بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ رب العالمین ۔ والصلاۃ والسلام علی سیدنا ابی القاسم محمد وعلی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین الھداۃ المھدیین

  میری نظر میں اس صوبے کی خواتین کا یہ عظیم اجتماع بہت خوبصورت اور پر شکوہ ہے۔ الحمد للہ، اس صوبے کی خواتین مختلف شہروں سے آئيں اور انھوں نے یہ پر شکوہ اجتماع تشکیل دیا۔ آج اس عظیم اجتماع میں، میں خواتین کے مسائل سے متعلق دو تین باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔

پہلی بات یہ ہے کہ آج خواتین کے تعلق سے ایک بڑی مشکل نہ صرف ایران میں بلکہ پوری دنیا میں پائی جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ زندگی کے بعض شعبوں میں خواتین کے حقوق اور شخصیت کے تئیں کوتاہی اور بعض زیادتیاں ہوتی ہیں ۔ یعنی خواتین پر ظلم ہوتا ہے۔

بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ مشرقی یا اسلامی ملکوں کی خصوصیت ہے۔ یہ تصور غلط ہے۔ مغربی ملکوں میں، خواتین کے بارے میں ان کے تمام تر دعووں کے برخلاف، خواتین کے ساتھ ظلم اگر اسلامی اور مشرقی ملکوں سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہے۔ گھر کے اندر خواتین کے ساتھ مردوں کا ظلم، شوہر کی طرف سے بھی، باپ کی طرف سے بھی اور بھائیوں کی طرف سے بھی  بہت  زیادہ ہے۔ میں نے اس کے اعداد وشمار دیکھے ہیں۔ یہ اعداد وشمار انسان کو لرزہ براندام کر دیتے ہیں اور انسان حیرت میں پڑ جاتا ہے۔

بنابریں جس مشکل کی طرف اشارہ کیا گیا وہ دنیا میں ہر جگہ پائی جاتی ہے۔ یہ مشکل دور ہونی چاہئے۔ البتہ ملکوں میں انقلابات کی جدوجہد کے دوران سیاسی مجاہدت کے عظیم میدانوں میں خواتین نے سرگرم حصہ لے کر اپنا کردار ثابت کیا ہے تو اس کے بعد حالات بہت حد تک بدل گئے ہیں۔

 میں یہاں آپ عزیز خواتین، اپنی بہنوں اور بیٹیوں کے درمیان عرض کروں گا کہ انقلاب کی کامیابی میں خواتین کے اجتماعات کا کردار، شاید مردوں کے مخصوص اجتماعات سے زیادہ رہا ہے۔ عام اور سیاسی مجاہدت میں خواتین کی موجودگی کثیر الجہتی پہلووں کی حامل ہوتی ہے۔ مرد ایک فرد تھا، جو مجاہدت، اجتماعات اور جلوسوں میں شرکت کرتا تھا۔ اس کی حیثیت بس ایک فرد کی تھی۔ لیکن جب خاتون خانہ خود کو مجاہدت میں شریک سمجھ کے میدان میں قدم رکھتی تھی تو وہ پورے گھرانے کو جس میں عورت مرد اور بچے سبھی ہوتے ہیں،  میدان میں لاتی تھی۔ وہ پورے کنبے کو مجاہدت کے میدان میں لاتی تھی۔ جنگ میں بھی ایسا ہی تھا۔ اگر شہیدوں کے پسماندگان، مائیں اور ان کی بیویاں، صبر نہ کرتیں تو جنگ بہت زیادہ مشکلات سے دوچار ہو جاتی۔ اس دور میں خواتین کا کردار بہت نمایاں تھا۔ انقلاب اور جنگ نے ہماری خواتین کو سیاسی بصیرت اور رشد سے آراستہ کیا۔ عورت اگر تعلیم یافتہ ہو، سیاسی بصیرت رکھتی ہو تو پھر کوئی آسانی سے نہ اس پر ظلم کر سکتا ہے اور نہ ہی اس کا حق پامال کر سکتا ہے۔ یہ وہ ثمرات ہیں جو اسلامی انقلاب خواتین کے لئے لایا ہے۔ ۔ یہ پہلا نکتہ ہے۔

