امام حسین  (علیه الصلوة والسلام) نے میدان کربلا میں اپنا تربیتی نظریہ، کلام اور سخن کے علاوہ ایک روشن اور درخشاں حقیقت کے قالب اور مجسم مثالی ہستیوں کی شکل میں بھی پیش کیا جو  مکتب حسینی کی علامتیں ہیں۔ ان مثالی ہستیوں میں حضرت علی اکبر مکتب و مدرسہ حسینی کی تربیت یافتہ عظیم شخصیت ہیں۔  مشہور روایات کے مطابق چھبیس ستائیس سال اپنے والد گرامی کی نگرانی میں رشد و نمو کی منزلیں طے کیں۔ قدم بہ قدم حضرت سیدالشہدا (علیه الصلوة والسلام)  کی ہدایت، منصوبے اور پروگرام کے مطابق، البتہ خود اپنے ارادے اور فیصلے سے، اپنے انتخاب اور عظیم مجاہدت سے اس منزلت پر پہنچ گئے کہ جب سید الشہدا (علیه الصلوة والسلام) نے آپ  کا تعارف کرانا چاہا  تو آپ کو پیغمبر اعظم سے مشابہ ترین فرد کہا۔ اس طرح امام حسین (علیه الصلوة والسلام)  نے حضرت علی اکبر (علیہ السلام ) کی شکل میں تربیت انسان کے تعلق سے اپنی  تمام آرزوؤں کو بیان فرمایا ہے۔

حضرت علی اکبر اور پیغمبر اعظم (صلوات اللہ و سلامہ علیہ) کے درمیان نسبت کے بیان میں ایک دقیق نکتہ موجود ہے۔ اس لئے کہ خداوند عالم نے مومنین کو حکم دیا ہے کہ پیغمبر اعظم (صلوات اللہ و سلامہ علیہ) کو اپنے لئے اسوہ حسنہ قرار دیں۔ لقد کان لکم فی رسول الله اسوه حسنه۔ فرمایا کہ اس اسوہ حسنہ کے مطابق خود کو ڈھالیں۔ اور ہمارے پیغمبر اعظم سے شباہت درحقیقت انسان مومن کی شخصیت کی بالیدگی کا بنیادی معیار ہے۔

حضرت علی اکبر (علیہ السلام)  کی شخصیت کو نظر میں رکھتے ہوئے ہم آج یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے پاس ایک ایسا فارمولا ہے کہ جس سے تربیتی علوم کے ہزاروں ماہرین اور وہ لوگ جو انسانوں کے رشد و نمو سے سروکار رکھتے ہیں، آپ کے پیکر رشید اور طرز زندگی سے تا قیامت کروڑوں نوجوانوں کی تربیت میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ یہ وہ ہستی ہے جو عنفوان شباب میں شہادت جاودانہ پر فائز ہوئي۔  

مکتب حسینی کا احیاء امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا عظیم کارنامہ

ہمارے امام خمینی کبیر (رحمت اللہ علیہ) کا  ایک عظیم کارنامہ نسل جدید کے لئے  مکتب و مدرسہ حسینی کا احیاء ہے۔ شجاع اور غیور نوجوانوں کی تربیت امام (خمینی رحمت اللہ علیہ ) کا عظیم کارنامہ ہے۔ اس نے  ہمارے اسلامی وطن کے طول و عرض میں اس کے بعد اس پورے علاقے میں  اور عالمی سطح پرایک نیا باب کھول دیا۔  ہمارے رہبرعزیز کے بقول ان خصوصیات کے حامل نوجوانوں کی تربیت امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی 'فتح الفتوح' ہے۔  مومن، مجاہد اور شجاع نوجوان جن میں سے بہت سوں نے شہادت بھی حاصل کر لی۔ یہ ہمارے عظیم امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی 'فتح الفتوح' تھی کہ آپ نے یہ راستہ کھولا اور دفاع مقدس نے اس مدرسے کی رونق بڑھا دی۔ (اس مدرسے میں) کتنے وسیع پیمانے پر لوگ داخل ہوئے اور اس مدرسے سے کیسی کیسی عظیم اور درخشاں ہستیاں باہر آئي ہیں۔

