رہبر انقلاب اسلامی نے سامراج کے سامنے سر جھکا دینے کی ترغیب دلانے والی خطرناک فکر کے حقیقی مفہوم اور پنہاں اہداف کی تشریح کی جسے امریکا اور ملک کے اندر کچھ لوگ ایران کی رائے عامہ اور دانشوروں کے ذہنوں میں بٹھانے کے لئے 'جھوٹے اور مصنوعی دو راہے' کی بات کرتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے 20 مارچ 2016 کے اپنے خطاب میں مزاحمتی معیشت کے تعلق سے 'اقدام و عمل' کے لئے دس اساسی تجاویز پیش کیں۔ آپ نے زور دیکر کہا کہ یہ منطقی اور ساتھ ہی انقلابی راستہ وطن عزیز ایران کو خطرات اور پابندیوں کے مقابل محفوظ بنا دیگا اور حکومت کو یہ توانائی ملے گی کہ ہمہ گیر ہمدلی کے سائے میں اور تینوں شعبوں (مجریہ، مقننہ، عدلیہ) کے تعاون سے رواں سال کے آخر تک عوام کے سامنے عینی اور اعتماد بخش رپورٹ پیش کرے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے اس خطاب میں بھی ملت ایران کو سال نو کی مبارکباد پیش کی اور ہجری شمسی سال 1395 مطابق 20 مارچ 2016 الی 20 مارچ 2-17 کے آغاز و اختتام کے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ایام ولادت سے اتصال کو ملک کے لئے باعث برکت قرار دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں ہجری شمسی کیلنڈر کے نئے سال 1395 کے لئے منتخب کئے گئے نعرے؛ مزاحمتی معیشت، اقدام اور عمل کی تشریح کی۔ آپ نے اس بات پر زور دیا کہ رواں سال کے لئے منتخب نعرے کا مدلل اور منطقی پس منظر ہے اور ملک کے عوام اور خاص طور پر نوجوانوں کو اس نعرے کی مدلل بنیادوں پر غور کرنے کی دعوت دی۔

بسم‌ الله ‌الرّحمن‌ الرّحیم‌
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین الهداة المهدیین المعصومین سیّما بقیة الله فی الارضین.
اللّهمّ صلّ علی فاطمة بنت محمّد اللّهمّ صلّ علی فاطمة بنت رسولک و زوجة ولیّک الطّهرة الطّاهرة المطهّرة التّقیّة النّقیّة الزّکیّة سیّدة نساء اهل الجنّة اجمعین.
اللّهمّ صلّ علی ولیّک علیّ بن موسی‌ صلاةً دائمةً بِدَوام مُلکِکَ و سُلطانِک، اللّهمّ سَلِّم علی وَلیّک علیّ بن موسی‌ سلاماً دائماً بِدَوام مَجدِک و عظمتک و کبریائک.

اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ایک بار پھر ہمیں یہ توفیق عنایت فرمائی کہ ہجری شمسی سال کے آغاز پر عزیز اہل مشہد اور محترم زائرین سے جو ملک کے مختلف علاقوں سے سفر کرکے اس مقدس آستانے پر پہنچے ہیں ملاقات کروں۔ سب سے پہلے میں سال نو کی ایک بار پھر آپ برادران و خراہران گرامی کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اس سال کی یہ خصوصیت ہے کہ اس کا آغاز بھی، ہجری قمری مہینے کے اعتبار سے، ولادت با سعادت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ایام سے متصل ہے اور اسی طرح اس کا اختتام بھی اسی عزیز و مکرم ہستی کے ایام ولادت سے متصل رہے گا۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں یہ التجا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے وجود کی برکت سے جو خاتون دو سرا سیدہ نساء العالمین ہیں، اس سال کو ملت ایران کے لئے، دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے اور محبان اہل بیت کے لئے مبارک قرار دے اور سب اس عظیم ہستی کے یوم ولادت کی برکتوں سے بہرہ مند ہوں۔
اس سفر اور اس نشست میں اس سال ایک ہی کمی محسوس ہوتی ہے اور وہ برادر عزیز، عالم مجاہد اس آستانہ مقدس کے مخلص خدمت گزار جناب طبسی صاحب (1) کی کمی ہے۔ آپ کا وجود بڑا بابرکت تھا۔ انقلاب کے پرانے ساتھیوں میں سے ایک تھے اور آپ کا فقدان ان تمام لوگوں کے لئے جو آپ سے آشنائی رکھتے تھے واقعی بہت بڑا خسارہ ہے۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ آپ کی روح مطہرہ کو حضرت امام رضا علیہ السلام کے الطاف کے زیر سایہ قرار دے اور اپنی رحمت و مغفرت سے انھیں بہرہ مند فرمائے۔
آج میں اپنی بحث کا آغاز اس سال کے نعرے سے کروں گا اور گفتگو کے دوران آپ برادران و خواہران گرامی کی خدمت میں جو یہاں تشریف فرما ہیں اور ان تمام لوگوں کے لئے جو ہماری یہ گفتگو بعد میں سنیں گے، کچھ چیزوں کی وضاحت کروں گا۔ میں چاہتا ہوں کہ جو بحث پیش کی جائے وہ منطقی اور مدلل ہو۔ آج ہمارے عوام کے ذہنوں میں صرف نعرے بازی تک محدود بحثوں کے لئے جگہ نہیں ہے۔ ہمارے عوام، ہمارے نوجوان اور ہمارے سماج کے لوگ آگاہ ہیں اور مسائل کا منطقی و استدلالی انداز میں جائزہ لیتے ہیں۔ اس لئے جو بھی چیزیں عرض کروں گا کوشش یہ ہوگی کہ محکم دلائل کے ساتھ ایک منطقی بحث کی صورت میں ہو۔ ہم نے اس سال کے نعرے کے لئے بھی 'اقتصادی موضوع' چنا ہے، (2) اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ملک کے مجموعی مسائل کا ایک جائزہ اور تجزیہ ہے۔ شاید کچھ لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات رہی ہو کہ اس سال کسی ثقافتی موضوع کو ترجیح دی جائے گی یا کوئی اخلاقی موضوع سال کا نعرہ قرار پائے گا۔ لیکن ملک کے مجموعی مسائل کا جائزہ لینے کے بعد یہ محسوس ہوا کہ اس سال بھی گزشتہ چند برسوں کی طرح نعرے کے لئے، جسےعوام کے درمیان اور ملک کی رائے عامہ کی سطح پر ایک عمومی بحث کی طرح رائج کرنا ہے، اقتصادی موضوع کا ہی انتخاب کیا جائے۔ میں ایک تجزیہ پیش کر رہا ہوں اور یہ چاہتا ہوں کہ ہمارے عزیز نوجوان جو کچھ سن رہے ہیں اس کا خود بھی تجزیہ کریں اور اس بارے میں غور و خوض کیا جائے۔
موجودہ حالات میں استکبار اور خاص طور پر امریکا کی پالیسیاں ہماری قوم کے اندر، سب سے پہلے سماج کے دانشور طبقے کی سطح پر اور پھر اس کے بعد رفتہ رفتہ عوامی سطح پر ایک 'خاص سوچ' پیدا کرنے پر مرکوز ہیں۔ رائے عامہ کے اندر ایک 'خاص فکر' پھیلانے پر مرکوز ہیں۔ وہ یہ سوچ اور ذہنیت پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ ملت ایران ایک دوراہے پر کھڑی ہے اور اس کے پاس ان دونوں میں سے کسی ایک راستے کے انتخاب کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ وہ دوراہا یہ ہے کہ یا تو امریکا کی بات مان لے یا پھر دائمی طور پر امریکا کے دباؤ اور اس دباؤ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مشکلات کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہو جائے۔ ملت ایران کو ان میں سے کسی ایک راستے کا انتخاب کرنا ہے۔ وہ (امریکی) یہ چاتے ہیں۔ البتہ امریکا سے مفاہمت کسی بھی دوسری حکومت سے مفاہمت کی طرح نہیں ہوتی۔ کیونکہ امریکی حکومت کے پاس ثروت ہے، وسیع تشہیراتی نیٹ ورک ہے، خطرناک اسلحے ہیں اور بے پناہ وسائل موجود ہیں۔ اس لئے اس حکومت سے مفاہمت کا لازمی مطلب یہ ہے کہ اس کی ہر بات مانی جائے۔ امریکا کے ساتھ مفاہمت کا یہی انداز ہوتا ہے۔ ساری دنیا میں یہی صورت حال ہے۔ دوسرے ممالک بھی اگر کسی معاملے میں امریکا سے سمجھوتا کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ وہ فریق مقابل کے سامنے اپنے موقف سے پیچھے ہٹیں جبکہ فریق مقابل اپنے موقف میں کوئی خاص تبدیلی نہیں کرے گا۔ حالیہ ایٹمی اتفاق رائے میں بھی، حالانکہ ہم نے اس کی حمایت کی اور یہ معاہدہ کرنے والوں کو ہم نے قابل اطمینان قرار دیا اور ہم ان کی حمایت کرتے ہیں، یہی ہوا۔ ہمارے محترم وزیر خارجہ نے کچھ مواقع پر ہم سے کہا کہ یہاں ہم ریڈ لائنوں کی حفاظت نہیں کر پائے۔ اس کا مطلب یہی ہے۔ یعنی جب فریق مقابل امریکا جیسی کوئی حکومت ہو جس کے پاس وسیع تشہیراتی وسائل ہیں، پیسہ ہے، سرگرم ڈپلومیسی ہے، دنیا بھر میں گوناگوں ذرائع ہیں، ایسی حکومتیں بھی ہیں جو اس کے دباؤ میں رہتی ہیں، تو ایسی کسی حکومت سے مفاہمت کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ انسان ایسی بعض چیزوں سے صرف نظر کرے جس پر وہ اصرار کرتا آیا تھا۔ تو یہ ایک دوراہے کا تصور ہے جس کا امریکی پالیسی کے تحت ہمارے عوام کے ذہن میں القاء کیا جا رہا ہے۔ گویا یہ ایک ناگزیر دوراہا ہے، ایک ایسی صورت حال ہے جس سے بچنا ممکن نہیں ہے۔ یا تو امریکا کے سامنے اور اس کے مطالبات کے سامنے بہت سے معاملات میں ہم پسپائی اختیار کر لیں یا پھر امریکا کا دباؤ، اس کی دھمکیاں اور امریکی مخالفت سے پیدا ہونے والے نقصانات کو تحمل کریں۔ امریکی چاہتے ہیں کہ سماج کے دانشور طبقے کے اندر یہ سوچ ایک عام ذہنیت کے طور پر پھیل جائے اور پھر رفتہ رفتہ عوام کے درمیان اور رائے عامہ کی سطح پر اس کا انعکاس ہو۔ وہ ملک کے اندر اور باہر اس فکر کی ترویج کر رہے ہیں اور گوناگوں شکلوں میں، مختلف انداز بیان کے ذریعے، دنیا کے مواصلاتی ذرائع کی مدد سے اس فکر کو پھیلا رہے ہیں۔ وہ کچھ لوگوں کو اس پر مامور کر دیتے ہیں کہ قوموں کے اندر یہ سوچ عام کر دی جائے۔ البتہ ملک کے اندر بھی، جیسا کہ ہم نے عرض کیا، کچھ لوگ موجود ہیں جو اس فکر سے اتفاق رکھتے ہیں، اسے قبول کر چکے ہیں اور دوسروں کے ذہنوں میں بھی یہی سوچ بٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
آپ پوری توجہ سے میری بات سنئے تاکہ میں اس کی تشریح کروں۔ میں پہلے فریق مقابل کی بات بیان کر رہا ہوں اور اس کے بعد جو حق اور حقیقت ہے اسے بیان کروں گا۔ فریق مقابل یعنی ذہن سازی اور رجحان سازی کرنے والی اسی تشہیراتی نیٹ ورک کا موقف یہ ہے کہ ایران کے پاس وسیع اقتصادی وسائل ہیں اور ایٹمی معاہدے کا مقصد یہ تھا کہ ایران ان توانائیوں اور صلاحیتوں کو بروئے کار لائے۔ یہ معاہدہ تو ہو گیا ہے لیکن اتنا ہی کافی نہیں ہے۔ دوسرے بھی کچھ مسائل ہیں جن میں ملت ایران اور حکومت ایران کو چاہئے کہ فیصلہ اور اقدام کریں۔ مثال کے طور پر آج مغربی ایشیا کے علاقے میں یعنی اسی علاقے میں جسے مغرب، مشرق وسطی کا نام دیتا ہے، بڑا خلفشار اور تنازعہ ہے۔ یہ مشکل پورے خطے کی مشکل ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا ملک اس مشکل سے باہر نکلے تو آپ یہ کوشش کیجئے کہ جو ہنگامہ مچا ہوا ہے یہ ٹھنڈا ہو۔ اس کے لئے ہمیں کیا کرنا ہوگا؟ اس کے لئے ہمیں امریکا سے تعاون کرنا ہوگا، تبادلہ خیال کرنا ہوگا، ملاقاتیں ہوں گی، گفتگو ہوگی اور پھر امریکیوں کی مرضی کے مطابق یا ان کے ساتھ ہونے والے اتفاق رائے کی بنیاد پر ہمیں ایک حل تلاش کرنا ہوگا۔ ایک چیز تو یہ ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ ہماری کچھ اور بھی مشکلات ہیں۔ امریکا سے ہمارے کافی اختلافات ہیں۔ ان اختلافات کو دور کرنا ہے، انھیں ختم کرنا ہے۔ ان اختلافات کو حل کرنے کے لئے اگر ملت ایران کو مثال کے طور پر اپنے کچھ اصولوں سے صرف نظر کرنا پڑے، اپنی کچھ ریڈ لائنوں کو نظر انداز کرنا پڑے تو وہ صرف نظر کر لے۔ فریق مقابل تو اپنے کسی اصول اور موقف سے پیچھے نہیں ہٹے گا، ہاں اگر ضرورت پڑی تو ہمیں پسپائی اختیار کرنی ہوگی تاکہ یہ اختلافات دور ہوں اور اس کے نتیجے میں ایران اپنی تمام توانائیوں کو بروئے کار لانے کا موقع حاصل کرےگا اور ایک بڑی اقتصادی طاقت بن جائے گا۔ یہ ہے ان کا موقف۔ ایٹمی مسئلے میں ان کے ساتھ اتفاق رائے ہوا اور اس کا نام رکھا گیا مشترکہ جامع ایکشن پلان نمبر ایک، دوسرا مشترکہ جامع ایکشن پلان علاقائی مسائل کے سلسلے میں ہو، اسی طرح پلان نمبر تین اور چار پر اتفاق رائے کر لیں تو ہم اس کے بدلے میں اچھی زندگی گزاریں گے۔ سماج کے دانشور طبقے میں یہ سوچ پھیلانے کی کوشش ہو رہی ہے تاکہ دانشور طبقے سے یہ فکر عوامی سطح پر منتقل ہو۔ اس بات کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران ان کلیدی امور سے جن کی وہ اسلامی احکامات کی بنیاد پر اور اسلامی جمہوری نظام کی نمایاں خصوصیات کی بنیاد پر پابندی کرتا ہے، صرف نظر کر لے۔ مسئلہ فلسطین سے صرف نظر کر لے، علاقے میں مزاحمتی محاذ کی حمایت ترک کر دے، علاقے کے مظلومین جیسے ملت فلسطین، غزہ کے عوام، یمن کے عوام اور بحرین کے عوام کی سیاسی حمایت و پشت پناہی بند کر دے۔ اسلامی جمہوری نظام اپنے عزائم اور منصوبوں میں بنیادی تبدیلی کرتے ہوئے خود کو امریکا کی مرضی کے مطابق ڈھال لے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح آج علاقے کے ممالک اور علاقے کی حکومتیں اسلام کو پس پشت ڈال کر اور اپنے عوام کی مرضی کو نظر انداز کرتے ہوئے صیہونی حکومت سے آشتی کر رہی ہیں اور مسئلہ فلسطین کو دیگر مسائل کی پشت پر دھکیل رہی ہیں، اسلامی جمہوریہ ایران بھی اسی طرح عمل کرے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح آج بعض عرب حکومتیں نہایت بے شرمی سے صیہونی دشمن کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھا رہی ہیں، اسلامی جمہوریہ بھی صیہونی حکومت کو گلے لگائے اور اس سے آشتی کر لے!!
بات اتنے پر ہی ختم نہیں ہوگی، بلکہ اگر امریکا چاہتا ہے تو اسلامی جمہوریہ اپنے دفاعی وسائل کو بھی بھول جائے۔ آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ میزائلوں کے مسئلے پر دنیا میں کیسا شور شرابا برپا کر رکھا ہے۔ اسلامی جمہوریہ کے پاس میزائل کیوں ہیں، لمبی رینج کے میزائل کیوں ہیں، اسلامی جمہوریہ کے میزائل اتنی درستگی کے ساتھ اپنے ٹارگٹ کو کیوں تباہ کر رہے ہیں؟ آپ نے یہ تجربہ کیوں کیا؟ آپ فوجی مشقیں کیوں کرتے ہیں؟ اسی طرح کے دوسرے بہت سے اعتراضات۔ سوال یہ ہے کہ امریکی خلیج فارس میں جو ان کے ملک سے کئی ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، تھوڑے تھوڑے وقفے سے علاقے کے کسی ملک کے ساتھ مشترکہ مشقیں کرتے ہیں، حالانکہ یہاں ان کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے، لیکن اگر اسلامی جمہوریہ ایران جو اپنے گھر میں، اپنے علاقے میں اور اپنی سیکورٹی حدود کے اندر مشقیں کرتا ہے تو آسمان کیوں سر پے اٹھا لیتے ہیں کہ مشقیں کیوں کیں، یہ کام کیوں کیا، آپ کی بحریہ یا آپ کی فضائیہ نے ایسا کیوں کیا؟ دشمن کا تجزیہ یہ ہے کہ ہم ان تمام چیزوں سے کنارہ کشی کر لیں۔ اتنا ہی نہیں، بات اس سے بھی آگے تک جائے گی! رفتہ رفتہ نوبت یہ آ جائے گی کہ القدس بریگیڈ کو کیوں تشکیل دیا گيا ہے، پاسداران انقلاب فورس کو کیوں تشکیل دیا گيا ہے، اسلامی جمہوریہ ایران کی پالیسیاں آئین کے مطابق کیوں اسلام کے دائرے میں رہتی ہیں؟ بات یہاں تک پہنچے گی۔ دشمن کے سامنے اگر آپ نے اس وقت پسپائی اختیار کی جب استقامت کر سکتے تھے، اس بارے میں ابھی میں مزید کچھ باتیں عرض کروں گا، تو دشمن آگے بڑھتا چلا آئے گا، اس کی پیش قدمی نہیں رکے گی۔ رفتہ رفتہ یہ حالت ہو جائے گی کہ وہ فرمائیں گے کہ یہ جو آپ کہتے ہیں؛ اسلامی جمہوریہ کی حکومت، پارلیمنٹ اور عدلیہ اسلامی احکامات اور شریعت اسلامی کے مطابق کام کرے، یہ سب آزادی کے خلاف ہے، لبرلزم اسے قبول نہیں کرتا۔ نوبت یہ ہو جائے گی۔ اگر ہم نے پسپائی اختیار کی تو یہ نوبت آ جائے گی کہ وہ کہنے لگیں گے کہ شورائے نگہبان (نگراں کونسل) کا معاشرے میں کیا رول ہے؟ یہ کیا بات ہوئی کہ شورائے نگہبان شریعت سے متصادم قوانین کو کالعدم قرار دے دیتی ہے؟ یہی بنیادی مسئلہ ہے۔ یہ وہی چیز ہے جسے میں بارہا عرض کر چکا ہوں کہ یہ اسلامی جمہوریہ کی سیرت کو دگرگوں کر دینے کی کوشش ہے۔ ممکن ہے کہ اسلامی جمہوریہ کی ظاہری شکل باقی رہے لیکن وہ اندر سے کھوکھلی ہو جائے۔ دشمن یہ چاہتا ہے۔ یہ دشمن کا پسندیدہ تجزیہ ہے اور اسی تجزئے اور نظرئے کو وہ دانشوروں کے اندر اور رائے عامہ کے درمیان پھیلانا چاہتا ہے۔ اگر اسلامی جمہوریہ اور ملت ایران یہ چاہتی ہے کہ امریکا کی شرپسندی سے نجات مل جائے تو اسے اسلامی مفاہیم اور مضمون سے کنارہ کشی کرنی ہوگی، اپنی سلامتی کے اصولوں کو نظرانداز کرنا ہوگا۔
اس تجزئے میں کئی چیزیں نظر انداز کر دی گئی ہیں، ان میں سے میں ایک کی طرف اشارہ کروں گا اور وہ یہ ہے کہ گروپ پانچ جمع ایک کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے ایٹمی مسئلے میں ہم نے امریکا سے جو اتفاق رائے کیا، اس کے تحت امریکیوں نے جو وعدہ کیا تھا اس پر انھوں نے عمل نہیں کیا، جو کام انھیں انجام دینا تھا انھوں نے انجام نہیں دیا۔ ہاں، ہمارے محترم وزیر خارجہ کے بقول کاغذ پر انھوں نے کچھ اقدامات کئے ہیں، لیکن دوسرے متعدد راستوں سے انھوں نے اسلامی جمہوریہ کے مقاصد کی تکمیل میں رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں۔ آپ دیکھئے کہ آج تمام مغربی ممالک میں اور ان ملکوں میں جو مغرب کے زیر اثر ہیں، ہمارے بینکنگ کے امور مشکلات سے دوچار ہیں۔ ان کے بینکوں میں موجود ہمارے اثاثوں کی ایران منتقلی میں رکاوٹیں ہیں۔ گوناگوں تجارتی امور جن میں بینکوں کا بھی رول ہوتا ہے، مشکلات سے دوچار ہیں۔ جب ہم جائزہ لیتے ہیں، تحقیق کرتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ امریکیوں سے خائف ہیں۔ امریکیوں نے کہہ رکھا ہے کہ ہم پابندیاں ہٹا لیں گے اور صرف کاغذی حد تک پابندیاں ختم ہوئی ہیں، لیکن دوسری طرف وہ ایسے اقدامات کر رہے ہیں کہ پابندیاں ہٹانے کا کوئی نتیجہ حاصل نہ ہو سکے۔ بنابریں جو لوگ آس لگا لیتے ہیں کہ امریکا کے ساتھ فلاں مسئلے میں بیٹھ کر مذاکرات کر لیتے ہیں اور کسی اتفاق رائے تک پہنچ جاتے ہیں، یعنی کچھ وعدے ہم کریں اور کچھ وعدے وہ کریں! ایسے لوگ اس حقیقت سے غافل ہیں کہ ایسی صورت میں ہم اپنے تمام وعدوں پر عمل کرنے پر مجبور ہوں گے، جبکہ فریق مقابل مختلف حیلوں اور بہانوں سے، فریب دہی اور چالبازی سے پہلو تہی کر لیگا اور اپنے وعدوں پر ہرگز عمل نہیں کرے گا۔ یہ ایک حقیقت ہے جو آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، یعنی سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔
یہ معاملہ اس سے بھی آگے کا ہے۔ ضروری سمجھتا ہوں کہ اپنے نوجوانوں کی خدمت میں چند جملے عرض کر دوں جو طاغوتی شاہی دور میں نہیں تھے، جنھوں نے وہ زمانہ نہیں دیکھا ہے اور جنھیں علم نہیں ہے کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ملک میں کیا تغیرات رونما ہوئے؟ اس علاقے میں جہاں ہم ہیں، مغربی ایشیا کا علاقہ، اس میں آپ کا وطن عزیز ایران انگوٹھی کے نگینے کا درجہ رکھتا ہے۔ تزویراتی نظرئے سے، اسٹریٹیجک محل وقوع کے اعتبار سے، یہ عدیم المثال ملک ہے۔ تیل اور گیس کے بڑے ذخائر کے اعتبار سے اسے پورے خطے میں اور ایک اعتبار سے پوری دنیا میں خاص مقام حاصل ہے۔ تیل اور گیس کے علاوہ بھی دوسرے بہت سے قدرتی وسائل ہیں۔ ایک بڑا ملک ہے۔ صاحب استعداد اور بڑے کاموں کے لئے آمادہ آبادی والا ملک ہے۔ درخشاں تاریخ والا ملک ہے۔ یہ علاقے میں گلشن کا پھول ہے۔ یہ خطے کا پھول کسی دن پوری طرح امریکیوں کے قبضے میں تھا۔ امریکی جو چاہتے تھے اس ملک کے اندر اور اس ملک کے ساتھ کرتے تھے؛ لوٹتے تھے، یہاں کے اثاثے لے جاتے تھے۔ کسی کمزور ملک کے ساتھ ایک استعماری قوت اور سامراجی حکومت جو کچھ بھی کر سکتی وہ کرتے تھے۔ اس علاقے کو وہ اپنی جاگیر سمجھتے تھے۔ اسلامی انقلاب آ گیا تو یہ ملک ان کے چنگل سے آزاد ہو گیا۔ اسی لئے اس انقلاب کا کینہ امریکی سیاست کے قلب سے ہرگز باہر نہیں نکلتا۔ یہ دشمنی اسی وقت ختم ہوگی جب وہ دوبارہ اس ملک پر پوری طرح مسلط ہو جائیں گے۔ یہ ہے ان کا ہدف اور وہ اسی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ البتہ چونکہ وہ سیاستداں ہیں، سفارت کار ہیں، اس لئے انھیں سیاسی طریقے آتے ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ ہر ہدف اور مقصد کے حصول کا اپنا ایک مخصوص طریقہ ہوتا ہے۔ بتدریج آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ وہ یہی کر رہے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ اپنی آنکھیں کھلی رکھیں، اپنے حواس بجا رکھیں۔
اسلامی جمہوریہ نے صرف ایران کو ان کے چنگل سے باہر نہیں نکالا بلکہ اس نے جو استقامتی جذبے اور مزاحمت کا مظاہرہ کیا اور جو شجاعت دکھائی، جس کے بارے میں میں ابھی عرض کروں گا، اس کے نتیجے میں دوسرے ملکوں کے بھی حوصلے بڑھے۔ آج آپ دیکھئے کہ اس علاقے کے متعدد ملکوں میں، بلکہ اس علاقے سے باہر کے ممالک میں بھی 'امریکا مردہ باد' کے نعرے لوگوں کی زبان پر ہیں، لوگ امریکا کا پرچم نذر آتش کرتے ہیں۔ ملت ایران نے ثابت کر دیا کہ مزاحمت کی جا سکتی ہے۔ دوسری قوموں نے بھی اس سے سبق لیا۔ اس طرح امور امریکا کے ہاتھ سے نکل گئے۔ امریکیوں نے اعلان کیا کہ وہ گریٹر مڈل ایسٹ بنانا چاہتے ہیں، ایک دفعہ کہا کہ جدید مشرق وسطی پھر کہا کہ گریٹر مڈل ایسٹ، ان کا مقصد یہ تھا کہ مغربی ایشیا کے اس خطے میں، اسلامی ممالک کے جغرافیائی محل وقوع کے قلب میں جعلی صیہونی حکومت کو تمام سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی امور کی باگڈور سونپ دیں، یہ ان کا ہدف تھا۔ آج آپ دیکھئے کہ وہی لوگ جو گریٹر مڈل ایسٹ کے نعرے لگا رہے تھے، شام کے مسئلے میں بے دست و پا ہوکر رہ گئے ہیں، یمن کے مسئلے میں کچھ نہیں کر پا رہے ہیں، عراق میں ان کی مرضی کے حالات نہیں ہیں، فلسطین کا قضیہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ وہ اس ساری صورت حال کا ذمہ دار ایران کو سمجھتے ہیں، اسلامی جمہوریہ کو مانتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ سے ان کی دشمنی اسی وجہ سے ہے۔ اسلامی جمہوریہ سے ان کا اختلاف چھوٹی موٹی دو چار باتوں پر نہیں ہے، یہ بڑا اساسی مسئلہ ہے۔ اس لئے وہ اب ایک نئے پہلو سے آگے بڑھ رہے ہیں کہ شاید اس طرح وہ پرانا تسلط بحال ہو جائے۔