میری گزارش ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوان لڑکیاں اور سمجھدار خواتین اس نکتے پر اچھی طرح توجہ دیں جو میں عرض کرنے جا رہا ہوں: خواتین کے بارے میں اسلامی نظریئے کو واضح کرنے کے لئے ، تین نقطہ نگاہ سے ان پر توجہ دی جا سکتی ہے۔ ایک، بحیثیت انسان، معنوی اور شخصیتی تکامل کی راہ میں خواتین کا کردار ہے۔ اس پہلو سے عورت اور مرد میں کوئي فرق نہیں ہے۔ تاریخ میں جس طرح مردوں کی عظیم اور ممتاز ہستیاں پائی جاتی ہیں اسی طرح ، خواتین کی بھی عظیم اور ممتاز ہستیاں پائی جاتی ہیں ۔ قرآن کریم میں جب خداوند عالم مومنین کی مثال پیش کرتا ہو تو (مومن) عورتوں کی مثال اس طرح پیش کرتا ہے: " وضرب الله مثلا للذين آمنوا امرأت فرعون"(1) یہ مثالی مومن خاتون ایسی ہے کہ اس دور کے انسانوں میں یا اس کی نظیر نہیں تھی یا کم تھی۔ یہ پہلا نقطہ نگاہ ہے۔

دوسرا نقطہ نگاہ، سماجی، سیاسی، علمی اور اقتصادی شعبوں میں سرگرمیوں سے متعلق ہے۔ اسلام میں، سماجی، علمی، سیاسی اور اقتصادی شعبوں میں خواتین کی سرگرمیوں کے لئے میدان پوری طرح کھلا ہوا ہے۔ اگر کوئی اسلامی نظرئے کا حوالہ دے کر خواتین کو علمی کام سے روکنا چاہے، اقتصادی سرگرمیوں سے محروم کرنا چاہے، یا سیاسی اور سماجی سرگرمیوں سے الگ کر دینا چاہے تو حکم خدا کے خلاف عمل کرے گا۔ خواتین، جس حد تک ان کی جسمانی توانائی اور تقاضے اجازت دیں، سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہیں۔ وہ اپنی توانائی بھر اقتصادی، سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہیں۔ اسلام کی مقدس شریعت اس میں رکاوٹ نہیں ہے۔ لیکن چونکہ عورت جسمانی لحاظ سے مردوں کے مقابلے میں  نازک ہے اس لئے اس کی کچھ تقاضے ہیں۔ عورتوں کو طافت فرسا کام دینا ان پر ظلم ہے۔ اسلام  اس کی سفارش نہیں کرتا۔ اسی طرح منع بھی نہیں کرتا ہے۔ البتہ حضرت امام علی بن ابی طالب علیہ الصلاۃ والسلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا کہ" المراۃ ریحانۃ  و لیست بقھرمانہ"(2) یعنی عورت  پھول ہے، نوکرانی نہیں ہے۔"قہرمان" یعنی  باعزت خدمتگار اور ملازم۔ آپ مردوں سے فرماتے ہیں کہ خواتین تمھارے گھر میں پھولوں کی طرح لطیف عنصر ہیں۔ ان کے ساتھ نرمی اور لطافت سے پیش آؤ۔ عورت تمھاری نوکرانی اور خدمت گار نہیں ہے کہ تم یہ سوچو کہ بھاری کام اس کے ذمہ کرو۔ یہ بہت اہم مسئلہ ہے۔  

