوجود روز بروز زیادہ پیشرفت کی ہے۔ کوئی بھی اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ ملک کے مختلف شعبوں میں خدمت کرنے والے ہاتھوں اور توانا بازوؤں نے سترہ سال میں ملک کو آگے بڑھایا ہے۔ یہ ملک وہ ایران نہیں ہے جس میں ظالم شاہی حکومت کے دور میں اتنی بے سروسامانی تھی، محرومیت تھی اور امتیازی رویہ عام تھا۔ اس ملک میں، گزشتہ سترہ سال میں اتنا کام ہوا ہے جو اس فاسد حکومت کی پوری عمر میں انجام نہیں پایا تھا۔ یہ پہلا نکتہ۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ یہ ترقی و پیشرفت ایسی حالت میں حاصل ہوئی ہے کہ ہمارے دشمن یعنی امریکا اور سیاسی و اقتصادی مسائل میں امریکی اتحادیوں نے مستقل طور پر ہمیں دھمکیاں دی ہیں۔ مستقل طور پر ہم سے کہا ہے کہ اقتصادی ناکہ بندی کر دی جائےگی۔ ہمیشہ کہا ہے کہ بھوک سے مر جاؤگے۔ مستقل کہا ہے کہ اس ملک میں تعمیر و ترقی کی راہیں مسدود کر دی جائيں گی۔ اوراسی طرح کی دسیوں دیگر دھمکیاں دی گئیں۔ الحمد للہ یہ تمام ترقی و پیشرفت جو حاصل ہوئی ہے، ان کی دھمکیوں، دشمنیوں اور دباؤ کے باوجود حاصل ہوئی ہے۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ میرے عزیزو! میرے بھائیو اور بہنو! عظیم ایرانی قوم! سب جان لیں کہ آج سامراج اور امریکا کا اہم ترین ہدف یہ ہے کہ انقلاب، اسلامی جمہوریہ اور ایرانی قوم کو اپنے موقف سے پلٹ جانے پر مجبور کرے۔ اعلان کر دے کہ اپنی بات سے اور اپنے امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی بات سے پلٹ گئی ہے۔ ان کی تمام کوششیں اسی پر مرکوز ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ دیکھ رہے ہیں کہ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے پیغام نے مسلم اقوام کو بیدار کر دیا ہے۔ دنیا کی مختلف اقوام بالخصوص مسلم اقوام کو دیکھیں! دیکھیں کہ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے پیغام سے کس درجہ متاثر ہیں؟! سامراج نے سمجھ لیا ہے کہ ان اقوام کو صحیح راستے سے ہٹانے اور آگے بڑھنے سے روکنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ایسا کام کیا جائے کہ یہ اقوام دیکھ لیں کہ ایران اسلامی اور امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کا ایران اپنے راستے سے پلٹ گیا ہے، تا کہ سب مایوس ہوکر اپنے راستے سے پلٹ جائيں۔ سامراج نے اس کو سمجھ لیا ہے اور اس کے لئے پوری کوشش بھی کر رہا ہے۔ آج دنیا میں ہر طرف سے اسلامی جمہوریہ کی حکومت پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ اسرائیل کے مسئلے میں پیچھے ہٹ جائے، اسلامی نعرے لگانے سے دستبردار ہو جائے اور اسلام اور قران کی اتنی بات نہ کرے جو تمام اسلامی اقوام کا نقطہ اشتراک ہے۔ تمام دباؤ اس لئے ہے۔
میں عرض کرتا ہوں کہ ایرانی قوم اگر چاہتی ہے کہ اپنی عزت و پیشرفت کو جاری رکھے، جس طرح الحمد للہ ان چند برسوں میں، اسلامی جمہوری حکومت میں خدمت کرنے والے توانا بازوؤں کی برکت سے مختلف شعبوں میں کام کئے ہیں اور پیشرفت حاصل کی ہے، ترقی، تعمیر اور زندگی کے رفاہ کے راستے پر گامزن رہنا اور نتیجے تک پہنچنا چاہتی ہے تو اس کو دشمنوں اور سامراج کے مقابلے میں استقامت سے کام لینا ہوگا۔ ایرانی قوم نے ان چند برسوں میں عظیم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ لہذا اس کا فریضہ ہے کہ ان کامیابیوں کو محفوظ رکھے۔ قوم بالخصوص اسلامی جمہوریہ کے عہدیداران کا فریضہ ہے کہ عاقلانہ، خرد مندانہ اور حکیمانہ کاموں کے ذریعے، عوام کی ان کامیابیوں کو برباد ہونے سے بچائيں۔ چاہے وہ برکات ہوں جو اس انقلاب کے ذریعے قوم کی ملی ہیں، جیسے؛ عوامی حکومت، عوامی صدر، اور عوام کی نمائندگی کرنے والے اراکین پارلیمنٹ وغیرہ اور چاہے وہ برکات ہوں جو انقلاب سے تعلق رکھتی ہیں لیکن بالواسطہ طور پر اس قوم کو حاصل ہوئی ہیں، جیسے تعمیرات کی تحریک ہے، جو انقلاب کی دین اور انقلاب کا نتیجہ ہے، جو انقلابیوں کے ذریعے، حکومت کے اندر اور مختلف شعبوں میں چلائي گئی ہے۔ ایرانی قوم اور حکام کو حکیمانہ اور خردمندانہ انداز میں ان برکات کی حفاظت کرنی چاہئے۔