ہمارے عزیز نوجوانوں نے طاغوتی (شاہی) حکومت کو نہیں دیکھا ہے۔ میں آپ عزیز نوجوانوں کی خدمت میں عرض کر دوں کہ ہمارا ملک تقریبا پچاس ساٹھ سال کے عرصے میں، یعنی پہلوی حکومت کے دور میں اور اس سے پہلے کے کچھ برسوں میں پہلے برطانیہ کے اختیار میں اور پھر امریکیوں کے چنگل میں تھا۔ وہ جو چاہتے تھے کرتے تھے۔ مثال کے طور پر وہ پہلوی خاندان کو اقتدار میں لائے، رضاخان کو تخت اقتدار پر بٹھایا اور جب کسی وجہ سے اس سے ناراض ہو گئے تو اسے ہٹا کر محمد رضا کو تخت پر بٹھا دیا۔ یعنی اتنے بڑے اور اتنے عظیم ملک میں، اس عظیم قوم کی نظروں کے سامنے امریکی اور برطانوی عناصر بڑی آسانی سے ملک کے سربراہ کو اپنی مرضی کے مطابق بدل دیتے تھے۔ کسی کو ہٹاتے تھے اور کسی کو لاتے تھے! ایران میں ان کی یہ پوزیشن تھی۔ یہ تسلط انھوں نے کیسے حاصل کیا تھا؟ ملک کے اندر انھوں نے کئی محاذ بنا لئے تھے۔ پہلے برطانوی حکومت اور پھر بعد کے برسوں بلکہ عشروں میں امریکی حکومت ان محاذوں کو اپنا قبضہ اور تسلط قائم رکھنے کے لئے استعمال کرتی تھی۔ انقلاب آیا تو انقلابی نوجوانوں نے ان محاذوں کو منہدم کر دیا، مسمار کر دیا اور ان کی جگہ پر انقلاب، اسلامی جمہوریہ اور قومی مفادات کی حفاظت کے لئے نئے محاذ تعمیر کئے۔ یہ حکومت اب اس کوشش میں ہیں کہ وہی منہدم شدہ اور مسمار کردہ محاذ پھر سے تیار ہو جائیں اور جو محاذ انقلاب اور انقلابیوں نے تعمیر کئے ہیں انھیں مٹا دیا جائے۔ ہدف اور مقصد یہ ہے۔
میں آپ کو ان میں سے چند محاذوں کے بارے میں بتاؤں گا۔ استکباری طاقتوں یعنی برطانیہ اور امریکا کا ہمارے ملک میں سب سے اہم محاذ تھا ان کا گماشتہ طاغوتی نظام حکومت۔ ان کے ذریعے قائم ہونے والی طاغوتی حکومت ان کے محاذ کا کام کرتی تھی۔ اسی نظام حکومت کی مدد سے وہ جو چاہتی تھیں، اس ملک میں کرتی تھیں۔ جیسی بھی اقتصادی سرگرمیاں، ثقافتی سرگرمیاں، سیاسی فعالیت، جیسی بھی تبدیلی اور جیسا بھی موقف وہ چاہتی تھیں، اس ملک کو اور اس حکومت کو اسی طرف گھسیٹ لیتی تھیں۔ تو خود طاغوتی حکومت اس ملک میں امریکا اور برطانیہ کا سب سے اہم محاذ سمجھی جاتی تھی۔ ایک محاذ یہ تھا۔ انقلاب آیا تو یہ محاذ نابود ہو گیا، مٹ گیا، مسمار کر دیا گیا۔ اس ملک میں شاہی حکومت کو جڑ سے اکھاڑ دیا گیا اور اس شاہی حکومت کی جگہ، آٹوکریسی کی جگہ عوامی حکومت تشکیل پائی۔ ایک زمانہ تھا کہ ملک کے اندر لوگ کہتے تھے کہ جناب اس ملک کا ایک مالک ہے۔ ملک کا مالک کون تھا؟ اعلی حضرت! (شاہ ایران) یہ حالت تھی۔ یہ چیز ہمیشہ لوگوں کی زبان پر رہتی تھی کہ مملکت کا مالک ہے! مملکت کا مالک کون ہے؟ شاہ مملکت کا مالک تھا۔ یعنی ایک بدعنوان، نااہل، غیروں کا دست نگر، قومی حمیت سے بیگانہ شخص اس مملکت کا مالک تھا۔ اسلامی جمہوریہ کی تشکیل ہوئی تو اس جھوٹے اور غاصب مالک کو کنارے ہٹا کر اس ملک کو اس کے اصلی مالکان یعنی ایرانی عوام کے حوالے کر دیا۔ اب وہ خود انتخاب کرتے ہیں، خود میدان میں آتے ہیں، اپنی مرضی کا اظہار کرتے ہیں، کسی چیز کی حمایت کرتے ہیں، کسی چیز کی نفی کرتے ہیں۔ تو یہ پہلا محاذ تھا جسے انقلاب نے اور اسلامی جمہوریہ نے مسمار کر دیا۔ لیکن صرف یہی محاذ نہیں تھا۔ دوسرے بھی محاذ تھے۔ کچھ نفسیاتی محاذ تھے اور کچھ عینی محاذ تھے جن میں سے میں دو تین محاذوں کے بارے میں آپ کو بتاؤں گا۔ ایک تو خوف و ہراس تھا۔ خوف و ہراس کا محاذ بھی تھا، بڑی طاقتوں سے خوف و ہراس کا محاذ۔ ملک میں ایسے حالات پیدا کر دئے تھے کہ سب کے دلوں پر امریکا کی طاقت کی ہیبت بیٹھی ہوئی تھی۔ ہم نے عرض کیا کہ بعد کے ان عشروں میں امریکا جبکہ اس سے پہلے برطانیہ کا خوف و ہراس تھا۔ اس ملک میں جو کچھ بھی ہوتا تھا اس کے بارے میں کہتے تھے کہ یہ برطانیہ نے کیا ہے۔ یعنی برطانیہ کو مختار کل سمجھتے تھے۔ یہ خوف صرف عوام تک محدود نہیں تھا۔ خود طاغوتی حکومت کے عمائدین بھی امریکا سے خائف رہتے تھے۔ طاغوتی حکومت سے وابستہ عناصر نے اپنے جو تجربات لکھے ہیں اور جنھیں انقلاب کے بعد شائع کیا گیا، اس سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ معاملات میں خود محمد رضا اور اس کے قریبی افراد بھی امریکیوں کی جانب سے کی جانے والی تحقیر اور بے رخی پر برہم تھے، لیکن ان کے پاس کوئی چارہ کار نہیں تھا، اطاعت کرنے پر مجبور تھے۔ خوف و ہراس کی وجہ سے خاموش رہنے پر مجبور تھے، وہ ڈرتے تھے۔ اسلامی انقلاب آیا تو خوف اور ڈر کا یہ محاذ بھی منہدم ہو گیا۔ آج اسلامی جمہوریہ میں آپ ایک بھی آگاہ، باخبر اور دینی اقدار کا پابند عہدیدار نہیں پائیں گے جو امریکا سے ڈرتا ہو۔ ملت ایران نے اس خوف کو ذہن سے جھٹک دیا۔ ملت ایران نے صرف امریکا کا خوف نہیں بلکہ پورے استکباری محاذ کا خوف اپنے دل سے نکال دیا۔ مسلط کردہ جنگ کے زمانے میں جو آٹھ سال چلی، البتہ وہ سنہری دور بھی ہمارے نوجوان نہیں دیکھ سکے، اس نورانی دور کا مشاہدہ نہیں کر سکے، صدام کی مدد امریکا کر رہا تھا، نیٹو کر رہا تھا، اس ‌زمانے میں سوویت یونین سے صدام کو مدد مل رہی تھی، رجعت پسند دنیائے عرب اپنی تمام تر نااہلی اور کمزوری کے باوجود صدام کو مدد پہنچا رہی تھی۔ سب نے مدد کی۔ یعنی مشرق و مغرب نے صدام کی حمایت میں اور اسلامی جمہوریہ کے خلاف متحدہ محاذ تشکیل دے دیا تھا۔ اسلامی جمہوریہ نے ذرہ برابر اضطراب ظاہر کئے بغیر استقامت کا مظاہرہ کیا اور توفیق خداوندی سے ان ساری طاقتوں پر غلبہ حاصل کیا، سب پر فتح حاصل کی۔ آٹھ سال جنگ لڑنے کے بعد وہ ایران کی ایک انچ زمین بھی نہیں چھین پائے۔ اس طرح خوف کا محاذ گر گیا۔ البتہ میں نے عرض کیا کہ آج صبر و تحمل رکھنے والے افراد، باخبر لوگ اور اسلامی اقدار کے پابند عناصر امریکا سے نہیں ڈرتے، لیکن آج بھی ممکن ہے کہ بعض افراد امریکا سے خوفزدہ ہو جائیں، مگر یہ حوف بیجا ہے۔ محمد رضا کا امریکا سے خوفزدہ ہونا سمجھ میں آنے والی بات ہے، مگر آج ان افراد کا ڈرنا سمجھ کے باہر ہے۔ کیونکہ طاغوتی حکومت کے عمائدین کو عوام کی پشت پناہی حاصل نہیں تھی، جبکہ آج اسلامی جمہوریہ کو اس عظیم قوم کی حمایت حاصل ہے۔
