احمد متوسلیان، ایران پر صدام حکومت کی جانب سے مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ میں محمد رسول اللہ ستائيسویں ڈویژن کے کمانڈر تھے جو 5 جولائي سنہ 1982 کو لبنان میں طرابلس سے بیرت کے راستے میں صیہونی حکومت کی سازش کے نتیجے میں لبنان کی فلانجسٹ پارٹی کے عسکریت پسندوں کے ہاتھوں اغوا کر لئے گئے تھے۔

اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد احمد متوسلیان نے 'محلہ کمیٹی' کی تشکیل کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لی۔ سپاہ پاسداران (آئي آر جی سی) کی تشکیل کے بعد وہ اس فورس میں شامل ہو گئے اور انقلاب مخالف اور علیحدگي پسند گروہوں کا مقابلہ کرنے لگے۔ سنہ 1981 میں حج سے واپسی کے بعد آئي آر جی سی کی جنرل کمان کی جانب سے انھیں مریوان اور پاوہ کے افراد کو بھرتی کر کے محمد رسول اللہ بريگيڈ بنانے اور اس کی کمان سنبھالنے کی ذمہ داری سونپی گئي۔ یہ بریگیڈ بعد میں ڈویژن میں تبدیل ہو گئي۔

لبنان کا سفر

احمد متوسلیان سنہ1982 کے اوائل میں ایک مشن کے تحت ایک اعلی سفارتی وفد کے ہمراہ، جس میں سیاسی و عسکری عہدیداران شامل تھے، شام روانہ ہوئے تاکہ لبنان کے مظلوم اور نہتے عوام کی مدد کی راہوں کا جائزہ لے سکیں۔

اغوا

پانچ 4 سنہ 1982 کو احمد متوسلیان اپنے تین ساتھیوں کے ہمراہ، ایران کے سفارتخانے میں اپنے دفتر کی طرف جا رہے تھے کہ طرابلس سے بیروت کے راستے میں لبنان کی فلانجسٹ پارٹی کے مسلح افراد نے انھیں پکڑ لیا۔ اس کے بعد سے اب تک ان کے انجام کے بارے میں کوئي مصدقہ خبر نہیں مل سکی ہے۔

 

آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای: "ہم جناب الحاج احمد متوسلیان کے آنے کے منتظر ہیں، ان شاء اللہ وہ آئيں گے، انھیں شہید نہ کہیے، ہمیں ان کی شہادت کی خبر تو ملی نہیں ہے۔ ان شاء اللہ، خداوند عالم - آپ کے بیٹے کو - وہ جہاں کہیں بھی ہے، جس طرح بھی ہے، اپنے لطف و کرم سے نوازے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ ان شاء اللہ، خداوند عالم اس مومن اور صالح جوان کو واپس لوٹائے۔

سپاہ پاسداران کے شہیدوں کے بعض اہل خانہ سے ملاقات میں تقریر، (15/12/1996)