یہ قول زریں، اس کا ترجمہ اور شرح پیش خدمت ہے؛
قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ ع أَ يَجِيءُ أَحَدُكُمْ إِلَى أَخِيهِ فَيُدْخِلُ يَدَهُ فِی كِيسِهِ فَيَأْخُذُ حَاجَتَهُ فَلَا يَدْفَعُهُ فَقُلْتُ مَا أَعْرِفُ ذَلِكَ فِينَا فَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ ع فَلَا شَيْءَ إِذاً قُلْتُ فَالْهَلَاكُ إِذاً فَقَالَ إِنَّ الْقَوْمَ لَمْ يُعْطَوْا أَحْلَامَهُمْ بَعْد
كافى، ج 2، ص 174
ترجمہ و تشریح: کتاب الکافی میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی یہ روایت منقول ہے کہ «أ يجىء احدكم الى اخيه فيدخل يده فى كيسه فيأخذ حاجته فلا يدفعه» حضرت نے اپنے اصحاب میں سے ایک سے سوال کیا، اب اس روایت میں اس کا ذکر نہیں ہے کہ وہ صحابی کون تھے، انہوں نے کیا سوال کیا تھا اور وہ کہاں کے رہنے والے تھے؟ اس تمہید کا ذکر اس روایت میں نہیں ہیں۔ حضرت نے پوچھا کہ آپ جس جگہ رہتے ہیں کیا وہاں ایسا ماحول ہے کہ آپ میں سے کوئی آئے اور اپنے برادر دینی کی جیب میں ہاتھ ڈالے اور اپنی ضرورت کے مطابق پیسہ نکال لے اور اس برادر دینی کو ناگوار بھی نہ گزرے؟ کیا آپ لوگ اس مقام تک پہنچ گئے ہیں کہ آپ کی جیبیں ایک دوسرے کے لئے کھلی ہوئی ہوں۔
مرحوم حرز الدین نے نقل کیا ہے کہ معروف اور جلیل القدرعالم دین کاشف الغطاء مرحوم کے زمانے میں شیخ خضر نام کے بڑے اہم عالم دین گزرے ہیں۔ عید کے دن نجف اشرف کے عوام اور اطراف کے قبائل شیخ خضر کے گھر جاتے تھے اور تحفے کے طور پر سامان اور رقم دیتے تھے۔ عید کا دن تھا اور لوگوں نے ان کے سامنے جو چیزیں لاکر رکھی تھیں ان کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ اسی عالم میں شیخ جعفرکاشف الغطاء وہاں پہنچے۔ انہوں نے سامان اور رقم دیکھی۔ ظہر کا وقت آ گیا اور ملنے والے لوگ رفتہ رفتہ لوٹ گئے۔ کاشف الغطاء اٹھے اور اپنی عبا میں اس رقم اور سونا چاندی کو جمع کیا اور خدا حافظ کرکے روانہ ہو گئے۔ شیخ خضر نے بس ایک نظرڈالی اور کچھ بھی نہیں بولے گویا کوئي خاص بات ہوئی ہی نہ ہو۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ اور بھی دلچسپ ہے۔ بہرحال امام نے سوال کیا کہ کیا آپ لوگوں کے درمیان ذاتی چیزوں کے استعمال کے سلسلے میں یہ عالم ہے۔ مثلا آپ نے اپنی قبا کہیں آویزاں کر رکھی ہے۔ آپ کا دوست آتا ہے اور آپ کی قبا کی جیب میں ہاتھ ڈالتا ہے، ضرورت کے مطابق رقم نکالتا ہے اور باقی رقم جیب میں چھوڑ کر روانہ ہو جاتا ہے اور آپ کو ذرہ برابر بھی ناگوار نہیں گزرتا؟ کیا تمہارے درمیان اس طرح کے تعلقات ہیں؟ اس راوی نے جواب دیا کہ ہمارے درمیان ایسا ماحول نہیں ہے۔ امام نے فرمایا کہ پھر تو ابھی کچھ ہوا ہی نہیں۔
میں یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ یہ امام محمد باقر علیہ السلام کے زمانے کا واقعہ ہے۔ اس زمانے میں شیعہ معاشرہ رفتہ رفتہ تشکیل پا رہا تھا۔ واقعہ کربلا کے بعد امام زین العابدین علیہ السلام کے تینتیس چوتیس سال کے دور میں عوام الناس رفتہ رفتہ جمع ہو رہے تھے۔ کیونکہ عاشور کے واقعے کے بعد شیعوں کے خلاف جو سختیاں اور زیادتیاں شروع ہوئیں ان سے شیعہ بکھر کر رہ گئے تھے، گوشہ و کنار میں چلے گئے تھے۔ ان چونتیس برسوں میں لوگ دوبارہ رفتہ رفتہ جمع ہوئے۔ امام محمد باقر علیہ السلام کے زمانے میں لوگ زیادہ جمع ہوئے۔ شہروں اور قرب و جوار کے علاقوں میں لوگ پھر سے جمع ہوئے۔ یہ واقعہ اس زمانے کا ہے اور امام فرما رہے ہیں کہ دنیا کے مختلف گوشوں میں شیعہ مراکز کو اس انداز سے قائم کیا جائے۔ ان کے درمیان آپس میں اس طرح میل محبت ہو۔
حضرت نے جو فرمایا کہ فلا شئ تب تو ابھی کوچھ ہوا ہی نہیں، اس کا مطلب یہی ہے کہ جو مطمح نظر ہے وہ ابھی حاصل نہیں ہوا ہے۔ وہ شخص یہ سن کر خوفزدہ ہو گیا اور اس نے پوچھا کہ فالھلاک اذا؟ ہلاک لفظ کے الگ الگ جگہوں پر مختلف معانی ہوتے ہیں۔ یہاں اس سے مراد ہے بد بختی۔ یعنی تو کیا ہم بد بخت ہیں؟ امام نے جواب دیا ان القوم لم یعطوا احلامھم بعد احلام جمع ہے حلم کی۔ اس کا مطلب ہے حلم و بردباری۔ قرآن میں بھی حلم یحلم کا لفظ استعمال ہوا ہے خواب کے معنی میں۔ ان دونوں میں فرق ہے۔ روایت میں امام نے یہ فرمایا کہ ہے پھر بردباری اور رواداری کی مطلوبہ منزل تک نہیں پہنچ سکے ہو۔ لہذا یہاں ہلاک کا مطلب نابودی نہیں ہے اور عذاب خدا میں گرفتار ہونا نہیں ہے۔ یہاں یہ مراد ہے کہ ابھی تمہارے اندر مطلوبہ شرح صدر پیدا نہیں ہوا ہے۔