یہ قول زریں، اس کا ترجمہ اور شرح پیش خدمت ہے؛
عَنْ أَبَانِ بْنِ تَغْلِبَ قَالَ كُنْتُ أَطُوفُ مَعَ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع فَعَرَضَ لِی رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِنَا كَانَ سَأَلَنِی الذَّهَابَ مَعَهُ فِی حَاجَةٍ فَأَشَارَ إِلَيَّ فَكَرِهْتُ أَنْ أَدَعَ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع وَ أَذْهَبَ إِلَيْهِ فَبَيْنَا أَنَا أَطُوفُ إِذْ أَشَارَ إِلَيَّ أَيْضاً فَرَآهُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع فَقَالَ يَا أَبَانُ إِيَّاكَ يُرِيدُ هَذَا قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَمَنْ هُوَ قُلْتُ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِنَا قَالَ هُوَ عَلَى مِثْلِ مَا أَنْتَ عَلَيْهِ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَاذْهَبْ إِلَيْهِ قُلْتُ فَأَقْطَعُ الطَّوَافَ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ وَ إِنْ كَانَ طَوَافَ الْفَرِيضَةِ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَذَهَبْتُ مَعَهُ ثُمَّ دَخَلْتُ عَلَيْهِ بَعْدُ فَسَأَلْتُهُ فَقُلْتُ أَخْبِرْنِی عَنْ حَقِّ الْمُؤْمِنِ عَلَى الْمُؤْمِنِ فَقَالَ يَا أَبَانُ دَعْهُ لَا تَرِدْهُ قُلْتُ بَلَى جُعِلْتُ فِدَاكَ
شافی، جلد 1، حدیث 1506
ترجمہ و تشریح: کتاب الکافی میں ابان ابن تغلب کے توسط سے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی ایک روایت نقل کی گئی ہے۔ اس میں ابان ابن تغلب کہتے ہیں کہ «كنت اطوف مع ابیعبدالله علیه السلام فعرض لی رجل من اصحابنا كان سئلنی الذهاب معه فی حاجۃ» ایک برادر دینی نے مجھ سے گذارش کی تھی کہ ایک کام کے لئے اس کے ساتھ جاؤں۔ میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی معیت میں خانہ کعبہ کا طواف کر رہا تھا کہ اسی برادر دینی نے اثنائے طواف میں مجھے اشارے سے بلایا۔ فكرهت ان ادع اباعبدالله (علیه السلام) و اذهب الیه مجھے گراں گزر رہا تھا کہ امام کو چھوڑ کر اس کے ساتھ جاؤں۔ یہ صحیح بات بھی ہے کیونکہ امام معصوم کی معیت میں خانہ کعبہ کے طواف کا موقع بڑے نصیب کی بات ہے۔
فبینما انا اطوف اذ اشار الیّ ایضا میرا طواف جاری رہا اور جب دوبارہ اس کا سامنا ہوا تو اس نے پھر مجھے اشارہ کیا۔ اس دفعہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی نگاہ بھی اس پر پڑ گئی۔ فقال یا ابان ایاك یرید هذا؟ آپ نے پوچھا کہ کیا اس کو تم سے کام ہے؟ میں نے جواب دیا کہ ہاں۔ آپ نے پھر پوچھا کہ وہ کون ہے؟ میں نے جواب دیا کہ «فقلت رجل من اصحابنا» برادر دینی ہے۔ ہمارا شیعہ بھائی ہے۔ آپ نے پھر سوال کیا کہ «قال هو علی مثل ما انت علیه؟» امامت کے سلسلے میں جو عقیدہ تم رکھتے ہو وہ بھی اسی عقیدے کا مالک ہے؟ میں نے جواب دیا کہ ہاں۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ تو جاؤ دیکھو کیا کہہ رہا ہے۔ «قلت فاقطع الطواف؟» میں نے عرض کیا کہ طواف کو قطع کر دوں؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں۔ اب آپ یہاں توجہ دیجئے! ابان جلیل القدر عالم دین تھے۔ انہوں نے موقعہ غنیمت جان کر ایک نیا شرعی مسئلہ معلوم کر لیا۔ انہوں نے سوال کیا کہ اگر یہ واجب طواف ہو تب بھی بیچ میں قطع کرکے چلا جاؤں؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں، واجب طواف کے دوران بھی اگر تمہارے برادر دینی کو تم سے کام پڑ جائے، وہ تم سے کوئی درخواست کر دے تو اپنا طواف روک دو اور اس کے ساتھ جاؤ۔ ابان ابن تغلب کہتے ہیں کہ یہ سن کر میں امام کے پاس سے اس کی طرف چلا گیا۔
کام انجام دینے کے بعد حضرت کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوا «فسألته فقلت اخبرنی عن حقّ المؤمن علی المؤمن» میں نے پوچھا کہ یہ کون سا حق اور فریضہ ہے جس کی وجہ سے واجب طواف کو بھی بیچ میں ہی قطع کیا جا سکتا ہے؟ حضرت نے جواب دیا کہ اے ابان! چھوڑو، کیوں بار بار پوچھ رہے ہو۔ میں نے اصرار کیا تو حضرت نے برادر مومن کے حقوق گنوانا شروع کر دئے۔ حضرت نے جو سوال کرنے سے منع فرمایا اس کی وجہ یہ تھی کہ اگر تمام حقوق سے واقف ہو گئے تو ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دب جاؤگے کیونکہ ان فرائض پر عمل کرنا ہوگا۔ اس کے بعد روایت کے اس حصے میں بڑا مفصل بیان موجود ہے۔ معلی ابن خنیس سے بھی ایسی ہی ایک روایت ہے جنہوں نے حضرت سے مومن بھائی کے حقوق کے بارے میں دریافت کیا تھا۔ روایت کا یہ ٹکڑا جو پیش کیا گیا ہمارے لئے اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں مومنین کے حقوق پر توجہ دینے کی تاکید کی گئی ہے۔