ظاہر ہے کہ ان برکات کی حفاظت اور مزید برکات کے حصول کا راستہ یہ ہے کہ ایرانی قوم اور حکام اس راستے پر باقی رہیں جو ہمارے امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے اپنے عمل سے ہمارے لئے معین کیا ہے؛ یعنی دشمنوں کے مقابلے میں استقامت و پائیداری، اس ملک کی سرحدوں کے باہر سے اس قوم کے خلاف جو باتیں کی جارہی ہیں ان کا مقابلہ کریں اور اس راستے پر قائم رہیں۔ یہ بات بار بار کہی جاتی ہے کہ راہ امام سے مراد کیا ہے؟ اگر ہم کہیں کہ راہ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) انقلاب اور اسلام ہے تو یہ کلی بات ہے۔ ظاہر ہے کہ راہ امام انقلاب اور اسلام ہے۔ کوئی بھی اسلام اور انقلاب کا مخالف نہیں ہے۔ وہ عامل جو بابائے انقلاب اور بانی اسلامی جمہوریہ امام خمینی (رحمت اللہ علیہ) کے مقصود کو پورا کرے، استقامت ہے جو آپ نے اپنے عمل سے ثابت کی ہے۔ آپ دشمنوں کے مقابلے میں پیچھے نہیں ہٹے؛ دشمن سے نہ ڈرے اور دشمن کی دھمکیاں آپ کو متزلزل نہ کر سکیں۔ کوئی بھی امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) پر یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ جو کام آپ نے کیا ہے، وہ صحیح تدبیر کے خلاف تھا۔ دنیا کے سبھی صاحبان عقل اگر غور کریں تو سمجھیں گے اور اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ صحیح راستہ وہی ہے جس پر آپ چلے؛ یہ راستہ خود آپ کے اہداف کا راستہ ہے۔ جس کا بھی ہدف وہی ہو، اس کا راستہ وہی ہوگا جس پر آپ چلے۔ یہ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی ساتویں برسی پر میری گزارش ہے۔
ایرانی قوم جان لے کہ اگر اس کے رہبر امام خمینی استقامت سے کا نہ لیتے تو آج عظیم مملکت ایران کی سرحدیں (محفوظ) نہ ہوتیں۔ دشمن ان سرحدوں کو توڑ دیتا اور جارحین کے قدم اس ملک میں جم جاتے اور ایرانی قوم کو دائمی شکست کا سامنا ہوتا۔ اس ہستی کی استقامت نے یہ نہیں ہونے دیا۔ اس کی ثابت قدمی نے یہ نہیں ہونے دیا۔ آج بھی اگر آپ چاہتے ہیں کہ ایران با عزت رہے، ایران سربلند رہے، ہمارے عظیم امام (خمینی) کے اہداف، جو وہی اسلام، انقلاب اور ایران کی اسلامی قوم کے اہداف ہیں، مکمل ہوں تو اس کا راستہ دشمن کے مقابلے میں استقامت ہے۔ آج الحمد للہ، ملک کے حکام پہاڑ کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں۔ آج اسلامی جمہوری حکومت، اراکین پارلیمنٹ، عدلیہ، مسلح افواج اور عوام فولادی دیوار کی طرح دشمنوں کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے ہیں اور ان کی دھمکیوں کا ان پر کوئی اثر نہیں ہے۔ یہی عزت کا راستہ ہے اور یہی سلامتی کا راستہ ہے۔
امریکی، دھمکیوں کے ذریعے اپنی بات منوانا چاہتے ہیں؛ لیکن ناکام رہیں گے۔ مداخلت سے کچھ نہیں کرسکیں گے۔ ایرانی قوم فلسطینی قوم کے حق کو نظرانداز نہیں کر سکتی۔ کہتے ہیں: آپ فلسطینی قوم کو نظرانداز کر دیں اور اس قوم کے خلاف مسلط کردہ ساز باز قبول کر لیں! ظاہر ہے کہ ایرانی قوم اس بات کو پوری قوت اور طاقت سے مسترد کرتی ہے اور جو بھی اس راستے پر چلے اس کو خائن سمجھتی ہے۔
