ایرانی حکام  نے اپنے منتخب اور ماہر محققین، دانشوروں اور انجینئروں کی ایک ٹیم تیار کی  کہ اس سرکش وائرس کو کنٹرول کرسکیں۔ ان ہی ماہر دانشوروں میں ایک شخص جس نے بہت جلدکافی  شہرت حاصل کر لی؛ پروفیسر مجید شہریاری تھے۔

  ۴۴؍ سالہ  ایران کے جوان سائنسداں، ایک دہشت گردانہ حملے میں جن کے قتل کی خبر  ، کچھ ہی مہینوں میں عالمی  میڈیا کی پہلی سرخی  میں تبدیل ہو گئی۔ وہ ایران کی جوہری صنعت  کے ایک نامور سائنسداں تھے، ابھی آپ کو ’’پروفیسر‘‘ کے اعزاز سے سرفراز ہوئے  بس  ایک دو مہینے ہی گزرے تھے کہ اسٹکس نیٹ‏ کا مسئلہ پیش آ گیا، اب انھیں اور ان کے دوسرے جوان ساتھیوں   کو جو اس  نئی  جوہری صنعت  کے سائنس دانوں  اور مشیروں کے زمرے میں شمار ہوتے تھے، ایک ایسے  وائرس  کے خلاف جنگ میں جانا  پڑا  جس کا  بیج اسرائیلی اور امریکی  جاسوسی ایجنسی کے کمپیوٹر لیبوریٹریز میں  بویا گیا تھا  ،  دو تین مہینے میں  مجید شہریاری اور ان کے دوسرے ایرانی ساتھیوں کی محنت رنگ لائی اور ایرانی جوہری نظام کا ایک بڑا حصہ  اس وائرس  کی  تخریب کاریوں  سے پاک و صاف کر دیا گیا ۔

ایران کی ایٹمی توانائی  ایجنسی کے سابق سربراہ ڈاکٹر علی اکبر صالحی  نے، ڈاکٹر شہریاری کی علمی توانائیوں اور تواضع کے سلسلے میں بڑی ہی دلچسب بات کی ہے، کہتے ہیں: ’’جب ہم کو  ۲۰ فیصدی گریڈ کی یورونیوم افزودگی کا کام سونپا گیا تو مختلف سائنسدانوں کی  موجودگی میں وسیع نظام و انفراسٹرکچر کی ضرورت محسوس ہوئی، اس کام کو آگے بڑھانے کیلئے کسی بھی بڑے اہم کیلکولیشن ضروری تھے ، ایران میں کوئی ایسا شخص موجود نہیں تھا، مختلف طریقوں سے اس  خرابی کو دور کرنے کی کوشش شروع کی گئی،  کہیں سے بھی کوئی کامیابی نہیں مل سکی،  اگر اس شعبہ کا کام مکمل انجام نہ پاتا تو کام کو ہی روک دینا پڑتا، بہت ہی حساس اور مشکل کام تھا، میں نے مسئلہ  سامنے رکھا، ڈاکٹر شہریاری نے اپنی عادت کے مطابق بڑے ہی  سکون  کے ساتھ  کہا:  پروفیسر صاحب! یہ کیکولیشن میں انجام دوں گا، یہ بات ہرگز قابل یقین نہیں تھی،  وہ شخص جس نے اس کا مخصوص  کورس نہ کیا ہو اور نہ ہی ایران سے باہر قدم رکھا ہو کیسے یہ سب کرسکتا ہے؟! شہریاری نے یہ کام  انجام دیا، اکیلے اور تن تنہا شہریاری نے، انھوں نے تمام  کیلکولیشن انجام دئے اور اس کے عوض  ایک پیسہ بھی نہیں لیا ، میں نے بڑی کوشش  کی لیکن قبول نہیں کیا‘‘۔