 ابھی حال ہی میں، مجھے جو رپورٹ دی گئی ہے، اس میں بتایا گیا ہے کہ مغربی آذربائیجان کے بعض علاقوں میں روز مرہ کے ستر فیصد کام خواتین اور بقیہ تیس فیصد کام مرد انجام دیتے ہیں۔ یہ ظلم ہے۔ یہ اسلام کے نظرئے کے خلاف ہے۔ یہ جو بعض مرد  شادی کے وقت یہ شرط رکھتے ہیں کہ عورت کام کرے اور پیسے کمائے، غلط ہے۔ اگر چہ خلاف شریعت نہیں ہے لیکن اسلام اس کی سفارش نہیں کرتا ہے۔ ہم اگر عورت کے لئے اقتصادی اور سماجی سرگرمیوں کو ممنوع کرنا چاہیں تو یہ اسلام کے نقطہ نگاہ سے غلط ہے۔ اسلام نے یہ نہیں کہا ہے۔ لیکن اسلام نے یہ بھی نہیں کہا ہے کہ عورت کو بھاری کام کرنے اور سخت اقصادی، سماجی اور سیاسی سرگرمیوں پر مجبور کیا جائے۔ اسلام کا نظریہ اعتدال پر مبنی ہے۔ یعنی عورت کے پاس اگر وقت ہو، بچوں کی پرورش مانع نہ ہو اور اس کے اندر جسمانی توانائی اور شوق پایا جاتا ہو تو وہ سیاسی، سماجی اور اقتصادی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اس کو مجبور کرنا اور یہ کہنا کہ اس کو لازمی طور پر کام کرنا چاہئے اور ہر روز اتنا کام کرنا چاہئے اور اتنا پیسہ کمانا چاہئے کہ گھر کا خرچہ پورا ہو سکے، گھر کے اخراجات کا ایک حصہ اس کو اپنے ذمہ لینا چاہئے، یہ غلط ہے۔ اسلام نے عورت سے یہ نہیں چاہا ہے۔ یہ عورت کے ساتھ ایک طرح کا ظلم شمار ہوتا ہے۔

مختصر یہ کہ، دوسرے پہلو سے اسلام کا نظریہ ہے کہ علمی، اقتصادی، سماجی اور سیاسی سرگرمیوں کے میدان میں نہ عورت پر کوئي چیز مسلط کرنی چاہئے، نہ اس کو مجبور کرنا چاہئے، اور نہ ہی اس کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرنی چاہئے۔ خواتین چاہیں تو سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہیں۔ کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ البتہ علمی کاوش بہتر ہے، دوسری سرگرمیوں پر اس کو ترجیح حاصل ہے۔

میں لوگوں سے سفارش کروں گا کہ اپنی بیٹیوں کو پڑھنے دیں۔ یہ نہ ہو کہ ماں باپ ، دینی تعصب کے باعث بیٹیوں کو اعلی تعلیم حاصل کرنے سے روکنے کے بارے میں سوچیں۔ نہیں، دین نے یہ نہیں کہا ہے۔ دین کی نظر میں حصول علم کے تعلق سے بیٹی اور بیٹے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جس طرح  آپ کا بیٹا اعلی تعلیم حاصل کرتا ہے اسی طرح  بیٹی کو بھی اعلی تعلیم حاصل کرنے دیجئے ۔ بیٹیوں کو علم حاصل کرنے دیجئے، اطلاعات حاصل کرنے دیجئے، اپنی قدرومنزلت سے واقف ہونے دیجئے تاکہ سمجھ سکیں کہ عورتوں کے بارے میں عالمی سامراج کے پروپیگنڈے کتنے بے بنیاد اور کھوکھلے ہیں۔ تعلیم کے ذریعے ان باتوں کو سمجھا جاسکتا ہے۔

