بسم اللہ الرحمن الرحیم

و الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الطیبین الطاہرین المعصومین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین

خداوند عالم کا شکر گزار ہوں کہ اس نے عوام کے منتخب کردہ آپ اراکین پارلیمنٹ کی ایک سال کی مسلسل کارکردگي کے بعد مجھے اس ملاقات کی توفیق عطا کی۔ اگرچہ دلنشیں اور شیریں بات یہ ہوتی کہ میں آپ کو قریب سے دیکھتا لیکن افسوس کہ حالات اس طرح کے ہیں کہ دور سے ہی آپ لوگوں سے بات کرنی ہے اور آپ کی باتیں سننی ہیں۔

آج کی گفتگو میں، میں پارلیمنٹ کے بارے میں کچھ باتیں عرض کروں گا، کچھ باتیں انتخابات کے سلسلے میں بھی بیان کروں گا۔

پہلے سال میں مجلس شورائے اسلامی کی قابل قبول کارکردگي

بحمد اللہ پارلیمنٹ نے گزشتہ ایک سال میں یہ دکھا دیا ہے کہ وہ محنتی بھی ہے، بلند حوصلے والی بھی ہے اور ساتھ ہی مفید بھی ہے۔ پارلیمنٹ کے محترم اسپیکر نے اپنی اہم تقریر میں جو باتیں بیان کی ہیں، وہ حقیقت میں انسان کو خوش کرنے والی ہیں، البتہ اس سلسلے میں ہمیں کچھ اور رپورٹیں بھی ملی ہیں جو انہی باتوں کی تصدیق کرتی ہیں۔ بحمد اللہ پارلیمنٹ کے قانون سازی یا اجرائي لحاظ سے کہنہ مشق اراکین کے ساتھ جوان اور جوشیلے اراکین کی موجودگي اس بات کا سبب بنی ہے کہ خدا کے فضل سے اس پارلیمنٹ کو اچھی توفیقات حاصل ہوں۔ اہم امور میں اچھے خاصے بلوں اور تجاویز کی منظوری میں بھی اور عوام کے درمیان موجودگي کے سلسلے میں بھی۔ عوام کے درمیان موجودگي اور عوامی زندگي کے حقیقی مناظر کو دیکھنا، جو محترم اسپیکر، مختلف پارلیمانی کمیشنوں کے سربراہوں اور بعض اراکین پارلیمنٹ کے صوبائی دوروں میں دکھائي دیتے ہیں، حقیقت میں بہت اچھا اقدام ہے، ان شاء اللہ اسے جاری رہنا چاہیے۔ عزیزو! عوام کے درمیان اور ان کے ساتھ رہنے کے معمول کو کبھی ترک نہ کیجیے۔ ایک بڑی کامیابی یہ ہے کہ آپ عوام کا ساتھ دیجیے اور عوام کے ساتھ رہیے۔

عمل اور گفتگو میں پارلیمنٹ کے مخالفین کی مدد سے اراکین پارلیمنٹ کے پرہیز کی ضرورت

اس پارلیمنٹ کے ٹرم کی شروعات سے ہی کچھ لوگوں نے یہ طے کر لیا کہ پارلیمنٹ کی ایک منفی شبیہ پیش کریں گے، انھوں نے کچھ بیانات دیے ہیں اور آگے بھی دیتے رہیں گے؛ میڈیا کے مختلف پلیٹ فارموں پر، جو آج سبھی کی دسترس میں ہیں، بیان دیتے رہتے ہیں، جن سے ہمدردی کی بو بھی نہیں آتی۔ کبھی کوئي اصلاح اور بھلائي کے لیے تنقید کرتا ہے لیکن کبھی جذبات میں آکر، اپنی خاص سوچ کے تحت اور بغیر کسی ہمدردی کے تنقید کرتا ہے۔ محسوس ہو جاتا ہے کہ اس طرح کی معاندانہ حرکتوں میں اخلاص کی کوئي رمق ہی نہیں ہے، یہ چیز دکھائی دیتی ہے۔ میں آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ ان چیزوں پر توجہ نہ دیجیے اور اپنے آپ کو ان میں نہ الجھائيے، آپ اپنا کام کرتے رہئے اور مفید پروگراموں کو آگے بڑھاتے رہیے، لوگ خود سمجھ جائیں گے، غیر معمولی صلاحیتوں کے افراد طے کر دیں گے، نوجوان سمجھ جائيں گے کہ کون کیا کام کر رہا ہے۔ خیرخواہی کے بغیر کیے جانے والے پروپیگنڈوں کی حقیقت جلد یا بدیر سامنے آ ہی جائے گي اور ان کا جھوٹ عیاں ہو جائے گا۔ میں آپ کو جو نصیحت کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ آپ اس بات کا خیال رکھیے کہ اپنے عمل یا اپنی باتوں سے اپنے مخالفوں کی مدد نہ کیجیے۔ یہ میری تاکید کے ساتھ نصیحت ہے۔ گیارہوں پارلیمنٹ کے اندر قول و فعل ایسا ہونا چاہیے کہ وہ اس پارلیمنٹ کے مخالفوں کی باتوں اور کاموں کی تصدیق نہ کرے۔ اسی تناظر میں میری کچھ نصیحتیں ہیں۔

اراکین پارلیمنٹ کو کچھ نصیحتیں: (1) اچھی صفات پر ثابت قدم رہنے اور محاسبے کے ذریعے ان کی حفاظت یعنی تقوی

ایک نصیحت جو کافی اہم ہے یہ ہے کہ آپ، جو بحمد اللہ اچھی صفات کے حامل ہیں، انقلابی ہیں، محنتی ہیں، جوشیلے ہیں، کام کرنا چاہتے ہیں، ان صفات کی حفاظت کیجیے، ان صفات کو پارلیمنٹ میں اپنے آخری دن تک باقی رکھیے، کہنا تو یہ چاہیے کہ اپنی عمر کے آخری دن تک لیکن کم از کم پارلیمنٹ میں اپنے آخری دن تک تو ضرور باقی رکھیے۔ بہت سے لوگ تھے جن میں شروعات میں یہ صفات اور خصوصیات تھیں، انقلابی تھے، جوشیلے تھے، بھرپور توانائي رکھتے تھے، جوش سے بات کرتے تھے، جوش سے کام کرتے تھے لیکن دھیرے دھیرے وہ وسوسوں کے سامنے ڈھیلے پڑ گئے، مال کا وسوسہ، منصب کا وسوسہ، شہرت کا وسوسہ، نام و نمود کا وسوسہ۔ وہ لوگ اس کے سامنے استقامت نہیں دکھا سکے، ان کا راستہ کج ہو گيا، ان کا رویہ بدل گیا، کبھی کبھی تو ابتدائي رویے سے پوری طرح اور یکسر بدل گیا۔ لہذا آپ دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں خداوند عالم فرماتا ہے: "بے شک جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، تو یقیناً اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں۔" (1) رحمت الہی کے فرشتوں کا نزول ان لوگوں کے لیے جو اس بات پر ڈٹے رہتے ہیں: استقاموا؛ وہ استقامت کرتے ہیں، ڈٹے رہتے ہیں۔ تو آپ ان اچھی صفات پر ڈٹے رہیے۔ اب اگر ہم اپنے آپ کو انقلابی باقی رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں کیا کرنا ہوگا؟ میری نصیحت یہ ہے کہ اپنا محاسبہ کریں، اپنا حساب کتاب کریں۔ مسلسل محاسبہ کرنا ضروری ہے۔ ہم کمزور انسان ہیں، خطرے کے دہانے پر ہیں، لغزش کے سامنے ہیں؛ ہمیں خیال رکھنا چاہیے، اپنے اوپر نظر رکھنا چاہیے۔ اس دیکھ بھال کو قرآنی اور اسلامی اصطلاح میں تقوی کہا جاتا ہے۔ تقوی یعنی دائمی مراقبہ کہ کہیں انسان کا دامن آس پاس کے کانٹوں میں الجھ نہ جائے۔ تو یہ ایک نصیحت تھی اور میرے خیال میں اصلی نصیحت یہی ہے۔