پروفیسر مجید ’’ SESAME‘‘ پروجیکٹ  میں اسلامی جمہوریہ کے اہم ترین مشیروں اور سائنس دانوں میں سے ایک تھے، مجید کی پیدائش دسمبر ۱۹۶۶ ؍میں تہران سے ۳۳۰  ؍کلومٹر کے فاصلے پر مغربی  شہر ’’زنجان‘‘ میں ہوئی تھی، آپ نے اسکول سے لیکر جوہری ٹیکنالوجی  میں ڈاکٹریٹ تک کی تمام ڈگریاں ملک کے اندر ایران میں ہی حاصل کیں،  خالص ایرانی سائنسداں جس نے ابتدائی تعلیم سے لیکر  ایٹمی پاور پلانٹ میں  ری ایکٹر کے پیچیدہ کیلکولیشن تک تمام منزلیں ایران کے اندر، ایرانی یونیورسٹی میں اور ایرانی اساتذہ  کی مدد سے طے کیں۔ ان کے ایک طالب علم کا بیان ہے کہ میں نے ایک مرتبہ پروفیسر شہریاری کی موجودگی میں کچھ مسائل اور  کمیوں  کی شکایت کی، پروفیسر شہریاری کا جواب واضح اور روشن تھا۔

آپ نے بعض مشکلات  اور کمیوں کا اعتراف  اور تائید کرتے ہوئے آخر میں اپنے شاگرد سے کہا کہ ان تمام مشکلوں کے باوجود رکنا اور ڈٹ کر کام کرنا ہوگا، انھوں نے واضح طور پر یہ بھی کہا تھا کہ وہ نظام اور ایران کے خلاف کبھی کھڑے نہیں ہوں گے، تمام مسائل کا مقابلہ کریں گے اور اپنا کام جاری رکھیں گے۔  کہا تھا؛ اگر آپ اس ملک  میں رہ رہے  ہیں تو ڈٹے رہیں اور کچھ مشکلات کو بھی برداشت کریں کیونکہ ہم ہمیشہ لوگوں کو اور حالات کو بدلنے پر قادر نہیں ہوتے۔ ان کی بیوی بھی کچھ اسی طرح کے خیالات کا اظہار کرتی ہیں، آپ کی اہلیہ ڈاکٹر بہجت قاسمی  کا کہنا ہے کہ مجید  نے غیر ملکی دعوت ناموں کا کبھی جواب نہیں دیا؛  ایک بار میں نے بس یوں ہی، البتہ یقیناً اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں ایسا  سوچتی تھی، ان سے میں نے  بس کہہ دیا  کہ کچھ برسوں کیلئے ایران سے چلتے ہیں تمام مسائل اور نگاہوں  سے دور رہیں گے ، مجید کو بہت برا لگا کہ ان کی بیوی کیوں اس طرح کی باتیں کر رہی  ہے، وہ کہنے لگے؛ اپنا ملک چھوڑ دیں تو کہاں جائیں گے؟!‘‘

شہریاری کی ایک اور خصوصیت ان کی، دینی اور اسلامی مواقف  کی پیروی اور پابندی تھی، یہ بات بچپن سے ہی ان کے وجود میں رچی بسی تھی۔ اور زندگی کے آخری لمحوں تک ان کے وجود کے ساتھ جُڑی رہی، ان کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ قرآن کی تلاوت مجید کی عادت تھی۔ ان کی آواز بھی اچھی اور دلنشین تھی وہ ایران کے ایک ممتاز قاری، استاد پرہیزگار کے انداز پر قرائت کیا کرتے تھے۔ ان کے دوست احباب کہتے ہیں کہ وہ  نماز شب کی بھی بڑی پابندی کرتے تھے،  ڈاکٹر کے سامنے کسی کی برائی کرنا ممنوع تھا مطلب یہ کہ دوسروں کی غیبت وہ برداشت نہیں کرتے تھے،  اگر کسی جگہ کسی کی برائی ہو رہی ہو اور وہ اسے روک نہ پائیں تو اس جگہ سے اٹھ کر چلے جاتے تھے،  لوگ اللہ سے ان کے خاص لگاؤ کو ان کی کامیابیوں کا راز سمجھتے تھے۔ ان کے ایک شاگرد اس زمانے میں دن کا ایک واقعہ ذکر کرتے ہیں کہ جب انھیں پروفیسر شپ کے اعزاز سے نوازا جا چکا تھا۔

