حمید رضا غلام زادہ نطنزی

امریکی ماہر سیاسیات فرانسس فوکویاما، جریدے فارن افیئرز کے 2019 کے دوسرے  شمارے میں، اپنی کتاب "تشخص" کی وضاحت میں لکھتے ہیں"لبرل ڈیموکریسی، بغیر ملی تشخص کے، جو شہریوں کے اشتراکات پر مشتمل ہوتا ہے، وجود میں نہیں آ سکتی۔" (1)  نسل اور مشترکہ تشخص کی بنیادوں کے علاوہ، مشترکہ تاریخ بھی ہر قوم کی ریڑھ کی ہڈی اور قومیت کی تشکیل کی بنیاد ہوتی ہے، لیکن جیسا کہ کتاب "تاریخ ریاستہائے متحدہ کے حقائق" کے مصنف ڈاکٹر جلیل پور یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ "جب 1776 میں ریاستہائے متحدہ نے اپنی خود مختاری کا اعلان کیا اور ایک حکومت میں تبدیل ہو گئی تو کیا کسی چیز نے اس کو ایک قوم میں تبدیل کر دیا؟" ان کا ماننا ہے کہ خودمختاری کے بعد طویل مدتیں گزر گئيں لیکن اکثر امریکی، ریاستہائے متحدہ کو ایک نیشن نہیں بلکہ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے، مختلف ریاستوں کا ایک کنفڈریشن ہی سمجھتے رہے۔"(2) ریاستہائے متحدہ امریکا، ان مہاجرین سے تشکیل پائی ہے جو مختلف یورپی نسلوں اور قومیتوں سے تعلق رکھتے ہیں (اور بعد میں ایشیائی) بھی نئے براعظم میں آئے اور ان کی آمد ہی اس سرزمین کی تاریخ کا سر آغاز ہے جو مہاجرین کی نظر میں "فتح بہشت" (3) اور مقامی لوگوں کی نظر میں خونریزی، نسل کشی اور قتل عام (4) تھا۔ بعد کے ادوار میں افریقیوں کی آمد تاریخی نقطہ آغاز بنی جو اس سرزمین کے باشندوں کو غلاموں اور بردہ داروں میں تقسیم کرتا تھا۔

انیسویں صدی امریکی تاریخ میں اختلاف و تفرقے کے اوج کا دور ہے۔ اس دور میں  مقامی باشندوں کی زمینوں پر قبضے، مغرب کی جانب  ان کے جبری کوچ (5) اور سیاہ فاموں نیز غلاموں کی مشقت کا دور ہے جس کی عکاسی "انکل ٹام کی جھونپڑی" نامی ناول میں کی گئی ہے اور "ہریٹ ٹیب مین" (6) ان کو نجات دلانے والا ہیرو بن جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سفید فام بھی تاریخ کی دو متضاد سمتوں سے ایک دوسرے کے مقابلے پر اٹھ کھڑے ہوئے۔ ایک طرف جنرل رابرٹ لی اور دوسری طرف جنرل اولیس گرانٹ اس جنگ کے کمانڈر تھے۔ امریکی سیاستداں جان کلہن 1848 میں امریکی حکومت کو سفید فاموں کی حکومت کے نام سے متعارف کراتا ہے اور دس سال بعد ایک اور سیاستداں اسٹیفن ڈگلس کہتا ہے "اس  ملک کی بنیاد ہمارے اجداد کے ذریعے  سفید فام نسل کی بنیاد پر رکھی گئي اور سفید فام لوگوں کے ذریعے اور سفید فام لوگوں نیز ان کی نسلوں کے مفادات کے مطابق اسے تشکیل دیا گیا۔"(7)  لیکن ابراہم لنکن کی نظر میں، اس جنگ میں کامیابی کی بنیاد، اس نقطہ نگاہ کی مخالفت، بردہ داری کے خاتمے اور غلاموں کی آزادی کا بیانیہ تھا۔ تاہم نہ یہ بیانیہ، نہ اس سے متعلق آئین کی ترمیم اور نہ ہی مجسمہ آزادی کا ہدیہ، ان میں سے کسی نے بھی اس صدی میں ریاستہائے متحدہ کے غلاموں اور سیاہ فاموں کو آزادی نہیں دلائي۔

