فن کی حقیقت فرض شناس فن انسانوں کے تعلق سے فرض شناسی فن اور دین دینی فن کی تعریف فن و سیاست فن کا سیاسی مقاصت کے لئے غلط استعمال فن اور معیشت فن اور معیشت فن اور فنکار کا مقام
فن کی قدر و قیمت
فن ایک وسیلہ اور ذریعہ
افکار کی ترویج کا وسیلہ
فن کی عام خصوصیت
فن، خداداد صلاحیت و استعداد
فنکار کی ذمہ داری
زمانے کے قدم سے قدم ملاکر
فن کے تعلق سے احساس ذمہ داری
مضمون کے سلسلے میں ذمہ داری
فکر کے تعلق سے فرض شناسی
ہدف کے تعلق سے احساس ذمہ داری
دینی فن کی سمت و جہت
قرآن، فنکارانہ شاہکار
فن سامراج کی خدمت میں
فن کے بارے میں مادی سوچ
فن کی حقیقت
فن در حقیقت وہ کسی بھی قسم کا فن ہو، تحفہ الہی ہے۔ اگرچہ فن کے اظہار کی کیفیت فن کے سامنے آنے کا ذریعہ ہوتی ہے لیکن یہی فن کی پوری حقیقت نہیں ہے۔ اظہار سے قبل فن کا احساس و ادراک وجود میں آتا ہے اور وہی اصلی نکتہ ہے۔ جب ایک ظرافت، ایک حقیقت اور ایک خوبصورتی کا ادراک کر لیا گيا تب فنکار بال سے بھی زیادہ باریک ان ہزاروں فنکارانہ نکات کے ذریعے کہ غیر فنکار انسان کے لئے جن میں سے ایک نکتے کا بھی ادراک ممکن نہیں ہے، اپنے فنکارانہ مزاج کے سہارے اور اپنے باطن میں جلوہ افروز شمع فن کی روشنی میں بعض ظرافتوں، باریکیوں اور حقائق کو منظر عام پر لاتا ہے۔ اسے کہتے ہیں حقیقی فن کہ جو ایک ادراک، واردات قلبی، ایک انعکاس اور ایک اظہار ہے۔
ٹاپ
فن کی قدر و قیمت
فن کی قدر و منزلت پر سب سے پہلے اہل فن حضرات کی توجہ مرکوز ہونی چاہئے۔ انہیں چاہئے کہ اپنے وجود میں سمائے ہوئے اس بیش بہا خزینے کی قدر و قیمت پر توجہ دیں اور اس کا احترام کریں۔ احترام کرنے سے مراد یہ ہے کہ اسے صحیح اور شایان شان جگہ پر استعمال کریں۔ امام زین العابدین علیہ السلام ایک حدیث میں (انسانوں کو مخاطب کرکے) فرماتے ہیں کہ تمہارا انسانی وجود بیش بہا ترین چیز ہے۔ اس جنت کے سوا جس کا وعدہ اللہ تعالی نے کیا ہے کچھ اور تمہاری زندگی کا مناسب اجر اور بدلہ نہیں ہو سکتا۔ اسے بہشت پروردگار کے علاوہ کسی اور چیز کے بدلے نہ دو۔ فن اسی انسانی زندگی اور روح کا با ارزش ترین اور قابل فخر ترین پہلو ہے۔ اس کی قدر و منزلت کو سمجھنا چاہئے اور اسے اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے بروئے کار لانا چاہئے۔ اللہ کے لئے بروئے کار لانے کی بات سن کر ذہن ریاکاری کی جانب نہیں جانا چاہئے۔
ٹاپ
فن ایک وسیلہ اور ذریعہ
آج دنیا میں جن لوگوں کے پاس اپنا کوئی پیغام ہے، خواہ وہ رحمانی پیغام ہو یا شیطانی پیغام، وہ (اپنے اس پیغام کو عام کرنے کے لئے) سب سے موثر ذریعہ جو اپناتے ہیں وہ فن کا ذریعہ اور راستہ ہے۔ دیگر فکری وسائل کے استعمال کی طرح فن کے استعمال میں بھی جو چیز سب سے اہم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ موقف اور رخ بالکل واضح، صحیح اور باریک بینی پر مبنی ہو، سمت و جہت کے تعین میں کوئی غلطی نہ ہونے پائے۔ آج دنیا میں فن کی مدد سے ناحق ترین باتوں کو عوام الناس کے ایک بڑے طبقے کے اذہان میں حق بات بنا کر اتار دیا جاتا ہے جو فن کے بغیر ممکن نہیں ہوتا، لیکن فن کی مدد سے اور فنکارانہ وسائل کے استعمال سے یہ کام انجام دیا جا رہا ہے۔ یہی سنیما ایک فنکارانہ ذریعہ ہے، یہ ٹیلی ویژن ایک فنکارانہ ذریعہ ہے۔ ایک باطل اور ناحق پیغام کو لوگوں کے ذہنوں میں حق بات کی حیثیت سے اتارنے کے لئے فن و ہنر کی گوناگوں روشوں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ تو معلوم یہ ہوا کہ فن ایک ذریعہ ہے ایک بڑا با ارزش ذریعہ۔ یہ ہے تو ذریعہ اور وسیلہ لیکن بسا اوقات اس کی اہمیت ان چیزوں سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے جن کی منتقلی کا یہ ذریعہ ہے کیونکہ اس کے بغیر منتقلی کا یہ عمل انجام نہیں پا سکتا۔
