دین، قائد انقلاب اسلامی کے نقطہ نگاہ سے

بسمہ تعالی

دین سب سے پہلے مرحلے میں تو ایک علم اور معرفت ہے۔ اس دنیا کی معرفت و شناخت، بشر کی شناخت، منزل و ہدف اور راستے کی شناخت، یہ ساری معرفتیں دین کے ستون ہیں۔ دین انسان کو کائنات کے محور کے طور پر دیکھتا ہے۔ انسان وہ بے نظیر ہستی ہے جو اپنی فکری کوششوں سے سربستہ راز کھول اور نئے نئے میدانوں کو سر کر سکتا ہے۔
دنیا، دین کے پیغام، کارکردگي اور فرائض کی ادائگی کا میدان ہے۔ دین اس عظیم اور گوناگوں صفات کی حامل کائنات میں آکر انسانی زندگی اور سرگرمیوں کو نظم و ترتیب اور ہدف و سمت عطا کرتا ہے، انسانوں کی ہدایت کرتا ہے۔ اس تعریف کی رو سے دین و دنیا ایک دوسرے کا سہارا ہیں اور ان کو علاحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ دین کو اپنے فرائض کی انجام دہی کے لئے دنیا کے علاوہ کوئي میدان نہیں مل سکتا اور دنیا، دین کے تعمیری اور تخلیقی کردار کے بغیر ایسی جگہ بن جائے گی جہاں نہ معنویت ہوگی نہ روحانیت، نہ حقیقت ہوگی نہ محبت، نہ زندگی ہوگي نہ روح، یعنی دین کا عنصر نہ ہو تو انسانی زندگی جنگل راج کی مصداق بن کر رہ جائے گی۔ اس عظیم اور بے کراں وادی میں انسان کو احساس تحفظ کی ضرورت ہے تاکہ وہ معنوی اور روحانی تکامل اور بلندی کا سفر طے کر سکے۔
ان چیزوں کی رو سے دیکھا جائے تو دنیا کو دین سے الگ کرنے کا مطلب ہوگا زندگی، سیاست اور معیشت کو روحانیت سے عاری بنا دینا، اس کا مطلب ہوگا عدل و انصاف اور روحانیت کی نابودی۔ دنیا کو اگر انسانی زندگی کے اہم ترین اور سنہری مواقع اور جا بجا بکھری نعمتوں، پر کشش اور حسین مناظر اور تلخیوں اور رنج و آلام کی حیثیت سے دیکھا جائے تو یہ انسانی کاملیت اور سربلندی کا وسیلہ ہے۔ دین کی نگاہ میں یہ ایسے وسائل ہیں جن کے سہارے انسان منزل کمال کی سمت رواں دواں رہ سکتا ہے اور اپنی ان صلاحیتوں کو نمایاں کر سکتا ہے جو اللہ تعالی نے اسے ودیعت کر دی ہیں۔ دنیا کو اس نظر سے دیکھا جائے تو اسے دین سے الگ کرنا ممکن نہیں ہے۔ ہاں دنیا کا ایک اور مفہوم بھی ہے۔ اسلام میں دنیا کو نفسانی خواہشات، خود غرضی اور ھوا و ہوس کا اسیر ہو جانے اور دوسروں کو اپنی ھوا و ہوس کا شکار بنانے کے معنی میں بھی متعارف کرایا گيا ہے۔ روایات میں منفور دنیا یہی ہے جو دین کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتی۔
ہماری نظر میں عوام ہی سب کچھ ہیں۔ اسلامی طرز فکر اور تعلیمات میں اللہ تعالی کو محور قرار دئے جانے اور عوام کو محور قرار دینے میں کوئي تضاد اور ٹکراؤ نہیں ہے۔ یہ ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جس ملک کے عوام دیندار اور مذہبی نہ ہوں وہاں دینی حکومت کا قیام نا ممکن ہے۔ وہاں دینی معاشرے کی تشکیل نہیں ہو سکتی۔ بنابریں کسی ملک میں اسلامی حکومت کا وجود وہاں کے عوام کی دینداری کا ثبوت ہے، یعنی وہاں کے عوام نے ایسی حکومت کی خواہش کی تب یہ حکومت وجود میں آئی۔