تربیت حسینی کی خصوصیت یہ ہے کہ بہت تیزی کے ساتھ منزل مقصود تک پہنچا دیتی  ہے اور اس کی ضمانت بھی پائی جاتی ہے، اس میں جاذبہ محبت بھی ہے اور اس راہ کا انتخاب کرنے والے کی شخصیت کی حفاظت بھی ہے۔

مکتب حسینی کی تین تربیتی خصوصیات

حضرت علی اکبر (علیہ السلام ) کی شخصیت کی اساس پر اس تربیتی مکتب کی نمایاں خصوصیات کی وضاحت کے لئے میں آپ کی خدمت میں تین نکات بیان کروں گا۔  

حضرت علی اکبر(علیہ السلام) کی تربیت توحیدی

نکتہ اول جو اول بھی ہے اور آخر بھی، اصل بھی ہے اور فرع بھی اور سب کچھ یہی ہے، تربیت توحیدی اور خداوند عالم سے اس کا اتصال ہے۔ بنیادی مسئلہ یہی ہے۔   

یہ خدائی رنگ اختیار کرنا، صراط بندگی پر چلنا اور ایمان و تقوا  کی فضا میں جینا۔ یعنی خدا سے دوستی اور جاذبہ محبت حضرت حق میں گرفتار ہو جانا۔ قرآن کریم نے اس کی  بہت ہی خوبصورت  تعبیر پیش کی ہے . یُحِبُّهُم و َیُحِبّونَهُ (المائدة:۵۴). اس آیت نورانی میں جس میں فرمایا کہ  یا أَیُّهَا الَّذینَ آمَنوا مَن یَرتَدَّ مِنکُم عَن دینِهِ فَسَوفَ یَأتِی اللَهُ بِقَومٍ یُحِبُّهُم وَیُحِبّونَهُ... جنہیں خداوند عالم پسند کرتا ہے اور اس نے انہیں بشارت دی ہے، اس لئے کہ وہ آئيں گے اور دین خدا کی نصرت کریں گے اور خدائی اہداف کو پورا کریں گے۔ ان کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ گرفتار محبت خدا ہیں۔ یُحِبُّهُم و َیُحِبّونَهُ. ان کے اندر کچھ خصوصیات ہیں تبھی تو محبوب خدا ہیں اور خود بھی عاشق خدا ہیں۔     

آپ قرآن کریم میں دیکھتے ہیں کہ سورہ توبہ کی اس مشہور آیت (نمبر ایک سو گیارہ ) کے فورا بعد جس میں ارشاد ہوتا ہے: إِنَّ اللَهَ اشتَرى مِنَ المُؤمِنینَ أَنفُسَهُم وَأَموالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الجَنَّةَ یُقاتِلونَ فی سَبیلِ اللَهِ فَیَقتُلونَ وَیُقتَلونَ۔ پھر فرماتا ہے: التّائِبونَ العابِدونَ الحامِدونَ السّائِحونَ الرّاکِعونَ السّاجِدونَ۔ دیکھیں چھے خصوصیات یہاں کتنے خوبصورت انداز میں ترتیب کے ساتھ بیان کی گئي ہیں۔ پہلے مجاہد، شجاع  اور شہید مومن کے خطرات کے میدان میں اترنے کی بات کی جاتی ہے اور خداوند عالم فرماتا ہے،  میں ان کا خریدار ہوں  اور پھر ان کا تعارف اس طرح کراتا ہے کہ پہلے ان کی یہ چھے خصوصیات بیان فرماتا ہے، یعنی یہ پاکیزہ ہستیاں ہیں، توبہ کرنے والے ہیں، عبادت کرنے والے ہیں، ان کا وجود یاد خدا میں غرق ہیں، السائحون یعنی  مستقل اس پہاڑ سے اس پہاڑ پر رضائے حق کی جستجو میں رہتے ہیں۔ اس کے بعد فرماتا ہے کہ الراکعون، الساجدون، عاشق نماز ہیں۔ اس طرح انسان مومن کی  شخصیت کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ ان خصوصیات کے بعد سماجی اور معاشرتی اقدام کا مرحلہ آتا ہے ۔ اس آیہ کریمہ میں، ان چھے خصوصیات کے بعد تین سماجی خصوصیات بیان کی جاتی ہیں : الآمِرونَ بِالمَعروفِ وَالنّاهونَ عَنِ المُنکَرِ وَالحافِظونَ لِحُدودِ اللَهِ۔ ( نیکیوں کی سفارش کرتے ہیں، منکرات سے روکتے ہیں اور حدود خدا کی حفاظت کرتے  ہیں۔)

