اس سال ہفتے وحدت کے موقع پر تہران میں وحدت کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں دنیا کے مختلف مسلمان ملکوں سے مختلف مذاہب و مسلک کے علماء، دانشور اور مفکریں شامل ہوئے۔ انہیں میں ہندوستان کے لکھنؤ شہر کے سلیمان ندوی صاحب بھی ہیں جو اس سال کی وحدت کانفرنس میں شامل ہوئے۔ ان سے ہمارے ساتھی احمد عباس کی گفتگو پیش ہے۔

سلیمان ندوی: میں اس سے پہلے دو بار آچکا ہوں۔ ’اسلامی وحدت‘ کانفرنس میں تیسری بار شریک ہوا ہوں۔

سوال: اس بات کے مد نظر کہ عالم اسلام میں اتحاد کی بہت زیادہ ضرورت ہے، اس ضرورت کے پوری نہ ہونے کی حالت میں اسلامی دنیا کو نقصان پہونچ رہا ہے، اگر یہ ضرورت پوری ہو جاتی ہے تو ایسے بڑے مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں جنکے بارے میں شاید ابھی تصور کرنا ممکن نہ ہو، ایران میں اسلامی دنیا میں اتحاد کے لئے جو کوششیں ہو رہی ہیں انکے بارے میں آپکا کیا خیال ہے؟

سلیمان ندوی: میں مسلمانوں کے درمیان گذشتہ 40-45 برسوں سے کام کر رہا ہوں۔ میں نے ’جمیعت الشباب الاسلام‘ کے نام سے 1975 میں نوجوانوں کی ایک تنظیم قائم کی تھی جس کا مقصد مسلمانوں کے مختلف مسلکوں و طبقوں کے درمیان اتحاد برقرار کرنا ہے۔ بھارت میں 1972 میں مسلم پرسنل لا بورڈ قائم ہونے سے اتحاد کا اچھا تجربہ ہوا جس میں ہمارے دیوبند کی بڑی ہستی قاری طیب صاحب بھی شامل ہوئے، بہار کے مولانا منت اللہ صاحب بھی تھے۔ ندوۃ العلماء کے مولانا سید ابو الحسن علی ندوی بھی تھے اور پورے ملک سے نمائندے شامل ہوئے تھے۔ ان میں سنی بھی تھے شیعہ بھی تھے، دیوبندی بھی تھے بریلوی بھی تھے، بوہرے بھی تھے اور مہدوی بھی تھے اور آج بھی ہیں۔ سنہ 1972 میں مسلم پرسنل لا بورڈ قائم ہوا وہ ایک بہترین مثال تھی۔ الحمد للہ اتنا زمانہ گذر چکا ہے اور مسلم پرسنل لا بورڈ میں یہ سارے طبقے اپنی نمائندگی رکھتے ہیں اور اس بات پر یہ متفق ہیں کہ اسلام میں خاص طور پر اسلامی شریعت اور بالخصوص پرسنل لا میں حکومت کسی طرح کی دخل اندازی نہ کرے اور اگر دخل اندازی ہوتی ہے تو ہم سب سیسا پلائی ہوئی دیوار کی طرح اسکا مقابلہ کریں گے۔ ظاہر ہے کہ 1972 میں جو یہ تجربہ تھا، اسی تجربہ کو ملک کے سبھی نوجوانوں کو منتقل کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے سنہ 1974 میں میں نے جمعیت الشباب الاسلام نامی تنظیم یا انجمن قائم کی کہ ہمارے بڑوں نے، ہمارے علماء نے جو ایک اچھی مثال پیش کی ہندوستان میں، دنیا کے کسی ملک میں اس طرح کی تنظیم نہیں ہے اور ہندوستان میں پیش کی گئی اور اس میں دیوبند، ندوہ سمیت دوسرے مدارس سب شریک رہے، تو اب اسکا مطلب یہ ہوا کہ ہم، اپنے عقائد و افکار میں اختلاف کے باوجود، ایک مشترکہ پلیٹفارم بنا سکتے ہیں، مشترکہ دشمن کے خلاف۔ یہ ایک ایسی مثال ہے جسے سامنے رکھتے ہوئے، میں نے الحمد للہ یہ کوشش شروع کی اور پھر سبھی حلقوں کے لوگوں سے میری ملاقاتیں ہوئیں۔ میرے روابط رہے مولانا کلب صادق صاحب سے میرے بہت قریبی تعلقات رہے۔ جہاں تک دیو بند کے علماء کی بات ہے، ندوہ کے علماء کی بات ہے تو میں انہیں کی ایک فرد رہا۔ بریلوی علماء سے میری ملاقاتیں رہیں۔ انکے ساتھ اجلاس میں شریک رہا۔ الحمدللہ جو تجربہ ہمارے بڑوں نے کیا، ہم نے یہ تجربہ نوجوانوں میں منتقل کیا۔ یہاں سے جب مجھے دعوت ملی ایران سے اتحاد اسلامی کی تو بین الاقوامی سطح پر بین الممالک کی سطح پر اگر ایران اور عالم اسلام کا اتحاد ہو جائے تو میں سمجھتا ہوں پوری امت اسلامیہ متحد ہو جائے گی۔ سب سے بڑا جھگڑا جو بین المللی ہے، بین الاقوامی ہے، وہ شیعہ سنی ہے اور یہ جھگڑا قرن اول سے چلا آ رہا ہے۔ لہذا اگر شیعہ سنی اتحاد ہو جائے، اور جو مشترک چیزیں ہیں، ان پر اتفاق کیا جائے۔ قرآن پاک میں نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم سے فرمایا گیا کہ آپ یہودیوں سے کہئے، عیسائیوں سے کہئے کہ اے اہل کتاب آؤ کم از کم جو ہمارے اور تہمارے درمیان مشترکہ نکات ہیں ان پر تو اتفاق کرلیں، ہو ایک اللہ کو مانیں، ہم شرک نہ کریں، ہم سے کوئی کسی دوسرے کو خدا نہ بنائے۔ یہ قرآن کی دعوت ہے، تو گویا بین المذاہب اتحاد کی دعوت پیش کی گئ اور قرآن میں پیش کی گئی۔ تو جب اسلام اتنی وسعت عطا کرتا ہے تو کیسی عجیب بات ہے کہ مسلمان مسلمان ٹکرائیں اور اس ٹکراؤ کا جو نتیجہ شروع سے نکلا ہے وہ بڑا بھیانک ہے۔ اسی اختلاف نے وہ شکل اختیار کی، وہ سیاست وجود میں آئی جس نے نبی پاک علیہ الصلواۃ و السلام کے محبوب نواسے کو اور خاندان نبوت کو  شہید کر دیا۔ تو معلوم یہ ہوا کہ ایسا اختلاف اور ایسی فرقہ واریت کہ جس سے انسان کا نہ دماغ صحیح رہے نہ دل صحیح رہے اور اسلام سے تو کیا کہنا انسانیت سے نسبت باقی نہ رہے تو یہ نوبت آتی ہے۔ تو اب آپ سوچئے کہ پہلی صدی میں سنہ61 ہجری میں ان لوگوں نے جو مسلمان کہلاتے تھے، شہید کردیا تو اسکے بعد کیا نہیں ہوگا۔ اب جو کچھ ہوا شام میں، جو عراق میں ہوا، جو یمن میں ہو رہا ہے، جو لیبیا میں ہوا اور ہو رہا ہے، یہ سب نتیجہ ہے آپس کے اختلاف کا۔ اگر ہمارے درمیان یہ اختلاف ختم ہو جائے اور امت ایک ہو جائے تو ہمارا خون نہ بہے اور دشمن فائدہ نہ اٹھائے، لیکن ہم دشمن کے لئے تر نوالہ بن گئے آپس کے اختلاف کی وجہہ سے۔