 آج  ہماری متدین ترین، انقلابی ترین، با ایمان ترین اور پاکیزہ ترین بیٹیاں اور نوجوان لڑکیاں، تعلیم یافتہ طبقوں میں ہیں۔ وہ لڑکیاں جو زرق و برق اور پیسے، زیورات وغیرہ کی عاشق ہیں، لباس پہننے اور طرز زندگی میں مغربی روشوں کی تقلید کرتی ہیں، وہ زیادہ تر علم، اطلاعات اور کافی معلومات سے بے بہرہ ہیں۔ جس کے پاس علم ہو وہ اپنے طرزعمل کو کنٹرول کر سکتا ہے۔ خود کو حق، حقیقت اور اچھائی کے مطابق ڈھال سکتا ہے۔ بنابریں علم کے میدان میں خواتین کے لئے تمام راستوں کو کھلا رہنا چاہئے۔ دیہات میں بھی لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنا چاہئے۔ والدین سے میری سفارش یہ ہے کہ اپنی بچیوں کو اسکول اور کالج جانے دیں۔ تعیلم حاصل کرنے دیں۔ اگر ان کے اندر استعداد ہے اور وہ ابتدائی مراحل طے کرنے کے بعد اعلی تعلیم حاصل کرنا چاہیں، یونیورسٹیوں میں جانا چاہیں، تو انھیں نہ روکیں۔ ہمارے اسلامی معاشرے میں انہیں تعلیم یافتہ ہونے دیں۔ (یہ خواتین کے بارے میں) دوسرا نقطہ نگاہ (ہے)۔

خواتین کے بارے میں اسلام کا تیسرا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ اسلام انھیں کنبے کا ایک رکن سمجھتا ہے۔ یہ سب سے اہم پہلو ہے۔ میرے عزیزو! اسلام میں مردوں کو یہ اجازت نہیں دی گئی ہے کہ عورت کے ساتھ زور زبردستی کرے اور اس پر اپنا حکم چلائے۔ گھرانے میں مرد کو محدود حقوق دئے گئے ہیں۔  اس میں کچھ حکمت اور مصلحت ہے۔ ان حقوق کی تشریح کی جائے تو سبھی اس کی تائید کریں گے۔ اسی طرح خواتین کے لئے بھی گھرانے میں کچھ حقوق معین کئے گئے ہیں۔ اس میں بھی مصلحت ہے۔ عورت اور مرد میں سے ہر ایک کی اپنی فطرت، اخلاق، جذبات اور خواہشات ہیں۔ اگر وہ اپنی خصوصی فطرت اور عادات سے صحیح طور پر استفادہ کرے تو ان کی جوڑی کامل ہوگی اور  گھرانے میں ہماہنگی اور سازگار حالات پیدا ہوں گے۔ اگر مرد نے زیادتی کی تو اعتدال اور توازن ختم ہو جائے گا۔ اسی طرح اگر عورت زیادتی کرے تو بھی توازن ختم ہو جائےگا۔ اسلام گھرانے کے اندر عورت اور مرد کو ایک دروازے کے دو پٹ کی مانند سمجھتا ہے۔ ایک چہرے پر دو آنکھوں کی طرح  قرار دیتا ہے، زندگی کی جنگ کے مورچے میں بیٹھے دو سپاہیوں کی طرح،  ایک  دکان کے دو حصے داروں کی طرح قرار دیتا ہے۔ ان میں سے ہر ایک اپنی فطرت میں، خصوصیات اور خصلت میں، جسم و روح، فکر اور سوچ، خواہشات اور جذبات میں اپنی الگ خصوصیت کا مالک ہے۔ یہ دونوں اگر ان حدود اور اصولوں کے مطابق جنہیں اسلام نے معین کیا ہے، ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزاریں تو گھرانہ اور کنبہ پائیدار، مہربانیوں، برکتوں، اور فوائد  سے معمور ہوگا۔

آج مغربی دنیا میں خاندان کی بنیادیں  بہت کمزور ہو چکی ہیں۔ کنبے کے افراد بالخصوص خواتین علیحدگی کی مصیبتیں برداشت کرتی ہیں۔ اگر خدانخواستہ کنبے کا شیرازہ بکھر جائے تو عورت اور مرد دونوں سرگردان و پریشان رہتے ہیں ۔ لیکن اس بیچ عورت زیادہ تکلیفیں اٹھاتی ہے۔ آج مغربی دنیا میں عورتیں اس مصیبت میں مبتلا ہیں۔ کیونکہ مغرب میں خاندان آسانی سے منتشر ہوکے ختم ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات خود خواتین خاندان کا شیرازہ منتشر کرنے کا اقدام کرتی ہیں اور خمیازہ بھی بھگتتی ہیں۔

