امام خمینی کی ذات میں تغیر پسندی بھی تھی اور تغیر آفرینی بھی۔ تبدیلی لانے کے سلسلے میں ان کا کردار صرف ایک استاد اور معلم کا نہیں تھا بلکہ مہم میں شامل ایک کمانڈر کا کردار تھا اور حقیقی معنی میں ایک قائد کا کردار تھا۔ انھوں نے اپنے دور میں اور اپنے زمانے میں متعدد میدانوں میں اور مختلف شعبوں میں بڑی بڑی گوناگوں تبدیلیاں پیدا کیں، جن میں سے کچھ کے بارے میں آج میں اجمالی گفتگو کروں گا۔

u1001.jpg

 

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ تغیر پسندی کا جذبہ ان کے وجود میں کافی پہلے سے تھا۔ یہ ایسی چیز نہیں تھی جو ساٹھ کے عشرے کے اوائل میں اسلامی تحریک کے آغاز پر ان کے وجود میں پیدا ہوئي ہو، نہیں وہ نوجوانی کے زمانے سے ایک تغیر پسند انسان تھے۔ اس کا ثبوت ان کی جوانی یعنی عمر کے تیسرے عشرے میں لکھی گئي تحریر ہے جو انھوں نے مرحوم وزیری یزدی کی ڈائری میں لکھی تھی اور مرحوم وزیری نے امام خمینی کے ہاتھ کی لکھی ہوئي وہ تحریر مجھے دکھائي بھی تھی، بعد میں وہ شائع بھی ہوئي اور بہت سے لوگوں تک پہنچی۔ اس تحریر میں امام خمینی نے اس آیت کریمہ کا ذکر کیا ہے جو لوگوں کو اللہ کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کی دعوت دیتی ہے۔( قُل اِنَّما اَعِظُکُم بِواحِدۃٍ اَن تَقوموا لِلّہِ مَثنىٰ وَ فُرادىٰ) (سورہ سبا آیت 46) ان کے اندر اس طرح کا جذبہ تھا۔ انھوں نے اس جذبے پر عمل کیا اور جیسا کہ میں نے اشارہ کیا، تبدیلیاں پیدا کر دیں۔ تبدیلی کے مسئلے میں انھوں نے صرف زبانی احکامات جاری نہیں کیے بلکہ عملی طور پر میدان میں اترے۔ یہ تغیر آفرینی قم میں نوجوان طلباء کے ایک گروہ کی روحانی تغیر آفرینی سے لے کر، جس کی تفصیل میں بیان کروں گا، ایرانی قوم میں عمومی طور ایک وسیع تغیر آفرینی تک ہمہ گیر فضا پر محیط تھی۔

امام خامنہ ای

3 جون 2020