اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ قومیت کے موضوع کو کس نظر سے دیکھتی ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو ایسے بہت سے افراد اور اداروں کے لیے اہم ہے جنھیں اسلامی انقلاب، اسلامی جمہوریہ اور بنیادی طور پر آج کے ایران میں سیاست و حکمرانی کے سلسلے میں دلچسپی ہے۔ بہت سے لوگ یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ انقلاب کے بعد کے ایران نے اپنے نعروں اور مخصوص پالیسیوں کے ساتھ مختلف قومیتوں کے تشخص کے سلسلے میں کیا رویہ اختیار کیا ہے اور ان کے بارے میں وہ کس حکمت عملی پر کام کر رہا ہے؟ کیا اسلامی انقلاب کے دو رہبر اپنی پالیسیوں اور نظریات کو آگے بڑھانے کے لیے برتر قوم اور نسل کے قائل تھے اور ہیں اور اسے دیگر قومیتوں پر غلبہ دلا کر اپنے اہداف کو آگے بڑھا رہے تھے یا وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق قومیتی تفریق کی نفی کرتے تھے اور اسے کم کرنے کے لیے کوشاں تھے؟ یا پھر دوسری متبادل باتیں؟ اس مختصر سے مقالے میں ہم انھیں باتوں کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔

آج ایران کے عوام کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کو چالیس سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے اور شاہی حکومت سے دینی جمہوریت تک پہنچنے کے بعد دنیا کے حقیقت پسند اور سچائي کے متلاشی افراد اس انقلاب کی برتر خصوصیات سے آگہی حاصل کر چکے ہیں۔ اب یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں رہ گئی ہے کہ ایران اور ایرانی شدت کے ساتھ سامراج مخالف ہیں اور کسی بھی صورت میں اغیار کے تسلط کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ عالمی سامراج اور تسلط پسند گروہوں کے رویے کا جائزہ بھی یہ دکھاتا ہے کہ اس نظریے اور اس قوم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے لیے انھوں نے کوئي دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایران کے، مغربی بلاک کے مقابلے میں لیفٹ بلاک کے نام سے مشہور بلاک سے وابستہ نہ ہونے کے باوجود، جس کا اب کوئي خاص نام و نشان بھی باقی نہیں بچا ہے اور اس بلاک کی جانب سے ایران پر مختلف طرح کی پابندیاں لگائے جانے اور مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ میں سوویت یونین کی جانب سے صدام کو دیے جانے والے اس کے ہتھیاروں کا سامنا کرنے کے بعد بھی کس طرح ایران سامراج کے ساتھ اس مقابلے میں ڈٹ کر کھڑا ہے اور اپنے انقلابی نعروں پر زور دیتا ہے؟

اس سوال کا جواب بہت زیادہ سخت نہیں ہے حالانکہ اس کے کچھ پہلو خاص طور ایران کے سلسلے میں کچھ اہم باتیں عیاں نہیں ہیں۔ دوسرے الفاظ میں آج کی دنیا میں جو ملک کسی طاقت سے وابستہ نہیں ہے لیکن اس کا نام موجود ہے تو دو حالتوں سے خارج نہیں ہے، یا تو اس کا وجود ہی نہیں ہے یا وہ خود ایسی طاقت بن چکا ہے جو خود کفیل ہے۔ واضح سی بات ہے کہ ایران کی طاقت کی بنیاد بھی ان دو باتوں کے علاوہ نہیں ہو سکتی، یا پھر ہم ہالیووڈ کی صنعت کی بات مان لیں اور کہیں کہ ایلینز خودمختار ایران کی مدد کر رہے ہیں۔ یہیں پر ایک دوسرا سوال بھی پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ایران کے خود کفیل ہونے کا کیا مطلب ہے اور ایران اپنی کس چیز پر بھروسہ کرتا ہے؟ کیا اس کا اعتماد اپنی یونیورسٹی اور ٹیکنالوجی کی طاقت پر ہے؟ اپنے تیل کے ذخائر، معدنیات اور معاشی ڈھانچے پر ہے؟ فلم انڈسٹری، میڈیا اور پروپیگنڈے کی طاقت پر ہے؟ میزائیل اور فوجی طاقت پر ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔

ان میں سے ہر سوال کے لیے دوسرے ملکوں کی مثال پیش کی جا سکتی ہے جو کہیں بہتر پوزیشن میں ہیں لیکن بری طرح تسلط پسندانہ نظام کی ثقافت و سیاست کے اسیر بن چکے ہیں اور ایک آدھ معمولی مواقع کو چھوڑ کر ان میں انسان دشمن سامراج سے صحیح معنوں میں ٹکر لینے اور اس سے مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ ایران کے سلسلے میں جو جواب ہے وہ ہے: عوام کی طاقت! جس کے پاس اپنے علاوہ کوئي دوسرا نہ ہو، فطری طور پر اسے آگے بڑھنے کے لیے صرف اپنے جسم کے خلیوں پر ہی اعتماد کرنا ہوتا ہے۔ حالانکہ ایران روایتی سامراج کے چنگل میں نہیں پھنسا لیکن اسلامی انقلاب کے دوران وہ خود مختاری کا نعرہ لگا کر آگے بڑھا۔ اس کا ہدف عالمی تسلط پسند طاقت کے پنجوں سے آزاد ہونا اور اپنے عوام کی طاقت پر بھروسہ کرنا تھا۔ یہ عوام وہ ہیں جو ایک تشخص اور ایک قومی زبان کے ذیل میں اپنی قومی پہچان اور علاقائي زبان رکھتے ہیں۔

کبھی کبھی ایران کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایران، زمینی اقوام اور الہی ادیان کا گلستان ہے۔ اگرچہ یہ بات شاعرانہ اور فخریہ انداز بیان کی حامل ہے لیکن اس میں ایک ظریف نکتہ نہاں ہے جو بہت زیادہ قومیتی تنوع کے باوجود ایران کی طاقت کے راز کو سمجھنے میں مددگار بن سکتا ہے۔ گلستان کا لفظ ایسی سرزمین کا تصور پیش کرتا ہے جس میں ایک ہی مٹی سے مختلف گل بوٹے اگتے ہیں، ان سبھی پودوں اور درختوں کے تنے اور ہرے پتے ہوتے ہیں اور اپنی اپنی استعداد اور قسم کے مطابق ان پودوں اور درختوں کے خاص پھول اور رنگ ہوتے ہیں۔ باغبان کے لیے یہ بات پوری طرح واضح ہوتی ہے کہ اس گلستان اور گلزار کی خوبصورتی، شکوہ اور جلال اس کے تنوع میں ہے۔

ایران کی قدیم تاریخ اور اس کے تمدن پر ایک نظر ڈالنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ایران اپنے قومیتی تنوع کے باوجود قومیتوں سی جڑی ہوئي سرزمین اور ثقافت نہیں ہے یا دوسرے الفاظ میں ایران، قومیتوں کی یونین نہیں ہے۔ بنابریں ایک ایرانی اپنے تشخص اور ماضی کے لحاظ سے اپنے آپ کو ایرانی ہونے کی حیثیت سے پہچانتا ہے اور اگر اس کے بعد اس سے سوال کیا جائے تو وہ اپنی قومیت بیان کرتا ہے۔ قدیم ایام سے ہی ایران ایسا ہی رہا ہے اور جہاں کہیں بھی تقسیم اور علاحدگي کی بات ہوئي ہے اس کے لیے عوام ذمہ دار نہیں رہے ہیں بلکہ سیاستدانوں اور سامراجی معاہدوں کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔

سامراج کی طرح ہی، جسے ایرانی تشخص اور ایرانی قومیتوں کا ادراک نہیں ہے اور جس نے اس راہ میں بہت زیادہ لاحاصل کوششیں کی ہیں، اسلامی جمہوریہ سے پہلے کے سیاسی دھڑے اور حکومتیں بھی ایران کی قومیتی طاقت کو سمجھنے میں غلطی کرتی رہی ہیں اور انھوں نے اس طاقت سے استفادہ نہیں کیا۔ لیکن اسلامی انقلاب نے قومیتی استعداد کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا اور اس راہ میں کوشش کی تاکہ اس صلاحیت کو پوری طرح سے نکھار کر اپنے اثر و رسوخ کا دائرہ بڑھائے۔

