بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّیّبین و صحبہ المنتجبین و من تبعھم باحسان الی یوم الدّین.

حاضرین کرام! آپ کی خدمت میں خیر مقدم عرض کرتا ہوں اور آپ سبھی کو خوش آمدید کہتا ہوں، خاص طور پر وحدت اسلامی کانفرنس کے عزیز مہمانوں اور دوسرے ملکوں سے یہاں تشریف لانے والے بھائيوں کو۔ میں نبی مکرم اور رسول اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت با سعادت اور اسی طرح حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت با سعادت کی مبارکباد پیش کرتا ہوں جو سن تراسی ہجری میں رسول اللہ کے یوم ولادت کے دن پیدا ہوئے تھے۔

پیغمبر اکرم کی ولادت در حقیقت انسانی زندگي میں ایک نئے دور کا آغاز ہے؛ انسانیت پر خداوند عالم کے فضل و کرم اور اس کے ارادے کے ایک نئے باب کی شروعات کی خوش خبری ہے؛ یوں یہ ولادت  ایک بہت بڑا اور عظیم واقعہ ہے۔ حقیقت میں عام اور رائج الفاظ سے پیغمبر کی ولادت کی عظمت کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یہ واقعہ، بڑا ہی عظیم واقعہ ہے۔ کچھ لوگوں نے ہنر اور شعر کی زبان میں کچھ باتیں کہی ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اس واقعے کی ایک تصویر یا منظر کشی ہے:

ولد الھدی فالکائنات ضیاء ---- و فم الزمان تبسم و ثناء(2)

ہنر کی زبان اس طرح بات کرتی ہے: ہدایت پیدا ہوئي اور پورا وجود نور کی بارش سے شرابور ہو گيا، دنیا کے لب متبسم ہوئے اور حمد و ثنا کے لیے کھل گئے۔ اس طرح کے مفہوم کے ذریعے اس واقعے کی عظمت کو کسی حد تک ذہن کے قریب کیا جا سکتا ہے؛ بہت ہی اہم واقعہ ہے۔

ولادت پیغمبر کے واقعے کی عظمت، پیغمبر کے مرتبے کی عظمت جتنی ہی ہے، وہی عظیم مرتبہ کہ عالم وجود میں، خلقت کے آغاز سے اختتام تک خداوند متعال نے، اتنی عظمت والی کوئي مخلوق خلق ہی نہیں کی ہے اور خداوند عالم نے ان کے کندھوں پر جو امانت رکھی ہے اس کی عظمت بھی بہت زیادہ ہے اور اسی عظیم امانت کی وجہ سے، جس کے بارے میں خداوند متعال فرماتا ہے: لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولا من انفسھم(3) وہ انسانیت پر احسان کرتا ہے، تو عظمت اس طرح کی ہے۔ اللہ تعالی نے کتاب مکنون کو پیغمبر کے قلب مقدس پر نازل کیا، ان کی پاکیزہ اور مطہر زبان پر جاری کیا، انسان کی سعادت کا پروگرام مکمل طور پر ان کے سپرد کیا اور انھیں اس بات کا حکم دیا کہ وہ اس پروگرام پر عمل بھی کریں اور اپنے پیروکاروں سے بھی اس کا مطالبہ کریں۔

خیر، اب ہم اسی پیغمبر کے پیروکار ہیں، ہم اپنا تعلق اسی پیغمبر سے جوڑتے ہیں، ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ ہر زمانے کے ہر دور میں مومنین کی ذمہ داری یہ ہے کہ یہ دیکھیں کہ وہ کس پوزیشن میں ہیں اور دین ان سے کیا چاہتا ہے اور ان کے کندھوں پر کیا ذمہ داری ڈالتا ہے؟ انھیں کس چیز کے بارے میں سوچنا چاہیے اور کس  چیز پر عمل کرنا چاہیے؟ اسے ہر دور میں سمجھا جانا چاہیے۔ اس سلسلے میں علمائے دین اور مذہبی مفکرین نے کافی باتیں کی ہیں، نظریات پیش کیے ہیں۔ میں اس نشست میں، اس سلسلے میں اختصار سے کچھ باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں، جن میں کچھ امت اسلامی کے بارے میں ہیں اور کچھ ایران اور اسلامی جمہوریہ کے بارے میں ہیں۔

جو چیز امت اسلامی اور تمام مسلمانوں سے متعلق ہے، اس کے بارے میں دو نکات پر توجہ دینی چاہیے جن کے بارے میں مختصر سی گفتگو کروں گا۔ ایک نکتہ، اسلام کی جامعیت کے حق کی ادائیگي کا ہے - اسلام ایک جامع دین ہے اور اس کی اس جامعیت کا حق ادا ہونا چاہیے، یہ ایک بات ہے - دوسرا نکتہ، اتحاد بین المسلمین کا ہے؛ یہ دونوں مسائل، ہمارے آج کے سب سے اہم مسائل میں شامل ہیں، البتہ ہمارے موجودہ مسائل بہت سے ہیں اور یہ دونوں، ان میں سے سب سے اہم مسائل کی فہرست میں ہیں۔

جہاں تک اسلام کی جامعیت کے حق کی ادائیگي کی بات ہے تو اس سلسلے میں ایک اصرار موجود رہا ہے اور اب بھی ہے - یہ اصرار زیادہ تر سیاسی اور مادی طاقتوں کی طرف سے ہے - اصرار یہ ہے کہ اسلام کو ایک انفرادی عمل اور دلی عقیدے تک محدود کر دیں، یہ کوشش قدیم ایام سے رہی ہے؛ میں کسی تاریخ کا تعین تو نہیں کر سکتا کہ یہ کوشش فلاں وقت سے شروع ہوئي لیکن تقریبا سو سال یا ایک سو کچھ سال پہلے، یہ کوشش عالم اسلام میں نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ کی تشکیل کے زمانے میں یہ کوشش کئي گنا زیادہ ہو گئی ہے؛ وہ اس بات کی کوشش بھی کرتے ہیں کہ اس کام کو سیاسی شکل نہ دیں بلکہ فکری و نظریاتی شکل عطا کریں، انگریزی اصطلاح میں اسے تھیورائز کریں۔ مفکرین، مصنفین، فکری و نظریاتی میدان میں کام کرنے والوں اور اسی طرح کے دیگر افراد کو یہ مشن دیا جاتا ہے کہ وہ اس کے بارے میں باتیں لکھیں اور یہ ثابت کریں کہ اسلام کا سماجی مسائل، زندگي کے مسائل اور انسانیت کے بنیادی مسائل سے کوئي سروکار نہیں ہے؛ اسلام ایک دلی عقیدہ ہے، خدا سے ایک نجی رابطہ ہے اور اس رابطے پر مبنی ایک انفرادی کام ہے؛ اسلام یہ ہے؛ وہ اپنے مخاطب افراد کے ذہنوں میں یہ بٹھانے پر بضد ہیں۔