ٹاپ
افکار کی ترویج کا وسیلہ
فن کی زبان میں وہ تاثیر ہے جو کسی اور زبان میں ممکن نہیں ہے۔ نہ علم کی زبان میں، نہ معمولی زبان میں اور نہ وعظ و نصیحت کی زبان میں۔ کسی میں بھی فن کی زبان والی تاثیر نہیں ہے۔ فن کو خاص اہمیت دینا چاہئے، اسے روز بروز ارتقائی منزلوں پر پہنچانا چاہئے اور فن کی سب سے قابل فخر شکل کا انتخاب کرنا چاہئے۔ فن کا استعمال نہ کیا جائے تو کسی کے بھی ذہن میں آپ کی معمولی سی بات بھی اپنا مقام حاصل نہیں کر پائے گی۔ اس میں جذابیت اور کشش پیدا ہونا اور اس کا دائمی اور پائیدار ہو جانا تو خیر دور کی بات ہے۔ کسی بھی درست یا غلط نظرئے کی ترویج کا بہت اہم ذریعہ فن ہے۔ فن بہت اہم ذریعہ اور وسیلہ ہے، بے حد اہم۔ فن اور اس کے ارتقاء کی بابت کبھی بھی کوئی غفلت نہیں برتنا چاہئے۔ فن کو گناہ اور انحراف اور اسی طرح کی دیگر برائیوں کے مترادف نہیں سمجھنا چاہئے۔ فن تو خالق کی نمایاں ترین مخلوقات میں سے ایک ہے۔ یہ پروردگار کی بیش بہا صناعی کا ایک نمونہ ہے جس کی قدر کرنے کی ضرورت ہے۔ تمام کاموں میں، حتی معمولی سی تبلیغ میں بھی آپ کو فن کا استعمال کرنا چاہئے۔
ٹاپ
فن کی عام خصوصیت
فن کی ایک عام خصوصیت یہ ہے کہ اس کا سہارا لینے والا شخص بہت سی چیزوں کی جانب ممکن ہے متوجہ نہ ہو اور مخاطب شخص بھی ہو سکتا ہے کہ بہت سے امور سے غافل ہو لیکن فن اس کے باوجود اپنا اثر مرتب کر دیتا ہے۔ شعر، مصوری، خوش الحانی اور فن کی دیگر اقسام مخاطب کے ذہن پر لا شعوری طور پر اثر ڈالتی ہیں، یعنی مخاطب شخص کو احساس بھی نہیں ہو پاتا اور فن اپنا کام کر چکا ہوتا ہے۔ یہ بہترین تاثیر اور اثر انداز ہونے کا بہترین طریقہ ہے۔ اللہ تعالی نے اعلی و ارفع ترین مفاہیم کو بیان کرنا چاہا تو فصیح ترین طرز بیان یعنی قرآن کا انتخاب فرمایا۔ یہ ممکن تھا کہ اللہ تعالی دوسری معمولی باتوں کی طرح اسلامی تعلیمات کو بھی عام طرز بیان کے ذریعے پیش کر دیتا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ اللہ تعالی نے فصیح ترین اور پرکشش ترین پیرائے میں اسے قرار دیا۔ خود قرآن کہتا ہے کہ تم اس کے الفاظ جیسے الفاظ اور اس کی فنکارانہ ترکیب جیسی ترکیب نہیں لا سکتے اور اس کے مفاہیم کا تو خیر کہنا ہی کیا۔
ٹاپ
فن، خداداد صلاحیت و استعداد
فن کوئی ایسی دولت نہیں ہے جو مشقتوں کے ذریعے اور پسینہ بہا کر حاصل کر لی جائے۔ اگر انسان کے اندر فنکارانہ استعداد نہ ہو تو وہ کتنی ہی محنت کیوں نہ کرے اس وادی میں ابتدائی چند قدم سے آگے نہیں بڑھ پائے گا۔ یہ فنکارانہ استعداد فنکار کی محنت و مشقت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ خداداد شئے ہے۔ اللہ تعالی تمام نعمتیں انسانوں کو عطا کرتا ہے۔ ممکن ہے کہ اس کا وسیلہ معاشرہ، ماں باپ، ماحول یا دیگر چیزیں ہوں۔ فنکار محنت کرتا ہے تاہم اس محنت اور بلند حوصلے کی نعمت بھی اسے اللہ تعالی سے ہی ملتی ہے۔ فنکار کو چاہئے کہ اپنے وجود کے اندر فن کے ارتقائی عمل کو جاری رکھے۔
ہر فنکار اپنے اندر ایک دنیا چھپائے ہوتا ہے اور یہ اس فن کی خصوصیت ہے جو اس کے وجود میں بسا ہوا ہے۔ اگر انسان کو فنکاروں کے دلوں کے اندر جھانکنے کا موقع ملے تو انہیں بڑی حیرت انگیز اور پر کشش وادی وہاں نظر آئے گی، غموں اور خوشیوں کا امتزاج اور تمناؤں، تشویشوں اور امنگوں کا آمیزہ۔ فن بڑا قیمتی گوہر ہے اور اس کی قیمت و ارزش کی وجہ یہ نہیں کہ دلوں اور نگاہوں کو جذب کر لیتا ہے کیونکہ بہت سی چیزیں ہیں جن کا فن سے تعلق نہیں ہے لیکن ان میں بھی نگاہوں اور دلوں کو جذب کر لینے کی خصوصیت ہوتی ہے، اس کی وجہ ہے فن کا عطیہ پروردگار اور موہبت الہی ہونا۔
ٹاپ
فنکار کی ذمہ داری