(2) پارلیمنٹ کے کام میں معقولیت اور پرسکون ماحول کی ضرورت

اگلی نصیحت یہ ہے کہ آپ انقلابی افراد ہیں، یعنی آپ کی یہی شناخت بنی ہے۔ پارلیمنٹ، انقلاب کی پارلیمنٹ ہے، انقلابی پارلیمنٹ ہے، بعض افراد کی دشمنی بھی اسی وجہ سے ہے۔ تو اس انقلابی پارلیمنٹ کو، جو انقلابی رویے کی حامل ہے اور انقلابی اقدار کی حامی ہے، یہ دکھا دینا چاہیے کہ اس میں اہلیت ہے، پارلیمنٹ کے قانون سازی کے امور کے لیے اس میں ضروری اہلیت اور صلاحیت ہے، وہ صحیح پٹری بچھا سکتی ہے۔ یہ جو خبریں دی گئیں، مجھ حقیر نے جو رپورٹیں دیکھی یا سنی ہیں اور جو باتیں آج پارلیمنٹ کے محترم اسپیکر نے بیان کی ہیں، یہ سب اچھا ہے، یہی چیزیں بہت اچھی ہیں لیکن ملک کے امور کی اصلاح کے لیے پٹری بچھانے میں اس سے زیادہ کاموں کی ضرورت ہے۔ زیادہ کام کرنا ہوگا، زیادہ کوشش کرنی ہوگي۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں یہ خصوصیت ہو تو اس کے لیے معقولیت اور اطمینان کی ضرورت ہے۔

پارلیمنٹ میں ضروری سکون کی حالت اور ضروری فکری سکون ہونا چاہیے۔ یہ جو میں کہہ رہا ہوں کہ معقولیت سے حاصل ہونے والا سکون تو یہ ان ہیجانی کاموں کی ضد ہے۔ ہیجانی اور جذباتی کام اور جلد بازی والے فیصلے پارلیمنٹ میں نہیں ہونے چاہیے۔ پارلیمنٹ، ملک کی اجتماعی عقل کا مرقع ہے۔ اگر پارلیمنٹ اجتماعی عقل کی مظہر ہے تو پھر اس میں انجام پانے والے کاموں میں عاقلانہ رویے کی ضرورت ہے۔ بعض لوگوں کو اس سلسلے میں غلط فہمی ہے؛ آپ محتاط رہیے کہ اس طرح کے نہ ہو جائیے، میرا اشارہ پارلیمنٹ کے اندر کی طرف نہیں ہے، بلکہ پارلیمنٹ کے باہر ایسے کچھ معاملے تھے، ماضی میں بھی تھے اور آج بھی ہیں، ایسے افراد کو غلط فہمی ہوتی ہے کہ ہیجانی رویہ، انقلابی رویہ ہے۔ غیر ذمہ دارانہ باتیں، انقلابی رویے کا حصہ نہیں، بالکل نہیں! یہ انقلابی رویہ نہیں ہے، انقلابی رویہ درست سمت میں صحیح اقدام اور عزم مصمم کا جذبہ ہے جو معقولیت پسندی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ دیکھیے! امام خمینی ہمارے آئيڈیل ہیں، وہ سب سے بڑے انقلابی تھے؛ ہم لوگ ابتدا سے ان معاملات میں شامل رہے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ کبھی کبھی ہم لوگ ہمت ہار جاتے تھے لیکن امام خمینی نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔ سب سے زیادہ انقلابی امام خمینی تھے اور سب سے زیادہ عاقل بھی امام خمینی تھے، سب سے زیادہ پختگی سے اور ٹھوس طریقے سے کام کرتے تھے اور بات کرتے تھے۔ تو ایک بات تو یہ ہوئي، یعنی پارلیمنٹ کی کارکردگي، عاقلانہ، پختہ، ٹھوس اور طے شدہ ہونی چاہیے۔

(3) پارلیمنٹ کے لیے خطروں کی شناخت اور ان سے اجتناب ضروری

میری اگلی نصیحت یہ ہے کہ میرے عزیزو! مجلس شورائے اسلامی فطری طور پر کچھ خطروں سے دوچار رہتی ہے، جن کا میں ذکر کروں گا، ان خطروں کو پہچانیے اور اپنے آپ کو ان سے دور رکھیے، یہ خطرناک ہے۔ میں خود پارلیمنٹ میں رہا ہوں، برسوں تک پارلیمنٹ میں تھا، اس کے بعد برسوں سے مختلف پارلیمانوں سے میرا رابطہ ہے۔ پارلیمنٹ کے لیے کچھ خطرے ہیں، اگر ان خطروں کو نہ پہچانا جائے اور انسان ان خطروں سے دوچار ہو جائے تو پھر پارلیمنٹ کی صورتحال الگ ہوگي، پارلیمنٹ کی جہت الگ طرح کی ہوگي۔ یہ خطرے مختلف نوعیت کے ہیں جن میں سے دو تین باتوں کو میں عرض کرتا ہوں۔

پارلیمنٹ کے سامنے موجود مختلف خطرے: (الف) اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے قانونی طاقت کا غلط استعمال

ان میں سے ایک خطرہ یہ ہے کہ کوئي رکن پارلیمنٹ اس طاقت کو، جو قانون نے اسے عطا کی ہے، اپنے ذاتی مسائل کے لیے، اپنے گروہی مسائل کے لیے یا پھر اپنے قومیتی مسائل کے لیے استعمال۔ یہ طاقت کیا ہے؟ مؤاخذہ، سوال، تحقیق، تفتیش۔ یہ آپ کی طاقت ہے، یہ رکن پارلیمنٹ کو توانائي عطا کرتی ہے۔ اسے صرف اور صرف قانون اور حقیقت کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ ایک خطرہ یہ ہے کہ رکن پارلیمنٹ خدانخواستہ وسوسے میں پڑ جائے اور اس طاقت کو دوسرے مسائل کے لیے استعمال کرے۔