اس بباطن سیاسی اور بظاہر فکری رجحان کی نظر میں زندگي کے اہم شعبے اور سماجی تعلقات، اسلام کی مداخلت سے باہر ہونے چاہیے؛ سماج کا انتظام چلانے اور تمدن کی تیاری میں اور تمدن پیدا کرنے اور انسانی تمدن کی تعمیر میں اسلام کا کوئي کردار نہیں ہے، کوئي ذمہ داری نہیں ہے، کوئي امکان نہیں ہے۔ سماج کا انتظام چلانے میں اس کا کوئي کردار نہیں ہے، سماج میں اقتدار و دولت کی تقسیم میں اسلام کا کوئي رول نہیں ہے، سماج کی معیشت اور معاشرے کے مختلف مسائل کا اسلام سے کوئي تعلق نہیں ہے یا جنگ، صلح، ملکی سیاست، خارجہ پالیسی اور عالمی مسائل میں اسلام کا کوئي کردار نہیں ہے۔ کبھی کبھی آپ سنتے ہیں کہ کہا جاتا ہے: سفارتکاری کو نظریاتی نہ بنائیے یا نظریات سے نہ جوڑیے، یعنی خارجہ پالیسی اور عالمی مسائل کے بارے میں اسلام اظہار خیال نہ کرے؛ نیکیوں کے فروغ، عدل و انصاف کے قیام، برائيوں سے مقابلے، ظلم سے مقابلے، دنیا کی بری طاقتوں کی روک تھام، ان سب معاملوں میں اسلام کی کوئي حیثیت اور افادیت نہیں ہے۔ انسانی زندگي کے ان اہم میدانوں میں اسلام کو نہ تو فکری منبع ہونا چاہیے اور نہ عملی رہنما ہونا چاہیے؛ ان کا یہ اصرار ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ اس اصرار کی وجہ کیا ہے؟ اور یہ کہاں سے شروع ہوا ہے؟ تو یہ میری آج کی بات سے متعلق نہیں ہے۔ میں جو عرض کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ پہلے تو یہ اسلام مخالف کام، عام طور پر دنیا کی بڑی سیاسی طاقتوں کی جانب سے ہے اور وہی ہیں جو اس سلسلے میں سرگرم ہیں اور کوشش کرتی ہیں کہ اس چیز کو صاحبان فکر کی زبان سے بیان کیا جائے۔

اسلامی مآخذ اور اسلامی تعلیمات صریحی طور پر اسے مسترد کرتی ہیں اور ہم مسلمانوں کو اس مسئلے کو اہمیت دینی چاہیے۔ یہ جو میں حق کی ادائيگي کی بات کر رہا ہوں، وہ پہلے مرحلے میں یہ ہے کہ ہم کوشش کریں کہ اس بارے میں خود اسلام  کے نظریے کو بیان کریں، تشریح کریں اور اسے پھیلائیں کہ وہ زندگي کے کن میدانوں کو اہمیت دیتا ہے، ان کے بارے میں اہتمام کرتا ہے، ان کے بارے میں رائے دیتا ہے، اقدام کرتا ہے۔ پہلا قدم یہ ہے، پھر کوشش کریں کہ یہ چیز عملی جامہ پہن لے۔

جو چیز اسلام پیش کرتا ہے وہ یہ ہے کہ اس دین کی فعالیت کا میدان، انسانی زندگي کا ہر شعبہ ہے، اس کے دل کی گہرائيوں سے لے کر سماجی مسائل تک، سیاسی مسائل تک، عالمی مسائل تک اور وہ تمام مسائل جو انسانیت سے تعلق رکھتے ہیں، اسلام کی سرگرمیوں کے میدان ہیں۔ قرآن مجید میں، یہ مفہوم واضح ہے؛ مطلب یہ کہ اگر کوئي اس بات کا انکار کرے تو یقینا، اس نے قرآن کی واضح باتوں پر توجہ نہیں دی ہے۔ ایک جگہ قرآن مجید کہتا ہے: یـٰاَیُّہَا الَّذینَ ءامَنُوا اذکُرُوا اللہَ ذِکرًا کَثیرًا، وَ سَبِّحوہُ بُکرَۃً وَ اَصیـلًا(4) کہ معاملہ، قلبی ہے اور انسان کے دل سے متعلق ہے۔ لیکن ایک جگہ یہ بھی کہتا ہے: اَلَّذینَ ءامَنوا یُقاتِلونَ فی سَبیلِ اللہِ وَ الَّذینَ کَفَروا یُقاتِلونَ فی سَبیلِ الطّاغوتِ فَقاتِلوا اَولِیاءَ الشَّیطـٰن(5) یہ بھی ہے؛ یعنی اذکرو اللہ (اللہ کو یاد کرو) سے فقاتلوا اولیاء الشیطن (شیطان کے ساتھیوں سے لڑو) تک یہ پورے کا پورا میدان، دین کے تصرف کاعلاقہ ہے۔

ایک جگہ اللہ پیغمبر سے خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے: قُمِ اللَّیلَ اِلّا قَلیلًا، نِصفَہ اَوِ انقُص مِنہُ قَلیـلًا، اَو زِد عَلَیہِ وَ رَتِّلِ القُرءانَ تَرتیلًا(6) ایک دوسری جگہ پیغمبر کو ہی مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے: فَقاتِل فى سَبیلِ اللہِ لا تُکَـلَّفُ اِلّا نَفسَکَ وَ حَرِّضِ المُـؤمِنین(7) یعنی زندگی کے یہ تمام عظیم میدان؛ آدھی رات کے وقت بیداری، اللہ کے حضور گریہ و زاری، توسل، دعا اور نماز سے لے کر جنگ اور میدان جنگ میں شرکت تک اور پیغمبر کی حیات طیبہ بھی اسی کی نشان دہی کرتی ہے۔