فن ایک بڑی قابل افتخار حقیقت کا نام ہے تو ظاہر ہے کہ اگر کسی کو دیگر ثروتوں کی مانند یہ دولت اللہ تعالی کی جانب سے عطا کر دی جائے تو اسے اپنی متعلقہ ذمہ داریوں کا بھی احساس ہونا چاہئے۔ اللہ کی عطیات کے ہمراہ کچھ ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں۔ یہ ذمہ داریاں ضروری نہیں کہ سب کی سب دینی اور شرعی باتیں ہوں، ان میں ایسی ذمہ داریاں بھی ہیں جن کا سرچشمہ خود انسان کا دل ہوتا ہے۔ انسان کو آنکھیں دی گئی ہیں اور یہ ایسی نعمت ہے جو بعض افراد کو نہیں ملی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ آنکھیں جہاں انسان کے لئے لذتیں اور آسانیاں فراہم کرتی ہیں وہیں انسان کے دوش پر کچھ فرائض بھی عائد کر دیتی ہیں۔ چو می بینی کہ نابینا و چاہ است
یہ فریضہ ان آنکھوں کی وجہ سے ہے جو انسان کو دی گئی ہیں۔ ضروری نہیں ہے کہ دین انسان کو حکم دے اور اس کے بارے میں لازمی طور پر قرآن کی کوئی آیت نازل ہو۔ اس چیز کا ادراک قلب انسانی خود ہی کر سکتا ہے۔ دنیا میں کوئی بھی انسان ایسا نہیں ہوگا جو ایسے دولتمند انسان کی ملامت نہ کرے جو حاجتمندوں کی مدد نہ کرتا ہو بلکہ ان کا مذاق اڑاتا ہو۔ ممکن ہے کہ وہ دولت مند انسان یہ کہے کہ میں نے اپنی محنت سے یہ دولت کمائی ہے اور اس پر میرا حق ہے لیکن اس کی یہ بات قبول نہیں کی جاتی۔ یعنی جب بھی دولت، عطیہ اور کوئی الہی انعام ملتا ہے تو اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ فرائض بھی عائد ہو جاتے ہیںـ
ٹاپ
زمانے کے قدم سے قدم ملاکر
مجھے فلموں اور ڈراموں کے بارے میں معلومات نہیں ہے لیکن جہاں تک شعر اور ناول کا سوال ہے تو میں اس سے بے بہرہ نہیں ہوں۔ جو تصنیفات موجود ہیں ان میں سے میں نے بہت کچھ پڑھا ہے۔ اگر آپ سویت یونین کے دور کے ادب پر نظر ڈالیں تو آپ کو اچانک محسوس ہوگا کہ بیچ میں ایک پردہ ہے، ایک حصار موجود ہے اور اس حصار کے دونوں طرف بڑے عظیم شاہکار موجود ہیں جن کا تعلق دونوں اطراف سے ہے۔ لیکن جب آپ شولوخف یا الیکسی ٹولسٹائے کی تصنیفات کو دیکھیں گے تو محسوس کریں گے کہ ان کا مذاق کچھ اور ہے۔
الیکسی ٹولسٹائے بہت بڑے قلمکار ہیں جنہوں نے بڑے اچھے ناول تخلیق کئے ہیں۔ وہ سویت یونین کے انقلاب کے مصنفین میں سے ہیں اور ان کی تصنیفات میں نئے دور کی جھلکیاں آپ کو ملیں گی۔ جبکہ لیو ٹالسٹائے کی کتاب میں آپ کو روسی قوم پرستی نظر آئے گی تاہم گزشتہ ساٹھ سالہ دور کی چیزیں آپ کو کہیں نظر نہیں آئيں گی۔ وہ کوئی الگ ہی دور ہے اور بنیادی طور پر اس کا تعلق کسی اور جگہ سے ہے۔ روس کی موجودہ ماہیت کو جو چیز منعکس کر سکے وہ کیا ہے؟ شولوخف اور الیکسی ٹولسٹائے جیسے مصنفین کی تصنیفات ہی میں آپ یہ چیزیں دیکھ سکتے ہیں۔ بنابریں ہر دور کا فنکار وہی ہے جس کا تعلق اس دور سے ہو اور جو اسی دور میں پلا بڑھا ہوا، اسی دور کا نتیجہ و ثمرہ ہو۔ جو افراد قدیم اور گزشتہ ادوار کی یاد میں قلم فرسائی کرتے ہیں ظاہر ہے ان کا تعلق ان ادوار سے تو نہیں ہے۔
میں اس سلسلے میں ایک مکمل نمونہ پیش کرنے کے لئے بہتر ہوگا کہ کسی ایک ناول کا نام بھی لوں۔ میں نے دل سگ نام کا ایک ناول پڑھا جو روسی مصنف کی تخلیق تھی۔ یہ ناول ایک تخیلی اور سائنسی داستان پر مبنی ہے لیکن یہ عصر حاضر کا فن نہیں ہے۔ یہ گزشتہ دور کی نقل ہے۔ میں یہ مان سکتا ہوں کہ امریکا، برطانیہ اور فرانس کے ناولوں کی کاپی نہیں ہے لیکن بہرحال اکتوبر کے انقلاب سے پہلے کے دور کی نقل ضرور ہے۔ یہ موجودہ دور کا فن نہیں ہے۔ یہ بڑا چھوٹا سا ناول ہے لیکن بہت ماہرانہ انداز میں لکھا گیا ہے۔ ایران میں بھی اس کا ترجمہ ہوا اور اشاعت بھی ہو چکی ہے ۔ دل سگ ناول انقلاب مخالف ناول ہے جو انیس سو پچیس یا انیس سو چھبیس میں یعنی روس میں آنے والے انقلاب کے اوائل میں لکھا گيا اور ناول نگار نے انقلاب اور کچھ کاموں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے ان کا مذاق اڑایا ہے۔ مثلا یہی کام جن کی مثالیں ہم نے یہاں بھی دیکھی تھیں۔ یہ ناول روسی ادب کا جز ہرگز نہیں ہے۔ یہ ناول عالمی سطح پر شہرت پا سکتا تھا، یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ سخت پہرا تھا اور اسٹالن کا دور تھا، ایسا بھی نہیں تھا لیکن پھر بھی یہ عالمی سطح پر نہیں آ سکا۔ کیوں عالمی سطح پر ایک شاہکار کی حیثیت سے اس کی پہچان قائم نہیں ہو سکی۔ جبکہ (میخائل شولوخف کے ناول) دن آرام کو دنیا میں بہت نمایاں مقام حاصل ہوا۔ صرف روس کی بات نہیں ہے، اس کا ترجمہ دنیا کی اہم زبانوں میں کیا گيا ہے، یہ (روس کے) انقلاب سے متعلق ادبی شاہکار ہے۔
ٹاپ
فرض شناس فن
انسانوں کے تعلق سے فرض شناسی
بعض لوگ کہتے ہیں کہ فرض شناس فن کی ترکیب کے دونوں الفاظ میں باہم تضاد پایا جاتا ہے۔ فن یعنی وہ چیز جو انسان کے آزادانہ تخیل پر استوار ہو جبکہ فرض شناسی یعنی زنجیر۔ یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ کیسے جمع ہو سکتی ہیں؟ ایک خیال یہ بھی پایا جاتا ہے لیکن یہ خیال درست نہیں ہے۔ فرض شناسی اور احساس ذمہ داری کے مسئلے کا تعلق فنکار سے نہیں بلکہ اس کا تعلق اس کے انسان ہونے سے ہے جو وہ فنکار بننے سے پہلے بھی تھا۔ کوئي بھی فنکار بہرحال ایک فنکار بننے سے قبل انسان ہوتا ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ انسان کی کوئي ذمہ داری سرے سے ہو ہی نہ۔ انسان کی سب سے پہلے دوسرے انسانوں کے تعلق سے کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں جبکہ بعد کے مراحل میں زمین و آسمان اور قدرت کے سلسلے میں بھی اس کے فرائض ہوتے ہیں لیکن اس کی سب سے بڑی ذمہ داری انسانوں کے تعلق سے ہوتی ہے۔
ٹاپ
فن کے تعلق سے احساس ذمہ داری
فن کے پیرائے اور قالب کے سلسلے میں بھی اور اس کے مضمون کے سلسلے میں بھی فنکار کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ جس کے اندر فنکارانہ استعداد ہے اسے نچلی سطح پر کبھی بھی اکتفا نہیں کرنا چاہئے۔ یہ فرض شناسی کا تقاضا ہے۔ محنت سے بھاگنے والا سست فنکار وہ فنکار جو اپنے فن کے ارتقاء کے لئے اور تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لئے سعی و کوشش نہیں کرتا وہ در حقیقت اپنے فن کے قالب و پیرائے کے سلسلے میں اپنی فنکارانہ ذمہ داریوں سے بھاگ رہا ہے۔ فنکار کو ہمیشہ محنت کرنی چاہئے۔ البتہ ممکن ہے کہ انسان اس مقام پر پہنچ جائے کہ اب اور آگے جانے کی گنجائش ہی باقی نہ ہو، اگر ایسی صورت ہو تو پھر کوئی بات نہیں ہے لیکن جب تک اگے بڑھنا ممکن ہے اسے چاہئے کہ اپنے فن کے پیرائے کے ارتقاء کے لئے محنت کرے۔ فن کے پیرائے کے سلسلے میں یہ فرض شناسی جوش و جذبے اور احساس ذمہ داری کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتی۔ ویسے یہ جوش و جذبہ بھی ایک طرح کی ذمہ داری ہی ہے، یہ ایک قوی عامل ہے جو انسان کو محنت کے لئے آمادہ کرتا ہے، اس کے اندر سستی اور راحت طلبی پیدا نہیں ہونے دیتا۔
ٹاپ
مضمون کے سلسلے میں ذمہ داری