اسلامی انقلاب کے بطن سے جو نعرے اور اہداف نکلے، جن میں سب سے اہم نئے اسلامی تمدن کی ایجاد کی کوشش ہے، اس بات کے ٹھوس گواہ ہیں کہ ایران میں قومیت کے بارے میں پائي جانے والی سوچ اصل میں ایک اعلی ہدف تک پہنچنے کا راستہ ہے۔ بہت سے مصادیق اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ ایران میں قومیت کا مسئلہ خاص طور پر اسلامی انقلاب کے دوران، سماجی و وطنی ڈھانچے اور مطلوبہ انصاف کی جانب پیش قدمی میں ایک قیمتی اور مؤثر پوزیشن میں بدل چکا ہے۔

امریکا اور صیہونی حکومت کی دشمنی اور اسی طرح اس سے وہابی گروہوں کی عداوت اور مختلف ایرانی اقوام کو ایک دوسرے سے ٹکرانے کی ان کی کوششوں کے باوجود آج ایران کی سلامتی اور اس کا امن، ایرانی اقوام کے ایرانی اور انقلابی تشخص کا مرہون منت ہے اور بخوبی یہ بات ظاہر کرتا ہے کہ ایرانیوں کے درمیان کتنی مضبوط یکجہتی پائی جاتی ہے۔ چاہے وہ کسی بھی قومیت سے تعلق رکھتے ہوں اور اسلامی انقلاب نے ان کے درمیان کیسی سوچ اور کیسے محرکات پیدا کیے ہیں کہ مذکورہ دشمنوں کے اتنے زیادہ حملوں کے باوجود وہ استقامت سے کام لے رہے ہیں اور ترقی و پیشرفت کی راہ پر گامزن ہیں۔ ایران کی سیکورٹی خاص طور پر اس کے سرحدی علاقوں کی سیکورٹی، جہاں رہنے والوں کی بڑی تعداد اہلسنت کی ہے، اس سلسلے میں ایک عمدہ مثال ہے۔ ان علاقوں میں سیکورٹی فورسز کی ایک بڑی تعداد بھی خود اہلسنت کی ہے۔ مقدس دفاع کے دوران بھی حالانکہ جنگ ایران کے مغربی علاقوں میں ہو رہی تھی، شہیدوں کی تعداد کے لحاظ سے پہلے پانچ صوبوں میں پہلے تین صوبے مشرقی صوبے ہیں جبکہ پانچواں صوبہ مرکزی صوبہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایران میں ایک خراسانی شیعہ نے، اہلسنت کی سلامتی اور ان کی زندگي کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام کی قومیت بھی اس اتحاد اور مساوات کی ایک اور گواہ ہے۔ اسلامی انقلاب کے موجودہ رہبر والد کی جانب سے ترک زبان کے ہیں جبکہ ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری عرب ہیں، تشخیص مصلحت نظام کونسل کے سیکریٹری ایک 'بختیاری لر' ہیں جبکہ ایران کی زمینی فوج کے کمانڈر کیومرث حیدری ایک کرد ہیں۔ اسی طرح ملک کے دیگر تمام سیاسی، فوجی اور ثقافتی حکام کی اپنی اپنی قومیت ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ایران میں عوام کو اپنے عہدیداروں کی قومیت کے بارے میں کوئي اطلاع نہیں ہے بلکہ کبھی کبھی تو انھیں اپنے قریبی دوستوں کی قومیت کے بارے میں بھی علم نہیں ہوتا کیونکہ ایک ایرانی کو اس سے کوئي فرق ہی نہیں پڑتا۔

جب شہید قاسم سلیمانی کا جنازہ ایران لایا گيا تو کسی نے ان کی قومیت کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا بلکہ ملک کے تمام صوبوں نے، جن میں مختلف قومیتوں کے لوگ رہتے ہیں، یہ درخواست تہران بھیجی کہ ان کے جنازے کا جلوس ان کے شہروں میں بھی نکالا جائے تاکہ اپنے شہروں کو متبرک کر سکیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران میں ایک دوسرا جو کام ہوا ہے وہ ملک کے مختلف حصوں میں، جن میں سے ہر حصہ کسی قومیت سے مخصوص ہے، علمی و ثقافتی انصاف قائم کرنے کی کوشش ہے۔ پورے ایران میں بڑی تعداد میں یونیورسٹیاں، علمی و تحقیقاتی مراکز اور صوبائي چینل مقامی زبانوں میں قائم کیے گئے اور اس وقت ایران کا ہر خطہ، ایک بے نظیر علمی و ثقافتی مرکز میں تبدیل ہو چکا ہے۔