مالی احکامات میں ایک جگہ فرماتا ہے: وَ یُؤثِرونَ عَلیٰ اَنفُسِھِم وَ لَو کانَ بِھِم خَصاصَۃ(8) کہ جو ایک انفرادی معاملہ ہے اور ایک دوسری جگہ فرماتا ہے: کَی لا یَکونَ دولَۃً بَینَ الاَغنِیاءِ مِنکُم(9) یعنی دولت کی صحیح تقسیم کہ جو سو فیصد سماجی مسئلہ ہے؛ یا فرماتا ہے: لِیَقومَ النّاسُ بِالقِسط(10) بنیادی طور پر انبیاء اور اولیاء اور سبھی عدل و انصاف کے قیام کے لیے آئے ہیں۔ ایک جگہ فرماتا ہے: وَلا تُؤتُوا السُّفَہـاءَ اَموالَکـُمُ الَّتی جَعَـلَ اللہُ لَکُـم قِیٰما،(10) ایک دوسری جگہ فرماتا ہے: خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرھُمْ وَتُزَکِّیہِم بِہا(12) یعنی مالی مسائل کے تمام پہلوؤں کو اس کلّی فکر کی شکل میں اور کلی ہدایت کی شکل میں بیان کرتا ہے، البتہ ان سب کے بارے میں  عملی منصوبہ بندی ہونی چاہیے لیکن اس کے بنیادی اصول و قواعد اور سمت وہی ہے جو قرآن بیان کر رہا ہے، یعنی ان تمام مسائل میں اسلام کی رائے اور نظر ہے۔

سلامتی اور معاشرے کی داخلی سلامتی کے مسائل میں کہا گيا ہے: لَئِن لَم یَنتَہِ المُنٰفِقونَ وَ الَّذینَ فى قُلوبِہِم  مَرَضٌ وَ المُرجِفونَ فِی المَدینَۃِ لَنُغرِیَنَّکَ بِھِم(13) یہ سیکورٹی کا مسئلہ ہے۔ یا وَ اِذا جاءَھُم اَمرٌ مِنَ الاَمنِ اَوِ الخَوفِ اَذاعوا بِہ؛  وَلَو رَدّوہُ اِلَی الرَّسول(14) الی آخرہ؛ یعنی اسلام انسان کی سماجی زندگي کے تمام اہم پہلوؤں کے بارے میں پروگرام رکھتا ہے۔ یہ جو کچھ ہم نے عرض کیا، وہ قرآن مجید میں موجود باتوں کا بہت چھوٹا سا نمونہ ہے، اس طرح کی سیکڑوں باتیں آپ قرآن مجید میں دیکھتے ہیں۔ جو قرآن سے ربط رکھتا ہے، قرآن اور احکام قرآن سے آشنا ہے وہ سمجھتا ہے کہ قرآن جس اسلام کا تعارف کراتا ہے، وہ یہ ہے۔ قرآن جس اسلام کا تعین کرتا ہے، تعارف کراتا ہے، وہ، وہی اسلام ہے جو زندگي کے تمام امور میں دخیل ہے، رائے رکھتا ہے، نظر رکھتا ہے، مطالبے رکھتا ہے۔ تو اسے جاننا چاہیے اور ان افراد کو، جو اس واضح حقیقت کا انکار کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جواب دینا چاہیے۔

دوسری طرف چونکہ اسلام میں سماجی مسائل اور سماج و تمدن کی تعمیر کی اہم ذمہ داریاں پائي جاتی ہیں، اس لیے وہ حاکمیت کے مسئلے کا بھی اہتمام کرتا ہے۔ یہ نہیں مانا جا سکتا کہ اسلام، سماجی نظام کا کسی شکل میں مطالبہ کرے لیکن دین و دنیا کی حاکمیت اور سربراہی کو اس میں معین نہ کرے۔ جب دین، نظام بن جائے، ایسا نظام جو شخص اور معاشرے سے تعلق رکھتا ہے اور ایک ایسا سسٹم بن جائے جو تمام انفرادی اور اجتماعی مسائل کے بارے میں اپنی رائے رکھتا ہے، مطالبات رکھتا ہے تو پھر یہ بات بھی ضروری ہے کہ وہ یہ طے کر دے کہ اس معاشرے کا حاکم کون ہوگا اور امام کو معین کر دے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر آپ قرآن میں ملاحظہ کریں تو کم از کم دو جگہوں پر پیغمبروں کو امام بتایا گيا ہے۔ ایک جگہ وَجَـعَلنٰھُم اَئِمَّۃً یَھدونَ بِاَمرِنا وَ اَوحَینا اِلَیھِم فِعلَ الخَیرٰتِ وَ اِقامَ الصَّلوٰۃ(15) اور دوسری جگہ وَجَعَلنا مِنھُم اَئِمَّۃً یَھدونَ بِاَمرِنا  لَمّـا صَبَروا(16) یعنی پیغمبر، امام ہے، معاشرے کا امام ہے، سماج کا رہنما ہے، سماج کا کمانڈر ہے؛ یہی وجہ ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام منیٰ میں لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور بلند آواز سے کہا: اَیُّھَا النّاسُ! اِنّ رَسولَ‌ اللہِ کانَ ھُوَ الاِمام (اے لوگو! یقینا رسول اللہ ہی امام ہیں)(17) یہ اس لیے کہا کہ تاکہ لوگوں کو سمجھائيں کہ پیغمبر کی صحیح مذہبی روش کیا ہے؟ امام صادق نے یہ بات منیٰ میں لوگوں کے درمیان کہی کہ اِنّ رَسولَ‌ اللہِ کانَ ھُوَ الاِمام۔ تو یہ ایک بات ہوئي۔ عالم اسلام کی سطح پر مذہبی مفکرین کی ذمہ داری ہے، علماء کا فریضہ ہے، مصنفین کی ذمہ داری ہے، محققین کی ذمہ داری ہے، یونیورسٹی کے اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ اسے کہیں، اسے بیان کریں، اس کی تشریح کریں، دشمن اس سلسلے میں پیسے لگا رہا ہے تاکہ اس کے برخلاف بات کی اور اس کے انکار والی بات کی تشہیر اور ترویج کرے۔

البتہ اس سلسلے میں ایران میں ہماری ذمہ داری زیادہ سنگین ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں زیادہ وسائل ہیں اور کوشش کی جا سکتی ہے۔ ملکی حکام خاص طور پر ثقافتی شعبے کے عہدیداروں اور ان افراد کو، جن کے پاس سماجی پلیٹ فارم ہیں، اسے بیان کرنا چاہیے۔ ملک کے اندر بھی ایسا نہیں کہ اب چونکہ اسلامی جمہوریہ میں اسلامی نظام تشکیل پا چکا ہے تو ہم اس معاملے سے بے نیاز ہو گئے ہیں؛ نہیں، اس وقت بھی ہمارے ملک میں اس موضوع کے بارے میں کچھ شبہات تیار کیے جاتے ہیں، باتیں کی جاتی ہیں اور اس سلسلے میں کام کیا جاتا ہے۔ خیر تو یہ عالم اسلام کے سلسلے میں ایک نکتہ تھا۔