 تحریک کربلا کا ایک منظر بہت پرکشش ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب امام حسین (علیہ الصلوات و السلام) ہلکی  نیند کے عالم میں تشریف لے جاتے ہیں اور پھر کلمہ استرجاع زبان پر جاری فرماتے ہیں : انا لله و انا الیه راجعون.

حضرت علی اکبر اپنے والد کے پاس کھڑے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح۔ عاشق پدر تھے، ہمیشہ اپنے والد کے ہمراہ، آپ کے محافظ، ناصر اور محبوب تھے۔ امام حسین آپ کو دیکھتے تھے تو دل سے سارا ہم و غم دور ہو جاتا تھا۔ باپ کی نگاہوں میں مجسم پیکر امید تھے۔ 

 حضرت علی اکبر فورا والد ماجد کے قریب آتے ہیں، باباجان کلمہ استرجاع زبان پر کیوں جاری  فرمایا؟

حضرت نے فرمایا: میں نے  ایک لمحے کے لئے خواب دیکھا کہ ہمارا کارواں جا رہا ہے کہ ناگہاں ایک سوار آیا اور کہنے لگا، یہ جا رہے ہیں اور موت بھی ان کے پیچھے پیچھے جا رہی ہے۔

حضرت علی اکبر نے بغیر کسی تامل کے عرض کیا: بابا! أولسنا علی الحق؟ کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟

امام نے فرمایا: بلی یا بنی! والذی الیه مرجع العباد. ہم حق پر ہیں۔

جیسے ہی یہ سنا فرمایا بابا! اذا لا ابالی بالموت تو پھر موت کی کوئی فکر نہیں۔

 یعنی فرماتے ہیں کہ بابا جان آپ نے جس کی ترتیت فرمائی  ہے وہ صرف بنیاد حق کی فکر کرتا ہے۔ آپ نے جس کی تربیت کی ہے وہ اپنے سارے امور میں صرف حجت کی فکر میں رہتا ہے۔ خود کو  اپنے امام سے ہم آہنگ کرتا ہے، تاکہ اس کی زندگی محور حق پر رہے۔ لہذا آپ کے سامنے ایک ایسی ہستی ہے کہ جس کا محور حق ہے، جو حق کا متلاشی ہے، حق گو ہے، حق پسند ہے، حق پرست ہے اور چاہتا ہے کہ ہر چیز اس طرح رہے جس طرح خدا چاہتا ہے۔ یہ پہلا اور بنیادی نکتہ ہے۔