ہمارے ملک پر دشمن کے تسلط میں مددگار ایک اور محاذ خود اعتمادی کا فقدان تھا جسے ذہنوں میں ڈال دیا گيا تھا، قومی خود اعتمادی کا فقدان تھا۔ لوگ مغربی ملکوں کے زرق و برق کو دیکھتے تھے، ان کی علمی و سائنسی ترقی کے جلوؤں کا مشاہدہ کرتے تھے، ان کے مادی تمدن کی جھلکیاں دیکھتے تھے اور اپنے ملک کے اندر ان چیزوں کا فقدان پاتے تھے، یہ چیزیں نظر نہیں آتی تھیں، پسماندگی ہی دکھائی دیتی تھی تو خود اعتمادی ختم ہو جاتی تھی، اپنی توانائیوں پر بھروسہ ختم ہو جاتا تھا۔ پہلوی حکومت کے اس زمانے میں ایک حکومتی عہدیدار نے کہا تھا کہ ایرانی بس جاکر 'لولہنگ' بنائیں! آپ نہیں جانتے کہ 'لولہنگ' کیا چیز ہے؟ 'لولہنگ' مٹی کے لوٹے کو کہتے تھے۔ یعنی لوٹا بھی دھات کا نہیں مٹی کا۔ قدیم زمانے میں یہ چلن تھا کہ مٹی کا لوٹا بنا لیا کرتے تھے۔ اس عہدیدار نے کہا کہ ایرانیوں کے اندر بس اتنی ہی لیاقت ہے کہ 'لولہنگ' بنائیں۔ ایرانیوں کا نئی ایجادات و اختراعات سے کیا لینا دینا؟! اس زمانے میں اس طرح کی باتیں کی جاتی تھیں۔ اس زمانے کی ایک بڑی شخصیت یہ کہتی تھی کہ ایرانیوں کو اگر ترقی کرنی ہے تو وہ سر سے پاؤں تک مغربی اور یورپی وضع قطع کے مطابق خود کو ڈھال لے۔ اپنی ہر چیز کو ان کے مشابہ بنائے تو شاید کچھ ترقی کر لے۔ یعنی اپنی توانائی پر ذرہ برابر اعتماد نہیں تھا۔ انقلاب نے آکر خود اعتمادی کے اس فقدان کو ختم کر دیا اور خود اعتمادی کا جذبہ، قومی خود اعتمادی کا جذبہ عام ہو گیا۔ آج ایرانی جوان فخر سے کہتا ہے کہ ہم سب کچھ کر سکتے ہیں۔ آج جن میدانوں میں ترقی ہو چکی ہے اور بحمد اللہ ہم کافی آگے پہنچ چکے ہیں، ان کے علاوہ دوسرے میدانوں کے بارے میں بھی ہمارے نوجوان بسا اوقات ایسی جدید فکر اور آئيڈیا پیش کرتے ہیں کہ متعلقہ ادارے بھی اس پر قادر نہیں ہوتے۔ کیونکہ ایرانی نوجوان کے اندر خود اعتمادی کا جذبہ موجزن ہے۔ جب خود اعتمادی نہیں تھی تو پیشرفت بھی نہیں تھی اور جب خود اعتمادی کا جذبہ پیدا ہوا تو 'ہم کر سکتے ہیں' کی فکر بھی پروان چڑھی، توانائیوں نے انگڑائی لی۔ ایسی صورت میں ملت توانا ہو جاتی ہے، قوم طاقتور بنتی ہے۔ آج ہم اس حقیقت کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
انقلاب سے پہلے طاغوتی دور میں اس ملک کے اندر 50 سال سے یونیورسٹی تھی۔ اس یونیورسٹی میں فرض شناس اور اچھے اساتذہ بھی تھے، با صلاحیت طلبہ بھی تھے، البتہ آج کی نسبت تعداد کم تھی، موازنہ کیا جائے تو بہت کم تعداد تھی لیکن جتنے بھی تھے وہ ایرانی نوجوان تھے، صاحب استعداد نوجوان تھے۔ مگر اس کے باوجود اس 50 سال کے عرصے میں کوئی نئی علمی تحریک نہیں شروع ہو پائی! کیوں؟ کیونکہ لوگوں کے اندر یہ خود اعتمادی نہیں تھی، اپنی توانائیوں پر یقین و اطمینان نہیں تھا۔ پوری قوم کے ذہن پر عدم تیقن کی کیفیت مسلط کر دی گئی تھی۔ آج ہم وطن عزیز کے اندر آئے دن کسی نئی ایجاد کا مشاہدہ کرتے ہیں، سائنس کے میدان میں کوئی نیا اختراع اور ٹیکنالوجی کے میدان میں کوئی نئی ایجاد دیکھتے ہیں۔ جب ہمارے دشمنوں کی نظر ان اختراعات و ایجادات پر پڑتی ہے تو وہ چراغ پا ہو جاتے ہیں۔ آج ہمارا ملک پابندیوں کے باوجود مختلف میدانوں میں جدید ترین ٹیکنالوجی سے آراستہ ہے اور عالمی سطح پر صف اول کے دس ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔ جو چیزیں عوام الناس کی نگاہوں کے سامنے ہیں وہ تو یہی عسکری وسائل اور پیشرفتہ جنگی ساز و سامان ہے جسے آپ فوج اور پاسداران انقلاب فورس کے پاس دیکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ جو پیشرفت نینو ٹیکنالوجی، جوہری ٹیکنالوجی اور دیگر ٹیکنالوجیوں کے میدانوں میں حاصل ہوئی ہے وہ اسی جذبہ خود اعتمادی کی دین ہے۔ تو ایران میں دشمن کا ایک محاذ قومی سطح پر جذبہ خود اعتمادی کا فقدان تھا۔ جبکہ ملت ایران اور ہمارے نوجوانوں کی کامیابیوں کا ضامن اہم محاذ جذبہ خود اعتمادی ہے۔ تو یہ بھی ملک کے اندر دشمن کا ایک محاذ تھا۔
دشمن کا ایک اور محاذ تھا سیاست سے دین کو دور رکھنا۔ انھوں نے سب کو باور کرا دیا تھا کہ دین کا سیاسی میدان میں، عام زندگی میں اور سماجی نظام میں کوئی دخل نہیں ہونا چاہئے۔ یہ بات انھوں نے سب کے ذہنوں میں بٹھا دی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ جن افراد کو دین سے کوئی سروکار نہیں تھا وہ تو اپنی جگہ، حتی دیندار لوگ، یہاں تک کہ علمائے دین بھی یہ نہیں مانتے تھے کہ اسلام، سیاسی امور میں مداخلت کر سکتا ہے، حالانکہ اسلام کا ظہور ہی سیاسی عزائم کے ساتھ ہوا تھا۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مدینہ میں پہلا کام یہ کیا کہ حکومت تشکیل دی۔ مگر دشمنوں نے لوگوں کے ذہن میں یہ بات ڈال دی تھی اور اس محاذ کو ملک کے خلاف اور عوام کے خلاف استعمال کرتے تھے۔ اسلامی جمہوریہ نے آکر یہ محاذ بھی گرا دیا۔ آج یونیورسٹیوں میں ہمارے اسٹوڈنٹس بھی اسلامی اور قرآنی نقطہ نگاہ سے ملکی مسائل پر تحقیق کر رہے ہیں، علمی کاوشیں انجام دے رہے ہیں، علما اور دینی مدارس کی تو بات ہی الگ ہے۔
جب میں دشمن کا لفظ استعمال کرتا ہوں تو میری مراد امریکی حکومت سے ہوتی ہے۔ یہ کہنے میں مجھے کسی طرح کا کوئی تکلف نہیں ہے۔ البتہ وہ کہتے ہیں کہ ہم آپ کے دشمن نہیں ہیں، ہم تو آپ کے دوست ہیں۔ ہمارے عوام کے نام نوروز کا پیغام بھی دیا ہے اور ہمارے نوجوانوں سے اظہار ہمدردی بھی کیا ہے۔ اسی طرح وائٹ ہاؤس میں 'ہفت سین دسترخوان' (نوروز کے موقع پر سجایا جانے والا مخصوص دسترخوان جس پر حرف 'س' سے شروع ہونے والی سات چیزیں رکھی جاتی ہیں) کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ مگر یہ سب بچوں کو پھسلانے والی حرکتیں ہیں۔ ان چیزوں کے بہکاوے میں کوئی نہیں آئے گا۔ ایک طرف پابندیاں لگائے ہوئے ہیں، ایک طرف امریکی وزارت خزانہ اپنے مخصوص طریقوں سے جن کے بارے میں انھوں نے اقرار بھی کیا ہے، اس طرح کے کام کرتے ہیں کہ بڑی کمپنیاں، بڑے اقتصادی مراکز اور بڑے بینک قریب آنے اور اسلامی جمہوریہ ایران سے لین دین شروع کرنے کی ہمت نہ کر پائيں، اور دوسری جانب یہ ساری حرکتیں انجام دیتے ہیں۔ پابندیاں بھی لگاتے ہیں، دھمکیاں دیتے ہیں جو کھلی ہوئی دشمنی ہے اور دوسری طرف وائٹ ہاؤس میں 'ہفت سین دسترخوان' سجاتے ہیں، یا نوروز کے پیغام میں کہتے ہیں کہ ہم ایرانی نوجوانوں کے روزگار کے لئے کوشاں ہیں! ان باتوں پر کوئی بھی یقین نہیں کرے گا۔ وہ اب بھی ہماری قوم کو نہیں پہچان سکے ہیں، ملت ایران سے وہ اب بھی آشنا نہیں ہو سکے ہیں۔ ایرانی قوم آگاہ اور باشعور قوم ہے۔ اپنے دشمنوں کو خوب پہچانتی ہے۔ دشمنی کے طریقوں کو بھی بخوبی سمجھتی ہے۔ البتہ امریکا کے عوام سے ہمارا کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ کسی بھی قوم سے ہمارا کوئی تنازعہ نہیں ہے۔ کہیں کے بھی عوام سے ہماری کوئی مشکل نہیں ہے۔ ہمارا جھگڑا پالیسیوں سے ہے، سیاسی رہنماؤں سے ہے۔ دشمن وہ ہیں۔
میں اپنی بات مختصر کر رہا ہوں تاکہ جو باتیں میں عرض کرنا چاہ رہا تھا وہ آپ کی خدمت میں عرض کر سکوں۔ کچھ حقائق سامنے ہیں۔ ایک حقیقت ہمارے ملک میں موجود بے پناہ توانائیاں اور سرمایہ ہے۔ ہمارے پاس قدرتی سرمایہ بھی ہے، افرادی قوت بھی ہے، بین الاقوامی مواقع بھی ہیں۔ اس سرمائے کی وجہ سے آج ہمارے ملک کے پاس غیر معمولی پیشرفت کی صلاحیت ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ آج اسلامی جمہوریہ ایران علاقے کی سطح پر اور کچھ معاملات میں عالمی سطح پر ایک بااثر طاقت بن چکا ہے۔ یہ ایک زمینی سچائی ہے۔ ہمیں اپنی قدر کرنا چاہئے، اپنی ارزش و اہمیت کو سمجھنا چاہئے، اس قوم کے وقار کو سمجھنا چاہئے۔