ایک دوسرا نکتہ، اور یہ بھی عالم اسلام سے ہی متعلق ہے، وحدت کا مسئلہ ہے، اتحاد بین المسلمین کا معاملہ ہے۔ یہ بات بھی بہت ہی اہم ہے۔ البتہ ہم نے وحدت کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے؛ خدا رحمت کرے ہمارے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ پر جنھوں نے اس ہفتۂ وحدت کا اعلان کیا، اس سلسلے میں کوشش کرتے رہے، انھوں نے ہمیشہ مسلمانوں کے اتحاد کے بارے میں بات کی، تاکید کی، نصیحت کی؛ ہم نے بھی اس سلسلے میں کافی کچھ کہا ہے، لیکن پھر بھی اس بارے میں بات کرنی چاہیے۔

اس سے پہلے کہ میں کچھ جملے اتحاد بین المسلمین کے بارے میں عرض کروں، اپنے لیے ضروری سمجھتا ہوں کہ اتحاد اسلامی کے میدان کے کچھ نمایاں اور انتھک کوشش کرنے والے افراد کا ذکر کروں؛ جیسے مرحوم جناب تسخیری(18) رضوان اللہ علیہ جو اس میدان میں ہمارے انتھک کوشش کرنے والے افراد میں سے ایک تھے، انھوں نے برسوں تک جدوجہد کی، یہاں تک کہ بیماری کے عالم میں بھی ان کی کوشش جاری رہی۔ ان سے پہلے مرحوم جناب شیخ محمد واعظ زادہ(19) رضوان اللہ علیہ تھے جو ایک عظیم عالم، فاضل اور اسلامی علوم میں ید طولی رکھتے تھے اور انھوں نے بھی برسوں تک اس میدان میں کوشش کی؛ یہ ایران کے تھے۔ شام سے شہید شیخ محمد رمضان البوطی تھے کہ جو شہید عالیقدر ہیں اور انھوں نے بہت کوششیں کی ہیں، عالم اسلام میں مذاہب اسلامی کو قریب لانے کے سلسلے میں ایک بڑے عالم مرحوم شیخ محمد رمضان البوطی تھے۔ شہید سید محمد باقر الحکیم(20) بھی مذاہب اسلامی کو قریب لانے کی تحریک کے اہم افراد میں سے ایک تھے۔ جن افراد نے مجھے اسلامی مذاہب کی تقریب کی اسمبلی قائم کرنے کے لیے ترغیب دلائي اور مہمیز کیا، ان میں سے ایک شہید عالیقدر مرحوم سید محمد باقر حکیم تھے۔ لبنان میں مرحوم شیخ احمد الزین اسلامی مذاہب کو قریب لانے کی تحریک کے علماء میں سے ایک تھے جن کا حال میں انتقال ہوا ہے اور جو ہمارے دوستوں اور قریبی افراد میں سے ایک تھے۔ ان سے پہلے لبنان کے مرحوم شیخ سعید شعبان بھی ہمارے اچھے دوستوں میں سے تھے۔ خدا انھیں غریق رحمت کرے کہ وہ ان افراد میں سے ایک تھے کہ جو حقیقی معنی میں اتحاد بین المسلمین اور اسلامی فرقوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی ضرورت پر عقیدہ رکھتے تھے۔ امید ہے ان شاء  اللہ خداوند عالم ان تمام افراد کی ارواح طیبہ کو، جن کا ہم نے نام لیا اور جن کا نام نہیں لیا کیونکہ ان سے پہلے بھی بہت سے علماء تھے، عراق میں، ایران میں، مصر میں اور دوسری جگہوں پر جنھوں نے اس سلسلے میں کوشش کی ہے اور میں نے سب کا نام نہیں لینا چاہا اور سب کا نام لیا بھی نہیں جا سکتا، غریق رحمت کرے اور ان پر اپنا لطف نازل کرے۔

کچھ باتیں اتحاد بین المسلمین کے بارے میں عرض کروں۔ ایک بات یہ ہے کہ مسلمانوں کا اتحاد ایک حتمی قرآنی فریضہ ہے، کوئي من چاہی چیز نہیں ہے؛ اسے ایک وظیفے اور ذمہ داری کی نظر سے دیکھنا چاہیے۔ قرآن نے حکم دیا ہے: وَاعتَصِموا بِحَبلِ اللہِ جَمیعًا  وَلا تَفَرَّقوا(21) یعنی اللہ کی رسی کو تھامنے کا کام بھی مل جل کر کرو۔ وَاعتَصِموا بِحَبلِ اللہِ جَمیعًا  وَلا تَفَرَّقوا۔ یہ تو حکم ہے۔ ہم اسے ایک اخلاقی امر میں کیوں بدل دیتے ہیں؟ یہ ایک حکم ہے، ایک حکم ہے جس پر اس کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔ اسی طرح قرآن میں متعدد دیگر آیتیں ہیں، جیسے وَ لا تَنازَعوا فَتَفشَلوا وَ تَذہَبَ ریحُکُم(22) آيت کے آخر تک؛ یہ ایک نکتہ ہے کہ یہ ایک فریض ہے۔

دوسرا نکتہ یہ کہ مسلمانوں کی وحدت اور اتحاد بین المسلمین کوئي ٹیکٹک نہیں ہے کہ کچھ لوگ یہ سوچیں کہ خاص حالات کی وجہ سے ہمیں متحد ہونا چاہیے؛ نہیں، یہ ایک اصولی بات ہے؛ مسلمانوں کا تعاون ضروری ہے؛ اگر مسلمان متحد ہوں اور آپس میں تعاون کریں تو سبھی طاقتور ہو جائيں گے۔ جب یہ تعاون موجود ہو تو، وہ لوگ بھی، جو غیر مسلمانوں سے لین دین رکھنا چاہتے ہیں - اس میں کوئي حرج بھی نہیں ہے- مضبوط پوزیشن کے ساتھ اس لین دین میں شریک ہوں گے۔ بنابریں یہ اگلا نکتہ تھا کہ یہ وحدت ایک اصول چیز ہے اور ٹیکٹک نہیں ہے۔