(ب) انتظامی مسائل میں اراکین پارلیمنٹ کی مداخلت

ایک اور خطرہ انتظامی مسائل میں اراکین پارلیمنٹ کی مداخلت کا ہے۔ مثال کے طور پر اس بات میں مداخلت کرنا کہ ہمارے شہر میں یا ہمارے صوبے میں فلاں ادارے کا ڈائریکٹر جنرل کون ہو اور کون نہ ہو، گورنر، ضلع مجسٹریٹ وغیرہ وغیرہ۔ البتہ یہ بھی ممکن ہے کہ بعض مواقع پر کوئي ایمرجنسی کی صورتحال پیش آ جائے لیکن یہ استثنائي معاملات ہیں اور ان سے مجھے کوئي غرض نہیں ہے مگر عام حالات میں محترم اراکین پارلیمنٹ کو اس طرح کے انتظامی مسائل سے دور رہنا چاہیے۔ ان مسائل میں داخل ہونے، متعلقہ انتظامی عہدیدار سے گفتگو کرنے، اس سے اتفاق رائے کرنے اور اسی طرح کی دوسری باتوں کے کچھ خطرات ہیں، ان سے اجتناب کیا جانا چاہیے۔

(ج) اپنے نظریات بیان کرنے کے لیے پلیٹ فارموں کے استعمال میں بے احتیاطی

ایک اور خطرہ، ان پلیٹ فارموں کے استعمال میں بے احتیاطی ہے جو آپ کے اختیار میں ہیں۔ آپ کی باتیں ملک میں براہ راست نشر ہوتی ہیں یا پھر بعد میں میڈیا کے ذریعے سامنے آتی ہیں۔ یہ سہولت سبھی کو حاصل نہیں ہے، عوامی نمائندے کو حاصل ہے۔ خیال رکھیے کہ اس سہولت کے استعمال میں بے احتیاطی نہ ہو۔ آپ تنقید کرنے اور اپنے خیالات بیان کرنے میں محتاط رہئے۔ کبھی کبھی انسان کے سخت نظریات ہوتے ہیں جنھیں دو، تین یا پانچ لوگوں کی نشست میں بیان کیا جا سکتا ہے لیکن اگر یہی نظریہ آپ عوامی سطح پر بیان کر دیں تو ممکن ہے کہ فائدے کے بجائے نقصان ہو جائے۔ کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ کسی بھی چیز کے بارے میں ان کی جو بھی تنقید ہے، اس کا اعلان کر دینا چاہیے اور عوام تک پہنچا دینا چاہیے۔ جبکہ کبھی کسی بات کو عوام کے علم میں لانے کا کوئي فائدہ نہیں ہوتا اور کبھی تو فائدہ نہ ہونے کے ساتھ ہی بہت زیادہ نقصان بھی ہوتا ہے۔ بنابریں بڑی توجہ سے ان پلیٹ فارموں کو استعمال کیا جانا چاہیے اور اس میں بے احتیاطی نہیں ہونی چاہیے۔

(د) انتظامی ذمہ داریاں حاصل کرنے کی کوشش

ایک دوسرا خطرہ یہ ہے کہ رکن پارلیمنٹ، پارلیمنٹ میں پہنچتے ہی، کسی انتظامی عہدے کو حاصل کرنے کا خواب دیکھنے لگے کہ وزیر بن جائے، ڈائریکٹر بن جائے، یا فلاں عہدیدار بن جائے! نہیں، عوامی نمائندگي کی ذمہ داری بہت اہم ہے۔ اگر انسان خدا کے لیے کام کرے اور صحیح کام کرے تو اس کی اہمیت انتظامی ذمہ داریوں سے زیادہ ہے یا کم از کم کچھ معاملوں میں انہی جیسی اہمیت کا حامل ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ہم جیسے ہی پارلیمنٹ میں پہنچیں، اس چکر میں پڑ جائیں کہ اب کیا کریں کہ اگلی پارلیمنٹ میں یا فلاں حکومت میں فلاں عہدہ حاصل کر لیں۔ یہ سب خطرے ہیں، پارلیمنٹ کے لیے اس طرح کے خطرے ہوتے ہیں۔ میرے عزیزو! خیال رکھیے؛ بحمد اللہ ابھی آپ اپنے کام کی ابتدا میں ہیں، آپ پارلیمنٹ میں نو وارد ہیں، ان شاء اللہ ابھی یہ خطرے آپ کے سامنے نہیں آئے ہیں اور نہیں آئیں گے لیکن خیال رکھیے۔ اس سلسلے میں نگراں کمیٹی کو سرگرم رہنا چاہیے۔ اراکین پارلیمنٹ کے رویے پر نظر رکھنے والی نگراں کمیٹی کو اس سلسلے میں فعال رہنا چاہیے لیکن نگرانی سے زیادہ خود آپ کا اندرونی تقوی اور اندرونی مراقبہ اہم ہے جو مفید ثابت ہو سکتا ہے اور آپ کو ان خطروں سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ تو ایک نصیحت یہ بھی ہے۔

(4) ماہرانہ تجاویز کی اہمیت اور قوانین کا معیار بلند کرنے کے لیے ان کے استعمال کی ضرورت

ایک اور نصیحت، ماہرین کے کام پر تاکید کے سلسلے میں ہے جسے میں اس سے پہلے بھی کئي بار کہہ چکا ہوں، شاید آپ سے بھی کہہ چکا ہوں، پچھلی پارلیمانوں سے بھی بارہا میں نے کہا ہے۔ ماہرین کا کام بہت اہم ہے۔ قوانین کا معیار بلند ہونا چاہیے۔ قانون ایسا ہونا چاہیے کہ اسے نافذ کرنے والے برسوں اسے استعمال کرنے کے خواہاں ہوں اور اس کی پابندی کریں۔ قانون کا معیاری ہونا، قانون کو مضبوطی بھی عطا کرتا ہے، قانون کی حقیقت پسندی کی غمازی بھی کرتا ہے، قانون کے قابل عمل ہونے کو بھی ثابت کرتا ہے، قانون کے واضح، شفاف اور ٹھوس ہونے کو بھی نمایاں کرتا ہے اور ساتھ ہی قانون کی غلط تشریح کا سد باب بھی کرتا ہے۔ قانون معیاری ہو تو اس کی یہی خصوصیات ہوتی ہیں اور یہ چیز ماہرین کے کام سے حاصل ہوتی ہے۔ ماہرین کے کام کی سطح کو بھی بلند کیا جانا چاہیے۔ بحمد اللہ پارلیمنٹ میں تحقیقاتی مرکز ہے جو ایک اچھا مرکز ہے اور ماہرین کے کام کی اچھی جگہ ہے۔ خود پارلیمانی کمیشنز، ماہرین کے مرکز ہیں لیکن ان کے علاوہ خود رکن پارلیمنٹ کو کام کرنا چاہیے، مطالعہ کرنا چاہیے۔ اس بل یا ڈرافٹ پر جو آپ کو دیا جاتا ہے بیٹھ کر کام کیجیے، مطالعہ کیجیے، غور کیجیے، اگر آپ کی رسائي ہے تو صاحب رائے افراد سے مشورہ کیجیے تاکہ مہارت کی سطح بند ہو سکے۔

