رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب ملاحظہ فرمائیے؛
بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں بھی اس ممتاز اور عظیم اسلامی عید کی اپنی عزیز قوم، عظیم امت اسلامیہ بالخصوص آپ حاضرین کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اسلامی عید کے خاص معنی ہوتے ہیں اور اس میں خاص اسلامی جہت اور پہلو پایا جاتا ہے۔ عید خوشیوں بھری اس تقریب کو کہتے ہیں جو کسی قوم کے لئے سال میں ایک بار یا کچھ عرصے کے بعد آتی ہے۔ ہر عید کے خاص معنی اور خاص جہت ہونی چاہئے۔ چنانچہ اقوام کی قومی عیدوں میں سے ہر ایک عید خاص پہلو کی حامل ہے۔ اسلامی عید کے دو پہلو ہوتے ہیں؛ ایک پہلو معنویت اور خدا پر توجہ سے متعلق ہے اور دوسرا پہلو ایک مرکز اور محور پر مسلمانوں کا جمع ہونا ہے۔ اسلامی عید کے پہلو اور محور یہی ہیں۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ شریعت میں عید الفطر اور عید الاضحی، دونوں کی نماز بھی جماعت سے ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ نماز جماعت انہیں دو پہلوؤں کی مظہر ہے۔ اس میں معنویت، خدا، ذکر، خضوع و خشوع پر توجہ بھی ہے اور ایک مشترکہ محور پر اجتماع اور اتحاد بھی مد نظر ہے۔
میری نظر میں آج ہماری قوم اور پوری امت اسلامیہ کے لئے دونوں موضوع اہم ہیں۔ البتہ اپنی قوم کے تعلق سے ہم ہر چیز کو بہت پر امید نگاہوں سے دیکھ سکتے ہیں؛ اس لئے کہ تمام قرائن و شواہد اور مظاہر امید افزا ہیں۔ دوسروں کی توقع کے برخلاف، دینی مسائل پر ہماری قوم کی توجہ روز بروز زیادہ ہو رہی ہے۔ دوسروں سے مراد ہمارے دشمن بھی ہیں، غیر جانبدار مشاہدین بھی ہیں اور اپنوں میں سے بعض لوگ بھی ہیں۔
خیال کیا جا رہا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ دینی نعرے جو روح انقلاب ہیں، کم اہمیت ہو جائيں گے۔ لیکن صورت حال اس کے برعکس ہے۔ اس سال دین پر ہمارے عوام کی توجہ گزشتہ سال اور اس سے پہلے سال کی نسبت زیادہ رہی۔ نوجوان دین کی جانب مائل ہو رہے ہیں۔ لڑکیاں اور لڑکے دینی مسائل اور دینی احکام پر توجہ دے رہے ہیں اور الحمد للہ روح دین یعنی خدا پر توجہ، پروردگار کی اطاعت اور خدا کے لئے کام کرنے کا جذبہ عوام میں فروغ پا رہا ہے۔ ایسا ہی ہونا بھی چاہئے۔ یعنی یہ قوم اگر اپنے ملک کو ترقی دینا چاہتی ہے، اپنی دنیا سنوارنا چاہتی ہے، عزت و سربلندی حاصل کرنا چاہتی ہے اور وہ تمام وسائل حاصل کرنا چاہتی ہے جو دنیا اور آخرت دونوں کے لئے اہم ہیں تو اس کو خدا پر توجہ رکھنی ہوگی۔ اس کو اس توجہ کی ضرورت ہے جو اس کے لئے کارساز ہے۔