تیسرا نکتہ یہ ہے کہ ہم اسلامی جمہوریہ میں اتحاد بین المسلمین پر جو تاکید کرتے ہیں، زیادہ زور دیتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ فاصلہ زیادہ ہے۔ آج لگاتار اس بات کی کوشش کی جاتی ہے کہ مسلمان فرقوں کے درمیان، شیعہ سنی کے درمیان اختلاف پیدا کر دیا جائے، یہ ایک سنجیدہ اور سوچی سمجھی سازش ہے۔ آپ دیکھیے کہ آج 'شیعہ' اور 'سنّی' لفظ امریکا کے سیاسی لٹریچر میں شامل ہو چکا ہے! امریکیوں کو شیعہ اور سنّی سے کیا مطلب ہے؟ کچھ برس سے سنّی ہونے اور شیعہ ہونے کا مسئلہ امریکا کے سیاسی لٹریچر میں آ چکا ہے کہ ہاں فلاں ملک شیعہ ہے، فلاں ملک سنّی ہے؛ حالانکہ وہ بنیادی طور پر اسلام کے ہی مخالف ہیں، دشمن ہیں لیکن شیعہ اور سنی کے معاملے کو چھوڑ نہیں رہے ہیں۔ تو یہ چیزیں ہیں؛ اختلافات کو روز بروز بڑھاتے جا رہے ہیں، غلط فہمیوں کو ہوا دے رہے ہیں۔ اسی لیے ہم تاکید کرتے ہیں اور ہماری تاکید کی وجہ یہ ہے۔ اور آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ امریکا کے دست پروردہ، عالم اسلام میں، جہاں بھی موقع ملتا ہے، فتنہ پیدا کر دیتے ہیں۔ اس کا سب سے قریبی نمونہ گزشتہ دو جمعوں کو افغانستان میں ہونے والے افسوسناک اور گریہ آور واقعات ہیں کہ مسلمانوں کی مسجد کو، نماز کی حالت میں دھماکے سے اڑا دیا۔(23) کس نے اڑایا؟ داعش نے۔ داعش کون ہے؟ داعش وہی تنظیم ہے جسے امریکیوں نے وجود عطا کیا ہے، اسی امریکی ڈیموکریٹ گروہ نے (جو اس وقت اقتدار میں ہے) کھل کر کہا تھا کہ ہم نے اسے وجود بخشا ہے، البتہ اب نہیں کہتے، اب انکار کرتے ہیں، لیکن یہ کام انھوں نے کیا ہے، اسے کھل کر تسلیم بھی کیا ہے۔ بنابریں ضروری ہے کہ ہم اس مسئلے پر گہری نظر رکھیں۔

چوتھا نکتہ یہ ہے کہ ہم یہ نہ سوچیں کہ اس کام سے کہ، ہم ہر سال ہفتۂ وحدت میں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھتے ہیں، تقریر کرتے ہیں، بات کرتے ہیں، دنیا میں اس طرف اور اس طرف ایک دو نشست میں بیٹھیں اور ایک دوسرے سے بات کریں تو ہماری ذمہ داری پوری ہو گئي ہے؛ نہیں، ذمہ داری ان چیزوں سے پوری نہیں ہوگي؛ ضروری ہے کہ ہر کوئي، کسی بھی جگہ، جس جگہ بھی وہ موجود ہے، اس کی بحث کا اہم محور اتحاد ہو، ہم بات کریں، بیان کریں، تشریح کریں، ترغیب دلائيں، پروگرام تیار کریں، اس سلسلے میں اپنے کام بانٹیں، یہ واجب اور ضروری کام ہے جسے انجام پانا چاہیے۔ اب جو میں یہ کہہ رہا ہوں کہ پروگرام تیار کریں، مثال کے طور پر افغانستان کے اسی معاملے میں جو میں نے عرض کیا، اس طرح کے واقعات کو روکنے کی ایک راہ یہ ہے کہ افغانستان کے موجودہ محترم ذمہ داران، خود ان مساجد و مراکز میں پہنچیں، نمازوں میں شرکت کریں یا براداران اہلسنت کو ترغیب دلائيں کہ وہ ان مراکز میں پہنچیں۔ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ پروگرام تیار کریں تو اس طرح کے کاموں کو عالم اسلام میں انجام دیا جا سکتا ہے۔

اگلا نکتہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ کے اہداف میں سے ایک، جو ہم نے بیان کیے ہیں، نئے اسلامی تمدن کو وجود عطا کرنا ہے، یعنی اسلامی جمہوری نظام اور اسلامی انقلاب کے اہداف میں سے ایک نیا اسلامی تمدن معرض وجود میں لانا ہے؛ وہ اسلامی تمدن جو آج کی گنجائشوں اور آج کی سچائیوں اور حقائق کو پیش نظر رکھے۔ یہ کام شیعہ-سنی اتحاد کے بغیر ممکن نہیں ہے؛ اسے تنہا کوئي ایک ملک یا ایک فرقہ انجام نہیں دے سکتا؛ اس کے لیے سبھی کو ایک دوسرے سے تعاون کرنا ہوگا۔ تو یہ اگلا نکتہ ہے، بنابریں یہ بھی ایک ضروری چیز ہے۔

ایک اور نکتہ، چھٹا نکتہ یہ ہے کہ مسئلۂ فلسطین، اتحاد بین المسلمین کا اہم محور ہے، مسئلۂ فلسطین، محور ہے۔ اگر مسلمانوں کا اتحاد عملی جامہ پہن لے تو یقینی طور پر فلسطین کا مسئلہ بہترین طریقے سے حل ہو جائے گا۔ ہم فلسطین کے مسئلے میں، فلسطینی قوم کے حقوق کی بحالی کے لیے جتنی زیادہ سنجیدگي دکھائيں گے، اتنا ہی زیادہ اتحاد بین المسلمین سے قریب ہو جائیں گے۔ تعلقات کے قیام کا یہ حالیہ مسئلہ - کہ افسوس کہ بعض حکومتوں نے غلطی کی، بڑی غلطی کی، گناہ کیا اور غاصب اور ظالم صیہونی حکومت سے تعلقات قائم کر لیے - اسلامی اتحاد کے خلاف ایک قدم اور اسلامی اتحاد مخالف ہے؛ انھیں اس راہ سے لوٹ آنا چاہیے اور اس بڑی غلطی کی تلافی کرنی چاہیے۔ تو یہ اتحاد کا معاملہ ہے۔ بنابریں اسلامی معاشرے اور عالمی اسلامی معاشرے کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں جو میں عرض کرنا چاہتا تھا وہ یہی دو نکات تھے، جنھیں میں نے عرض کیا۔