سوال: اتحاد بین المسلمین کے لئے علماء، دانشوروں اور مفکرین کا رول شاید سب سے اہم اور اس کا اثر شاید سب سے دیر پا ہے انکی کوششوں کا، سیاسی رہنماؤں کے اتحاد اور انکے اتفاق میں الگ الگ پہلو رہتے ہیں اور دوسری چیزیں متاثر کرتی ہیں، اسکے علاوہ جو مفکرین ہیں، علماء ہیں انکا لوگوں سے دل سے رابطہ رہتا ہے، اردو زبان علماء کے لئے کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

سلیمان ندوي: میں نے آپ سے شروع میں بات کہی کہ 1972 میں مسلم پرسنل لا بورڈ نے جو تجربہ کیا ہے، علماء کا تجربہ ہے یعنی مختلف فرقوں اور طبقوں کے جو بڑے نامی گرامی علماء تھے انہوں نے اپنے اتفاق کا مظاہرہ کیا۔ یہ وقتی اتفاق نہیں تھا۔ آپ غور فرمائیں کہ پچاس سال کے قریب وقت گذر چکا ہے اور یہ اتحاد قائم ہے۔ یہ ایک مثالی اتحاد ہے۔ ہندوستان نے ایک مثال پیش کی ہے۔ اور میں نے کہا کہ دیوبند کے مہتمم مولانا قاری محمد طیب صاحب اور ندوہ کے ناظم مولانا ابو الحسن علی ندوی صاحب اور انکے علاوہ دیگر علماء، بریلوی کے مولانا مظفر حسین کچھوچھوی صاحب، شیعہ حضرات میں مولانا کلب عابد صاحب پھر مولانا کلب صادق صاحب ان سب نے مضبوط اتحاد قائم کیا، ایک حقیقت ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے سامنے ایک مثال موجود ہے ہمیں اسی مثال کو زندہ کرنا چاہیئے عالمی سطح پر بین الاقوامی سطح پر، مقامی سطح پر، یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ آج جو علماء تنگ نظری کا ثبوت دیتے ہیں، شدت اختیار کرتے ہیں، میں سمجھتا ہوں یہ داعشی علماء ہیں۔ یہ داعش کے لوگ ہیں۔ جو دوسرے کو برداشت نہیں کر پاتے۔ دوسرے کو برداشت کرنا، دوسرے کی رائے کو برداشت کرنا، اپنی رائے  پیش کرنا، مہذب علمی گفتگو کرنا، یہ علم کا، دین کا اور ایمان کا تقاضا ہے۔اس تقاضے سے ہٹ کر جو لوگ تناؤ میں رہتے ہیں، ٹینشن زدہ رہتے ہیں وہ بیمار لوگ ہیں اور میں اگر آج یہ کہوں کہ وہ لوگ داعش کے لوگ معلوم ہوتے ہیں، داعشی علماء، داعشی مولوی، داعشی ملا ہیں وہ جو تناؤ پیدا کرتے ہیں، لڑائی کرواتے ہیں، انتشار پیدا کرتے ہیں، حقائق کا انکار کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ غلط ہیں۔

سوال: آپ جس کانفرنس میں مہمان کی حیثیت سے تشریف لائے اسکے بارے میں بتائیئے، کیا تاثر رہا آپ کا اور یہ کہ یہ کوشش کس حد تک کامیاب آپ کو نظر آتی ہے اور مزید کیا کرے کی ضرورت ہے؟