البتہ بعض مواقع پر حساس اور اہم مسائل میں، ترجیح اس بات کو حاصل ہے کہ ڈرافٹ کی جگہ بل پیش کیا جائے کیونکہ بل کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں حکومت کی مہارت کی طاقت کا بھی سہارا لیا جا سکتا ہے کیونکہ حکومت کے پاس بھی ماہرین کی ایک وسیع مشینری ہوتی ہے۔ بل کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے یعنی آپ جو مہارت کا کام کرتے ہیں اس کے علاوہ اس کے بارے میں حکومت میں بھی ماہرین کی سطح کا کام ہوتا ہے، اسی کے ساتھ جب بل ہوتا ہے تو چونکہ اسے نافذ کرنے والی حکومت ہے اور وہ اسے نافذ کرنا چاہتی ہے تو فطری طور پر وہ بل زیادہ اتفاق رائے سے نافذ ہوگا۔ ایک بات یہ بھی تھی۔

ملک کے بنیادی مسائل میں ترجیحات کا خیال

ایک دوسری نصیحت ملک کے بنیادی مسائل میں ترجیحات کا خیال رکھے جانے سے متعلق ہے جن میں سے بعض کو میں نے پچھلے سال کی ملاقات میں اختصار کے ساتھ بیان کیا تھا۔ (2) بحمد اللہ آپ کے پروگراموں میں یہ چیزیں آئي بھی ہیں، گیارہویں پارلیمنٹ نے ان چیزوں کا خیال رکھا ہے اور جیسا کہ رپورٹوں میں تھا، آپ نے ان چیزوں پر توجہ دی ہے۔ ان ترجیحات پر سنجیدگي سے توجہ دیجیے۔ ہم نے اس سال کا نعرہ پیداوار کی رکاوٹوں کا ازالہ اور پیداوار کی حمایت قرار دیا ہے کہ جو بہت اہم ہے۔ میرے خیال میں پروڈکشن ملک میں معیشت کا بنیادی محور ہے اور اگر ہم پیداوار کو زندہ کر سکے تو ملکی معیشت میں بھی جان پڑ جائے گي اور وہ ترقی کرنے لگے گی۔ بہت سی چیزیں پروڈکشن سے وابستہ ہیں۔ پیداوار کی راہ میں موجود رکاوٹوں کو دور کیا جانا چاہیے اور پروڈکشن کی حمایت ہونی چاہیے۔ اسے اپنے پروگراموں میں شامل رکھیے۔

قوانین کی کثرت کے مسئلے کا علاج

ایک اور نصیحت جسے میں مختلف نشستوں میں بارہا عرض کر چکا ہوں، 'قوانین کی کثرت' کے مسئلے کا علاج ہے۔ ہمارے یہاں قوانین زیادہ ہیں اور ان کی تعداد یوں ہی بڑھتی جا رہی ہے۔ ان میں سے بعض کی افادیت ختم ہو چکی ہے، بعض موازی ہیں اور بعض ایک دوسرے سے متصادم ہیں، ان قوانین کے بارے میں کچھ سوچا جانا چاہیے۔ جب قوانین اس طرح بکثرت ہوں تو جو آپ کے منظور کردہ قانون سے بچنا چاہے گا وہ ان قوانین کے اندر سے راہ فرار تلاش کر لے گا، ایسا ہی ہوگا۔ زیادہ قوانین کے نقصانات میں سے ایک یہی ہے کہ اگر کوئي ان سے بچنا چاہے تو وہ فرار کا کوئي نہ کوئي راستہ تلاش کر ہی لے گا، ایسے لوگوں کے لیے میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں "قانون شکنی کے ماہر قانون داں"۔ (3) یہ قوانین، رکاوٹوں کی طرح ہیں جو کام کو آگے بڑھنے نہیں دیتے۔ میرے خیال میں ایک کام یہ ہے کہ ایک وقت طے کیجیے، ایک مہلت معین کیجیے، ایک گروہ کو متعین کیجیے کہ وہ بیٹھ کر قوانین کو چھانٹے اور کم کرے۔

پارلیمنٹ قوم کے فضائل کا نچوڑ

یہ کچھ باتیں میرے ذہن میں پارلیمنٹ کے بارے میں تھیں جو میں نے عرض کیں۔ پارلیمنٹ کے بارے میں آخری بات میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے انتہائي پرمغز اور اہم جملے کو قرار دینا چاہتا ہوں۔ انھوں نے پارلیمنٹ کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے؛ ان کا ایک جملہ یہ ہے کہ: پارلیمنٹ، قوم کے فضائل کا نچوڑ ہے۔ (4) اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ قوم میں جو اچھی صفات ہیں، پارلیمنٹ کو اس کا مظہر ہونا چاہیے۔ ورنہ ایسا نہیں ہے کہ فطری طور پر پارلیمنٹ کو فضائل کا نچوڑ ہونا چاہیے۔ پارلیمنٹ کو اس طرح ترتیب دیا جائے کہ کہ وہ قوم کے فضائل کا مظہر ہو۔ قوم کے فضائل کیا ہیں؟ ہماری قوم میں اس وقت کون سی فضیلتیں ہیں؟ مجاہدت، عزت نفس، خود اعتمادی، امید، ایثار، مشکلوں کے سامنے کھڑے رہنے کی طاقت و توانائي؛ یہ ہماری قوم کی توانائياں ہیں۔ اس طرح کی توانائياں ہماری قوم میں بہت ہیں۔ یہ توانائياں ہماری قوم نے انقلاب کے ان اکتالیس بیالیس برسوں کے دوران دکھائي ہیں، مسلط کردہ جنگ کے دوران دکھائي ہیں، پابندیوں کے مقابلے میں دکھائي ہیں، مغربی اور دیگر طاقتوں کی منہ زوری کے مقابلے میں دکھائي ہیں۔ یہ قوم کے فضائل ہیں، آپ کو قوم کی خصوصیات کا نچوڑ بننا ہے۔ امام خمینی نے در حقیقت اس ایک جملے سے ابد تک کے لیے ہماری سبھی پارلیمانوں کے پروگراموں کو طے کر دیا: ہماری پارلیمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود کو قوم کے فضائل کا نچوڑ بنائيں! خیر یہ کچھ باتیں تھی پارلیمنٹ کے بارے میں۔ باتیں تو بہت زیادہ ہیں لیکن میں زیادہ وقت نہیں لینا چاہتا، اتنا ہی کافی ہے۔