آپ جان لیں کہ الحمد للہ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کا پیغام اور ہماری عظیم اور انقلابی قوم کا پیغام پوری دنیا میں پہنچ گیا ہے۔ اگرچہ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی رحلت کو سات سال ہو رہے ہیں لیکن آپ کی یاد زندہ ہے اور زندہ رہے گی۔ البتہ دشمن کے پروپیگنڈے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ دنیا میں انقلاب کا پیغام فراموش ہو چکا ہے۔ لیکن یہ دعوی جھوٹا اور حقیقت کے خلاف ہے۔ آج دنیا کے اکثر علاقوں میں، حتی ان علاقوں میں بھی جہاں مسلمانوں کا کوئي نام و نشان بھی نہیں ہے، آپ کے عظیم انقلاب کا نام و نشان موجود ہے۔ ہماری عظیم قوم اور ہمارے عظیم امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی تحریک دنیا کے عوام کے درمیان نظر آ رہی ہے۔ یہ ایران کی عزت کی راہ ہے۔ یہ ملک کی سربلندی کی راہ ہے۔ ہماری سرزمین کی ترقی کی راہ ہے۔ ایرانی قوم کی خوش نصیبی اور سربلندی کا راستہ ہے۔ ان شاء اللہ ایرانی قوم اس راستے پر پوری قوت کے ساتھ گامزن رہے گی اور بعد کی نسل اور اس کے بھی بعد کی نسلیں بھی پروردگار کے فضل سے اسی راستے پر گامزن رہیں گی۔
میں اپنی گفتگو میں ایک بار پھر اپنے عظیم امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ اسی کے ساتھ، اس موقع پر حضرت امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے زور بازو اور آپ کے فرزند الحاج احمد آقا رضوان اللہ تعالی علیہ کو بھی یاد کرنا ضروری ہے جنہوں نے امام (خمینی رح) کی تحریک میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے اور ہمیشہ آپ کے راستے پر گامزن رہے۔ خداوند عالم ان دونوں حضرات پر اپنی مغفرت و رحمت نازل فرمائے، حضرت امام (خمینی رح) کے اہل خانہ پر لطف و کرم نازل فرمائے اور انہیں اجر صابرین عنایت فرمائے اور ایرانی قوم کو کامیابی و کامرانی عطا فرمائے۔
میں چند دعائیں کروں گا اور چاہتا ہوں کہ سبھی برادران و خواہران عزیز تہہ دل سے آمین کہیں اور خدا سے ان دعاؤں کے مستجاب ہونے کی التجا کریں۔
پالنے والے! تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ ہے، ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رح) کو اجر عظیم عنایت فرما۔
پالنے والے! انہیں اپنے پیغمبروں اور اولیا کے ساتھ محشور فرما۔
پالنے والے! ایرانی قوم کو فتحیاب کر؛ اس قوم کے دشمنوں کو کچل دے اور انہیں ذلیل و خوار کر۔
پالنے والے! اس قوم کے نوجوانوں کی، جن سے اس قوم کی امیدیں وابستہ ہیں، حفاظت فرما۔
پالنے والے! ہمارے شہیدوں اور ایثار کرنے والوں کو اپنے اولیا کے ساتھ محشور فرما۔
پالنے والے! (دفاع وطن میں اپنے اعضائے بدن کا ںذرانہ پیش کرکے جسمانی طور پر معذور ہو جانے والے) جانبازوں، ان کے اہل خانہ، شہدا کے پسماندگان، مقدس دفاع کے دوران لاپتہ ہو جانے والے افراد، دشمن کی قید کی صعوبتیں برداشت کرنے والے اسیروں اور ان کے گھروالوں کو اپنا خاص لطف و کرم اور فضل عنایت فرما۔
پالنے والے! راہ اسلام کو ہی اس قوم کا راستہ قرار دے۔
پالنے والے! جو بھی اس قوم، اس ملک اور اسلام کے لئے کام کرے اس کو کامیابی و کامرانی عطا فرما۔
پالنے والے! جو اس ملک، اس قوم اور اس انقلاب کے نقصان میں کام کرے، اگر قابل ہدایت نہ ہو تو اس کے وجود کو محو کر دے۔
پالنے والے! تجھے واسطہ ہے محمد و آل محمد کا اس قوم کے پیغام کو جو حریت پسندی، انسانوں کی کامیابی، آشتی اور سپر طاقتوں سے نجات بشریت کا پیغام ہے، دنیا میں سبھی باخبر دلوں تک پہنچا دے۔
پالنے والے! صاحب عصر، حضرت امام زمانہ کے قلب مقدس کو ہم سے راضی اور خوشنود فرما۔
پالنے والے! ہمیں آپ کے سپاہیوں میں قرار دے اور آپ کی زیارت کی توفیق عنایت فرما۔
پالنے والے! ہماری موت کو اپنی راہ میں شہادت کے علاوہ اور کچھ قرار نہ دے۔
پالنے والے! جو کہا اور سنا اس کو اپنے لئے اور اپنی راہ میں قرار دے اور ہم سے اس کو قبول فرما۔
رحم اللہ من قرء الفاتحۃ مع الصّلوات