شب ہای  حضرت علی اکبر میں، (یعنی عشرہ محرم کی وہ رات جو حضرت علی اکبر کے ذکر کے لئے مخصوص ہے) مجھے دفاع مقدس کا ایک واقعہ یاد آ جاتا ہے۔ اس منظر کو یاد کرکے میں لرز اٹھتا ہوں۔  'آپریشن کربلا پانچ' میں ایک نوجوان نے مجھ سے کہا، جناب ایک منٹ مجھے آپ سے کام ہے۔ ایک جوان رشید، خوبصورت، بلند قامت، اس کی پیشانی پر ہمیشہ ایک سبز پٹی بندھی رہتی تھی۔ میں اس کی بٹالین کا عالم دین تھا۔ ہم، لوگوں کی بھیڑ سے الگ اکیلے میں گئے۔ کہنے لگا جناب ہم کافی عرصے سے ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں جاتے ہیں، کل رات ایک راستے پر آ رہا تھا، راستہ دشوار تھا، شاید کئی کلومیٹر تک کبھی دوڑ کے، کبھی لیٹ کے اور سینے کے بل گھسٹ  کے آگے بڑھ رہے تھے۔ بہت ہی شدید فائرنگ ہو رہی تھی۔ اس نے کہا اس ہنگام میں کل رات مجھے ہلکی سی نیند آ گئی۔ دیکھا کہ اس آپریشن میں میں اپنے ہدف تک پہنچ جاتا ہوں۔ مجھے بشارت دی گئی۔ حتی وہ لوگ بھی مجھے دکھائے گئے جو میرا جنازہ تیار کرتے ہیں اور  میرا سامان جمع کرتے ہیں۔ آج صبح میں مرکز معراج میں گیا ( وہ مرکز جہاں شہیدوں کے جنازے تیار کئے جاتے تھے۔) مرکز معراج میں میں نے دو سن رسیدہ  افراد کو دیکھا۔ یہ وہی تھے جنہیں میں نے کل رات عالم خواب میں دیکھا تھا کہ انھوں نے میرا جنازہ اپنی تحویل میں لیا۔ جناب میں مطمئن ہو گیا۔ لیکن ایک مشکل ہے۔ میری مشکل یہ ہے کہ کل رات اگلے محاذ پر جانے کے لئے تیار تھا کہ مجھے ایک خط ملا۔ یہ خط میری بیوی کا تھا۔ اس نے لکھا تھا کہ تمھارا بچہ  پیدا ہو گیا ہے۔ اس کو ایسے ہی رکھوں گی تاکہ تم تھوڑی دیر کے لئے آکے اس کا نام رکھو۔ اس کو دیکھ لو اور پھر چلے جاؤ۔ یہ شہیدوں کی شریک حیات کون تھیں؟ کیسی ہستیاں تھیں؟ لکھا تھا بس اتنی دیر کے لئے آؤ کہ اس کو دیکھ لو، نام رکھ دو اور پھر چلے جاؤ! اس نوجوان نے کہا جناب یہ خط پڑھ کے میرا دل لرز گیا۔ کاش یہ ممکن ہوتا کہ میں اپنی اہلیہ کی خواہش پوری کر سکتا، جاتا، بچے کو دیکھتا باپ ہوں نا!  لیکن میرا جانا ممکن نہیں ہے۔ آپریشن کے بیچ میں ہوں۔ آج رات میری باری ہے۔ مجھے یہ بشارت ملی ہے کہ تم اس آپریشن میں  شہادت پر فائز ہو جاؤ گے۔ مجھے یہ پریشانی ہے کہ اس دوران میں شہید ہو جاؤں لیکن مجھے اس اصلی جگہ پر نہ لے جائيں اور کہیں کہ تم  تو اپنے بچے کو دیکھنے کے لئے جانا چاہتے تھے۔"

یہ ہے  مدرسہ توحید حسینی! کون عارف سالک، ایسی تربیت کر سکتا ہے؟ جن لوگوں نے سالہا سال اس راہ میں لوگوں کی تربیت کی ہے، ان میں کون اس چوٹی کو فتح کر سکا ہے؟  یہ اعجاز مدرسہ حسینی ہے۔ الله اکبر. العظمة لله... میں شرم سے پانی پانی ہو گیا۔ میں نے اس سے صرف اتنا کہا  کہ بھائي پریشان نہ ہو، یہ صرف پدرانہ جذبات ہیں، اس کی کوئي منفی تاثیر نہیں ہے۔ دل لرز گیا تب بھی پریشان نہ ہو۔ اسی طرح  کے مزید دو تین جملے اس سے کہے۔  