سلیمان ندوی: ایران میں 1979 میں جو انقلاب برپا ہوا، امام خمینی جس انقلاب کو لے کر سامنے آئے، وہ محض سیاسی انقلاب نہیں تھا، وہ ایک فکری انقلاب بھی تھا، وہ ایک اجتماعی انقلاب بھی تھا اور مجمع التقریب بین المذاہب کے نام سے مختلف مسالک کے درمیان کوشش کی جائے کہ مفاہمت پیدا ہو، قرب پیدا ہو دوریاں ختم ہوں۔ اسکے لئے جو ایران میں اکیڈمی قائم کی گئی، ہونا یہ چاہیئے تھا کہ یہ اکیڈمی اس سے بھی پہلے سعودی عرب میں قائم ہوتی، امارات میں قائم ہوتی، مصر میں قائم ہوتی۔ افسوس ہے کہ انکے یہاں اس طرح کا ادارہ قائم نہیں ہوا اور اگر قائم ہوا جیسے رابطۃ العالم الاسلامی ہے تو وہ بھی صرف سنیوں تک محدود ہو گیا، وہاں بریلوی حضرات کی نمائندگی نہیں ہے، وہاں پر شیعہ حضرات کی نمائندگی نہیں ہے اور سب جانتے ہیں کہ پاکستان و ہندوستان میں بہت بڑی تعداد بریلوی علماء کی ہے اور انکے عوام کی ہے اور ایران ایک ایسا ملک ہے جس میں شیعہ حضرات ہیں اور سنی بھی ہیں۔ آذربائیجان میں بڑی تعداد میں شعیہ حضرات ہیں، لبنان میں اچھی خاصی تعداد شیعہ حضرات کی  ہے، شام میں ہے، عراق میں ہے، ھندوستان میں ہے، پاکستان میں ہے۔ امت کا ایک بہت بڑا طبقہ وہ ہے جوشیعی مسلک سے وابستہ ہے تو اگر مسالک کے درمیان تقریب کی کوشش ہر ملک میں ہوتی اور یہ فرقہ واریت ختم کی جاتی تو بہت خوش آیند بات ہوتی۔ ملت ایک ہوتی چلی جاتی، لیکن اکثر یہ ہوا کہ جس ملک میں کوئی ادارہ قائم ہوا وہ اس ملک کی سیاست کا عضو بن گیا اور اب اس ملک کی سیاست جوبھی خفیہ آرڈر دے اس پلیٹ فارم سے وہی آرڈر پاس کیا جاتا ہے۔ یہاں جو مجمع التقریب بین المذاہب ہے، چونکہ اس کے جو ایک بہت بڑے عالم دین تھے آیت اللہ تسخیری صاحب ان سے میری بڑی ملاقاتیں رہیں، قطر میں رہیں، ترکی میں رہیں، میری ملاقات ان سے انڈونیشیا میں ہوئی، میں نے قریب سے ان کو سمجھا اور ساتھ ساتھ یہ کہ یہ ادارہ فی نفسہ اچھے مقصد کے لئے قائم کیا گیا ہے۔ اتحاد امت کی ضروت ہے، آپ کا جو بھی نظریہ ہے، آپ کی جو بھی رائے ہے وہ اپنی جگہہ پر ہے لیکن اس کے باوجود امت مسلمہ میں ہونے کی وجہہ سے آپ کے اندر اتحاد ہونا چاہيئے۔ قادیانیوں کو کافر کہہ دیا گیا،اب ان کو ملت سے خارج کر دیا گیا اس لئے نہ پرسنل لا بورڈ میں قادیانی ہیں، نہ مجمع التقریب میں قادیانی ہیں نہ رابطۃ العالم الاسلامی میں قادیانی ہیں۔ اگر سنی یہ مانتے ہیں کہ شیعہ حضرات جو ہیں یہ بھی قادیانیوں کی طرح ہیں، نعوذا باللہ کافر ہیں تو پھر انکو حج کی اجازت کیوں ہے، عمرہ کی اجازت کیوں ہے۔ میں نے بہت کھل کر سعودی حکومت سے مطالبہ کیا کہ اگرآپ یہ کہتے ہو کہ یہ مجوسی ہیں تو پھر حج کی اجازت کیوں دیتے ہو؟ اپنے اندر جرآت دکھاؤ یا تو یہ فیصلہ کرو یا وہ فیصلہ کرو اور امت مسلمہ کے جب افراد ہیں تو پھر آپ کو ملنا چاہیئے۔ آج خوشی کی بات ہے جو میں سن رہا ہوں کہ سعودی حکومت عراق میں عراق کی وساطت سے ایران سے مذاکرات کر رہی ہے، گویا اب شاید ان کو یہ خیال آیا ہے کہ اتحاد کے بغیر چارہ کار نہیں ہے، اور یمن میں بہت خون بہہ گیا کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ آگے بڑھتا چلا جائے۔ شاید اللہ تعالی ان کو عقل عطا فرمادے اور سمجھ  پیدا ہو۔ یہی سمجھ  پاکستان میں منتقل ہونی چاہيئے، ہندوستان میں ہونی چاہیئے۔ ہندوستان میں تو شیعہ سنیوں کا ایک پلیٹ فارم ہے اور وہ آپس میں جھگڑتے نہیں، لیکن پاکستان میں تشدد انکی گھٹی میں پڑا ہوا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شیعہ کافر، سنی کافر، شیعہ کافر، سنی کافر، یہ سب کہتے رہتے ہیں۔ پھر اسکے بعد امت کے یہ دو دھڑے آپس میں اگر لڑیں گے تو دشمن کو پورا موقع فراہم کریں گے، اس کو فتح طشتری میں رکھ کر دے دیں گے۔  یہ وہ جہالت بھی ہے، تعصب بھی ہے تنگ نظری بھی ہے جو امت کو تباہ  کرنے کے لئے کافی ہے۔

سوال: دونوں مسلکوں کی طرف سے کبھی کسی فرد کا ایسا کوئی بیان آ جاتا ہے جو دوسرے مسلک کے جذبات کو مجروح کرتا ہے، دونوں طرف سے اس طرح کے افراد ہوتے ہیں، اس مسئلے سے کیسے نمٹا جائے، اس کا کیا راستہ ہے؟

سلیمان ندوی: یہ جو مجمع التقریب کی طرف سے یہ جو ہفتہ وحدت منایا جا رہا ہے اور نبی پاک علیہ الصلوۃ و السلام کی پیدائش کی یادگار کو بھی خاص طور پر منایا جا رہا ہے، اس موقع پر میں کہوں گا کہ مولانا حمید شہریاری، جنہیں یہاں آیت اللہ شہریاری کہا جاتا ہے، انہوں نے جو دستاویز تیار کی ہے، عربی زبان میں میں نے اس کو دیکھا وہ بہترین دستاویز ہے۔ اس کا ترجمہ اور دیگر زبانوں میں ہونا چاہیئے۔ انہوں نے جس اعتدال کے ساتھ، جس توازن کے ساتھ، فکر کو پیش کیا ہے اور اتحاد کی جس طرح دعوت دی ہے مدلل قرآن کی روشنی میں وہ بڑی کامیاب کوشش ہے۔ اس سے خود یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ایران اور ایران میں مجمع التقاریب مخلصانہ طور پر اس جدوجہد کو انجام دے رہے ہیں کہ سنی شیعہ اختلافات کو اس معنی میں ختم کیا جائے کہ اس کی وجہہ سے سب و شتم نہ ہو لعن طعن نہ ہو، جھگڑے نہ ہوں۔ اور یہ میں نے دیکھا یہاں بڑی شدت کے ساتھ، آیت اللہ موسوی عراق سے تشریف لائے ہیں  بزرگ ہیں انکی داڑھی سفید ہے، بڑی شدت کے ساتھ انہوں نے تقریر کی کہ جو شیعہ حضرات ابو بکر، عمر اور عثمان پر لعن طعن کرتے ہیں، وہ بے انتہاء مضر قسم کے لوگ ہیں جو حضرت عائشہ پر لعن طعن کرتے ہیں یہ بالکل غلط لوگ ہیں اور انکی وجہہ سے فتنے پیدا ہوتے ہیں، آگ بھڑکتی ہے، اسکی شدت سے ممانعت ہونی چاہیئے۔