’’جب  انھیں یونیورسٹی میں پروفیسرشپ کا اعزاز ملا تو ان کیلئے ایک جشن کا انعقاد ہوا اور  ان سے بھی تقریر  کیلئے کہا گیا، انھوں نے ’’کَم مِن قَبیحٍ سَتَرتَہ‘‘ سے اپنی گفتگو شروع کی (کہ  بہت سی برائیاں ہیں جو خدا نے چھپا رکھی ہیں) یعنی وہ کہنا چاہتے تھے میرے اندر بہت سی برائیاں اور خامیاں ہیں جو اللہ نے چھپا رکھی ہیں۔ یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ میرے لئے یہ عہدہ اور ڈگری ہی سب کچھ ہے۔ انہوں نے اس پروگرام میں اپنی ایک بھی اچھائی کا ذکر نہیں کیا۔ ان کے ایک اور شاگرد  نماز کے سلسلے میں ان کے خاص اہتمام اور پابندی وقت کا ایک دلچسپ واقعہ  ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں؛  ’’اول وقت نماز کی ادائگی کیلئے ان کی بے چینی اور اضطراب، میں فراموش نہیں کر سکتا، حتی پہاڑ پر بھی جہاں ہم کوہ نوردی کے لئے گئے ہوتے تھے، میں نے دیکھا کہ اذان ختم ہونے سے پہلے وہ جلدی سے قبلہ کا رخ تلاش کرنے میں لگ جاتے تھے اور اول وقت نماز کے لئے کھڑے  ہو جاتے تھے۔ ان کے نماز پڑھنے کا انداز  دیکھ کر میں کبھی کبھی اپنی نماز کے بارے میں سوچتا تھا اور شرمندگی محسوس کرتا تھا، ڈاکٹر اپنی عبادت میں بالکل انوکھے تھے‘‘۔

ڈاکٹر شہریاری کی شخصیت کے خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اپنے گھر خاندان، بیوی بچوں اور والدین  رشتے اور تعلقات کو بہت اہمیت دیتے تھے ، ان کے ایک شاگرد کا اس سلسلے میں بیان ہے کہ جب وہ کلاس میں ہوتے اور درس چل رہا ہوتا تو کسی کے بھی فون کا جواب نہیں دیا کرتے تھے۔ لیکن ان کے اِس اصول سے ایک ذات مستثنیٰ تھی اور وہ ان کی والدہ تھیں! انھوں نے جب بھی فون کیا فورا اٹھایا، ان کے قریبی لواحقین کا کہنا ہے کہ وہ اپنی ماں کے ہاتھ پیر چومنے میں بھی  ہرگز کوئی عار نہیں سمجھتے تھے۔  ان کے بچے اور بیوی  بھی اس پر عمل کیا کرتے تھے۔ مجید شہریاری کے ساتھ ذاتی اور خاندانی تعلقات کے بارے میں ان کی اہلیہ کہتی ہیں: ’’کئی بار ایسا ہوا جب وہ دیر سے گھر آئے تو میں نے مذاق میں کہا کہ  راستہ کیسے بھول گئے۔ ادہر کیسے آنا ہوا؟! ڈاکٹر جواب میں بس اتنا کہتے کہ میں شرمندہ ہوں‘‘۔ وہ مختلف موقعوں پر گھر والوں کیلئے تحفے لانے کے پابند تھے، چاہے وہ پھولوں کی ٹہنی ہی کیوں نہ ہو، وہ اپنے بچوں کے بے تکلف  دوست بھی تھے اور ان کے لئے خاص طور پر وقت بھی نکالتے تھے۔۔۔  وہ کہتی ہیں: اس شخص نے مجھے میری زندگی میں  ہر چیز سے مالامال رکھا، عشق، محبت، اخلاص اور روحانیت میرے لئے اہم تھی اور مجید میں یہ تمام خصوصیتیں بیک وقت اور  مکمل طور پر موجود تھیں۔

ایک یونیورسٹی  کے استاد  کی حیثیت سے  بھی شہریاری اپنے طلبا کے ساتھ اپنے خاندان کے جیسا سلوک رکھتے تھے، وہ کہتے تھے کہ ان کے والدین نے اپنے بچوں کو ہمارے حوالے کیا ہے،  تعلیمی  فرائض  اور نظم و ضبط کے سلسلے میں اپنے تمام اصولوں کی پابندی  کے باوجود ان کی ذاتی مشکلوں کو حل کرنے کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتے تھے۔  ان کے ایک شاگرد کو شادی کے موقع پر پیسے کی ضرورت تھی ، پروفیسر شہریاری نے ایک  رقم دے کر کہا تھا جب بھی ممکن ہو  واپس کر دینا کسی طرح کی کوئی جلدی نہیں ہے۔