اور اب وہ چیز جو ہمارے ملک سے متعلق ہے۔ حالانکہ مخالف، دین کے دشمن اور امریکا کے پیروکار برسوں تک اس ملک میں حکومت کرتے رہے لیکن عوام ہمیشہ مومن رہے ہیں؛ بحمد اللہ ایرانی قوم، قدیم ایام سے ہی اسی طرح کی تھی، آج بھی ہم خود کو پہلے سے زیادہ اور پہلے سے بہتر، رسول اللہ کا پیروکار سمجھتے ہیں۔ پیروی کس طرح کی ہے؟ 'پیروی' لفظ پر بھی غور کیجیے؛ یعنی ان کے پیچھے پیچھے چلنا۔ ہم کس طرح چلیں؟ قرآن مجید نے بھی ہم سے یہ مطالبہ کیا ہے: لَقَد کانَ لَکُم فی رَسولِ اللہِ اُسوۃٌ  حَسَنَۃٌ لِمَن کانَ یَرجُوا اللہَ وَ الیَومَ الآخِر(24) اسوہ یعنی نمونۂ عمل، آئيڈیل۔ تو ہمیں اس نمونۂ عمل کے پیچھے چلنا چاہیے اور جو خصوصیات ان کے عمل میں تھیں، انھی خصوصیات کو اپنے عمل میں پیدا کرنا چاہیے۔ اخلاق میں ان کی جو خصوصیات تھیں، ان میں ہمیں ان کا اتباع کرنا چاہیے، البتہ اتنی جامعیت اور وسعت کے ساتھ یہ اتباع ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے یعنی ہم لوگ اس سے کہیں چھوٹے ہیں کہ اتنی وسعت کے ساتھ آگے بڑھ سکیں لیکن ہمیں اس سلسلے میں کوشش کرنی چاہیے۔

پیغمبر کے اوصاف حمیدہ ایک دو یا دس تو نہیں ہیں؛ پیغمبر کی زوجۂ مکرمہ سے ان کے اخلاق کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا: کانَ خُلقُہُ القُرآن(25) قرآن مجسم، پیغمبر ہیں۔ خیر یہ بہت ہی وسیع موضوع ہے۔

میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے اوصاف و عادات کے بارے میں تین نکات منتخب کیے ہیں اور یہ تین نقطے ایسے ہی ہیں جیسے انسان نور کی ایک کہکشاں سے تین ستارے منتخب کر لے، ہم ایرانی عوام کو اسلامی جمہوریہ میں ان تین نقطوں کو مد نظر رکھنا چاہیے، انھیں اہمیت دینی چاہیے اور ان کی پیروی کرنی چاہیے۔ یہ تین نقطے، صبر، انصاف اور اخلاق ہیں۔

پیغمبر کی زندگي میں صبر ایک بڑی نمایاں چیز ہے؛ البتہ صبر کے بارے میں، صبر کے مفہوم کے بارے میں اور صبر کی ذمہ داری کے بارے میں قرآن مجید کے مختلف مقامات پر دسیوں آیتیں ہیں لیکن وہ صبر، جو پیغمبر سے متعلق ہے، اس کا بھی کافی ذکر ہے، دس سے زیادہ شاید بیس بار کے قریب پیغمبر سے صبر کے بارے میں خطاب کیا گيا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ بعثت کے آغاز سے ہی خداوند عالم نے پیغمبر کو صبر کا حکم دیا ہے؛ سورۂ مدثر میں: وَ لِرَبِّکَ فَاصبِر(26) سورۂ مزّمّل میں: وَاصبِر عَلیٰ ما یَقولون(27) یہ دونوں، ان ابتدائي سوروں میں سے ہیں جو پیغمبر پر نازل ہوئے - پہلے ہی قدم پر خداوند متعال پیغمبر سے کہتا کہ صبر سے کام لیں۔ میں نے یہاں نوٹ کیا ہے کہ تقریبا بیس جگہوں پر پیغمبر سے خطاب کرتے ہوئے انھیں صبر کا حکم دیا گيا ہے: فَاصبِر لِحُکمِ رَبِّک(28) اور اسی طرح کی دوسری آیتیں۔ صبر کا کیا مطلب ہے؟ صبر کا مطلب ہے استقامت۔ مشہور ہے اور متعدد روایات میں بھی آيا ہے کہ صبر تقسیم ہوتا ہے، صبر عن المعصیۃ، صبر علی الطاعۃ اور حادثات کے مقابلے میں صبر(29) تو صبر کا مطلب ہے استقامت، گناہ کی خواہش کے مقابلے میں انسان استقامت کرے؛ بے حالی، بے کاری اور اپنی ذمہ داری کی ادائيگي کے سلسلے میں تساہلی کے مقابلے میں انسان استقامت کرے؛ دشمن کے مقابلے میں استقامت کرے، مختلف مصیبتوں کے مقابلے میں اپنا تحفظ کرے، اپنے نفس کی حفاظت کرے، استقامت کرے؛ یہ صبر کے معنی ہیں؛ صبر یعنی پائيداری۔ آج ہمیں ہر چیز سے زیادہ استقامت کی ضرورت ہے۔

یہاں تشریف رکھنے والے آپ عہدیداران اور تمام سطحوں کے ملکی عہدیداران! آپ کے لیے جو چیز سب سے زیادہ ضروری ہے، وہ صبر ہے۔ آپ استقامت کیجیے، مزاحمت سے کام لیجیے، دباؤ برداشت کیجیے، مشکلات کو تحمل کیجیے اور آگے بڑھتے رہیے؛ رکیے نہیں۔ میرے اور آپ کے لیے جو اس ملک میں عہدیدار ہیں، صبر و استقامت کا لازمہ یہ ہے کہ رکیں نہیں، توقف نہ کریں، بلکہ آگے بڑھتے رہیں؛ یہ صبر ہے۔ لَقَد کانَ لَکُم فی رَسولِ اللہِ اُسوۃٌ  حَسَنَۃ(30) تو یہ ہوگي پیغمبر کی پیروی۔

