انقلاب سے قبل کبھی کبھی کسی گوشے میں کچھ لوگ جمع ہوکر تلاوت کلام پاک کرلیتے تھے۔ روز بروز نوجوانوں میں قرآن کے سلسلے میں بڑھتی دلچسپی اور قرآنی علوم میں یہ قابل ستائش ترقی، اسلامی انقلاب کا ثمرہ ہے۔ انقلاب سے پہلے یہ عالم تھا کہ شاذ و نادر ہی کوئي عالمی شہرت کا قاری ایران آتا تھا اور اگر آ بھی جاتا تھا تو اس کے بارے میں کسی کو پتہ تک نہیں چلتا تھا کہ قاری کب آیا اور کب چلا گیا۔
انقلاب سے پہلے وقف بورڈ کی دعوت پر شیخ ابوالعینین مشہد مقدس آئے تھے۔ میں ان کی تلاوت کی متعدد کیسٹیں سن چکا تھا اس طرح ان سے غائبانہ تعارف تھا اور میں ان کی تلاوت بہت پسند کرتا تھا۔
مجھے ان سے ملنے اور ان کی تلاوت روبرو سننے کا بڑا شوق تھا لیکن جن لوگوں نے انہیں دعوت دی تھی ہم نے ان کا مکمل بائیکاٹ کر رکھا تھا لہذا جو پروگرام وہ کروا رہے تھے میں اس میں شریک نہیں ہوا۔
مشہد میں مسجد گوہر شاد میں تلاوت قرآن کریم کی ایک محفل منعقد ہوئی تھی۔ مجھے نہیں لگتا اس میں شرکت کرنے والوں کی تعداد سو سے زیادہ رہی ہوگی، لوگ دائرے کی شکل میں بیٹھے تلاوت سن رہے تھے۔ سردی کا زمانہ تھا میرے بیٹے مجتبٰی جو اس وقت چھوٹے تھے وہ بھی میرے ساتھ تھے۔ چونکہ ہم محفل میں نہیں جانا چاہتے تھے لہذا باہر سردی میں ہی بیٹھ کر ہم نے تلاوت سنی۔ اس زمانے میں تلاوت سننے والوں کی تعداد سو ۱۰۰ تھی لیکن آج آپ تلاوت سننے والے مجمع کو دیکھئے تو دیکھتے رہ جائیں گے۔
(قاریان قرآن سے ملاقات کے دوران9/02/1991)