اہم نکتہ یہ ہے کہ خاندان میں، جیسا کہ میں نے عرض کیا، خاندان میں یہ دو بنیادی عناصر، اپنے مخصوص اوصاف کے ساتھ ہی، ایک دوسرے سے مکمل ہماہنگی کے ساتھ رہتے ہیں۔ لیکن عورت جسمانی لحاظ سے زیادہ نازک ہے اور مرد زیادہ قوی اور طاقتور ہے۔ اس صورتحال میں اگر قانون عورت کا دفاع نہ کرے تو ممکن ہے کہ مرد اس کےساتھ زیادتی کرے۔ لہذا قانون پر ان خواتین کی حمایت کے تعلق سے جو اپنے کنبے کے اندر زندگی گزارتی ہیں، بہت سنگین ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ہمیں اپنے ملک کے اندر خواتین کی اخلاقی اور قانونی حمایت پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینی چاہئے تاکہ مرد ان کے ساتھ زیادتی نہ کر سکیں۔ انقلاب کے بعد، خاندان کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کے لئے شادی بیاہ سے متعلق قوانین میں اچھی خاصی اصلاحات انجام پائی ہیں، لیکن کافی نہیں ہیں۔ بنابریں تمام ذمہ دار افراد سے، ان سے بھی جو پارلیمنٹ میں ہیں، ان سے بھی جو سرکاری محکموں میں ہیں، اور ان لوگوں سے بھی جو اہل منبر خطیب اور واعظ ہیں اور  خود خواتین سے بھی، میری سفارش یہ ہے کہ اس سلسلے میں سنجیدگی کے ساتھ کوشش کریں۔ یہ وہی بنیادی نکتہ ہے کہ اسلام نے جس کے سلسلے میں بہت کام کیا ہے۔ مغرب میں اس اہم نکتے کی جانب سے غفلت برتی گئی اور وہاں آج خواتین بہت مظلوم ہیں۔ بعض لوگ جو صرف ظواہر پر نظر رکھتے ہیں، جب مغربی سماج پر نظر ڈالتے ہيں، تو دیکھتے ہیں کہ خواتین بے خوف ہوکے معاشرے میں ظاہر ہوتی ہیں، تو سمجھتے ہیں کہ خاندان کے اندر بھی وہ اسی طرح نڈر اور بے خوف ہیں۔ یہ تصور غلط ہے۔ مغرب میں خاندان کے اندر خواتین پربہت ظلم ہوتا ہے۔

 اسلام عورتوں پر ہونے والے اس ظلم کو روکتا ہے۔ اگر آج ہمارے معاشرے میں اس سلسلے میں کمی محسوس ہوتی ہے تو اس کو دور ہونا چاہئے اور خواتین کی قانون کے ذریعے پوری قوت سے حمایت ہونی چاہئے۔ لیکن سماج کے اندر، بہت سے شعبے اور امور ایسے ہیں جن میں خواتین زیادہ فعال ہیں۔ یہاں میں نرسوں کے دن کی مناسبت سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ وہ سنگین ذمہ داری ہے جس میں خواتین مردوں سے زیادہ سرگرم اور فعال ہیں ۔ یہ بہت اہم کام ہے اور اس کی قدر و منزلت بہت بلند ہے۔

