اس روایت میں بے لوث دوستی اور احسان نہ جتانے کی بات کی گئی ہے۔ یہ قول زریں، اس کا ترجمہ اور شرح پیش خدمت ہے؛
عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ الْمُؤْمِنُونَ خَدَمٌ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ قُیل وَ كَيْفَ يَكُونُونَ خَدَماً بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ قَالَ يُفِيدُ بَعْضُهُمْ بَعْضاً
كافى، ج 2، ص 167
ترجمہ و تشریح: کتاب الکافی میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت منقول ہے کہ «المؤمنون خدم بعضهم لبعض» مومنین ایک دوسرے کے خدمت گار ہیں۔ خدم جمع ہے خادم کی۔ خادم کے لئے فارسی (اور اردو) میں خدمت گار کا لفظ استعمال ہوتا ہے جو ذرا شائستہ لفظ ہے، اس کے لئے دوسرا لفظ نوکر کا ہے جو ذرا عامیانہ ہے۔ ایک تیسرا لفظ بھی ہے خدمت گزار جس کے فارسی زبان میں ایک الگ ہی معنی ہیں۔ یہاں خدم کا جو لفظ استعمال کیا گيا ہے اس سے خدمت گار ہی مراد ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ مومنین ایک دوسرے کے خادم ہیں۔ حاضرین کو یہ سن کا تعجب ہوا اور انہوں نے سوال کیا کہ وہ کیسے؟ سب ایک دوسرے کے خادم کیسے ہو سکتے ہیں؟ یا یوں کہا جائے کہ سب ایک دوسرے کے نوکر کیسے ہو سکتے ہیں؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے گھر جاکر ایک دوسرے کی خدمت کریں؟ ارشاد فرمایا کہ «يفيد بعضهم بعضا» ایک دوسرے کو فائدہ پہنچائيں۔ معلوم ہوا کہ مومنین کا ایک دوسرے کو فائندہ پہنچانا باہمی خدمت ہے۔ یہاں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ اس میں احسان جتانے والی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ کیونکہ اگر ہم نے ایک دوسرے کی خدمت کی ہے، ایک دوسرے کو فائدہ پہنچایا ہے خواہ ہمارا مقام و مرتبہ آپس میں برابر اور یکساں ہو، جیسے کوچہ و بازار میں ایک جیسی سماجی حیثیت رکھنے والے افراد ہوتے ہیں اور خواہ ان میں ایک، سماجی مقام و مرتبے کے لحاظ سے بلند ہو مثلا کسی ادارے کا سربراہ ہو اور دوسرا شخص معمولی انسان ہو تو بھی ان میں کسی نے بھی دوسرے کی خدمت کرکے احسان نہیں کیا ہے۔ ہماری نظر میں اس حدیث کا اہم نکتہ صرف یہی نہیں ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو فائدہ پہنچائیں بلکہ یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ فائدہ پہنچانے کے اس عمل کے بعد کوئی کسی پر احسان نہ جتائے اور خدمت کو احسان جتا کر نابود نہ کرے۔