ان کے ایک اور شاگرد کا کہنا ہے:  ایک طالب علم کچھ مسائل کی بنیاد  پر دو  تین سمسٹر تک کلاس میں نہیں آ سکا  اور یونیورسٹی سے اخراج کی حد تک بات پہنچ گئی تھی لیکن  انھوں نے  اس قدر بھاگ دوڑ کی کہ ان کی  کوششوں سے اس شرط پر کہ آئندہ نمبر بھی اچھے آئیں گے اس کو کلاس کرنے کی دوبارہ اجازت مل گئی  اور  بعد  میں جب وہ طالب علم اپنی تھیسس کا دفاع کررہا تھا اس کے والدین ڈاکٹر شہریاری کیلئے بھی ایک گلدستہ لے آئے جبکہ استاد شہریاری اس طالب علم کے سپر وائزر  نہیں تھے۔‘‘

پروفیسر شہریاری نے اپنا علم  شاگردوں تک پہچانے میں کبھی کنجوسی سے کام نہیں لیا، ان کا ایک شاگرد کہتا ہے کہ انھوں نے اپنا علمی ذخیرہ کسی بھی بخل اور کنجوسی کے بغیر اپنے شاگردوں تک منتقل کیا،  وہ پابندی سے علمی ورک شاپ قائم کرتے تھے اور اس طرح بہت سے شاگردوں کی پرورش کی ہے۔ ایران کے ایٹمی توانائی ادارے کے سابق سربراہ ڈاکٹر علی اکبر صالحی کا بھی اسی طرح کا بیان ہے، کہتے ہیں؛ ’’جب ڈاکٹر شہریاری کی شہادت واقع ہوئی تو میں بہت پریشان ہو گیا۔ لیکن 'علم کا انفاق' شہریاری  کا وطیرہ تھا اور اس موضوع  پر میں نے بالکل  توجہ نہیں کی تھی، طلبا نے کہا  کہ فکر نہ کیجئے ڈاکٹر شہریاری نے ابتدائے کار سے ہی  ہمارے لئے ایک ورک شاپ  ترتیب دے دی تھی  اور ہمیں ۲۰ ؍ فیصدی  یورینیم  افزودگی کا طریقۂ کار بتا دیا تھا۔ وہ بخوبی جانتے تھے کہ ان کے اندر ایسی صلاحیت پائی جاتی ہے جو ایران میں کسی دوسرے کے پاس نہیں ہے۔ لہذا انھوں نے بڑی فراخ دلی سے ورک شاپ کی بنیاد رکھی اور اپنے میدان میں تقریبا دس، پندرہ شاگردوں کی تربیت کر ڈالی ، ان کے شاگرد کہتے تھے اب ہم سب کچھ جانتے ہیں‘‘۔

۲۹؍ نومبر سن  ۲۰۱۰  کو جبکہ  ایرانیوں کو اسٹکس نیٹ‏ کی مشکل پر قابو پائے اور اس خطرناک وائرس  کو لگام دئے ہوئے ابھی چند ہفتے ہی گذرے تھے اورمجید کی سالگرہ میں صرف آٹھ دن باقی رہ گئے تھے؛ ۴۴؍واں سال مکمل ہونے اور ۴۵؍ ویں سال میں داخل ہونے میں صرف ۸؍ دن ہی باقی تھے،ایک جوان سائنسداں جو بیشتر لوگوں کے لئے غیر معروف اور نا آشنا تھا مگر کچھ لوگ  اس کو خوب جانتے اور پہچانتے تھے ، اسرائیلی موساد اورامریکی  سی آئی اے انٹیلی جنس سرویسز اور ان سے وابستہ خونخوار اہلکاروں کیلئے ان کا نام کافی جانا پہچانا تھا۔

مجید شہریاری کی سالگرہ کو آٹھ دن باقی بچے تھے کہ  تہران کے شمال مشرق میں واقع ایک ہائی وے پر ایک کار بم دھماکے نے ایک شخص کے نام کو عالمی ذرائع ابلاغ کی سرخیوں میں جگہ دے دی۔ ایک ایسا شخص کہ جسے بہت سے لوگ نہیں جانتے تھے لیکن اس نے بہت بڑے کام کئے تھے یعنی پروفیسر مجید شہریاری!