اتحاد کے سلسلے میں بھی ایسا ہی ہے۔ انقلاب آنے سے پہلے سے ہی یہ پیشین گوئی کی جا رہی تھی کہ چونکہ ایران ميں مختلف اقوام پائی جاتی ہیں اور مختلف زبانیں رائج ہیں اس لئے اختلاف کا امکان زیادہ ہے، لیکن اس کے برعکس ہوا اور سب نے دیکھ لیا کہ ہماری قوم ایک اور متحد ہے۔ آپ دیکھئے کہ مختلف مواقع پر جب کسی سیاسی مسئلے میں اپنے نظریئے کے اظہار کے لئے لوگوں کا میدان میں آنا ضروری ہوتا ہے، جیسے یوم القدس کا موقع ہے، جو پرسوں منایا گیا، آپ نے دیکھا کہ پورے ایران میں، مشرق، مغرب اور مرکز ہر جگہ کیسے مظاہرے اور اجتماعات ہوئے۔ ہمارے متحد عوام اپنے اتحاد و یکجہتی کا کس طرح مظاہرہ کرتے ہیں۔ مختلف اقوام جہاں بھی ہیں، فارس، ترک، کرد، عرب، بلوچ اور ترکمن سب ایک ہی سمت میں آگے بڑھتے ہیں، ایک ہی نعرہ لگاتے ہیں اور ایک ہی بات کرتے ہیں۔ اتحاد کا یہ مظاہرہ حیرت انگیز اور عظیم ہے۔
انتخابات کا وقت آتا ہے تو ہمارے عوام اسی طرح شرکت کرتے ہیں۔ مقدس دفاع کا وقت آئے، آٹھ سالہ جںگ کا مرحلہ ہو تب بھی ہمارے عوام اسی طرح شرکت کرتے ہیں۔ سب اپنے عزیزوں کو شہید ہونے کے لئے بھیجتے ہیں۔ سب خدا کے لئے میدان میں آتے ہیں اور مشترکہ احساس ذمہ داری کے ساتھ اقدام کرتے ہیں۔ حتی مقدس دفاع میں، رضا کارانہ طور پر، جو لوگ لازمی فوجی سروس میں تھے ، وہ اپنی جگہ پر، رضا کارانہ طور پر محاذ پر جانے والے ہمارے ہموطنوں میں غیر مسلم بھی تھے۔ عیسائی رضاکارانہ طور پر میدان جنگ میں گئے اور انھوں نے بھی اپنی جان قربان کی۔ ہم نے ان کو دیکھا ہے، پہچانا ہے اور پہچانتے ہیں۔ یعنی ہماری قوم میں حیرت انگیز اتحاد پایا جاتا ہے۔ اگرچہ دشمن نے اس کو ختم کرنے کے لئے بہت کام کیا ہے۔
بنابریں اسلامی مملکت ایران میں، حکومت اسلام کی برکت سے اتحاد اور وحدت وجود میں لانے والے بنیادی محوروں کی برکت سے، دونوں باتیں؛ ذکر الہی اور عوام کا اتحاد، موجود ہے اور ان شاء اللہ ماضی کی طرح آئندہ بھی موجود رہے گا۔ تشویش امت اسلامیہ (دیگر اسلامی اقوام) کی بابت ہے۔ اس لئے کہ امت اسلامیہ کی سطح پر حالات ایسے نہیں ہیں۔
میں اس وقت قضیئے کے (عید کے مذکورہ دونوں پہلوؤں میں سے) دوسرے پہلو پر گفتگو کروں گا۔ پہلے حصے کا معاملہ اور مسئلہ الگ ہے، لہذا اس کو نہیں چـھیڑوں گا۔ البتہ پہلے حصے کے سلسلے میں کہا جا سکتا ہے کہ پوری اسلامی دنیا میں دینی اور معنوی امور کی جانب مسلم اقوام کی توجہ میں روز بروز اضافہ ہوا ہے، کہیں اس کی رفتار تیز ہے اور کہیں کم ہے۔ لیکن اتحاد کا موضوع، یک جہتی کی بات، دنیائے اسلام کی یک جہتی اور و اعتصموا بحبل اللہ جمیعا کا مسئلہ جس کا قرآن ہمیں حکم دیتا ہے، افسوس کہ جیسا ہونا چاہئے تھا ویسا نہیں ہے۔ اور یہ دشمن کا کیا دھرا ہے۔ اسلامی اقوام اتحاد چاہتی ہیں لیکن دشمن اس میں خلل ڈالنے کے لئے خاص طور پر کوششیں کر رہا ہے۔ یعنی مختلف طریقوں سے تفرقہ ڈالنے کی کوششیں کرتا ہے۔ ان کوششوں کے ایک حصے کا تعلق ماضی سے ہے، جیسے انقلاب سے پہلے انتہا پسندانہ قوم پرستی کی تقویت کی گئی۔ ایران میں انتہا پسندانہ نیشنلزم، ایرانیت، عرب ملکوں میں انتہا پسندانہ عرب قومیت اور ترک زبان ملکوں میں انتہا پسندانہ ترک قومیت کی تقویت کی گئی۔ ان ملکوں میں جہاں بھی کوئی اقلیت تھی، انتہا پسندانہ قومیت کی تقویت کی گئی۔ جیسے ایران کے اندر، بعض اقوام میں انتہا پسندانہ رنگ کے ساتھ قومیت کو ابھارنے کی کوشش کی گئی۔ شمالی افریقا کے ملکوں میں، مصر اور دوسری جگہوں پر بعض عرب اقوام میں جو ماضی میں ان علاقوں میں تھیں، ان کے خاص قومی جذبات اور نعروں کی تقویت کی گئی اور ان کو ان محوروں پر جمع کرنے کی کوشش کی گئی۔ جہاں بھی کوئی مذہبی اقلیت ہوتی تھی، اس کی تقویت کرتے تھے۔ اور یہ سلسلہ جاری رہا۔ یہ کوششیں جو ماضی سے جاری تھیں، اسلامی انقلاب کے بعد اور بھی تیز کر دی گئیں اوران کی تقویت کی گئی۔ اس لئے کہ انھوں نے دیکھا کہ یہاں سے طلوع ہونے والا وحدت آفریں خورشید اسلام پوری دنیا میں ضوفشانی کرنے جا رہا ہے۔
انھوں نے صرف انھیں کوششوں پر اکتفا نہیں کیا بلکہ کچھ عناصر کو اختلاف ڈالنے کے لئے ورغلایا اور امت اسلامیہ کے وحدت آفریں نعروں کو ان سے سلب کر لیا۔ ان میں سے ایک صیہونیوں سے مقابلے کا نعرہ تھا۔ صیہونیوں سے مقابلے کا نعرہ اسلامی اقوام میں اتحاد کا محور تھا۔ اس سے پہلے مسلم اقوام کسی بھی اسلامی ملک پر صیہونیوں کی کھلی جارحیت پر ایک دوسرے کی نسبت ہمدردی اور اپنائیت کا احساس رکھتی تھیں۔ دشمنوں نے اس وحدت آفریں نعرے کو سلب کر لیا اور ختم کر دیا اور اس پر مستزاد یہ کہ اسلامی اقوام اور حکومتوں کو ایک دوسرے سے بدظن کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے مسلم حکومتوں کو ایک دوسرے بدظن کرنے اور ان کے درمیان بدگمانی پیدا کے لئے منصوبے تیار کئے۔
آج بھی یہ کوشش جاری ہے۔ اس خطے پر حریصانہ نظر رکھنے والے ملکوں، جن میں سر فہرست ریاستہائے متحدہ امریکا ہے، ان کے سیاسی حلقے اور انٹیلیجنس کے ادارے اور صیہونیوں کی جاسوسی کی تنظیمیں سرگرم ہیں اور مسلمان حکومتوں میں ایک دوسرے کے بارے میں بدگمانی پیدا کرنے کی غرض سے ان ملکوں کے بعض سیاسی حلقوں سے مستقل طور پر رابطے میں ہیں۔ وہ اس طریقے سے کچھ فوائد حاصل کرتے ہیں۔ ایک فائدہ اسلامی دنیا کے اتحاد کا خاتمہ ہے۔ ایک فائدہ اسلحے کی فروخت ہے۔ ایک فائدہ فوجیوں کی تعیناتی ہے۔ ایک فائدہ مقبوضہ فلسطین میں غاصب صیہونی حکومت سے رابطہ قائم کرنے کی دوڑ ہے۔ یہ وہ فوائد ہیں جو سامراج ان کوششوں سے حاصل کر رہا ہے۔ یہ صورتحال اسلامی دنیا کے لئے بہت نقصان دہ ہے۔ البتہ اس تعلق سے اقوام کا معاملہ مشکل نہیں ہے، ساری مشکل مسلم حکومتوں کے تعلق سے ہے۔ مسلم حکومتوں کو اس سادے سے مسئلے پر توجہ دینی چاہئے جس کو ہر عاقل سمجھتا ہے اور وہ سادی سی بات یہ ہے کہ ہر عاقل انسان کو اپنے ذخائر و وسائل سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملنا چاہئے۔ اسلام، اسلامی ملکوں کے پاس ایک گرانبہا خزانہ ہے۔ اسلامی ملکوں کو اس گرانبہا ذخیرے سے اچھی طرح فائدہ اٹھانا چاہئے، چاہے فرض کریں کہ وہ بہت زیادہ اسلام کے پابند نہ ہوں۔ اسلام اس بات کا موجب ہے کہ امت اسلامیہ ایک دوسرے سے رابطے اور یگانگت کا احساس کرے اور دنیا کے ایک ارب سے زائد مسلمان عالم اسلام کے مختلف مسائل میں دخیل ہوں۔
اس میں دو رائے نہیں کہ اگر اسلامی دنیا نے بوسنیا کے مسلمانوں کی حمایت نہ کی ہوتی تو آج یورپ میں بوسنیا کے مسلمان نہ ہوتے، انھیں ختم کر دیا گیا ہوتا۔ اگرچہ سبھی اسلامی ملکوں نے پوری طرح حمایت نہیں کی لیکن احساس کیا گیا کہ اکثر اسلامی حکومتیں اس مسئلہ پر توجہ دے رہی ہیں، آگے بھی ان کی مدد کرنی چاہئے۔ اسلامی دنیا میں ہر جگہ یہی عمل دہرایا جا سکتا ہے۔ ممالک ایک دوسرے کی مدد سے بے نیاز نہیں ہیں، انھیں خود کو عظیم امت مسلمہ کا جز سمجھنا چاہئے۔ اس طرح وہ اس عظیم ذخیرے اور خزانے سے شایان شان استفادہ کر سکتے ہیں۔ کیوں نہ کریں؟ سادہ سا معاملہ ہے جس پر توجہ نہیں دی جا رہی ہے اور اس کا فائدہ دشمن اٹھا رہا ہے۔
اسلامی عید مسلمانوں کے درمیان اتحاد کا احساس زندہ کرنے کے لئے ہوتی ہے۔ اسلامی عید وہ دن ہے جب پوری اسلامی دنیا میں جشن اور خوشی منائی جاتی ہے۔ آپ ملاحظہ فرمائيں کہ آج ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے لئے عید کا دن ہے۔ البتہ آج اور کل میں پہلی شوال کے تعین کے لئے افق کے اختلاف کی بات الگ ہے۔ بعض ملکوں میں کل عید تھی اور بعض ملکوں میں آج ہے۔ کیا یہ چھوٹی اور معمولی بات ہے کہ ایک ارب سے زائد لوگوں میں سے ایک جمع غفیر اس دن نماز عید میں شرکت کرتا ہے ایک ہی قبلے کی طرف رخ کرکے، یکساں آداب اور مضامین کے ساتھ ایک ہی نماز ادا کرتا ہے؟ یہ بہت بڑی بات ہے۔ لیکن افسوس کہ اس پر توجہ نہیں دی جاتی۔ اس کی جانب سے غفلت اور بے توجہی بڑے خسارے کا باعث ہے۔ اسلامی دنیا کے ساتھ اپنے خارجہ روابط میں ہماری پوری کوشش اس نکتے پر توجہ اور تاکید کے لئے ہے۔ اس کا فائدہ ہمارے لئے بھی اتنا ہی ہے جتنا دوسروں کے لئے ہے۔ ہمارے اپنے ملک میں الحمد للہ کوئی مشکل نہیں ہے۔ شاید اسلامی دنیا میں بہت کم ملک ایسے ملیں جہاں حکومت اور مختلف شعبوں کے ذمہ داران کے عوام کے ساتھ اتنے قریبی، پرتپاک اور دوستانہ تعلقات ہوں۔ دنیا میں اس خصوصیت کے مالک بہت کم ملک ملیں گے۔ عوام نظام کے ذمہ داروں اور حکام کو دوست رکھتے ہیں، ان کی قدردانی کرتے ہیں؛ مختلف شعبوں میں اپنے بھر پور وسائل اور امکانات کے ساتھ ان کی مدد کرتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ اتنی واضح اور آشکارا بات ہے کہ جس کو سب دیکھتے ہیں۔ لیکن دوسرے اسلامی ملکوں میں حالات ایسے نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں انھیں مشکلات درپیش ہیں۔ بنابریں اسلامی دنیا میں اتحاد اور اسلام کے وحدت آفریں محور پر توجہ پوری اسلامی دنیا کے فائدے میں ہے۔ ہم سے زیادہ دوسروں کے فائدے میں ہے۔ قرآن کریم فرماتا ہے واعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لا تفرقوا حتی حبل اللہ سے اعتصام اور اللہ کی رسّی کو پکڑنے کے تعلق سے جو بندے اور خدا کے درمیان ایک عدیم المثال رابطہ ہے جمیعا پر تاکید کی گئی ہے۔ مل کے کام کرو اور مل کے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو۔ اسلام کے نقطہ نگاہ سے امت اسلامیہ کا اتحاد اتنی اہمیت رکھتا ہے۔
بہرحال، ہماری عزیز قوم اور آپ حضرات اس موقع کی قدر کو سمجھیں جو اللہ نے آپ کو دیا ہے۔ خدا، معنویت، ذکر، خضوع و خشوع ، خدا پر توجہ، اور اس کے حضور گریہ و زاری کی طرف آپ کے دلوں کا میلان بہت اہم ہے۔ یہ وہی عامل ہے جس نے ایک دن اسلام کو ایک محدود اجتماع اور غریب الوطنی کی حالت سے نکال کے ایک عظیم تمدن میں تبدیل کر دیا اور اس تمدن نے صدیوں، کم سے کم قرون اولی کی کئی صدیوں تک دنیا پر حکومت کی اور آج بھی دنیا اسلامی تمدن کی مرہون منت ہے۔ خدا اور معنویت پر توجہ اس تمدن کی تکمیل کا باعث ہے۔ ورنہ مادی محرکات اور کوششوں سے یہ پائیدار تمدن وجود میں نہیں آتا ۔
آج بھی ہم کو خدا پر توجہ اور معنویت کی ضرورت ہے۔ اس توجہ کا جذبہ خداوند عالم نے آپ کو عطا کیا ہے۔ لہذا اس کی قدر کو سمجھیں۔ خصوصا اپنی قوم کے اندر پائے جانے والے اتحاد و یکجہتی کی قدر کریں۔ یہ اتحاد بہت اہم اور باشرف ہے۔ بڑی بڑی مشکلات کو ایک قوم اپنے اتحاد کی برکت سے، معجزانہ طور پر بہت آسانی سے حل کر لیتی ہے۔ چنانچہ ہماری قوم کا اتحاد بھی ایسا ہی رہا ہے اور آئندہ بھی اسی طرح رہے گا۔ یہ وہی خصوصیت ہے جس کی ہمارے عظیم امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) مستقل طور پر ہمیں سفارش اور نصیحت کیا کرتے تھے۔ لوگوں کو ہمیشہ ، وحدت کلمہ نعروں میں اتحاد، عمل میں اتحاد ، اقدامات میں اتحاد اور ایک دوسرے کے ساتھ ہمدلی کی دعوت دیا کرتے تھے۔ اس زمانے میں مشکلات کا حل وحدت کلمہ اور اتحاد میں مضمر تھا؛ آج بھی تمام مشکلات کا حل اتحاد اور وحدت کلمہ میں ہے۔
امید ہے کہ خدا کے فضل اور حضرت بقیۃ اللہ الاعظم (امام زمانہ علیہ السلام) ارواحنا فداہ کی عنایت اور پاکیزہ دعاؤں سے ہماری قوم میں خدا پر توجہ اور اتحاد کا یہ جذبہ روز بروز زیادہ مستحکم ہوگا۔

و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