پہلی بات تربیت توحیدی ہے۔ اور اصل، فرع اور سب کچھ یہی ہے۔    

حسن اخلاق حضرت علی اکبر

  لیکن دوسرا نکتہ جو اساسی ہے، اخلاق کا مسئلہ ہے۔ حسن اخلاق۔

 حضرت اباعبدالله (علیه السلام)  نے اپنے اس عزیز جوان کی تربیت میں اپنی تمام صلاحیتوں سے کام لیا، پوری استعداد سے اس کو تیار کیا تو وہ اخلاق میں پیغمبر اعظم کی شبیہ ہو گیا۔ اس کا چہرہ، اس کا اخلاق، اس کا اخلاص، مہربانی، تواضع حتی لکھا ہے کہ اس کے کھڑے ہونے کا انداز، اس کا اٹھنا اور چلنا بھی پیغمبر کی طرح تھا۔ پھر کیسے ممکن ہے کہ امام حسین ایسی ہستی پر فخر نہ کریں؟

اس پر دست عنایت الہی نے ایک کام یہ بھی کیا کہ حضرت علی اکبر کا چہرہ مبارک  بھی  خداوند عالم نے شبیہ چہرہ پیغمبر بنا دیا جس  کو دیکھ کے ایسا لگتا تھا کہ خود پیغمبر ہیں۔ خلقت میں، اس لحاظ سے بھی امام حسین کی نصرت ہوئي کہ وہ توحیدی اور ایمانی مدارج، وہ حسن خلق اور اخلاقی فضائل، سب ایک ایسے قالب میں رکھے جائيں جو ہو بہو مطابق اصل ہے۔ ( یعنی آپ کا پیکر بھی مکمل طور پر شبیہ پیکر پیغمبر تھا)    

حضرت علی اکبر کی شجاعت اور جذبہ جہاد

تیسرا نکتہ جس کا بس اشارتا ذکر کروں گا، جذبہ جہاد، صلابت اور وقار ہے۔ مدرسہ حسینی میں تربیت پانے والے بچے شجاع ہوتے ہیں۔ قرآن کے الفاظ میں 'اشداء علی الکفار' ہوتے ہیں۔ اپنے آپ میں ایک لشکر ہوتے ہیں۔ رات کے عبادت گزار اور دن کے شیر ہوتے ہیں۔ یہ ولی خدا کی نصرت کر سکتے ہیں،  اس صلابت، اس شجاعت، اس عزت اور اس جہادی شخصیت کے ساتھ جن کے ہاں خوف کا کوئی گزر نہیں۔ امیر المومنین (علیہ السلام)  نے نہج البلاغہ کے خط نمبر اکتیس میں تحریر فرمایا ہے: وَ خُضِ الْغَمَرَاتِ لِلْحَقِّ حَیْثُ کَانَ۔ فرزند عزیز، حق کے لئے دریائے خطر میں کود پڑو، جاؤ خطرات کے میدان میں کود جاؤ، دلیری دکھاؤ۔' اس طرح اپنے بچوں کی تربیت کرتے تھے۔

 اور علی اکبر (سلام اللہ علیہ) توحید و عرفان کی بلند و بالا چوٹی پر بھی ہیں اور اخلاق وحسن خلق کی بلندیوں پر بھی۔ شجاعت، دلیری اور دلاوری کی رفعتوں پر بھی ہیں۔ بہادر اور شجاع ہیں۔

 لشکر امام حسین (علیه الصلوة والسلام) میں حضرت علی اکبر (سلام اللہ علیہ) میں یہ سارے صفات ایک ساتھ جمع ہیں اور ان خصوصیات کا ایک ساتھ اظہار ہوتا ہے۔ آپ کا وجود اہل حرم کے دلوں کے لئے باعث تقویت ہے آور آپ کی ذات گرامی سراپا عشق و محبت اور  مرکز امید ہے۔