دین خدا کی حکومت اور بالادستی کا ہدف مظلوموں کی مدد اور الہی احکامات و تعلیمات پر عملدرآمد ہے۔ کیونکہ سعادت و خوش بختی الہی احکامات پرعمل سے ہی ممکن ہے۔ کیونکہ عدل و انصاف دینی احکام پر عملدرآمد سے ہی ممکن ہے۔ کیونکہ انسان کی حریت و آزادی دینی احکام پر عمل کرنے سے مل سکتی ہے۔ آزادی اور کہاں سے حاصل کی جا سکتی ہے؟ انسانی ضرورتوں کی تکمیل تو دینی احکامات کے زیر سایہ ہی ممکن ہے۔
بنیادی ضرورتوں کے اعتبار سے آج کے انسان اور ہزارہا سال قبل کے بشر میں کوئی فرق نہیں ہے۔ انسان کی بنیادی ضرورتیں یہی تو ہیں؛ اسے تحفظ چاہئے، آزادی چاہئے، معرفت و علم چاہئے، چین کی زندگی چاہئے، تفریق و امتیاز سے نجات چاہئے، ظلم سے چھٹکارا چاہئے۔ زمانہ بدلنے کے ساتھ ساتھ پیدا ہونے والی ضرورتیں انہی ضرورتوں کی تکمیل کی صورت میں ہی پوری ہو سکتی ہیں۔ جبکہ بنیادی ضرورتوں کی تکمیل دین خدا ہی کر سکتا ہے کوئي اور نہیں۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دین لائے، آپ نے انسانی زندگی کو ہدف اور سمت عطا کی، روحانیت و معنویت پر تکیہ کیا لیکن ساتھ ہی جگہ جگہ پر امت کو مادی وسائل کی جانب بھی متوجہ کیا۔ زندگی کے امور چلانے کیلئے ضروری اطلاعات اور مہارت مہیا کرائي۔ کہیں پیچیدگي پیدا ہوئي تو لوگوں کو حکم دیا کہ جاؤ علم حاصل کرو، جاؤ چیزوں کا مشاہدہ کرو، نظریات قائم کرنے کی کوشش کرو۔
قرون وسطی، یورپیوں کے لئے تاریکی و ظلمت کی صدیاں اور ہم مسلمانوں کے لئے آفتاب علم کی ضو فشانی کی صدیاں تھیں۔ یورپی اس حقیقت کو چھپاتے ہیں اور مغربی مورخین اسے زبان پر لانے سے کتراتے ہیں۔ ہم نے بھی انہی کی باتوں کا اعتبار کر لیا ہے۔
انیسویں صدی جو مغرب میں علمی تحقیقات کے اوج کا زمانہ ہے وہ در حقیقت دین سے علاحدگي اور انسانی زندگی سے دین کی رخصتی کا زمانہ ہے۔ اس نظرئے کا اثر ہمارے ملک پر بھی پڑا اور ہماری یونیورسٹی حقیقت میں غیر مذہبی بنیادوں پر قائم کی گئی۔ علما نے یونیورسٹیوں سے منہ پھیر لیا اور یونیورسٹی نے علما اور دینی تعلیمی مراکز سے رشتہ توڑ لیا۔
جو افراد دین کی حمایت کا دم بھرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سیاسی امور میں دین کی مداخلت نہیں ہونی چاہئے انہیں خبر نہیں ہے کہ اسلام کے اقتدار اور احیاء کے عمل کے خلاف سامراجی طاقتوں کا تشہیراتی نعرہ یہی ہے۔ البتہ دین اور سیاست میں جدائی کا موضوع صدیوں سے زیر بحث ہے۔ پہلے ان استبدادی طاقتوں نے جو معاشرے کو اپنے چنگل میں جکڑے ہوئے تھیں اور ملک و قوم کے ساتھ ہر سلوک روا رکھتی تھیں، اس مسئلے کو اٹھایا، ظاہر ہے وہ تو یہی چاہتی تھیں کہ اسلامی احکامات کی، حکومت کے امور میں کوئي دخل اندازی نہ ہو۔ اس بنا پر سلاطین اور شہنشاہ، دین و سیاست میں جدائي کے گمراہ کن نظرئے کے سب سے پہلے مروج ہیں۔

(اقتباس)