دوسرے، عدل و انصاف۔ پیغمبروں کی بعثت کا ایک اہم ترین ہدف اور شاید کہا جا سکتا ہے کہ اہم ترین وسطی ہدف، انصاف ہے۔ لَقَد اَرسَلنا رُسُلَنا بِالبَیِّنٰتِ وَ اَنزَلنا مَعَہُمُ الکـِتٰبَ وَ المیزانَ لِیَقومَ النّاسُ بِالقِسط(31) بنیادی طور پر پیغمبروں کو بھیجنے اور آسمانی کتابیں نازل کرنے کا مقصد یہ تھا کہ عدل قائم ہو جائے، سماج عدل و انصاف پر قائم ہو جائے۔ قرآن مجید میں پیغمبر کی زبانی کہا گيا ہے: وَ اُمِرتُ لِاَعدِلَ بَینَکُم(32) یہ بھی خدا کا حکم ہے کہ عدل قائم ہونا چاہیے۔ البتہ دنیا کے تمام عقلاء بھی اسے تسلیم کرتے ہیں؛ یعنی دنیا کی سب سے ظالم طاقتیں اور دنیا کے سب سے شر پسند افراد بھی، عدل و انصاف کی خوبی کا انکار نہیں کر سکتے؛ یہاں تک کہ ان میں سے بعض تو پوری ڈھٹائي سے، انصاف کا دعوی بھی کرتے ہیں جبکہ وہ ظالم ہیں۔ قرآن مجید، دشمنوں تک کے بارے میں انصاف کو ضروری بتاتا ہے؛ یہ جو ہمارا دشمن ہے، اس کے بارے میں بھی ناانصافی نہیں کرنی چاہیے۔ وَ لا یَجرِمَنَّکُم شَنَئانُ قَومٍ عَلیٰ اَلّا تَعدِلُوا اِعدِلوا ھُوَ اَقرَبُ لِلتَّقویٰ(33) دشمن کے ساتھ بھی تمھیں عدل و انصاف کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ بنابریں یہ بھی ایک دوسری ذمہ داری ہے اور اس میں بھی خطاب پہلے مرحلے میں ہم عہدیداروں سے ہے۔ آپ جو بھی فیصلہ کرتے ہیں، جو بھی مقررہ کام انجام دیتے ہیں، چاہے مجلس شورائے اسلامی (پارلیمنٹ) میں ہو جہاں آپ قانون منظور کرتے ہیں، چاہے حکومت میں ہو، چاہے پورے ملک میں مینیجمینٹ کے مختلف میدانوں میں ہو، ایک سب سے اہم  چیز جسے آپ مد نظر رکھیں، انصاف کا مسئلہ ہو کہ یہ کام عدل و انصاف کے مطابق ہے یا نہیں؟ کچھ جگہوں پر ضروری ہے کہ اس مقرر کردہ حکم کے لیے انصاف کی بھی شرط لگا دی جائے تاکہ یہ بات یقینی ہو سکے کہ یہ مقررہ حکم اس طرح انجام پائے اور یہ قانون اس طرح نافذ ہو کہ عدل و انصاف کے مطابق ہو۔

یہ دوسری بات تھی کہ اگر ہم انصاف سے کام لینا چاہیں تو اس بات پر توجہ رہے کہ انصاف صرف مال و ثروت کی تقسیم تک محدود نہیں ہے بلکہ انصاف ہر چیز میں ہونا چاہیے؛ ہر چیز میں منصفانہ رویہ۔ آج سائبر اسپیس پر انسان کبھی کبھی ناانصافی کا مشاہدہ کرتا ہے؛ غلط بولتے ہیں، الزام لگاتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں، بغیر علم کے بات کرتے ہیں؛ یہ سب ناانصافی ہے؛ یہ نہیں ہونا چاہیے۔ جس شخص کا سروکار سائبر اسپیس سے ہے، اسے خود ہی خیال رکھنا چاہیے اور جس کے اختیار میں سائبر اسپیس ہے، اسے کئي گنا زیادہ خیال رکھنا چاہیے کہ اس طرح کے کام نہ ہوں۔ ہمیں سیکھنا چاہیے، عادٹ ڈالنی چاہیے کہ لوگوں کے ساتھ منصفانہ برتاؤ کریں۔ جب ہم بات بھی کرتے ہیں، ممکن ہے کسی شخص سے آپ کے تعلقات اچھے نہ ہوں، آپ اسے نہ مانتے ہوں، کوئي بات نہیں، یہ آپ کی رائے ہے اور ہو سکتا ہے کہ صحیح رائے ہو لیکن اسے تہمت، جھوٹ، اہانت اور اس طرح کی دوسری چیزوں سے آلودہ نہیں کرنا چاہیے، ان سے آلودہ ہونا بہت برا ہے۔ تو یہ عدل و انصاف کی بات تھی۔

اور آخر میں اخلاق کا مسئلہ؛ اخلاق میں پیغمبر کی پیروی کہ جن کے بارے میں خداوند متعال نے فرمایا ہے: وَ اِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ‌ عَظیم(34) عظمت کا خالق خدا جس چیز کو عظیم سمجھے وہ عظمت میں انتہائي غیر معمولی ہے: وَ اِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ‌ عَظیم۔ یہ اخلاق ایک لائحۂ عمل کے طور پر ہمیشہ ہماری نظروں کے سامنے ہونا چاہیے۔ ہمارا اخلاق، اسلامی اخلاق ہونا چاہیے: انکساری ہونی چاہیے، ہم میں عفو و درگزر ہونی چاہیے - یہ اسلامی اخلاق ہے - ذاتی مسائل میں سختی نہیں کرنی چاہیے۔ عمومی مسائل میں اور عوام کے حقوق، عمومی حقوق اور دوسروں کے حقوق سے متعلق مسائل میں نہیں، وہاں تساہلی جائز نہیں ہے لیکن ذاتی مسائل میں تساہلی سے کام لینا چاہیے، سختی نہیں کرنی چاہیے؛ نیکی، جھوٹ سے پرہیز، تہمت سے پرہیز، کسی مومن سے بدگمانی سے پرہیز، مومنین سے عفو و درگزر۔ صحیفۂ سجادیہ میں اسی مضمون کی ایک دعا ہے کہ پرورگار! جس نے بھی مجھ پر ظلم کیا ہے، مجھ پر الزام تراشی کی، برا کام کیا اور اس کی گردن پر میرا حق ہے، میں نے اسے معاف کر دیا؛ یہ صحیفۂ سجادیہ میں امام زین العابدین علیہ السلام کی دعا ہے۔ (اسلامی اخلاق میں) اسی طرح کی باتیں ہیں، ہمیں اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرنا چاہیے۔

برادران و خواہران عزیز! عمل کرنا چاہیے، اقدام کرنا چاہیے، صرف دعوے سے بات پوری نہیں ہوتی؛ ہم دعوی کرتے ہیں کہ مسلمان ہیں، دعوی کرتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ہیں، ہمیں حقیقت میں اسلامی ہونا چاہیے، ہمیں پیغمبر کا پیرو ہونا چاہیے۔ یہ عظیم ولادت، یہ مبارک ولادت ہمارے لیے ایک موقع ہے کہ ہم اس معاملے پر غور کریں، مطالعہ کریں اور اس راہ میں اپنے لیے ایک ٹھوس عزم اختیار کریں۔

