میں جس بات پر زور دینا ضروری سمجھتا ہوں وہ نرس کا مرتبہ ہے۔ میری تاکید ہے کہ یہ ‏بات کہی جائے، دہرائی جائے، بار بار کہی جائے تاکہ سبھی کو معلوم ہو جائے کہ نرس ‏خادم نہیں بلکہ زندگی عطا کرنے والی صنف ہے۔ حقیقت میں جب انسان میڈیکل سروسز پر ‏توجہ دیتا ہے تو نرس کے رول کی تعریف ایک بنیادی رول کے طور پر کی جانی چاہئے۔ ‏اگر ڈاکٹر اچھا ہو، اسپتال اچھا ہو، لیکن نرسنگ اچھی نہ ہو تو بیمار کے ٹھیک ہونے کی ‏کوئی گیرنٹی نہیں ہے۔ جبکہ اگر یہ مان لیا جائے کہ حالات بہت اچھے نہ ہوں لیکن ایک ‏ہمدرد نرس موجود ہو تو اس بیمار کے ٹھیک ہونے کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔ مطلب یہ ‏ہے کہ نرسوں کی اہمیت اس طرح کی ہے۔ اسے سب کو جان لینا چاہئے۔ خود نرسوں کو ‏بھی اپنی اس اہم پوزیشن پر توجہ دینا چاہئے اور اپنے کام کی قدر کرنا چاہئے۔ عوام اور ‏عہدیداران کو بھی سمجھنا چاہئے۔ یہ تو ایک پہلو ہے۔ ‏
دوسرا پہلو بہت زیادہ دباؤ سے متعلق ہے جو نرس پر پڑتا ہے۔ یعنی ڈاکٹر بیمار کے سلسلے ‏میں ذمہ دار ہوتا ہے اور حقیقت میں طبی خدمات بہت اہم اور بے مثال چیز ہے لیکن بیمار ‏کی نرس پر جو ذہنی اور نفسیاتی دباؤ ہوتا ہے، ڈاکٹر پر کبھی وہ دباؤ نہیں ہوتا۔ ‏
بیمار کی چیخ پکار، گریہ و زاری سننا، اس کے درد کو محسوس کرنا، مسلسل اس کی دیکھ ‏بھال کرنا، اسے نہلانا دھلانا، اس طرح کے کام کیا مذاق ہیں؟ کوئی کسی بیمار کے پاس ‏پوری ذمہ داری کے ساتھ دو گھنٹے بیٹھے تب اس کی سمجھ میں آئے گا کہ اس نرس کا کیا ‏حال ہوتا ہوگا جسے الگ الگ بیماروں کے ساتھ دن اور رات کے کئی گھنٹے گزارنے پڑتے ‏ہیں۔ ‏
ایران کی  اعلی نرسنگ کونسل کے ارکان سے رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا ایک حصہ
‏امام خامنہ ای‎ ‎
16 اپریل 2012‏