ایران کی عزیز اور عظیم قوم پر بے شمار درود و سلام ہو۔ سب سے پہلے میں حالیہ واقعات کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ شہید کمانڈرز، شہید سائنسداں جو حقیقی معنی میں اسلامی جمہوریہ کے لیے گرانقدر تھے اور انھوں نے بڑی خدمات سر انجام دیں اور آج پروردگار عالم کے یہاں اپنی نمایاں خدمات کا صلہ حاصل کر رہے ہیں، ان شاء اللہ۔
میں ایران کی عظیم قوم کو مبارکباد پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ میں قوم کو کئی ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں:
پہلی، جعلی صیہونی حکومت پر فتح کی مبارکباد ہے۔ اتنے زیادہ شور ہنگامے، اتنے زیادہ دعووں کے باوجود صیہونی حکومت، اسلامی جمہوریہ کی ضرب سے تقریباً زمیں بوس ہو گئي اور اور کچل دی گئي۔ ان کے تصور میں اور ان کے ذہن میں کبھی یہ بات آ ہی نہیں سکتی تھی کہ ممکن ہے اسلامی جمہوریہ کی جانب سے اس حکومت کو ایسی ضرب پڑے، لیکن ایسا ہوا۔
ہم خداوند عالم کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہماری مسلح فورسز کی مدد کی اور وہ صیہونیوں کے پیشرفتہ ڈیفنس کے کئی لیئرز کو عبور کر گئیں اور انھوں نے ان کے بہت سے شہری اور فوجی علاقوں کو اپنے میزائيلوں کے ذریعے اور اپنے پیشرفتہ ہتھیاروں کے مضبوط حملے سے مٹی میں ملا دیا۔ یہ اللہ کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ صیہونی حکومت کو جان لینا چاہیے کہ اسلامی جمہوریۂ ایران کے خلاف جارحیت کی اسے قیمت چکانی پڑے گي، قیمت ادا کرنی پڑے گی، اسے بھاری قیمت چکانی ہوگي اور بحمد اللہ یہ کام بھی ہوا۔ اس کا افتخار مسلح فورسز اور ہمارے عزیز عوام سے متعلق ہے جنھوں نے اپنے درمیان سے ان مسلح فورسز کو پیدا کیا، ان کی پرورش کی، ان کی حمایت کی اور اس طرح کے ایک بڑے کام کے لیے ان کے بازو مضبوط کیے۔
دوسری مبارکباد، امریکی حکومت پر ہمارے عزیز ایران کی فتح سے متعلق ہے۔ امریکی حکومت، جنگ میں، براہ راست جنگ میں شامل ہو گئی کیونکہ اسے محسوس ہوا کہ اگر وہ جنگ میں شامل نہ ہوئی تو صیہونی حکومت پوری طرح سے نابود ہو جائے گي۔ وہ جنگ میں اس لیے شامل ہوئی کہ اسے نجات دے لیکن اسے اس جنگ سے کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ ہمارے ایٹمی مراکز پر حملہ کیا، جو علیحدہ طور پر کسی عالمی عدالت میں قانونی مقدمے کے لائق ہے لیکن وہ کوئي اہم کام نہیں کر سکے۔ امریکی صدر نے جو کچھ ہوا تھا، اس کے بارے میں بڑھا چڑھا کر باتیں کیں اس سے پتہ چلا کہ انھیں بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی ضرورت پڑ گئی۔ جو بھی ان باتوں کو سنتا وہ سمجھ جاتا کہ ان ظاہری باتوں کے پیچھے ایک الگ حقیقت پائي جاتی ہے۔ وہ کچھ نہیں کر سکے، جو ہدف حاصل کرنا چاہتے تھے، اسے حاصل نہیں کر سکے۔ اور بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں تاکہ حقیقت کو چھپائيں اور اسے پوشیدہ رکھیں۔ یہاں بھی اسلامی جمہوریہ فتحیاب ہوئی اور اسلامی جمہوریہ نے جواب میں امریکا کے رخسار پر ایک زوردار تھپڑ رسید کیا۔ اس نے خطے میں امریکا کے ایک اہم اڈے، العدید بیس پر حملہ کیا اور اسے نقصان پہنچایا۔ اُس مسئلے میں جن لوگوں نے بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا تھا، انھوں نے اِس مسئلے میں بات کو ہلکا کر کے پیش کرنے کی کوشش کی، یہ کہا کہ کچھ نہیں ہوا ہے جبکہ ایک بڑا واقعہ ہوا تھا۔ یہ کوئي معمولی واقعہ نہیں ہے کہ اسلامی جمہوریہ کو خطے میں امریکا کے اہم مراکز تک دسترسی حاصل ہو اور وہ جب بھی ضروری سمجھے ان کے خلاف کارروائي کرے، یہ ایک بڑا واقعہ ہے۔ مستقبل میں بھی یہ واقعہ دوہرایا جا سکتا ہے، اگر کوئی جارحیت ہوتی ہے تو دشمن کو بھاری قیمت، جارح کو یقینی طور پر بہت بھاری قیمت چکانی ہوگی۔