ایک بار پھر آپ سب کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتا ہوں؛ ایران کی عزیز قوم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں؛ دنیا کے تمام مسلمانوں اور امت اسلامی کو مبارکباد پیش کرتا ہوں؛ دنیا کے آزاد منش انسانوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں؛ اسلام کی راہ اور مکتب نبوی کی راہ میں شہید ہونے والوں کی پاکیزہ ارواح پر درود و سلام بھیجتا ہوں؛ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی پاکیزہ روح پر درود و سلام بھیجتا ہوں جنھوں نے ہمارے لیے یہ راستہ کھولا اور اس عظیم کام کی جانب ہماری رہنمائی کی اور خداوند متعال سے ان سب کے لیے رحمت اور لطف کرم کی دعا کرتا ہوں اور ایران کے عوام خاص طور پر آپ عہدیداران کے لیے توفیق کی دعا کرتا ہوں اور اسی طرح آپ مہمانوں اور اپنے لیے خداوند عالم سے توفیق کی دعا کرتا ہوں۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

 

(1) اس ملاقات کے آغاز میں صدر جمہوریہ حجۃ الاسلام والمسلمین سید ابراہیم رئيسی نے تقریر کی۔

(2) مصر کے شاعر اور مصنف، احمد شوقی

(3) سورۂ آل عمران، آیت 164، بے شک خدا نے اہل ایمان پر یہ بڑا احسان کیا کہ اُن کے درمیان خود انھی میں سے ایک پیغمبر اٹھایا۔

(4) سورۂ احزاب، آيات 41 اور 42، اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ کو کثرت سے یاد کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو۔

(5) سورۂ نساء، آیت 76، جن لوگوں نے ایمان کا راستہ اختیار کیا ہے، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور جنھوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا ہے، وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں، تو شیطان کے ساتھیوں سے لڑو۔

(6) سورۂ مزمل، آيات 2، 3 اور 4، اے پیغمبر! رات کو نماز میں کھڑے رہا کیجیے مگر کم، آدھی رات یا اس سے کچھ کم کر لیجیے یا اس سے کچھ زیادہ بڑھا دیجیے اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھیے۔

(7) سورۂ نساء، آيت 84، تو اے نبی! آپ اللہ کی راہ میں لڑیے، آپ اپنی ذات کے سوا کسی اور کے لیے ذمہ دار نہیں ہیں۔

(8) سورۂ حشر، آيت 9، اور وہ لوگ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ انھیں خود شدید احتیاج ہو۔

(9) سورۂ حشر، آيت 7، تاکہ وہ (مال) تمھارے مالداروں ہی کے درمیان گردش نہ کرتا رہے۔

(10) سورۂ حدید، آیت 25، تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہو جائیں۔

(11) سورۂ نساء، آیت 5، اور اپنے وہ مال جنھیں اللہ نے تمہارے لیے قیام زندگی کا ذریعہ بنایا ہے، نادان لوگوں کے حوالہ نہ کرو۔

(12) سورۂ توبہ، آيت 103، اے نبی! ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انھیں پاک کر دیجیے۔

(13) سورۂ احزاب، آيت 60، اگر منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں خرابی ہے، اور وہ جو مدینے میں ہیجان انگیز افواہیں پھیلانے والے ہیں، اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ہم ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے آپ کو کھڑا کریں گے۔

(14) سورۂ نساء، آيت 83، اور جب یہ لوگ کوئی اطمینان بخش یا خوفناک خبر سنتے ہیں تو اسے لے کر پھیلا دیتے ہیں، حالانکہ اگر یہ اسے رسول اور اپنی جماعت کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچائیں ...

(15) سورۂ انبیاء، آيت 73، اور ہم نے ان کو امام بنا دیا جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے اور ہم نے انھیں وحی کے ذریعے نیک کاموں کی اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کی ہدایت کی۔

(16) سورۂ سجدہ، آيت 24، اور جب انھوں نے صبر کیا اور ہماری آیات پر یقین لاتے رہے تو ان کے اندر ہم نے ایسے امام پیدا کیے جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے۔

(17) اصول کافی، جلد 2، صفحہ 466

(18) تقریب مذاہب اسلامی اسمبلی کے سابق سیکریٹری جنرل، آيۃ اللہ محمد علی تسخیری

(19) تقریب مذاہب اسلامی اسمبلی کے پہلے سیکریٹری جنرل

(20) عراق کی مجلس اعلی انقلاب اسلامی کے سابق سربراہ

(21) سورۂ آل عمران، آيت 103، سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقے میں نہ پڑو۔

(22) سورۂ انفال، آیت 46، اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔

(23) آٹھ اور پندرہ اکتوبر کو افغانستان کے قندوز اور قندھار صوبوں میں شیعہ مسلمانوں کی جامع مسجد میں دو خودکش دھماکوں میں تین سو سے زیادہ افراد شہید اور زخمی ہوئے۔ ان دھماکوں کی ذمہ داری تکفیری دہشت گرد گروہ داعش نے لی۔

(24) سورۂ احزاب، آيت 21، یقینا تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول میں (پیروی کا) ایک بہترین نمونہ ہے۔

(25) مرآۃ العقول فی شرح اخبار آل الرسول، جلد 3، صفحہ 236،

(26) سورۂ مدثر، آيت 7، اور اے رسول! اپنے رب کے لیے صبر کیجیے۔

(27) سورۂ مزمل، آيت 10، اور جو کچھ وہ کہتے ہیں، اس پر صبر کیجیے۔

(28) منجملہ سورۂ قلم، آيت 48، تو اپنے پروردگار کے حکم (کی تعمیل) میں صبر سے کام لیجیے۔

(29) اصول کافی، جلد 2، صفحہ 91

(30) سورۂ احزاب، آیت 21، یقینا تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول میں (پیروی کا) ایک بہترین نمونہ ہے۔

(31) سورۂ حدید، آيت 25، بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا اور اُن کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔

(32) سورۂ شوری، آيت 15، اور مجھے حکم دیا گيا ہے کہ تمھارے درمیان انصاف قائم کروں۔

(33) سورۂ مائدہ، آيت 8، اور کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ تم انصاف سے پھر جاؤ، عدل و انصاف کرو کہ یہ تقوائے الہی سے زیادہ قریب ہے۔

(34) سورۂ قلم، آيت 4، اور بے شک آپ اخلاق کے عظیم درجے پر ہیں۔