اگر انسان محترم اور معزز ہے تو اس کا دل و ذہن اور فکر و نظر بھی معزز اور محترم ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ مخاطب کے سامنے کوئی بھی چیز پیش کر دی جائے صرف اس وجہ سے کہ وہ شخص سامنے بیٹھا فن کار کی باتیں سن رہا ہے۔ اس بات پر توجہ ہونا ضروری ہے کہ فنکار اپنے مخاطب کو کیا دینے جا رہا ہے۔ بر محل کلام، اخلاق اور فضائل کا جز ہے۔ میں نے غالبا رومن رولینڈ (فرانسیسی مصنف 26 جنوری 1866- 30 دسمبر 1944) کا یہ جملہ پڑھا ہے کہ فنکارانہ تخلیق میں ایک فیصد فن اور ننانوے فیصد اخلاق ہوتا ہے یا احتیاط کے طور پر یہ کہنا چاہئے کہ اس میں دس فیصدی فن اور نوے فیصدی اخلاق ہوتا ہے۔ مجھے لگا کہ یہ بات پوری طرح درست نہیں ہے۔ اگر مجھ سے کوئی پوچھے تو میں یہی کہوں گا کہ سو فیصدی فن اور سو فیصدی اخلاق۔ ان میں آپس میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ فنکارانہ شاہکار کو سو فیصدی فنکارانہ خلاقیت کے ذریعے انجام دینا چاہئے اور اسے سو فیصدی اعلی، با فضیلت اور مایہ پیشرفت مضمون سے پر کر دینا چاہئے۔ فن کے میدان میں ہمدرد انسانوں کو جس چیز کی سب سے زیادہ فکر اور تشویش ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ فنکار فن اور تخیل کی آزادی کے بہانے اخلاقیات کی حدود کو نظر انداز نہ کر دے۔ یہ بے حد اہم چیز ہے۔ بنابریں فرض شناس فن کی ترکیب بالکل درست اور صحیح ہے۔
ٹاپ
فکر کے تعلق سے فرض شناسی
فنکار کو چاہئے کہ خود کو ایک حقیقت کا پابند سمجھے۔ یہ بات کہ فنکار فکر و نظر کی کس سطح پر ہے اور وہ حقیقت کو کامل طور پر یا محدود سطح پر سمجھ سکتا ہے، ایک الگ بات ہے، البتہ ادراک اور فہم و فراست کی سطح جتنی اونچی ہوگی فنکار اپنے فنکارانہ ادراک کی ظرافت میں اتنی ہی کشش پیدا کر سکتا ہے۔ حافظ ( ساتویں صدی ہجری کے عدیم المثال ایرانی شاعر) صرف ایک فنکار نہیں تھے۔ ان کی باتوں میں بڑی اعلی تعلیمات اور معارف بھی موجود ہیں۔ یہی نہیں ان کے پاس ایک بڑا فلسفیانہ اور فکری ذخیرہ موجود ہے۔ فنکارانہ ادراک اور پھر اس کے انعکاس کے عمل کے پیچھے اعلی افکار کا سرچشمہ اور ذخیرہ ہونا چاہئے۔
البتہ سارے لوگ اس سلسلے میں ایک جیسے نہیں ہیں، اور اس کی توقع بھی نہیں رکھی جا سکتی۔ یہ چیز فن کے تمام شعبوں پر صادق آتی ہے۔ آپ معماری سے لیکر مصوری، ڈیزائننگ، مجسمہ سازی، فلم، ڈرامے، شعر، موسیقی اور فن کے دیگر میدانوں تک دیکھئے یہی صورت حال ہر جگہ نظر آئے گی۔ آپ کو ایسا بھی معمار نظر آ جائے گا جس کے پاس اپنی ایک فکر ہے جبکہ ایسا معمار بھی ہو سکتا ہے جو فکر و نظر کے لحاظ سے ممکن ہے کہ خالی الذہن ہو اس پاس کوئی فکری سرمایہ نہ ہو۔ یہ دونوں اگر تعمیراتی کام کرنا چاہیں تو دو طرح کی ڈیزائنیں بنیں گی۔ اگر اس طرح کے دو لوگوں کو ایک شہر آباد کرنے کی ذمہ داری سونپ دی جائے تو اس کا ایک نصف حصہ دوسرے نصف حصے سے مکمل طور پر الگ ہوگا۔
ٹاپ
ہدف کے تعلق سے احساس ذمہ داری
فرض شناس اور اصولوں کا پابند فن ایک حقیقت ہے جس کا اقرار کرنا چاہئے۔ تو ہر روز بدلنے والی ذہنیت، پست اور غلط سوچ کے ساتھ یا غفلت کے عالم میں فن کی جانب نہیں بڑھا جا سکتا اور اس میدان میں کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ جو مسرت و نشاط فن کار کے اندر ہونی چاہئے وہ اسی صورت میں حقیقی معنی میں پیدا ہوگی جب فنکار کو بخوبی علم و ادراک ہو جائے کہ وہ کس سمت میں بڑھ رہا ہے ، کیا کرنا چاہتا ہے۔ اس کے بعد ہی اس میں اپنے فن کے تعلق سے خاص مسرت و طمانیت پیدا ہوتی ہے اور وہ فنکارانہ کام انجام دیتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ فنکار کے اندر مخصوص مسرت و طمانیت پیدا ہوتی ہے جس کا عام خوشیوں سے کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے اور یہ چیز غیر فنکار شخص میں ہرگز پیدا ہو ہی نہیں سکتی۔ چنانچہ ضروری ہے کہ اخلاقیات، دینی معارف اور فضائل پر پوری توجہ دی جائے۔
ٹاپ
فن اور دین
دینی فن کی تعریف
دینی فن سے مراد وہ فن ہے جو دینی تعلیمات کو مجسم کر دے اور بلا شبہ ادیان الہی میں دین اسلام اعلی ترین تعلیمات اور معارف کا حامل دین ہے۔ یہ تعلیمات وہی چیزیں ہیں جو انسان کی سعادت و خوشبختی، انسان کے معنوی و روحانی حقوق، انسان کی سربلندی، بندے کے تقوا و پرہیزگاری اور انسانی معاشرے میں عدل و مساوات کی راہ ہموار کرتی ہیں۔ دینی فن کو رجعت پسندانہ فن نہیں سمجھنا چاہئے۔