دوسری حقیقت یہ ہے کہ امریکا بالکل آشکارا وجوہات کی بنا پر ہم سے دشمنی برت رہا ہے۔ البتہ ہم نے عرض کر دیا ہے کہ ہماری مراد امریکی سیاسی رہنما اور امریکی سیاست ہے۔ مشترکہ جامع ایکشن پلان کے مسئلے میں بھی انھوں نے وعدہ خلافی کی اور ہمارے اوپر نئی پابندیاں لگانے کی دھمکیاں دیں۔ میں نے عرض کیا کہ امریکی وزیر خزانہ شب و روز اسی کوشش میں لگے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو مشترکہ جامع ایکشن پلان کے نتائج و ثمرات سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملنے پائے۔ ظاہر ہے کہ یہ دشمنی ہے۔ مسلسل دھمکیاں دے رہے ہیں، بار بار پابندیاں عائد کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ کچھ مہینے بعد امریکا میں صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ سات آٹھ مہینے بعد شروع ہو جائیں گے اور نو مہینے بعد موجودہ حکومت تبدیل ہو جائے گی اور اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ اگلی حکومت اس کمترین سطح پر بھی اپنے وعدوں پر عمل کرتی رہےگی جو موجودہ حکومت کر رہی ہے۔ اس وقت امریکا کے صدارتی امیدواروں کے درمیان انتخابی بحث کے مقابلے چل رہے ہیں، ان کے درمیان ایران کے خلاف بدکلامی کی دوڑ شروع ہو گئی ہے۔ ظاہر ہے یہ دشمنی ہے۔ دشمنی کی اور کیا علامت ہوتی ہے؟! جب ہم کہتے ہیں کہ امریکا ہمارا دشمن ہے تو کچھ لوگوں کو گراں گزرتا ہے۔ سوال کرتے ہیں کہ آپ دشمن کیوں کہتے ہیں؟ دشمن ہی تو ہے اور یہ دشمنی ہی تو ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے (3)۔ آپ توجہ فرمائیے! ہرگز فراموش نہ کیجئے کہ ہم نے کہا ہے کہ ملت اور حکومت کے درمیان ہمدلی و ہم زبانی ہونی چاہئے۔ آپ یہ بات کبھی فراموش نہ کیجئے۔ سب کام کریں اور حکومت کی مدد کریں۔ اگر کوئی رہنمائی کرنا چاہتے ہیں تو ضرور کریں۔ حکومت سے تعاون کریں۔
تیسری حقیقت یہ ہے کہ بظاہر بہت مقتدر نظر آنے والے اس دشمن کے معاندانہ وسائل لا محدود نہیں ہیں۔ اس کے پاس کچھ بنیادی وسائل ہیں جو بہت فعال ہیں۔ ایک ہے پروپیگںدا مشینری، ایران کو خطرہ ظاہر کرنا، دوسرے دراندازی اور تیسرے پابندیاں۔ حالیہ چند مہینوں کے دوران میں نے دراندازی کے بارے میں کافی گفتگو کی اور اسے بار بار دہرایا ہے، لہذا اس وقت اسے پھر نہیں دہرانا چاہتا، پروپیگنڈے کے بارے میں بھی کافی بحث ہے۔ میں اس وقت پابندیوں کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔
دشمن کا ایک موثر حربہ ہے پابندی۔ دشمن کو یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ ہمارے ملک اور ہماری قوم کو پابندیوں سے بہت نقصان پہنچتا ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہم نے خود بھی اس کے اس تصور کو تقویت پہنچائی ہے۔ ایک زمانے میں ہم نے پابندیوں کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا کہ جناب پابندیاں لگی ہوئی ہیں، پابندیاں عائد ہیں، ہمیں ان پابندیوں کو ہٹوانا ہے۔ اگر پابندیاں ہوں گی تو ہمیں یہ نقصان پہنچے گا۔ دوسری طرف پابندیاں ہٹائے جانے کے معاملے کو بھی بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا، مبالغہ آرائی کی کہ اگر پابندیاں ہٹ جائیں گی تو یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا۔ حالانکہ کچھ بھی نہیں ہوا اور اگر صورت حال یہی رہی تو آئندہ بھی کچھ ہونے والا نہیں ہے۔ البتہ دشمن کو یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ پابندیوں کے ذریعے وہ ملت ایران پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔ دشمن کو یہ محسوس ہو رہا ہے۔ تو ہمارے سامنے اس وقت جو بنیادی چیز ہے وہ پابندیاں ہیں۔
پابندیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ میں نے اپنی گفتگو کے آغاز میں عرض کیا کہ دشمن ہمیں ایک دوراہا دکھاتا ہے اور کہتا ہے کہ امریکا کے سامنے ہتھیار ڈال دو اور وہ جو کچھ کہتا ہے سنو ورنہ دوسری صورت میں پابندیاں جاری رہیں گی۔ یہ ایک دوراہا ہے جس کے بارے میں ہم نے عرض کیا کہ بالکل غلط ہے۔ حقیقت میں ایک دوسرا دوراہا موجود ہے اور وہ یہ کہ یا تو ہم پابندیوں کی مشکلات کو یونہی جھیلتے رہیں، یا مزاحمتی معیشت کے ذریعے پابندیوں کے سامنے استقامت کا مظاہرہ کریں (4)۔ بہت اچھی بات ہے کہ آپ کی تیاری بہت اچھی ہے لیکن مزاحمتی معیشت کے لئے صرف تیاری کافی نہیں ہے۔ ہم نے کہا ہے؛ 'اقدام اور عمل'۔ البتہ حکومت نے استقامتی معیشت کے تعلق سے کچھ اقدامات انجام دئے ہیں۔ ہم نے کہا کہ مزاحمتی معیشت کے لئے ایک کمانڈ تشکیل دیجئے، اس کی تشکیل کر دی گئی ہے اور اس کی سربراہی نائب صدر محترم کو سونپی گئی ہے۔ کچھ کام بھی انجام دئے گئے ہیں اور اس کی رپورٹ بھی مجھے دی گئی ہے۔ میں نے سال نو کے موقع پر قوم کے نام اپنے پیغام میں اس کا ذکر بھی کیا۔ تاہم یہ تمہیدی اور مقدماتی کام ہیں۔ مجھے رپورٹ دی ہے کہ جو اقدامات انجام دئے گئے ان کے نتیجے میں تجارت میں توازن آیا ہے۔ یعنی ہماری غیر پیٹرولیم برآمدات ہماری درآمدات سے زیادہ ہو گئی ہیں۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ یا یہ کہ ہماری درآمدات گزشتہ سال کی نسبت اس سال کم ہو گئی ہیں۔ یہ سب اچھی خبریں ہیں۔ لیکن اتنا ہی کافی نہیں ہے۔ کام یہیں پر ختم نہیں ہوتا۔ اساسی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ میں نے یہاں کچھ چیزوں کا ذکر کیا ہے جنھیں 'اقدام اور عمل' کے دائرے میں انجام دیا جانا چاہئے۔
پہلے حکومتی عہدیداران ترجیحی اقتصادی سرگرمیوں اور ان کے مکمل سلسلے کی شناخت کریں اور اس پر توجہ مرکوز کریں۔ ملک کے اندر بعض اقتصادی سرگرمیاں ترجیح رکھتی ہیں، انکی اہمیت زیادہ ہے۔ ان کا درجہ مرکز اور محور کا ہوتا ہے جن سے متعدد اقتصادی دروازے کھلتے ہیں، ان پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان کی شناخت کرکے ان کے لئے دستور العمل وضع کرنا چاہئے اور سب کی ذمہ داریوں کا تعین کرنا چاہئے۔
اقدام اور عمل کے تناظر میں دوسری چیز جس پر ہم چاہتے ہیں کہ توجہ دی جائے، داخلی پیداوار ہے۔ جو رپورٹ مجھے ملی ہے اس کے مطابق آج ہماری تقریبا ساٹھ فیصدی پیداواری یونٹیں بند ہیں۔ کام نہیں کر رہی ہیں۔ بعض یونٹیں اگر کام کر بھی رہی ہیں تو اپنی صلاحیت سے کم کام کر رہی ہیں۔ کچھ تو بالکل ہی کام نہیں کر رہی ہیں۔ ہمیں پیداواری یونٹوں کو متحرک کرنا ہے۔ پروڈکشن کا احیاء کرنا ہے۔ البتہ اس کا اپنا طریقہ ہے اور یہ طریقہ فرض شناس ماہرین اقتصادیات جانتے ہیں۔ میں نے حکومتی عہدیداران سے بارہا کہا ہے کہ جو ناقدین ہیں انھیں بلائیے، ان کی بات سنئے۔ بسا اوقات ان کے پاس بڑی اچھی تجاویز ہوتی ہیں۔ اس طرح پروڈکشن کے شعبے میں نئی جان ڈالی جا سکتی ہے اس کو حرکت میں لایا جا سکتا ہے۔