درحقیقت یہ اقدام آنے والی صدی میں امریکی معاشرے میں اختلاف و تفرقہ کی جڑوں کے زیادہ گہرائی تک پھیلنے پر منتج ہوا۔ بیسویں صدی مونرو ڈاکٹرائن کے تدریجی طور پر پھیکے پڑنے اور بین الاقوامی امور میں کردار ادا کرنے پر امریکا کی زیادہ توجہ کی  صدی تھی جو دوسری عالمی جنگ میں اس کی مداخلت اور واشنگٹن کی فوجی، سیاسی اور اقتصادی طاقت کے استحکام پر منتج ہوئی۔ اس صدی کے وسط ميں ریاستہائے متحدہ کی ترقی اتنی نمایاں تھی کہ "امریکی صدی" (8) کی اصطلاح زبانوں پر رائج ہو گئی اور سوویت یونین سے سرد جنگ میں امریکی پیشرفت و ترقی میں تیزی آ گئي۔ ان تغیرات کے ساتھ ہی امریکی معاشرہ بھی آگے بڑھا اور جو سلوگن اور نعرے اس نے سن رکھے تھے انہیں عمل میں لانے کی کوشش کی۔ شہری حقوق کی تحریک نے دوہرے معیاروں کی تاریخ کا ورق پلٹ دیا، اس بار نسل پرستی تدریجی طور پر حاشیئے پر چلی گئی اور سیاہ فاموں کو حقوق مل گئے۔ لیکن ان تغیرات کی تاریخ کی روایتیں بھی باہم متصادم اور متضاد تھیں اور مشترکہ اہداف کی تکمیل تو نہ ہوئی تاہم اس صدی کے اختتامی عشرے میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھر جانا امریکی استثنا پسندی (9) کے مزاج کو اتنا بھا گیا کہ فرانسس فوکویاما نے سرد جنگ کے بعد امریکی سپرپاور اور یونی پولر سسٹم کو "اختتام تاریخ" کا نام دے دیا۔

اکیسویں صدی کا آغاز ریاستہائے متحدہ کے مختلف پہلووں میں حقیقت بینی کا سر آغاز تھا۔ شہری آزادی اور  نسلی نیز جنسی  مساوات کی کیفیت یہ تھی کہ باراک اوباما نے مارٹن لوتھر کنگ کی تاریخی تقریر"امریکی خواب" کی پچاسویں سالگرہ پر ان کے پورا نہ ہونے کا اعتراف کیا۔"(10)  'میں سانس نہیں لے پا رہا ہوں' (11)  اور "بلیک لائیو میٹر"(12) (سیاہ فاموں کی زندگی بھی اہمیت رکھتی ہے) کی فریادوں سے اٹھنے والی تحریکیں، ایک غیر سفید فام صدر کو اقتدار ملنے کے خواب کی تعبیر تھیں۔ "وال اسٹریٹ جرنل پر قبضہ کرو" تحریک (13) نے سرمایہ  داری کی حکمرانی کے وعدوں نیز سرمایہ داروں کی بینکاری اور عوام کی گھرداری کے تصادم سے جنم لیا۔ مائیکل لینڈ  کتاب "طبقاتی جنگ" میں لکھتا ہے امریکی مزدوروں کا طبقہ  "چھوٹے سے امیر طبقے"  اور خواص کی مخالفت  ميں اٹھ کھڑا ہوا، (14) جو  معاشرے کے  دس سے پندرہ فیصد پر مشتمل ہیں لیکن حکومت اور علمی و سائنسی نیز اقتصادی حلقوں پر بہت زیادہ اثر رکھتے ہیں۔ معاشیات کا نوبل انعام حاصل کرنے والے اینگس ڈیٹن اور آن کیس نے اپنی نئی کتاب، "ناامیدی کی موت"(15) میں یہ دکھایا ہے کہ سرمایہ داری اور کیپٹلزم کے فلسفے نے کس طرح امریکی عوام کی زندگی کھوکھلی کر دی ہے اور انھوں نے زندگی کے دباؤ کو کم کرنے کے لئے سکون بخش دواؤں، شراب اور منشیات کا رخ کیا ہے اور  یہی مایوسانہ روش خاص طور پر متوسط سفید فام طبقے میں خودکشی اور منشیات کے زیادہ استعمال سے اموات میں اضافے کا سبب بنی ہے۔( 16 )