عوام کے عزم سے پروقار الیکشن کے انعقاد کی امید

انتخابات میں تقریبا تین ہفتے باقی ہیں۔ مجھے پوری امید ہے کہ ایرانی قوم کے عزم و حوصلے سے یہ الیکشن، دشمن کی خواہش کے برخلاف، ایران کے وقار میں اضافے کا سبب بنے گا۔ ہمارے دشمن تمام وسائل سے فائدہ اٹھاتے ہیں، ہمارے دشمن بھی اور ملک کے اندر کچھ لوگ بھی جو دانستہ یا نادانستہ طور پر ان کی باتوں پر عمل کر رہے ہیں، انھیں دوہرا رہے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ اس الیکشن کو قوم کے لیے شرمساری کا سبب بنا دیں۔ مجھے امید ہے کہ لوگ پوری کوشش کریں گے اور خداوند عالم کے لطف و کرم سے یہ الیکشن ملک کی عزت و سربلندی کا سبب بنے گا، ان شاء اللہ۔

جن امیدواروں کی اہلیت کی تصدیق نہیں ہوئي ان کے احساس ذمہ داری کی قدردانی

بہرحال، امیدوار طے ہو چکے ہیں۔ محترم نگراں کونسل نے اپنی ذمہ داری کے تحت وہی کیا جو اسے ضروری لگا اور جو اسے کرنا چاہیے تھا۔ اس نے امیدوار طے کر دیے۔ سب سے پہلے تو میں ان لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنھوں نے الیکشن میں شرکت کے لیے نام لکھوایا۔ یقینا ان میں سے بہت سے افراد، احساس ذمہ داری کی وجہ سے، ملک کی مدد کرنے کے لیے، ملک کی خدمت کرنے کے لیے اس میدان میں آئے تھے۔ الیکشن لڑنے کے لیے جن لوگوں نے بھی نام لکھوایا، میں ان کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ دوسرے یہ کہ جن افراد کی اہلیت کی نگراں کونسل نے توثیق نہیں کی اور انھوں نے خندہ پیشانی اور شرافت مندانہ طریقے سے اس فیصلے کو تسلیم کیا، ان کا میں دوہرا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ان کا رویہ شرافت مندانہ تھا، یہاں تک کہ بعض نے تو عوام کو الیکشن میں شرکت کرنے اور پولنگ اسٹیشنوں میں جانے کی ترغیب بھی دلائی۔ یہ بہت اچھا کام تھا جو انھوں نے کیا، خدا کو پسند آنے والا کام تھا۔

 البتہ اہلیت کی عدم توثیق کا مطلب نااہلی نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نگراں کونسل یہ طے نہیں کر پائي کہ ان صاحب میں اہلیت موجود ہے! یہ نہیں کہ اس نے یہ طے کر دیا کہ اس شخص میں اہلیت نہیں ہے۔ نہیں، ممکن ہے کہ اس شخص میں بہت زیادہ صلاحیت ہو لیکن نگراں کونسل کی رپورٹوں، وسائل اور شناخت کے ذرائع وغیرہ سے یہ بات ثابت نہیں ہو سکی، بنابریں اہلیت کی توثیق نہ ہونا، نااہلی کی دلیل نہیں ہے۔

آئین کی گارجین یا نگراں کونسل پر اعتراضات کے الگ الگ محرکات

اس مسئلے میں گارجین کونسل کو خود غرضی کا نشانہ بنایا گيا۔ کچھ لوگوں نے اعتراضات کئے۔ جو اعتراضات ہوئے ان کے الگ الگ محرکات ہیں، گوناگوں جذبات پر مبنی ہیں۔ کچھ لوگ اس مقصد سے نگراں کونسل پر اعتراص کرتے ہیں کہ موجودہ صورت حال میں لوگوں کی شرکت بہت کم ہو جائے گی۔ عوامی شراکت کے لئے ان کا دل جلتا ہے، البتہ میں اس بارے میں ابھی ایک بات عرض کروں گا۔ کچھ لوگ ایسے ہیں۔ کچھ افراد کی مشکل یہ ہے کہ کوئی امیدوار ان کی نظر میں اہلیت و لیاقت کا  حامل تھا لیکن اس کی لیاقت کی توثیق نہیں کی گئی۔ وہ اس بات پر ناراض ہیں کہ جس شخص کو ہم با لیاقت سمجھتے ہیں نگراں کونسل نے اس کی لیاقت کی توثیق نہیں کی۔ ایسے افراد کے سلسلے میں بھی میرے خیال میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ بہرحال انھیں ایک شکوہ ہے۔ البتہ اس زمرے میں شامل سارے افراد بھی یکساں نہیں ہیں۔ چند افراد ممکن ہے کہ کسی خاص شخص کو با لیاقت سمجھتے ہوں جبکہ کسی دوسرے شخص کو وہ با لیاقت نہ سمجھتے ہوں اور ہوا یہ کہ ان دونوں ہی افراد کی لیاقت کی توثیق نہیں ہوئی۔ کچھ لوگ ایسے ہو سکتے ہیں جو اس دوسرے شخص کو تو با لیاقت سمجھتے ہوں مگر اس پہلے شخص کو با لیاقت نہ سمجھتے ہوں۔ تو سوچ کے اعتبار سے یہ افراد متضاد ہو سکتے ہیں مگر اس چیز میں دونوں ایک جیسے ہیں کہ ان کے مد نظر جو امیدوار تھا اس کی لیاقت کی توثیق نہیں ہوئی لہذا ناراض ہیں۔ اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ ایک گروہ ایسا ہے جو خود گارجین کونسل کا مخالف ہے، اسے بھی یہ اچھا موقع ہاتھ آ گیا ہے تو گارجین کونسل سے انتقام لے رہا ہے۔ ایسے افراد اللہ کی بارگاہ میں جوابدہ ہوں گے۔ لوگ دیکھ رہے ہیں، میں بھی سوشل میڈیا پر نظر رکھتا ہوں، مجھے اطلاع ہے۔ بعض اخبارات و جرائد میں بھی دکھائی دے رہا ہے کہ وہ نگراں کونسل سے انتقام لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نگراں کونسل کے کچھ دشمن ہیں اور بڑے سختگیر دشمن ہیں۔ اب انھیں انتقام لینے کا موقع میسر آ گیا ہے۔ ایسے افراد کو اللہ تعالی معاف نہیں کرے کا۔