دینی فن سے مراد، ریاکاری اور دکھاوا ہرگز نہیں ہے اور یہ فن ضروری نہیں ہے کہ دینی الفاظ پر ہی مبنی ہو۔ عین ممکن ہے کہ ایک فن سو فیصدی دینی فن ہو لیکن اس میں عرف عام میں رائج اور دینی الفاظ سے ہٹ کر کلمات کا استعمال کیا گيا ہو۔ یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ دینی فن لازمی طور پر وہی ہے جس میں کوئی دینی داستان منعکس کی گئی ہو یا علماء اور دینی طلبا جیسے کسی دینی موضوع پر بات کی گئی ہو۔ دینی فن وہ ہے جو ان تعلیمات کی ترویج میں، جنہیں تمام ادیان بالخصوص دین اسلام نے انسانوں کے درمیان عام کرنے کی کوشش کی ہے اور جن کی ترویج کی راہ میں بڑی پاکیزہ جانیں قربان کی گئی ہیں، مددگار بنے، انہیں دوام بخشے اور لوگوں کے ذہنوں میں اتار دے۔ یہ تعلیمات اعلی دینی تعلیمات ہیں۔ یہ وہ حقائق ہیں جنہیں انسانی زندگی میں عام کرنے کے لئے اللہ تعالی کے پیغمبروں نے بڑی مشقتیں کی ہیں۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ہم یہاں بیٹھ کر دنیا کے منتخب انسانوں یعنی پیغمبروں اور مجاہدین راہ خدا کی مساعی اور جانفشانی پر سوالیہ نشان لگائیں اور ان کے سلسلے میں لا تعلق بن جائیں۔ دینی فن ان تعلیمات کو عام کرتا ہے، دینی فن عدل و انصاف کو معاشرے میں اقدار کے طور پر متعارف کراتا ہے۔ خواہ آپ نے اپنے اس فن میں کہیں بھی دین کا نام بھی نہ لیا ہو اور عدل و انصاف کے سلسلے میں کوئی حدیث اور کوئی آیت نقل نہ کی ہو۔ ضروری نہیں ہے کہ فلم یا ڈرامے کے ڈائيلاگ میں دین یا دین کے مظہر کا درجہ رکھنے والی چیزوں کا نام لیا جائے تبھی اس میں دینی رنگ پیدا ہوگا۔ نہیں، ایسا نہیں ہے، آپ ممکن ہے کہ اداکاری کے ذریعے عدل و انصاف کی بات موثر ترین انداز میں پیش کر دیں۔ اگر آپ نے ایسا کیا تو در حقیقت دینی فن پر آپ نے توجہ دی ہے۔
ٹاپ
دینی فن کی سمت و جہت
بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ فن سے مراد ہے بے دینی اور لاابالی پن، یہ غلط ہے۔ دینی فن میں جس چیز پر پوری گہرائی کے ساتھ توجہ دی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ فن شہوت پرستی، تشدد اور انسان اور معاشرے کے تشخص کی تباہی پر منتج نہ ہو۔ فن انسان کے اندر خالق یکتا کی صناعی کا ایک پر کشش جلوہ ہے۔ فن کے سلسلے میں قابل اعتراض بات جس پر ہمیشہ اہل بصیرت نے روک لگائی ہے، اس کا غلط سمت میں جانا ہے۔ فن کو اگر انسانوں کو بہکانے اور غیر اخلاقی حرکتوں میں مبتلا کرنے کے لئے استعمال کیا جائے تو بری بات ہے۔ ورنہ اگر فن دینی جذبے کے ساتھ اور دینی سمت میں آگے بڑھے تو یہ وجود انسانی کی نمایاں ترین خوبیوں اور خصوصیتوں میں قرار پائے گاـ
ٹاپ
قرآن، فنکارانہ شاہکار
پیغمبر اسلام نے اپنے پیغام کو پیش کرنے کے لئے تمام وسائل حتی فن کو استعمال کیا۔ وہ بھی اس کے بلند ترین اور افتخار آمیز پیرائے یعنی قرآن کی شکل میں۔ قرآن کی کامیابی کا ایک بڑا راز اس کا فنکارانہ انداز ہے۔ قرآن فن کی بلند ترین منزل پر فائز ہے، بالکل غیر معمولی درجے پر۔ واقعی قرآن میں بڑا عجیب فن موجود ہے جو انسان کے لئے قابل تصور نہیں ہے۔
اگر انسان قرآن کو شروع سے آخر تک اور اسی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارشادات کو بغور دیکھے تو محسوس کرے گا کہ اس میں شرک و بت و شیطان کی دشمنی اور وحدانیت موجزن ہے۔
اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لوگوں کے درمیان بیٹھتے اور فن کی زبان استعمال نہ کرتے تو ممکن تھا کہ کچھ لوگ آپ کے گرویدہ بن جاتے لیکن وہ بجلی اور وہ طوفان ہرگز وجود میں نہ آ پاتا۔ یہ کام فن نے کیا۔ فنکارانہ تخلیقات ایسی ہوتی ہیں۔