جنسی انقلاب اور سماجی آزادیاں ریاستہائے متحدہ میں شادی بیاہ میں کمی، طلاق میں اضافے اور سب سے بڑھ کے شرح پیدائش میں کمی کا سبب بنی ہیں۔  کتاب"پستی
 زدہ معاشرہ" ( 17) کے مصنف  اور نیویارک ٹائمز کے کالم نویس راس ڈی ٹاٹ مغربی دنیا میں شرح پیدائش میں کمی کو امریکی طاقت کے زوال کا ایک عامل بتاتے ہیں۔ امریکی طاقت کے زوال کے دیگر عوامل میں وہ، سیاسی کھنچاؤ، نئے افکار اور تشخص خلق کرنے میں ثقافتی صنعت کی ناتوانی، ٹیکنالوجی کی پیشرفت اور نئی ایجادات کے رک جانے کا ذکر کرتے ہیں۔ جن لوگوں نے بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں، سنیما اور سیاست میں "ستاروں کی جنگ" کی بات سنی تھی اور دو ہزار ایک میں خلائی سفر کا خواب دیکھا تھا، اب فلنٹ، نیویارک، چارلسٹن اور ملواکی  وغیرہ میں پینے کے پانی کے بحران سے دوچـار ہیں۔ پائپ لائنوں کے علاوہ سڑکیں، پل ریلویز اور سبھی بنیادی ڈھانچے بہت زیادہ خستہ حال ہو گئے ہیں۔ کورونا وبا کے بحران میں بنیادی ڈھانچے کی تباہی وخستہ حالی زیادہ آشکار ہوئي ہے۔ اگرچہ امریکا کے سیاسی ماحول میں کورونا کی ساری ذمہ داری ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے عجیب و غریب موقف پر ڈالی جا رہی ہے لیکن  اسپتالوں میں بیڈ کی کمی، میڈیکل اسٹاف کی سیکورٹی کے وسائل اور وینٹیلیٹر وغیرہ کا  فقدان امریکا کی سبھی ریاستوں میں ہے چاہے وہاں ریپبلکن پارٹی کی حکومت ہو یا ڈیموکریٹک پارٹی کی۔ اسی کے ساتھ امریکا نے دوسرے ملکوں کے طبی اور علاج معالجے کے وسائل پر جو ڈاکے ڈالے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ملک  اپنے شہریوں کی بنیادی ترین ضرورتیں بھی پوری کرنے میں ناتواں ہے۔ جارج پوکر نے ایٹلانٹک جریدے میں اپنے ایک کالم میں کورونا کے تعلق سے ریاستہائے متحدہ کی حالت کو "ناکام حاکمیت" (18) کا نام دیا ہے اور ییلز یونیورسٹی  میں قانون کی  پروفیسر اور "سیاسی قبائل" نامی کتاب کی مصنف ڈاکٹر ایمی چوا فارین افیئرز (19) ميں شائع ہونے والے اپنے ایک مقالے میں  لکھتی ہیں کہ "کورونا کی پینڈمی نے ظاہر کر دیا ہے کہ ریاستہائے متحدہ منظم شکست کے قریب ہو رہی ہے۔ بحران کے اس دور میں پہلے سے زیادہ  دکھائي دے رہا ہے کہ یہ ملک تشدد آمیز سیاسی تنبیہ کے راستے پر گامزن ہے۔"

 نیشنل اور انٹرنیشنل سطح پر بھی وہ سپر طاقت جو امریکی صدی میں جنگوں کا انجام رقم کرنے کی دعویدار تھی اب "نہ ختم ہونے والی جنگوں" سے دوچار ہے اور اب بھی اربوں ڈالر ان جنگوں پر خرچ کر رہی ہے۔ وہ ملک جس کی مداخلت کے بغیر بلقان کا تناز‏عہ ختم نہ ہوا، اس کو عالمی سیاست کے اسٹریٹیجک ترین مسائل کے عنوان سے شام کی جنگ میں سیاسی اور فوجی کردار ادا کرنے کا کوئی راستہ نہ مل سکا۔ عالمی معیشت کے میدان میں بھی امریکا اپنی پوزیشن بہت کمزور پاتا ہے اور اس کو سخت ترین رقیب چین کا سامنا ہے۔  ٹرمپ کے دور میں کثیر فریقی رجحان سے نکلنے اور بین الاقوامی تعاون میں کمی نے بھی امریکا کے اسٹریٹیجک کردار کو پہلے سے بہت زیادہ محدود کر دیا یہاں تک کہ میکرون نے واشنگٹن کی عالمی اسٹریٹیجک طاقت کے بارے میں شک کا اظہار کیا (20)اور میونخ سیکورٹی کانفرنس نے اپنی آخری نشست میں"بے مغربی"  یا "مغربیت کے خاتمے"      (westlessness 21)    کی اصطلاح کے زیر عنوان بحث کرائي جس میں مغربی معیاروں  اور اصولوں کی اہمیت ختم ہونے اور ان اصولوں سے امریکا اور یورپ کے عدول کرنے اور نتیجے میں دیگر ملکوں میں ان کے جیسا بننے کا رجحان ختم ہونے کی باتیں کی گئيں۔