تیسری مبارکباد ایرانی قوم کے غیر معمولی اتحاد اور اتفاق رائے کی ہے۔ بحمد اللہ قریب نو کروڑ کی آبادی والی ایک قوم، متحدہ طور پر، ایک آواز ہو کر، ایک دوسرے کے شانہ بشانہ، مطالبات اور اہداف میں بغیر کسی اختلاف کے ڈٹ گئی، نعرے لگائے، بیان دئے، مسلح فورسز کی کارروائيوں کی حمایت کی، آئیندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔
ایرانی قوم نے اس مسئلے میں اپنی عظمت کو، اپنی نمایاں اور ممتاز شخصیت کو دکھا دیا اور بتا دیا کہ ضروری موقع پر اس قوم سے ایک ہی آواز سنائی دے گي اور بحمد اللہ ایسا ہی ہوا۔
میں اپنے معروضات میں ایک بنیادی نکتے کے طور پر جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ امریکی صدر نے اپنے ایک بیان میں کہاکہ ایرانی قوم کو سر جھکانا ہوگا، سرینڈر کرنا ہوگا، اب یورینیم کی افزودگي کی بات نہیں ہے، ایٹمی صنعت کی بات نہیں ہے، بات ایران کے سرینڈر ہونے کی ہے۔ امریکی صدر کی یہ بات، چھوٹا منہ، بڑی بات کا مصداق ہے۔ اتنی عظمت والے ایران، تاریخ رکھنے والے ایران، ثقافت رکھنے والے ایران، ایسا فولادی قومی عزم رکھنے والے ایران اور ایسے ملک کے لیے سرینڈر ہونے کی بات ان لوگوں کی نظر میں مضحکہ خیز ہے جو ایرانی قوم کو پہچانتے ہیں لیکن ان کی اس بات نے اس حقیقت کو عیاں کر دیا کہ امریکی، انقلاب کی ابتداء سے ایران اسلامی سے جنگ کر رہے ہیں، متصادم ہیں۔ وہ ہر بار کوئي نہ کوئي بہانہ لے آتے ہیں۔ کبھی انسانی حقوق ہے، کبھی جمہوریت کا دفاع ہے، کبھی خواتین کے حقوق کی بات ہے، کبھی یورینیم کی افزودگي ہے، کبھی ایٹمی مسئلے کی ہی بات ہے، کبھی میزائیل بنانے کا مسئلہ ہے، وہ مختلف بہانے پیش کرتے ہیں لیکن اصل میں صرف ایک ہی بات ہے اور وہ ہے ایران کا سر جھکا دینا، سرینڈر ہو جانا۔ پہلے والے یہ بات نہیں کہتے تھے کیونکہ یہ قابل قبول نہیں، کسی بھی انسانی منطق میں یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ ایک قوم سے کہا جائے کہ وہ سرینڈر کر دے۔ لہذا وہ اسے دوسرے ناموں کے پیچھے چھپا دیا کرتے تھے۔ اس شخص نے اسے برملا کر دیا، اس حقیقت کو عیاں کر دیا، اس نے سمجھا دیا کہ امریکی صرف ایران کے سرینڈر ہونے پر ہی راضی ہوں گے، اس سے کم پر نہیں۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے۔ ایرانی قوم جان لے کہ امریکا سے ٹکراؤ اسی بات پر ہے۔ امریکی، ایرانی قوم کی اتنی بڑی توہین کر رہے ہیں اور ایسا ہرگز نہیں ہوگا، کبھی نہیں ہوگا۔ ایرانی قوم ایک عظیم قوم ہے، ایران ایک مضبوط اور وسیع و عریض ملک ہے، ایران قدیم تمدن کا مالک ہے، ہمارا ثقافتی اور تمدنی سرمایہ، امریکا اور امریکا جیسوں سے سیکڑوں گنا زیادہ ہے۔ کوئي ایران سے یہ توقع رکھے کہ وہ کسی دوسرے ملک کے سامنے گھٹنے ٹیک دے، یہ پوری طرح سے بکواس اور ہرزہ سرائی ہے جس کا یقینی طور پر عقلمند اور دانا افراد مذاق اڑائيں گے۔ ایرانی قوم، صاحب وقار ہے اور صاحب وقار رہے گی۔ وہ فاتح ہے اور اللہ کی توفیق سے فاتح ہی رہے گي۔
ہمیں امید ہے کہ خداوند متعال اپنے لطف و کرم سے اس قوم کو ہمیشہ باعزت اور باشرف رکھے، امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے درجات بلند کرے، حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا فداہ کو اس قوم سے راضی و خوشنود رکھے اور ان کی مدد، اس قوم کی پشت پناہ رہے۔
والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