تیسری چیز یہ ہے کہ ہم دیگر ملکوں کے ساتھ تجارت کر رہے ہیں۔ کچھ چیزیں امپورٹ کر رہے ہیں۔ کچھ چیزوں کی ہمیں ضرورت ہے اور ہم وہ چیزیں غیر ممالک سے خریدتے ہیں۔ انھیں امپورٹ کرنے پر مجبور ہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن ہماری توجہ اس پہلو پر ضرور رہنی چاہئے کہ اس امپورٹ سے داخلی پیداواری صلاحیت کمزور نہ ہونے پائے۔ مثال کے طور پر ہم ہوائی جہاز امپورٹ کرنا چاہتے ہیں، خریدنا چاہتے ہیں۔ ہم سے کہا جاتا ہے، یہ بات خود حکومتی عہدیداران کہتے ہیں، کہ اگر ہم طیارہ سازی کی داخلی صنعت میں اس قیمت کا اتنا فیصدی حصہ لگا دیں تو ہمیں باہر سے ہوائي جہاز خریدنے کے مقابلے میں زیادہ فائدہ مل سکتا ہے اور ہماری داخلی پیداوار میں بھی نمو پیدا ہوگا۔ اگر ہم سب کچھ دوسرے ملکوں سے خریدنے لگیں اور اس بات پر توجہ نہ دیں کہ درآمدات سے ہماری داخلی پیداوار پر کیا مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں تو یہ غلط ہے۔ تو درآمدات کے معاملے میں اس بات پر توجہ رکھنی ہوگی کہ ہماری داخلی پیداوار پر اس سے منفی اثر نہ پڑے۔
چوتھی چیز یہ ہے کہ بیرون ملک ہمارا کچھ پیسہ ہے۔ مثال کے طور پر ہم نے تیل فروخت کیا ہے، اس کی قیمت ہمیں نہیں ملی ہے۔ مشترکہ جامع ایکشن پلان میں یہ طے پایا تھا کہ یہ پیسہ ملک میں آئے۔ اس کا بیشتر حصہ اب تک نہیں مل سکا ہے، اس میں مشکلات ہیں اور امریکیوں کی حرکتیں اس میں صاف نظر آ رہی ہیں۔ البتہ کچھ دوسری وجوہات بھی ہیں لیکن بعض امریکی اداروں کی گھٹیا حرکتوں کی وجہ سے یہ پیسہ نہیں آ سکا ہے، البتہ آخرکار یہ پیسہ واپس آئے گا۔ جب دوسرے ملکوں میں موجود یہ پیسہ واپس ملے تو اسے ایسی جگہوں پر استعمال نہ کیا جائے کہ ضائع ہو جائے۔ یہ پیسہ ملک کے اندر آ رہا ہے۔ ملک کی ضرورتیں ہیں؛ سب سے پہلے درجے پر پیداواری شعبہ ہے۔ بہت ہوشیار رہئے کہ یہ پیسہ ضائع نہ ہونے پائے۔ بیجا خریداری پر اور بے جا کاموں میں اسے صرف نہ کیا جائے، فضول خرچی کی نذر نہ ہونے پائے۔ یعنی اس پیسے کا صحیح استعمال ہونا چاہئے جو غیر ملکی مراکز اور بینکوں سے آ رہا ہے۔
پانچویں چیز یہ ہے کہ ہماری معیشت میں کچھ سیکٹر ایسے ہیں جن کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ جیسے تیل اور گیس کا شعبہ ہے۔ یا گاڑیوں، طیاروں، ریل گاڑیوں اور بحری جہازوں میں استعمال ہونے والی انجن بنانے کی انڈسٹری ہے۔ یہ بڑے اہم اور حساس شعبے ہیں، انھیں نالج بیسڈ بنانا چاہئے۔ ہم جو نالج بیسڈ اکانومی کی بات کرتے ہیں وہ یہی ہے۔ ہمارے نوجوانوں نے، ہمارے سائنسدانوں نے ثابت کر دیا ہے کہ نئے دروازے کھول سکتے ہیں۔ ہمیں ٹیکنالوجی کی موجودہ سطح سے اور اوپر لے جا سکتے ہیں۔ کیا یہ معمولی کامیابی ہے کہ لمبی دوری کی مار کرنے والے میزائلوں کو اس درستگی کے ساتھ تیار کر دیا جائے کہ دو ہزار کلومیٹر کی دوری پر اپنے نشانے کو تباہ کر دے اور صرف دو یا پانچ میٹر کے انحراف کا ہی احتمال ہو؟ جو دماغ یہ کارنامہ انجام دے سکتا ہے، وہ دوسرے میدانوں میں بھی بہت کچھ کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر گاڑی میں استعمال ہونے والے انجن کی اس طرح اصلاح کرے کہ ایندھن کا خرچ بہت کم ہو جائے، یا ریل کے انجن میں کوئی بنیادی اصلاح کر دے! ایسا ہو سکتا ہے۔ آج بھی ہمارے ملک میں ایسے اقتصادی مراکز اور پروڈکشن یونٹیں ہیں جو ایسی چیزیں اور مصنوعات بنا رہی ہیں کہ غیر ملکی مصنوعات سے یا تو بہتر ہیں یا ان کے برابر ہیں۔ آج بھی ہمارے پاس اس طرح کے کارخانے ہیں۔ ان کی تقویت کی جانی چاہئے۔ معیشت کے اہم حصوں کو نالج بیسڈ بنانا مزاحمتی معیشت کی ایک اہم شرط ہے جسے پورا کیا جانا چاہئے۔
چھٹی چیز یہ ہے کہ ہم نے ماضی میں کچھ شعبوں میں سرمایہ کاری کی ہے، یہ پروجیکٹ مکمل کرکے انھیں استعمال کیا جانا چاہئے۔ ہم نے بجلی گھر کی تعمیر میں اچھی سرمایہ کاری کی ہے، پیٹروکیمیکل کے شعبے میں اچھی سرمایہ کاری کی ہے۔ آج ملک کو بجلی گھروں کی ضرورت ہے۔ دوسرے ملکوں کو بھی ان سستے بجلی گھروں کی ضرورت ہے جو ہم بنا رہے ہیں۔ اس لئے ایسا نہ ہو کہ ہم باہر سے جاکر بجلی گھر خریدیں یا غیر ملکی ماہرین کو بلائیں کہ وہ ہمارے لئے بجلی گھر بنائیں۔ جن شعبوں پر سرمایہ کاری ہو چکی ہے، محنت کی گئی ہے، کام ہوا ہے ان میں نئی جان ڈالنے اور انھیں استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
ساتویں چیز یہ ہے کہ ہم بیرونی ممالک سے جو بھی سودے کر رہے ہیں ان میں ٹیکنالوجی کی منتقلی کی شرط رکھی جائے۔ البتہ حکومت سے تعلق رکھنے والے ہمارے دوستوں نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ ایسا ہی کر رہے ہیں۔ میں اس پر تاکید کرتا ہوں اور اسے دہراتا ہوں کہ اس سلسلے میں غفلت نہ ہونے پائے۔ مثال کے طور پر کوئی نئی مشین یا آلہ خریدنا ہے تو باہر سے تیار شدہ حالت میں نہ خریدیں بلکہ اسے اس کی ٹیکنالوجی کے ساتھ حاصل کریں اور ملک کے اندر لائیں۔ ٹیکنالوجی ملک کے اندر آئے۔ معاہدوں میں اس نکتے پر خاص توجہ رکھیں۔
آٹھویں چیز یہ ہے کہ کرپشن کا سختی کے ساتھ مقابلہ کیا جائے، اسمگلنگ کا سختی کے ساتھ سد باب کیا جائے۔ ان چیزوں سے ملکی معیشت کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے، منفی اثر پڑ رہا ہے۔ اگر ہم ایسے عناصر کے سلسلے میں جو اپنی خاص تدابیر کے ذریعے اقتصادی معاملات میں کمیشن کھا رہے ہیں، اپنے لئے انھوں نے خاص امتیازات معین کر رکھے ہیں یا کرپشن کر رہے ہیں، نرمی برتیں گے تو یقینی طور پر ملک کو نقصان پہنچے گا۔ اس معاملے میں ہرگز تساہلی نہیں کرنی چاہئے۔ ویسے بیان دینے کی حد تک اور اخبارات میں اور سیاسی بیانوں میں تو بڑی اچھی اچھی باتیں کی جاتی ہیں لیکن ان کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ مثال کے طور پر کسی اقتصادی مجرم کو پکڑا گیا، اخبارات اس کے بارے میں لکھتے ہیں، تصاویر اور تفصیلات شائع ہوتی ہیں، اس طرح کے بہت سے کام سیاسی مفادات کے تحت کئے جاتے ہیں۔ ان چیزوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس کرپشن کو عملی طور پر روکنا اہم ہے جو آج ممکن ہے انجام دیا جائے، مالی بدعنوانی کا سد باب کیا جانا ضروری ہے۔ اسی طرح اسمگلنگ بھی ہے۔ اسمگلنگ کو روکنا چاہئے۔ اسمگلنگ کو روکنے کے لئے ٹھوس اقدام کرنا چاہئے۔
ایک اور چیز ہے انرجی کا بنحو احسن استعمال۔ میں نے ایک دفعہ یہیں پر آغاز سال کی اپنی تقریر میں یہ بات کہی تھی (5) کہ یہ کہا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ اگر ہم انرجی کا مناسب طریقے سے استعمال کریں اور اس کے استعمال میں کفایت شعاری سے کام لیں تو سالانہ سو ارب ڈالر کی بچت کی جا سکتی ہے۔ یہ معمولی رقم نہیں ہے۔ یہ بڑی رقم ہے۔ اس پر سنجیدگی سے کام کرنا چاہئے۔ ملک میں بہت سے کام انجام دئے جا رہے ہیں۔ ان میں بعض غیر ضروری ہیں، بعض کام تو نقصان دہ ہیں۔ یہ ساری محنت ان پہلوؤں پر مرکوز کی جائے۔ یہ ہے 'اقدام اور عمل' اقدام یعنی یہی سارے کام۔ البتہ میں نے سنا ہے کہ اس سلسلے میں پارلیمنٹ کی قرارداد بھی ہے۔ انرجی کے استعمال کے طریقے کو بہتر بنانے سے متعلق بل ہے۔ واقعی اس کا جائزہ لیا جانا چاہئے اور اس کے امکانات پر توجہ مرکوز کرنا چاہئے۔