مشکلات کے تصفئے کی توانائی عوام کی نظر میں ووٹ کے استحقاق کا بہترین معیار

 جہاں تک عوام کی شرکت کی بات ہے اور کچھ لوگ یہ تشویش ظاہر کر رہے ہیں کہ عوام کی شرکت کم ہوگی تو مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ عوام الناس کی شرکت کا جہاں تک سوال ہے، میں کچھ مخصوص گروہوں کی بات نہیں کر رہا ہوں، ممکن ہے کہ کوئی گروہ کسی خاص نام، کسی خاص دھڑے یا عنوان کے پیچھے بھاگ رہا ہو، اس کے بارے میں مجھے کچھ نہیں کہنا ہے، لیکن عوام الناس، عام لوگ کسی خاص نام کی فکر میں نہیں ہیں۔ عوام الناس کو بس یہ دیکھنے میں دلچسپی ہے کہ کون شخص ایسی انتظامی صلاحیت رکھتا ہے، ایسی قوت عمل اور قوت ارادی کا مالک ہے، ایسی کارآمد توانائیاں رکھتا ہے کہ ملک کی مشکلات کو رفع کر سکے۔ وہ اس کی تلاش میں ہیں۔ عوام کو اس سے فرق نہیں پڑتا کہ کون شخص، کس نام سے، کس عنوان کے ساتھ، کس دھڑے سے میدان میں اتر رہا ہے۔ خاص قسم کے گروہوں کو ہو سکتا ہے کہ اس سے فرق پڑتا ہو، لیکن عوام الناس کو اس سے کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ آج جو امیدوار میدان میں ہیں اگر صحیح طریقے سے بیان کریں اور عوام کو اپنی بات سے مطمئین کر لے جائیں، ان کے اندر یہ توانائیاں ہیں تو عوام بڑھ چڑھ کر ووٹنگ میں شرکت کریں گے۔ ان شاء اللہ توفیق خداوندی سے زبردست عوامی شرکت ہوگی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کینڈیڈیٹ حضرات اپنی باتوں سے عوام کو مطمئن کریں، عوام کو اس نتیجے پر پہنچائیں کہ یہ صاحب یا یہ افراد ملک کے امور سنبھال سکتے ہیں، انتظامی صلاحیت کے مالک ہیں، مدبرانہ توانائیاں رکھتے ہیں، سچے ہیں، افراد کی صداقت پسندی سامنے آنا چاہئے، ایسے افراد ہوں جو سماج کے درد کو سمجھتے ہوں۔

اقتصاد، بے روزگاری اور معیشت، عوام کے بنیادی ترین مسائل

میں نے سنا کہ یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ امیدوار حضرات مںاظروں میں، اپنی گفتگو میں سوشل میڈیا کے بارے میں اپنی رائے بیان کریں۔ یا خارجہ پالیسی کے بارے میں اپنا خیال پیش کریں۔ جی نہیں، عوام کا اصلی مسئلہ سوشل میڈیا، خارجہ پالیسی، فلاں حکومت سے روابط یا فلاں حکومت سے تعلقات نہیں ہیں۔ عوام کے بنیادی مسائل کچھ اور ہیں۔ عوام کا بنیادی مسئلہ نوجوانوں کی بے روزگاری ہے، عوام کا بنیادی مسئلہ معاشرے کے کمزور طبقات ہیں، عوام کا اصلی مسئلہ وہ امپورٹ مافیا ہے جو داخلی  پیداواری شعبے کی کمر توڑ دیتا ہے، عوام کا بنیادی مسئلہ وہ غلط پالیسیاں ہیں جن کے نتیجے میں اختراعی صلاحیت رکھنے والا کوئی نوجوان جو بڑے اہم کام کر سکتا تھا، مایوسی میں مبتلا ہو گیا۔ ہم یہ چیزیں سنتے ہیں۔ میرے پاس متعدد رپورٹیں ہیں کہ کوئی شخص یا گروپ بڑے جوش و جذبے سے میدان میں آتا ہے، کوئی اہم کام شروع کرتا ہے، پروڈکشن شروع کرتا ہے۔ پھر اس پروڈکشن کی حوصلہ افزائی اور اس کی مصنوعات خریدنے کے بجائے یکبارگی ہم دیکھتے ہیں کہ امپورٹ کا دروازہ کھل جاتا ہے اور وہی مصنوعات باہر سے امپورٹ کر لی گئیں۔ یہ چیز انھیں تباہ کر دیتی ہے۔ یہ چیز کسانوں کو برباد کر دے گی۔ میں نے انھیں دنوں محترم حکام کو متنبہ کیا ہے۔ مثال کے طور پر پیاز یا آلو کی پیداوار کرنے والا کاشت کار زحمتیں اٹھاتا ہے، صعوبتیں اٹھاتا ہے، لیکن کچھ افراد اور کچھ پالیسیاں اسے برباد کر دیتی ہیں۔ اس کی محنت کا سارا منافع دلالوں کی جیب میں جاتا ہے۔ اسے کچھ نہیں ملتا۔ عوام کے اصلی مسائل یہ ہیں۔ ایسے افراد کو آنا چاہئے جو ان مشکلات کا مقابلہ کریں۔ اگر ملک کی باگڈور ایسے شخص کے ہاتھ میں چلی گئی جو ان مشکلات کو حل کر سکے تو یہ ملک کی واقعی خوش نصیبی ہوگی۔ بے شک ثقافتی مسائل اور سیاسی مسائل کی بھی اپنی جگہ بہت اہمیت ہے، ان پر بھی توجہ دینا چاہئے۔ لیکن فی الحال فوری اور بنیادی مسئلہ جو ملک کو در پیش ہے وہ معیشت کا مسئلہ ہے۔ اسے حل کرنے کے لئے سنجیدگی سے کوشش ہونا چاہئے۔ محترم امیدوار ان میدانوں میں کام کریں، عوام سے بات کریں، عوام کو مطمئین کریں، عوام کو معلوم ہو کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔

مختلف ادوار میں انتخابات کو نقصان پہچانے کے لئے دشمن کے گوناگوں پروپیگنڈے

البتہ دشمنوں کو ہمارے انتخابات سے بیر ہے۔ شروع سے ہی، برسوں سے جاری انتخابات کے دوران۔ امام (خمینی رضوان اللہ علیہ) کے زمانے میں یعنی 1980 کے عشرے میں جب حکومت کا ڈھانچہ الگ تھا، یعنی صدارت اور وزارت عظمی دونوں عہدے تھے تو ایسی صورت حال تھی کہ یہ چیزیں زیادہ نظر نہیں آتی تھیں۔ لیکن بعد میں جب قانون تبدیل ہوا اور صدر کو انتظامیہ کا سربراہ اور اجرائی شعبے کا سربراہ معین کر دیا گيا، اس وقت سے لیکر اب تک یہی سلسلہ چلا آ رہا ہے۔ انتخابات سے پہلے دشمنوں کے پروپیگنڈے کا زور اس پر ہوتا ہے کہ عوام شرکت نہ کریں کیونکہ انتخابات میں دھاندلی ‏ہونے  اور خرد و برد وغیرہ کا اندیشہ ہے۔ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ عوام شرکت نہ کریں۔ لیکن پھر بھی عوام کی بھرپور ‏شرکت ہوتی ہے اور الیکشن شاندار طریقے سے ہو جاتا ہے تب وہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ تو پتہ تھا، دھاندلی ہوئی ‏ہے۔ پہلے سے پتہ تھا کہ بیلٹ باکس سے کس کا نام نکلے گا۔ یہ پرانی روش ہے۔ یہ کوئی آج کی نئی چیز نہیں ہے۔ ہمیشہ ‏مختلف ناموں کے بارے میں یہی باتیں وہ کرتے آئے ہیں۔ جب ایک شخص منتخب ہو جاتا ہے، خواہ وہی شخص ہو جس کے ‏بارے میں وہ اندازہ لگا رہے ہوتے ہیں، یا کوئی اور شخص ہو، تب وہ کہنا شروع کر دیتے ہیں: "فائدہ کیا ہے؟ اسے اختیارات ‏ہی نہیں ہیں۔ صدر کے پاس کوئی اختیارات ہی نہیں ہیں!" برسوں سے دشمن کے پروپیگنڈے کی یہی لائن رہی ہے اور آج ‏بھی ہے۔ آج بھی ان کی کشش ہے کہ اگر ممکن ہے تو عوام کی شرکت میں کمی کر دیں۔ یہ باور کرائیں کہ آپ کی شرکت کا ‏کوئی فائدہ ہی نہیں ہے۔ کون منتخب ہوگا یہ پہلے سے طے شدہ ہے۔ ‏جب بیلٹ باکس سے کوئی نام نکل کر آتا ہے، خواہ وہ کوئی بھی نام ہو، ان کی پیش بینی کے مطابق ہو یا اندازے کے مطابق نہ ہو، دونوں ہی صورت میں وہ کہتے ہیں کہ کوئی فائدہ ہی نہیں! دشمن اس روش پر کام کر رہا ہے۔ ملک کے اندر بھی بد قسمتی سے ہم دیکھتے ہیں کہ وہی باتیں دہرائی جاتی ہیں۔ ہم ان افراد کو پہچانتے ہیں۔ 42 سال سے ان افراد سے میرا سابقہ ہے جن کے نام آج زبانوں پر ہیں۔ میں ان کے ساتھ کام کر چکا ہوں، افراد کو پہچانتا ہوں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ بعض افراد دشمن کی باتوں کو بڑے غور سے سنتے ہیں اور پھر انھیں باتوں کو بقول خود تھیوری کی شکل دیکر ذرائع ابلاغ میں، سوشل میڈیا میں اور دوسری جگہوں پر بیان کرتے ہیں۔