 عزیزخواتین، خواہران گرامی! آج اسلام اپنے قوانین اور اصولوں کے ذریعے معاشرے کے کمزور طبقات، عورت اور مرد، دیہی اور شہری سبھی علاقوں کے باشندوں، مختلف طبقات بالخصوص کمزور طبقات کی حمایت کی کوشش کررہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اسلامی نظام اور احکام اسلامی نے دنیا کے سبھی مظلومین کے دفاع کا تہیہ کر رکھا ہے۔ اسی نقطہ نگاہ کی وجہ سے آج عالمی سامراج اسلامی جمہوری نظام کے خلاف سازش کر رہا ہے۔ بہت کم مہینے ایسے گزرتے ہیں، جب سامراج، اپنی پوری  مشینری، کمپنیوں، زرخرید تھنک ٹینک، اداروں اور منصوبہ سازوں کے ذریعے، جو مستقل طور پر حریت پسند حکومتوں اور اقوام کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں، اسلامی جمہوریہ کے نظام پر وار لگانے کی کوشش نہ کرتا ہو۔ ان میں بعض سازشیں حتی ہر ہفتے اور ہر روز، مستقل طور پر کی جاتی ہیں۔ لیکن خدا کے فضل سے انہی اجتماعات، اسی ہمدلی، اسی یک جہتی اور  اسی آگاہی  کی برکتوں سے، جو الحمد للہ ہمارے ملک کے تمام افراد، عورتوں اور مردوں، سبھی میں پائی جاتی ہے، اسلامی جمہوریہ کے خلاف سامراج کی تمام سازشیں اور کوششیں ناکام رہتی ہیں اور اس عظیم قوم سے مقابلے میں بارہا اور بارہا اس کی ناک زمین پر رگڑی گئی ہے۔ یقینا اس سلسلے میں، تمام دیگر عوامل سے زیادہ لوگوں کی آگاہی اور اہم سیاسی و سماجی میدانوں میں ان کی موجودگی موثر رہی اور خاص طور پر خواتین کی موجودگی اور کردار کا اثر زیادہ رہا ہے۔

آج الحمد للہ ملک میں ہر جگہ، یونیورسٹی اور دینی تعلیم کا مرکز ہے اور نوجوان لڑکیاں، ان دونوں علمی مراکز کے مختلف شعبوں میں حصول علم میں مصروف ہیں۔ جب تک ہمارے معاشرے میں معلومات اور محبت و مہربانی سے سرشار اور مستحکم عزم و ارادے کے مالک یہ نوجوان موجود ہیں، اس وقت تک سامراج، امریکا اور دوسرے چھوٹے بڑے دشمن اس قوم اور ملک کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔ اپنی عزیز بہنوں اور بیٹیوں سے میری سفارش یہ ہے کہ اپنی اطلاعات اور معلومات بڑھائيں۔ مطالعہ، تحقیق، پڑھائی، روز مرہ کے مسائل پر توجہ اور دینی امور کی انجام دہی، وہ اہم اور مسلمہ فرائض ہیں جن پر عمل مردوں کی طرح خواتین کے لئے بھی ضروری ہے۔ اولاد کی پرورش کرکے انھیں صالح اور نیک آپ بناتی ہیں۔ اپنے شوہر کی مثبت کاموں اور میدانوں میں سرگرم ہونے کے لئے حوصلہ افزائی آپ کرتی ہیں۔ بہت سی خواتین ایسی ہیں کہ  اپنے شوہر کو جنت کا مستحق بناتی ہیں اور اس کو دنیا و آخرت کی مشکلات سے نجات دلاتی ہیں۔ عورت کی محنت، آگاہی اور اس کا موقف اختیار کرنا، ایسی اہمیت رکھتا ہے۔

 خداوند عالم سے دعا ہے کہ وہ آپ سب پر اپنا لطف و کرم اور رحمتیں نازل فرمائے۔ میں آپ تمام خواہران گرامی کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ دور و نزدیک سے یہاں تشریف لائیں اور یہ پر شکوہ اور عظیم اجتماع تشکیل دیا اور ثابت کر دیا کہ آذربائیجان کی خواتین مومن، فعال، محنتی، باہمت اور ضروری اطلاعات و آگاہی، اسی طرح پختہ عزم و ارادے کی مالک ہیں۔ میں آپ سب کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں ۔ آپ کے لئے خداوند عالم سے  روز افزوں لطف و کرم کی دعا کرتا ہوں اور آپ کو خدا کے حفظ و امان میں دیتا ہوں۔

 و السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

1-سورہ تحریم آیت 11

2- نہج البلاغہ:خط نمبر31 (امام حسن علیہ السلام سے وصیت)