اسلامی انقلاب نے داخلی سلامتی کے علاوہ اپنی علاقائي سلامتی کو بھی اپنی مختلف اقوام کا اعتماد حاصل کر کے یقینی بنایا ہے تاکہ اس طرح سے پاکستان، ترکی، افغانستان، ترکمنستان، عراق، آذربائيجان اور دیگر پڑوسی ممالک کے ساتھ اپنے ثقافتی و معاشی تعلقات کو مستحکم بنا سکے۔

اسلامی انقلاب کا تمدنی نظریہ یہ نہیں چاہتا کہ اس خیال کے ذریعے صرف ایران ہی سلامتی و پیشرفت کے لیے اقوام کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائے بلکہ اس کا ماننا ہے کہ مغربی ایشیا کا خطہ بھی اس طرح کے نظریے کے ذریعے پائیدار امن، ترقی و پیشرفت اور استقامت تک پہنچ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے شیعہ کمانڈر شہید قاسم سلیمانی کہتے ہیں: "جس طرح سے ہم شیعہ حزب اللہ کی حمایت کرتے ہیں، اسی طرح ہم فلسطین کے سنّی استقامتی گروہوں کی بھی حمایت کرتے ہیں۔" اس خیال کا سرچشمہ، اقوام کے بارے میں ایران کے سیاسی و فوجی حکام کا تمدنی نظریہ ہے۔

اسلامی انقلاب، اسلامی تعلیمات کی رو سے انسان کی قدر و قیمت کی کسوٹی، اس کے رنگ، نسل اور زبان کو نہیں بلکہ تقوائے الہی کو مانتا ہے اور اس نے انسانوں کی مشترکہ صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے اور ان کی یکجہتی کی کنجی حاصل کر لی ہے۔ (سورۂ حجرات، آیت 13) یہ دین مبین اسلام اور قرآن مجید کی قابلیت ہے کہ وہ اقوام کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کے تنوع کو باضابطہ طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن مجید دیگر الہی ادیان کو بھی تسلیم کرتا ہے اور ان کے صحیح پیروکاروں کو سعادت مند بتاتا ہے۔ (سورہ بقرہ، آیت 69)

اسی وجہ سے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد لسانی قومیتوں کے ساتھ ہی ساتھ مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کو بھی نظر انداز نہیں کیا گيا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کی دفعہ 64 کے مطابق ملک کی پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی میں پارسی مذہب، یہودیوں، آشوری، کلدانی اور آرمینیائی عیسائیوں کے نمائندے موجود ہیں۔

قومیتوں کے اس اتحاد کی حفاظت، ایران کے رہنماؤں کے لیے بہت اہم ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے ایک فتوے میں قومیتوں کے بارے میں کسی بھی طرح کے لطیفے، مذاق اور ان کے لہجوں کی ایسی نقل کو حرام قرار دیا ہے جس سے ان کا استہزاء ہوتا ہو۔

قومیتوں کے بارے میں اسلامی انقلاب کے نظریے کی شناخت کے سلسلے میں اس گفتگو کا بہترین خاتمہ، آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای کے ایک بیان کا یہ حصہ ہو سکتا ہے: "اسلامی نظام، ہمارے عظیم اور سرفراز ملک میں اقوام کے تنوع کو ایک سنہری موقع سمجھتا ہے۔ مختلف آداب و رسوم، گوناگوں روایات اور طرح طرح کی صلاحیتیں، ایک موقع ہیں کہ اس قوم کے مختلف اجزاء صحیح رواداری، باہمی زندگي اور بھرپور اتحاد کے ساتھ ایک دوسرے کی تکمیل کر سکیں۔ ہماری قوم کے لیے یہ ایک قابل فخر بات ہے کہ وہ قومیتی تنوع کے بارے میں اس طرح کا نظریہ رکھتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام، اس نظام کے الہام کا سرچشمہ ہے اور اس اسلامی نظریے میں مختلف نسلوں اور مختلف زبانوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے چاہے وہ مختلف اقوام سے ہی کیوں نہ ہوں جبکہ یہاں تو ایک ہی قوم کے درمیان مختلف قومیتوں کی بات ہے۔ اسلام کا نظریہ یہ ہے اور اسلامی نظام کا نظریہ بھی یہی ہے۔"