قومی تشخص کے مخدوش ہونے اور گزشتہ عشروں کے نعروں اور سلوگن سے سماج کے حقائق کے آشکارا تضاد کے نتیجے میں امریکا تشخص کے بحران سے دوچار ہو گيا۔ جو لوگ موجودہ حالات سے تضاد رکھتے ہیں، وہ مجبورا ماضی میں اپنا تشخص تلاش کرتے ہیں اور امریکا کا ماضی مشترکہ تاریخ سے عاری اور تضاد نیز تصادم سے مملو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ازرا کلائن  صرف  دو بڑے جماعتی تشخص کو ہی امریکی سماج میں طاقت ور تشخص قرار دیتی ہیں جس نے دوسری پہچانوں اور تشخص کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ "آج امریکیوں کا سیاسی تشخص  سب سے بڑی پہچان میں تبدیل ہو گیا ہے۔ ڈیموکریٹ یا ریپبلکن تشخص نے تشخص کی دیگر بنیادوں منجملہ نسل، دین، جغرافیا وغیرہ کو نگل لیا ہے۔ "پارٹی سپر آئیڈینٹیٹی معاشرے میں بلاک بندی کا محرک اور ملک میں شدید ترین سماجی خلیج کی بنیاد ہے جو نسل پرستی کی خلیج سے بھی زیادہ گہری ہے۔ یہ جماعتی خلیج مہلک خطرہ ہے۔"(22)

اگرچہ بین الاقوامی میدان میں عام طور پر عالمی سطح پر امریکا کے اقتصادی فوجی اور سیاسی کردار نیز اس کے نشیب و فراز کو ریاستہائے متحدہ کی طاقت کے زوال کے عنوان سے دیکھا جاتا ہے لیکن امریکی معاشرے کے اندر جو کچھ ہو رہا ہے، داخلی سطح پر سماجی تہوں کے اندر کے واقعات، جارج فلائڈ کے قتل کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں سے لیکر انتخابات کے دوران ہونے والی جھڑپوں اور اس کے بعد 6 جنوری کو امریکی کانگریس پر حملے تک کے سبھی واقعات، اس محاذ بندی اور سماجی خلیج کا نتیجہ ہیں جس کی جڑیں اس ملک میں صدیوں سے پھیلی ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ریچرڈ ہیس ڈیموکریسی کی علامت کیپٹل ہل پر حملے کو ما بعد امریکا دور  کا سرآغاز قرار دیتے ہیں (23) اور اسی بنا پر فرانسس فوکویاما خبردار کرتے ہیں کہ "امریکی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم سے دوچار ہیں جو عقلی پہچان اور تشخص پر استوار ہے اور ایک اجتماعی یونٹ کے عنوان سے معاشرے کے ذریعے اجتماعی طرزعمل اور سوچنے کے امکان کو خطرے سے دوچار کر رہی ہے۔ "(24)

  1. https://www.foreignaffairs.com/articles/2019-02-01/stacey-abrams-response-to-francis-fukuyama-identity-politics-article#author-info
  2. https://www.foreignaffairs.com/articles/united-states/2019-02-05/new-americanism-nationalism-jill-lepore
  3. Conquest of Paradise
  4. “A People's History of the United States”, Howard Zinn, Harper Perennial Modern Classics, 2015.
  5. “Unworthy Republic: The Dispossession of Native Americans and the Road to Indian Territory”, Claudio Saunt, W. W. Norton & Company, 2020.
  6. Harriet Tubman
  7. https://www.foreignaffairs.com/articles/united-states/2019-02-05/new-americanism-nationalism-jill-lepore
  8. (American Century) کی اصطلاح ہنری لوئیس نے  سنہ 1941 میں ٹائم میگزین میں عالمی سیاست میں امریکہ کے کردار کی تشریح کے لئے استعمال کی تھی۔ بہت تیزی سے یہ اصطلاح امریکی سیاست اور پالیسی ساز اداروں میں عام ہو گئی۔
  9. American Exceptionalism
  10. https://edition.cnn.com/2013/08/28/politics/obama-king-speech-transcript/index.html
  11. I can’t breathe
  12. Black Lives Matter
  13. Occupy Wall Street
  14. "The New Class War: Saving Democracy from the Managerial Elite", Michael Lind, Portfolio / Penguin Publishing, 2020.
  15. Deaths of Despair
  16. "Deaths of Despair and Future of Capitalism", Angus Deaton & Anne Case, Princeton University Press, 2020.
  17. "Decadent Society: How We Became the Victims of Our Own Success", Ross Douthat, Simon & Schuster, 2020.
  18. https://www.theatlantic.com/magazine/archive/2020/06/underlying-conditions/610261/
  19. https://www.foreignaffairs.com/reviews/review-essay/2020-06-01/divided-we-fall
  20. https://apnews.com/article/1cf7908da5bfc29d272e6dad34de0305
  21. https://securityconference.org/en/publications/munich-security-report-2020/
  22. "Why We’re Polarized", Ezra Klein, Simon & Schuster, 2020.
  23. https://www.foreignaffairs.com/articles/united-states/2021-01-11/present-destruction
  24. " Identity: The Demand for Dignity and the Politics of Resentment", Francis Fukuyama, Farrar, Straus and Giroux, 2018.