ہمارا فریضہ یہ ہے کہ ہم غور کریں کہ اللہ تعالی ہم سے کیا چاہتا ہے، رضائے  پروردگار کس چیز میں ہے؟ ہمیں اسی کی فکر میں رہنا چاہئے۔ ان شاء اللہ سب کوشش کریں، کوشش کریں گے بھی۔ جو لوگ ذمہ دار ہیں، شرعی فرائض پر توجہ رکھتے ہیں، جو اللہ کی بارگاہ میں جواب دینے کی فکر میں ہیں وہ دوسروں کی خواہش پر، کسی سے لڑائی کی وجہ سے یا کسی کی خوش آمد کی غرض سے اپنا ایمان بیچنے والے نہیں ہیں۔ بہرحال ان شاء اللہ ہم سب اسے سرانجام دینے میں کامیاب ہوں جو ہمارا فریضہ ہے۔

میں کچھ سفارشات کرنا چاہوں گا۔ انتخاباتی امیدواروں کو بھی کچھ سفارشات کروں گا، ان کے حامیوں کو بھی کچھ سفارشات کروں گا اور ایک بات اپنے عزیز عوام سے بھی عرض کرنا چاہوں گا۔

صدارتی انتخابات کے امیدواروں کو چند نصیحتیں:

-1 دوسروں پر تہمتیں لگانے سے پرہیز

امیدواروں کے لئے نصیحت یہ ہے کہ انتخابات کو اقتدار کی جنگ کا میدان نہ بنائیے۔ اس پر نہ جائیے جو امریکہ اور بعض یورپی ممالک میں رائج ہے۔ توہین آمیز روئے کے باعث ان کی عزت چلی گئی۔ ماضی میں بھی جب کبھی ٹی وی مباحثوں وغیرہ میں امیدواروں نے توہین، تذلیل، تہمت اور فریق مقابل کی کردار کشی اور عوام کو اپنے فریق سے ہراساں کرنے کی روش اختیار کی، ملک کو کسی نہ کسی طرح نقصان ضرور پہنچا۔ ماضی میں یہ صورت رہی ہے۔ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم عوام کو اپنے حریف سے اس طرح ہراساں کرنے کی کوشش کریں کہ اگر وہ آ گئے تو ایسا ہو جائے گا، ویسا ہو جائے گا۔ انتخابات کا میدان خدمت کے مسابقتی مقابلے کا میدان ہے۔ قرآن ہمیں حکم دیتا ہے: فَاستَبِقُوا الخَیرٰت (5) نیک کاموں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرو، ایک دوسرے سے آگے نکل جاؤ! اس نقطہ نظر سے انتخابات کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ نفرت پھیلانا، تہمتیں لگانا، یہ سب نہیں ہونا چاہئے۔

-2 غیر حقیقت پسندانہ نعروں سے اجتناب

غیر حقیقت پسندانہ نعرے بھی نہ لگائے جائیں۔ غیر حقیقت پسندانہ نعرے ممکن ہے کہ عوام کو فریب دینے کے زمرے میں آئیں۔ ملک کے وسائل اور ملک کے اندر زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے نعرے دئے جائیں، وعدے کئے جائیں۔ اس روش  پر چلنا چاہئے۔

-3 اخلاقیات کا پاس و لحاظ

اخلاقیات کی پوری سنجیدگی سے پابندی کی جانی چاہئے۔ یعنی واقعی اگر ہمارے امیداوار مناظروں میں بھی، انٹرویو میں بھی، سوال و جواب کے پروگراموں میں بھی اسلامی اخلاقیات کو ملحوظ رکھیں تو یہ چیز معاشرے میں بھی عام ہوگی، عوام الناس کو بھی اخلاقیات کے پاس و لحاظ کا سبق ملے گا، یہ ان کے لئے نمونہ عمل قرار پائے گا۔

-4 اصول شکنی سے اجتناب

اصول شکنی سے گریز کریں۔ بعض لوگ زیادہ مشہور ہونے اور اپنی بات زیادہ لوگوں تک پہنچانے کا یہ طریقہ تلاش کر لیتے ہیں کہ اصول شکنی کریں۔ اسلامی نظام کی ریڈ لائنوں کو بقول خویش عبور کریں۔ جی نہیں، اسلامی نظام مضبوطی سے قائم ایک مستحکم نظام ہے۔ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ نظام کے اصلی خطوط معین ہیں۔ یہ اس حقیر اور مجھ جیسے افراد کی طرف سے نہیں بلکہ خدائی کرشمہ ہے۔ اس کا تکیہ عوام پر ہے۔ اسی استحکام کی وجہ سے اسلامی جمہوری نظام اتنے سال سے وسیع پیمانے پر جاری اس دشمنی کا سامنا کرتا آیا ہے۔ اسلامی جمہوری نظام کی حدود سے تجاوز کرکے اپنے لئے خاص پوزیشن تیار کرنے کی کوشش نہ کریں۔ کیونکہ ایسا ہونے والا نہیں ہے، پوزیشن حاصل نہیں ہوگی۔ اپنی نیتوں کو پاکیزہ بنائیں۔

امیدواروں کے حامیوں کے لئے نصیحت: دیگر امیدواروں کے حامیوں سے تصادم کی کیفیت پیدا کرنے سے اجتناب