اور میں نے یہاں یہ بات محسوس کی جناب خامنہ ای صاحب کا قائد اعلی کا یہ فتوی ہے اور ادھر علامہ سیستانی کا یہ فتوی ہے کہ خلفاء راشدین پر لعن طعن کی بالکل بھی اجازت نہیں، نہ حضرت عائشہ پر کسی طرح کے لعن طعن کی اجازت ہے، لہذا اس موقف کے بعد پھر کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی ہے کہ اہل سنت اور شیعوں کا جھگڑا رہے اور جھگڑا صرف جھگڑا نہ رہے بلکہ بات آگے بڑھے اور لڑائی تک پیدا ہو۔ میں سمجھتا ہوں یہ نکتہ بہت اہم ہے، کیونکہ اس پر اگر ہم اتفاق کر لیتے ہیں اہل بیت کی جو فضیلتیں ہیں اہل سنت کتابیں ان سے بھری ہوئی ہیں،جو بھی پڑھے لکھے لوگ ہیں جانتے ہیں، بخاری میں، مسلم میں، ابو داؤد، ترمذی اور دیگر کتابوں میں حضرت علی ابن ابی طالب کے اور حضرت فاطمہ زہرا کے اور حضرات حسنین کے اور پھر دیگر اہلبیت کے کتنے فضائل بیان کئے گئے ہیں، جو اکثر ہمارے یہاں منبروں پر بیان نہیں کئے جاتے۔ اور اللہ کا یہ فضل ہے، یہ کرم ہے کہ ہمارے بزرگ حضرت شاہ نفیس الحسینی صاحب لاہور میں تھے، انہوں نے مناقب اہل بیت پر کتابیں شائع کیں، حضرت فاطمہ زہرا پر ایک کتاب شائع کی، حضرت حسین پر کتاب شا‏ئع کی۔ اس کا اہتمام کیا، لہذا انکی شخصیت ایسی تھی کہ وہ دیوبندی حضرات میں بھی تسلیم کئے جاتے ہیں اور شیعہ حضرات بھی ان سے محبت کرتے ہیں۔ ان کا انتقال ہو گیا۔ میرا ان سے تعلق رہا پاکستان میں جیسے میرا تعلق مولانا علی میاں ابو الحسن ندوی سے وہ تو میرے نانا بھی تھے۔ یہ حضرات ہیں جنہوں نے ہمیشہ اتفاق کی بات کی اور ان سے شیعہ حضرات بھی قریب رہے، سنی حضرات کے تو یہ معتبر علماء میں شمار ہوتے ہی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایران سے جو کوشش اس وقت ہو رہی ہے اور یہ جو ہفتے وحدت منایا جا رہا ہے، اس موقع  پر جو ایک دستاویزی کتاب شائع کی گئی ہے اسکے ترجمے ہوں اور اس بنیاد پر اب از سر نو اتفاق ہو اور کم از کم سنی حضرات جو سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب جو ہے جزیرۃ العرب یا حرمین کا ملک اب وہ بھی ایران سے اتفاق کر رہا ہے اور مذاکرات کر رہا ہے تو اس میں صداقت ہو، امانت ہو، دیانت ہو، سچائی کے ساتھ یہ عمل کیا جائے تو میں تو بہرحال اتحاد کی دعوت دیتا ہوں، میں تو ہندو مسلم اتحاد کی دعوت دیتا ہوں، تمام مذاہب کے درمیان بھی کہ انسانی بنیادوں پر ہمارا اور آپکا اتحاد ہو اور اسلامی بنیادوں پر تمام طبقوں کا اتحاد ہو، یہ پیغام پہونچنا چاہیئے پاکستان بھی، ہندوستان بھی، تمام لوگوں تک پہونچنا چاہیئے۔ یہ بات سمجھیں اور اس تناؤ کو ختم کریں، کیونکہ یہ تناؤ ان کا خاتمہ کر دے گا۔ بہت بہت شکریہ۔