ٹاپ
فن و سیاست
فن کا سیاسی مقاصت کے لئے غلط استعمال
آج کے دور میں سیاست فن کا غلط استعمال کر رہی ہے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ ایسا نہیں ہے تو بلا شبہ ہم حقیقت سے نظریں چرا رہے ہیں۔ آج ہی استعمال نہیں کر رہی ہے، سیاست ماضی میں بھی اسے استعمال کرتی آئی ہے۔ اس سے قبل اٹھائیس مرداد (سن تیرہ سو بتیس ہجری شمسی مطابق انیس اگست انیس سو ترپن عیسوی میں ایران کی ڈاکٹر مصدق کی منتخب قانونی حکومت کے خلاف) ہونے والی بغاوت کے سلسلے میں امریکا کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کی جانے والی دستاویزات کا ترجمہ کرکے مجھے دیا گيا۔ جب یہ واقعہ رونما ہوا تو میری عمر بہت کم تھی، چودہ پندرہ سال کا تھا میں اور بہت کم ہی باتیں مجھے یاد ہیں لیکن لوگوں سے میں نے بہت سنا اور تحریروں میں پڑھا تھا تاہم اتنی تفصیل کہیں اور نہیں دیکھنے کو ملی تھی۔ یہ دستاویز خود ان افراد نے جو اس واقعے میں ملوث تھے تیار کی اور امریکی وزارت خارجہ اور سی آئی اے کو بھیجی تھی۔ یہ دستاویزات امریکیوں کی تھیں۔ ویسے پورا آپریشن امریکا اور برطانیہ نے مشترکہ طور پر انجام دیا جسے اس رپورٹ میں مکمل طور پر بیان بھی کیا گیا ہے۔ اس کی جو بات میں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ کیم روزولٹ کہتا ہے کہ جب ہم تہران آئے تو ہمارے پاس مقالوں کا ایک صندوق تھا۔ ان مقالوں کو ترجمہ کرکے اخبارات میں شائع کروانا تھا۔ ہم اپنے ساتھ کارٹون بھی لائے تھے۔ آپ ذرا غور تو کیجئے کہ امریکی (خفیہ ایجنسی) سی آئی اے نے اس حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے، جو امریکیوں کو پسند نہیں تھی اور جو ان کے مفادات کی تکمیل کے لئے آمادہ نہیں تھی، ایسی حکومت تھی جو عوام کے ووٹوں کی بنیاد پر قائم ہوئی تھی اور پہلوی دور کی دیگر حکومتوں کے بر خلاف یہ حکومت قوم پرست تھی جو عوام کے ووٹوں سے قانونی طور پر تشکیل پائی تھی، ( سی آئی اے) نے اس بہانے کہ کہیں یہ حکومت سویت یونین کی گود میں نہ چلی جائے اس کے خلاف تمام حربوں منجملہ فن کا استعمال کیا۔ البتہ اس زمانے میں ایسے کارٹونسٹ نہیں تھے جن سے ان کا کام نکلتا اور جن پر وہ (امریکی) اعتماد کر سکتے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے ساتھ کارٹون بھی لیکر آئے تھے۔ اس دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ ہم نے سی آئی اے کے شعبہ فن سے ان چیزوں کو تیار کرنے کی درخواست کی۔ اطالویوں نے بھی چند سال قبل ایک کتاب شائع کی جس کا فارسی میں ترجمہ ہوا۔ اس میں بھی سی آئی اے کے شعبہ فن اور اس کی سرگرمیوں کی جانب اشارہ کیا گيا ہے۔ سیاست اس طرح فن سے فائدہ اٹھاتی ہے۔
ٹاپ
فن سامراج کی خدمت میں
افسوس کا مقام ہے کہ اسلام کے دشمن، ایران کے دشمن ، ہمارے عز و شرف کے دشمن فن کا غلط استعمال کرتے آئے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں۔ شعر، مصوری، افسانے، فلم، ڈرامے اور فن کی دیگر قسموں کو حقائق کو مٹانے، فضائل کو نابود کرنے، روحانی و اسلامی صفات کو ختم کرنے، مادہ پرستی اور مادی عیش و عشرت کی جانب دھکیلنے کے لئے استعمال کیا گيا۔
فلم ایک بیحد پیشرفتہ اور ماڈرن فن ہے۔ آج دنیا کے سب سے نمایاں اور با استعداد فنکار ہالیوڈ میں موجود ہیں۔ آپ ذرا غور کیجئے کہ ہالیوڈ کس چیز کی خدمت کر رہا ہے، کس انسان کی خدمت کر رہا ہے، کس فکر و نظر کی خدمت میں لگا ہوا ہے۔ فحاشی کی ترویج، بے ہدف زندگی کی ترویج، شناخت اور تشخص سے دوری کی ترویج، تشدد کی ترویج اور قوموں کو ایک دوسرے سے الجھانے کے لئے اس کا استعمال ہو رہا ہے تاکہ متمول طبقہ بے فکری کی زندگی بسر کر سکے۔ یہ عظیم فلمی صنعت، جس میں درجنوں فلم ساز کمپنیاں، فنکار، ہدایت کار، اداکار، افسانہ نگار، فلمی دنیا کے قلم کار اور سرمایہ کار جمع ہیں، کچھ مخصوص اہداف کی خدمت کی سمت بڑھ رہی ہے۔ وہ ہدف ہے سامراجی سیاست کا ہدف۔ یہی سیاست امریکی حکومت کو چلا رہی ہے۔ یہ چھوٹی باتیں نہیں ہیں۔