حامیوں کے سلسلے میں بھی ایک نصیحت ہے۔ حمایت کرنے والے افراد کسی بھی امیدوار کی حمایت کے سلسلے میں اگر اپنی نیت و جذبے کو الہی و خدائی جذبہ بنائیں تو یقینا اللہ تعالی انھیں برکت عطا کرے گا۔ یا تو ان کا پسندیدہ امیدوار کامیاب اور فتحیاب ہوگا اور اگر نہ ہوا تب بھی اللہ ان کے عمل سے راضی ہے اور یہ عمل ان کے لئے باعث برکت قرار پائے گا۔ بسا اوقات حامیوں کی طرف سے تصادم کی ایسی صورت حال پیدا کر دی جاتی ہے کہ خود امیدواروں کو اس کی بھنک تک نہیں ہوتی۔ یعنی بعض اوقات دیگ سے زیادہ چمچہ گرم کی کہاوت صادق آتی ہے۔ میں گزارش کروں گا کہ امیدواروں کے حامی افراد ان باتوں کا خیال رکھیں۔

دشمنوں کا منصوبہ کیا ہے اس کی ہمیں کسی حد تک خبر ہے۔ حامیوں کو دست و گریباں کرنا، ایک امیدوار کے حامیوں کو دوسرے امیدوار کے حامیوں سے لڑوانا، ایک فریق دوسرے کے خلاف بدکلامی کرے اور دوسرا فریق پہلے کے خلاف ناسزا الفاظ استعمال کرے۔ وہ اس مقصد کے لئے سوشل میڈیا کو استعمال کر رہے ہیں۔ یعنی کسی ایک امیدوار کے انتخابی کمپین کے کسی شخص کی زبانی دوسرے امیدوار کے کیمپین کے افراد کے خلاف اور اس کی زبانی اس پہلے کیمپین کے خلاف بے بنیاد باتیں عام کر دیتے ہیں اور دونوں کو آپس میں گتھم گتھا کر دیتے ہیں۔ یہ باقاعدہ منصوبہ ہے۔ اس پر توجہ رکھئے۔ خلل اندازی اور فساد پیدا کرنے کا دشمنوں کا منصوبہ بہت گہرا ہے وہ اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔

سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر کچھ چیزیں بہت زیادہ جلی شکل میں نظر آتی ہیں جو عوام کا مطالبہ نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ جو بھی سوشل میڈیا پر بہت زیادہ عام ہو جائے یقینا وہ عمومی مطالبہ بھی ہے۔ جی نہیں۔ کبھی کسی چیز کو بہت نمایاں اور بہت بڑا کر دیا جاتا ہے۔ سب بینی و بین اللہ یہ عہد کریں کہ انتخابات کا نتیجہ جو بھی نکلے سب اس کو اعلی ظرفی کے ساتھ قبول کریں گے، مانیں گے۔ ایسا نہ ہو کہ اگر انتخابات کا نتیجہ ہمارے فائدے میں ہو تب تو ہم کہیں کہ قبول ہے، یعنی جمہوریت ہمیں اسی صورت میں قبول ہے کہ جب ہمارے فائدے کے مطابق ہو۔ اگر جمہوریت کسی اور شخص کے فائدے میں ہو تب ہمیں قبول نہیں ہے! بد قسمتی سے یہ ہمارے انتخابات کی تاریخ میں 2009 کا بڑا تلخ تجربہ رہا۔

انتخابات میں شرکت کے لئے عوام سے گزارش

عوام الناس سے گزارش۔ اپنے عزیز عوام سے میں یہ عرض کروں گا کہ عزیز ملت ایران! الیکشن ایک دن میں ختم ہو جاتا ہے لیکن اس کے اثرات برسوں باقی رہتے ہیں۔ انتخابات میں شریک ہوئیے، انتخابات کو اپنا سمجھئے، واقعی یہ آپ کا سرمایہ ہے۔ اللہ سے مدد مانگئے، ہدایت کی دعا کیجئے کہ آپ کو اس انتخاب کا راستہ دکھائے جو صحیح ہے، حق ہے۔ پولنگ مراکز پر جائیے اور جو لیاقت رکھتا ہے اسے ووٹ دیجئے۔ ان لوگوں کی باتوں پر کوئی توجہ نہ دیجئے جو بیرون ملک سے یا ملک کے اندر افواہیں پھیلاتے ہیں کہ "کوئی فائدہ نہیں، ہم ووٹ ڈالنے نہیں جائیں گے، آپ بھی مت جائيے!" یہ عوام کے ہمدرد نہیں ہیں۔ اگر یہ زبان پر عوام کا نام لاتے ہیں تو یہ مہمل بیانی ہوتی ہے، وہ جھوٹ بولتے ہیں، انھیں عوام سے ہمدردی نہیں ہے۔ جسے عوام سے ہمدردی ہو وہ عوام کو ووٹنگ سے نہیں روکے گا۔

شہری و دیہی کونسلوں کے انتخابات کی اہمیت اور زندگی پر اس کے اثرات

آخری بات یہ کہنا ہے کہ کونسلوں کے انتخابات کو بھی فراموش نہ کیجئے۔ کونسلوں کے انتخابات بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس وقت سب صدارتی انتخابات میں مصروف ہیں، شہروں اور دیہاتوں کے امور اور شہری و دیہی زندگی کے امور کے سلسلے میں متعلقہ کونسلوں کے انتخابات کی بڑی اہمیت ہے، ان شاء اللہ وہ بھی فراموش نہ ہونے پائے۔

دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی عوام کی ہدایت فرمائے، ہم سب کی ہدایت فرمائے تا کہ ان شاء اللہ ہم اپنے فریضے پر عمل کر سکیں۔ جن لوگوں کی باتوں میں تاثیر ہے اور عوام پر جن کی باتیں موثر ثابت ہوتی ہیں، ان کا فریضہ ہے کہ اپنے اس اثر و رسوخ کو استعمال کریں انتخابات کی ترویج کے لئے۔ سب، تمام صنفوں کے افراد جس کی بات کا بھی اثر ہے ضرور اسے استعمال کرے تاکہ ان شاء اللہ رضائے الہی حاصل ہو۔

پالنے والے! ہمارے دلوں کو اپنی جانب راغب فرما، اپنی رضا کو ہمارا نصب العین قرار دے، ہمیں رضائے الہی کے حصول میں کامیاب فرما، اسلامی جمہوریہ کو ان شاء اللہ روز بروز زیادہ وقار اور سربلندی عطا فرمایا۔

و السّلام علیکم و رحمة‌ الله و برکاته

۱) سوره‌ فصّلت، آیت نمبر ۳۰ کا ایک حصہ؛ «بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے اور پھر اس پر قائم اور ثابت قدم رہے ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں  ...»

۲) پارلیمنٹ کے ممبران سے خطاب مورخہ 12 جولائی 2020

۳) پولیس فورس کے کمانڈروں سے خطاب مورخہ 16 جولائی 1997

۴) صحیفه‌ امام، جلد ۲۰، صفحہ ۲۷۹

5) سوره‌ مائده، آیت نمبر ۴۸ کا ایک حصہ