دسویں چیز یہ ہے کہ چھوٹی اور اوسط سطح کی صنعتوں پر خاص توجہ دی جائے۔ اس وقت ملک میں چھوٹے اور اوسط سطح کے ہزاروں کارخانے ہیں۔ اگر وہ رپورٹ صحیح ہے جو مجھے ملی ہے کہ ان میں ساٹھ فیصدی کارخانے اور یونٹیں یا تو بند پڑی ہیں یا اپنی گنجائش سے کم کام کر رہی ہیں، تو یہ بہت بڑا نقصان ہے۔ سماج میں جو چیز تحرک لا سکتی ہے اور روزگار کے مواقع ایجاد کر سکتی ہے، نچلے طبقات کو فائدہ پہنچا سکتی ہے وہ یہی چھوٹی اور اوسط درجے کی صنعتیں ہیں۔ ان کو تقویت پہنچانے اور آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
یہ دس چیزیں ہیں اگر مزاحمتی معیشت کے لئے کچھ کام کرنا ہے تو یہ دس چیزیں ہیں جنھیں انجام دینا چاہئے۔ البتہ دوسرے بھی کام ہیں جو انجام دئے جا سکتے ہیں، حکام ان کا جائزہ لیں گے اور ان کی نشاندہی کریں گے۔ میں نے ان دس چیزوں کی تجویز دی ہے۔ یہ ملک کے اندر انقلابی عمل ہوگا، انقلابی اقدام ہوگا۔ یہ مزاحمتی معیشت سے متعلق کام ہے جو ملک کو نجات دلانے والی ہے۔ اگر ہم یہ سارے کام کر لے جاتے ہیں تو امریکا کے سامنے ڈٹ جانے پر قادر ہوں گے اور پابندیوں کا ہم پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ ہمیں امریکا کی پابندیوں سے بچنے کے لئے اپنے اقدار سے اور اپنی ریڈ لائنوں سے پیچھے ہٹنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ہم اگر مزاحمتی معیشت کی ان پالیسیوں پر عمل کرتے ہیں۔ اگر ہم اقدام اور عمل پر توجہ دیتے ہیں تو اپنے ملک کو محفوظ بنا سکتے ہیں، ملک کو اس انداز سے مستحکم بنا سکتے ہیں کہ پابندیوں کا نام سن کر ہم خوفزدہ نہیں ہوں گے۔ پابندیاں لگتی ہیں تو لگیں، اگر ہمارے پاس مزاحمتی معیشت ہے تو دشمن کی پابندیوں کا کوئی خاص اثر نہیں ہوگا۔ یہ انقلابی اور ایمانی اقدام اور کارروائی ہے۔ اگر ہم یہ کام انجام دیتے ہیں تو حکومتی عہدیداران اسی 1395 ہجری شمسی کے آخر تک رپورٹ پیش کر سکتے ہیں کہ ہم نے کتنے ہزار کارخانوں، پروڈکشن یونٹوں اور ڈیری فارمز کو نئے سرے سے شروع کر دیا اور زراعتی شعبے میں کیا کام انجام دئے۔ حکام آکر اپنی کارکردگی بیان کر سکتے ہیں۔ عوام کے سامنے اپنی رپورٹ رکھ سکتے ہیں اور عوام بھی ان چیزوں کو باقاعدہ محسوس کریں گے۔ جب عوام اپنی آنکھ سے دیکھیں گے اور خود محسوس کریں گے تو ان کا اعتماد بڑھے گا۔
البتہ اس کام میں عوام کا تعاون بھی ضروری ہے۔ میں یہ گزارش کروں گا کہ عوام، سیاسی افراد، اقتصادی شعبے کے افراد اور تمام لوگ حکومت کا ہاتھ بٹائیں، حکام سے تعاون کریں۔ یہ صرف مجریہ کا کام نہیں ہے۔ تینوں شعبوں کو چاہئے کہ اس کام کی انجام دہی کے لئے آپس میں تعاون کریں اور عوام بھی ان کی مدد کریں۔ عوام کی مدد بھی ضروری ہے اور حکام خاص طور پر مجریہ کے عہدیداران کی لگن ضروری ہے۔ اگر ہم یہ کام انجام دے لے جاتے ہیں تو جیسا کہ میں نے عرض کیا یہ انقلابی مہم ہے، اس میں سرعت بھی نظر آئے گی اور بڑی کامیابیاں بھی ملیں گی۔ ہم نے جہاں بھی انقلابی انداز سے کام کیا ہے یہ نتیجہ ہمیں ملا ہے۔ آپ غور کیجئے! ہمارے شہید ایٹمی سائنسدانوں نے جوہری ٹیکنالوجی کے میدان میں جو بے حد حساس شعبہ ہے، جو کام کیا اس میں وہ بہت اگے نکل گئے۔ شہید تہرانی مقدم نے جو کام انجام دیا اس میں وہ بہت بلندی پر پہنچے۔ شہید کاظمی (6) اسٹیم سیلز کے میدان میں بہت بلندی پر گئے۔ بہت عظیم کارنامہ انجام دیا۔ علمی و ثقافتی کاموں میں شہید آوینی پیش پیش نظر آئے۔ ان حالیہ برسوں میں مرحوم سلحشور نے بھی وہی بلندی حاصل کی۔ یہ افراد اس ملک میں انقلابی کاموں کی انجام دہی میں بہت اونچائی تک پہنچے۔ ان کی قدردانی کی جانی چاہئے، ان کی روش کی ترویج ہونی چاہئے انھیں یاد کیا جانا چاہئے۔ یہ ہے انقلابی کام۔ ہم جو بار بار کہتے ہیں کہ انقلابی افراد اور حزب اللہی افراد کی ہمیں قدر کرنی چاہئے، اس دولت کو محفوظ رکھنا چاہئے تو اس کی یہی وجہ ہے۔ جب کام انقلابی جوش و جذبے کے ساتھ انجام دیا جاتا ہے تو پیشرفت حاصل ہوتی ہے۔
میں نے مزاحمتی معیشت سے متعلق باتیں عرض کر دیں، چند باتیں ثقافتی مسائل سے متعلق بھی عرض کرتا چلوں۔ آپ جانتے ہیں کہ میری نظر میں ثقافتی مسائل کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ آج میں جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں یہ وہی بات ہے جو گزشتہ سال یا اس سے پہلے والے سال کی اسی نشست میں میں نے عرض کی تھی (7) کہ یہ عوامی رضاکار دستے جو ثقافتی کام انجام دیتے ہیں اور اس وقت پورے ملک میں اس طرح کی ہزاروں رضاکار ٹیمیں ثقافتی کاموں میں مصروف ہیں، جو خود بخود کام کر رہی ہیں، اپنی سطح پر غور و فکر کرتی ہیں، خود ہی محنت کرتی ہیں اور کام انجام دیتی ہیں، ان میں روز بروز وسعت لانا چاہئے۔ حکومتی اداروں کو چاہئے کہ ان کی مدد کریں۔ حکومت ادارے جن کا تعلق ثقافتی شعبے سے ہے، اپنے دروازے ان لوگوں کے لئے کھولنے کے بجائے جو نہ تو اسلام کو مانتے ہیں، نہ انقلاب کو مانتے ہیں، نہ اسلامی نظام کو تسلیم کرتے ہیں، نہ اسلامی اقدار کے قائل ہیں، ان مومن و دیندار نوجوانوں کے لئے، ان انقلابی افراد کے لئے اپنے پہلو میں جگہ بنائیں۔ یہ نوجوان کام انجام دیں گے اور وہ انجام دے بھی رہے ہیں۔ بڑے اہم ثقافتی کام انجام دے رہے ہیں۔ ہمارے نوجوان تمام میدانوں میں کام کر سکتے ہیں۔
عزیز نوجوانو! یہ ملک آپ کا ہے، مستقبل آپ کا ہے، موجودہ دور بھی آپ کا ہے۔ آپ یاد رکھئے کہ اگر آپ میدان میں ڈٹے رہیں گے، اگر آپ اللہ تعالی کی ذات پر توکل کے ساتھ آگے بڑھیں گے، اگر جذبہ خود اعتمادی کے ساتھ کام کریں گے تو امریکا کیا اس کے بڑے بھی کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔
پالنے والے! ہم نے جو کچھ کہا اور سنا اسے اپنے لئے اور اپنی راہ میں قرار دے۔ اسے اپنے لطف و کرم سے قبول فرما۔ پروردگارا! محمد و آل محمد کا صدقہ عزیز شہیدوں کی ارواح طیبہ کو ہم سے راضی و خوشنود فرما۔ امام خمینی کی روح مطہرہ کو ہم سے راضی رکھ۔ پالنے والے! اس قوم کو روز افزوں عزت و شوکت اور قوت و توانائی عطا فرما۔ پالنے والے! اس قوم، اسلام، مسلمین اور اس ملک کے زوال کے ہر راستے بند کر دے۔ پالنے والے! محمد و آل محمد کا صدقہ ہم نے جو کچھ کہا، جو چاہا اور ان چیزوں کو ہمیں عنایت فرما جن کی ہمیں ضرورت ہے اور ہم اپنی زبان سے ان کا ذکر نہیں کر سکے ہیں جبکہ تو ان سے واقف ہے۔ پالنے والے! ہمارے برادر عزیز آقا طبسی رضوان اللہ تعالی علیہ کی روح مطہرہ کو اپنے اولیا کے ساتھ محشور فرما۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته‌

۱) آستانہ مقدس امام رضا علیہ السلام کے متولی حجت الاسلام و المسلمین عباس واعظ طبسی مرحوم
۲) مزاحمتی معیشت، اقدام اور عمل
3) مجمعے نے نعرہ لگایا؛ «دولت تدبیر و امید! بصیرت، بصیرت» یعنی حکومت بصیرت سے کام لے!
4) حاضرین کے نعرے: ای رهبر آزاده، آماده‌ایم آماده‌ اے حریت منش رہبر ہم آمادہ ہیں
5) حرم امام علی رضا علیہ السلام میں زائرین اور خادمین کے اجتماع سے مورخہ 21 مارچ 2010 کا خطاب
6) رویان ریسرچ سینٹر کے سربراہ ڈاکٹر سعید کاظمی آشتیانی
7) حرم امام علی رضا علیہ السلام میں زائرین اور خادمین کے اجتماع سے مورخہ 21 مارچ 2014 کا خطاب