کہتے تو بہت ہیں کہ فن کو سیاست اور سیاسی موقف سے آزاد رکھا جانا چاہئے لیکن خود ان کا عمل اور کردار اس کے بالکل برعکس ہے۔ دنیا کی سامراجی طاقتوں نے، فن، فلم، شعر، تصنیف، دماغی صلاحیت، استدلال اور فلسفے کو سامراجی اہداف کی تکمیل اور لوٹ مار کے لئے مختص کر دیا ہے۔ یہی چیز جو آج دنیا میں سرمایہ داری کا مظہر ہے اس کی فوجی طاقت امریکا ہے، اس کی اقتصادی طاقت امریکی حکومت کی پشت پر کھڑی کمپنیاں ہیں۔ وہ لوگوں کے سامنے آئیڈیل رکھنے کے لئے تمام تر وسائل کا استعمال کرتے ہیں جبکہ قومیں خالی ہاتھ ہیں ان کے پاس اپنے آئیڈیل نہیں ہیں جنہیں وہ مقابلے پر لا سکیں اور اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر سکیں۔
ٹاپ
فن اور معیشت
فن اور معیشت
معیار زندگی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو خود فنکاروں کی زندگی کوئی بہت اچھی نہیں ہے جبکہ بہت سے مواقع پر ان کی زندگی اطمینان بخش حالت میں بھی نہیں ہے۔ جو لوگ شعبہ فن میں سرمایہ کاری کرتے ہیں اگر وہ بعض چیزوں کے پابند ہوں تو مالی منفعت حاصل نہیں کر پاتے۔ ایسے افراد کی مدد کرنا ضروری ہے۔ اگر ان کی مدد نہ کی گئي تو وہ ہر اس چیز کا رخ کریں گے جس سے کمائی کی جا سکتی ہو جو ان کے اخراجات پورے کرے۔ یہ چیز ہمیشہ اچھی نہیں ہوتی۔ فلمی دنیا میں شہوت پرستی، جنسیات اور ان جیسی دیگر باتوں کے آ جانے کی ایک بڑی وجہ یہی ہے۔ فنکار کو نوجوانوں کے دلوں اور ذہنوں میں ایسی چیز نہیں اتارنی چاہئے جو اسے گناہ اور بد عنوانی کی سمت لے جائے۔ یہ ایسی چیز نہیں ہے جسے کسی موضوع میں فکر و نظر کو انتخاب کے لئے آزاد چھوڑ دینا کہا جاتا ہے۔ جذباتی مسائل میں کسی کو انتخاب کا موقع کہاں ملتا ہے۔ ان میں تو انسان انتخاب کی طاقت ہاتھ سے دیکر کسی ایک سمت میں کھنچا چلا جاتا ہے۔ حالات ایسے ہونے چاہئے کہ فنکار بغیر کسی اجبار و اکراہ کے خریدار تلاش کرنے کی مجبوری کے بغیر اپنے فن کو پیش کرے تاکہ فن اپنی اصلی اور حقیقی شکل میں ابھر کر سامنے آئے۔
ٹاپ
فن کے بارے میں مادی سوچ
دنیا میں معنوی و روحانی دولت اور سرمائے کے سلسلے میں مادی سوچ کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ روحانی و معنوی دولت کو اس معیار پر تولا جاتا ہے کہ اس سے کتنی رقم حاصل ہوگی۔ یہ فن اور یہ علم کس حد تک پیسے میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ اسلام میں یہ معیار نہیں ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ علم و فن اور دیگر معنوی ثروتوں سے پیسہ کمانے میں کوئی مضائقہ ہو۔ نہیں، علم تو زندگی میں رفاہ لانے کا ذریعہ ہے، اس میں کوئي حرج نیں ہے لیکن اس سے قطع نظر خود یہ معنوی دولت بھی اسلام کے نقطہ نگا سے اپنے آپ میں بہت قیمتی شئے ہے۔ یعنی یہ فنکار خواہ اس کے فن کو کوئی نہ پہچانتا ہو اور اس کے فن سے کسی کو فائدہ نہ پہنچ رہا ہے لیکن پھر بھی اس فن کا موجود ہونا ہی اپنے آپ میں اسلامی اور روحانی نقطہ نگاہ سے بہت با ارزش بات ہے۔ ممکن ہے کہ کسی معاشرے میں وسائل کی کمی اور تجربے کے فقدان کی وجہ سے علم، تحقیق، فن یا اسی جیسے دیگر معنوی سرمائے کی مادی قیمت نہ دی جا سکے، خود ہمارے معاشرے میں یقینا یہ صورت حال ہے اور دنیا کے بہت سے علاقوں میں بھی یہ چیز پائی جاتی ہے لیکن یہ اس بات کا باعث نہ بننے پائے کہ علم و فن کے ابلتے چشمے رک جائيں۔
ٹاپ