امام صادق (علیہ السلام فرماتے ہیں)  کانَ عَمُّنَا العَبّاسُ بنُ عَلِیٍّ نافِذَ البَصیرَةِ. ہمارے چچا عباس ابن علی 'بصیرت نافذ' کے مالک تھے۔   

بصیرت نافذ یعنی ایسی گہری بصیرت جو امور کی  گہرائی تک رسائی رکھتی ہو اور امور و واقعات  کے اندر تک سبھی پہلوؤں کا تحلیل و تجزیہ کرتی ہو۔ حضرت ابواالفضل (علیہ السلام ) کی زیارت میں بھی آیا ہے کہ : أَشْهَدُ أَنَّکَ لَمْ تَهِنْ وَ لَمْ تَنْکُلْ وَ أَنَّکَ مَضَیْتَ عَلَى بَصِیرَةٍ مِنْ أَمْرِکَ. یعنی ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ سے کوئي کوتاہی اور سستی سرزد نہیں ہوئي اور آپ کے کام بصیرت کے ساتھ تھے۔

بصیرت انسان مومن کی اہم خصوصیات میں سے ہے۔ بصیرت یعنی انسان حق و باطل میں تمیز کر سکے۔ بالخصوص، فتنہ و آشوب کے مواقع پر، تاریکیوں میں اور شبہات میں، صحیح اور غلط، اچھے اور برے، دوست اور دشمن نیز ترجیحات اور غیر ترجیحی کاموں میں تمیز کر سکے اور بر وقت اقدام کرے۔ لیکن اہم ترین مصداق بصیرت یہ ہے کہ انسان یہ جانتا ہو کہ اس کے زمانے کا امام اس سے کیا چاہتا ہے۔ شیعہ تمدن میں یہ اہم ہے کہ انسان اپنے امام کا تابع ہو۔ اپنے امام کا مطیع ہو اور یہ جانتا ہو کہ اس کا مشن کیا ہے، اس کے امام کی ذمہ داری کیا ہے اور اس کا امام اس سے کیا چاہتا ہے۔   

 ہمیں معلوم ہے کہ مختلف حالات میں ائمہ علیہم السلام کی ذمہ داریاں مختلف رہی ہیں۔  کسی زمانے میں جنگ، کسی زمانے میں صلح، کسی زمانے میں علمی و ثقافتی کام اور کسی زمانے میں ہجرت۔ اہم ترین مصداق بصیرت یہ ہے کہ انسان یہ جانتا ہو کہ اس زمانے میں، اس کے زمانے کا امام اس سے کیا چاہتا ہے۔ خدا رحمت کرے شہید آوینی پر، بہت اچھی بات کہتے تھے۔ وہ کہتے تھے، یہ عجیب دور ہے کہ بعض لوگ امام حاضر کے نہیں صرف اس امام کے عاشق ہیں جو گزرے دور میں تھے، اس لئے کہ گزر جانے والے امام کی ہر طرح سے تفسیر کی جا سکتی ہے۔ لیکن امام حاضر  کی اطاعت کرنی ہوتی ہے۔ گزشتہ دور کے امام کی اس طرح تفسیر کی جا سکتی ہے کہ اس سے کوئی کام نہ چاہے اور اس پر کوئي بوجھ نہ آئے لیکن امام حاضر کی انسان جس طرح اس کا دل چاہے اس طرح تفسیر نہیں کر سکتا۔ اس کو دیکھنا ہوگا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔  بعض  لوگ ایسے ہیں کہ  شہید امام کے تو عاشق ہیں، اس کا ماتم  کرتے ہیں، اشک بہاتے ہیں، عزاداری کرتے ہیں، اس کی زیارت کے لئے جاتے ہیں، اس سے حاجت طلب کرتے ہیں لیکن امام حاضر کو اکیلا چھوڑ دیتے ہیں جو چاہتا ہے کہ اس کے لئے کام کریں اس کا ساتھ دیں۔

عاشورا کا ایک بڑا درس اور بڑی بصیرت یہ ہے کہ انسان امام حاضر کی نصرت کرے۔ جس طرح کہ اصحاب امام حسین علیہ السلام نے آپ کی نصرت کی۔ اصل کام یہ ہے۔ بعض لوگوں میں یہ بصیرت نہیں تھی۔ بعض لوگ امام حسن مجتبی (علیہ السلام ) کے پاس آتے تھے اور کہتے تھے کہ آقا آپ صلح کیوں کر رہے ہیں؟ دیکھئے وہ امام کی ذمہ داری کو نہیں سمجھتے تھے کہ آپ اس وقت کیا کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسا شخص آپ کا ناصر نہیں ہو سکتا۔ آپ کی نصرت نہیں کر سکتا۔ آکے آپ پر اعتراض کرتے تھے کہ کس لئے صلح کر رہے ہیں؟!

اس کے بالکل  بر عکس سید الشہاد (علیہ السلام ) کے زمانے میں آپ کے پاس آکر کہتے تھے کہ کس لئے جنگ کر رہے ہیں؟ جیسے ابن عباس امام حسین (علیہ السلام) کے پاس آئے اور کہا آقا کہاں جا رہے ہیں؟ آپ کے ساتھ تو کوئي نہیں ہے، کوفہ خطرناک ہے۔ امام حسین نے اپنی ذمہ داری ان پر واضح کر دی تب بھی ان کے ساتھ نہ ہوئے۔

 بعص لوگ امام صادق (علیہ السلام) کے پاس آتے تھے اور کہتے تھے کہ بنی عباس کے خلاف قیام کیوں نہیں کرتے؟ یہ قیام کا وقت ہے؟ دیکھئے  یہ  وہ بصیرت ہے کہ اس کو نہیں پتہ کہ اس کا امام اس وقت کیا کر رہا ہے، اس کی ذمہ داری کیا ہے اور دور حاضر میں اس سے اس کے امام کی توقع کیا ہے۔  

امام رضا (علیہ السلام ) پر اعتراض کرتے تھے کہ آقا آپ کس لئے ایران جا رہے ہیں؟ کیوں ہجرت کر رہے ہیں؟ کیوں جا رہے ہیں مامون کی ولی عہدی اور جانشینی کیوں قبول کر رہے ہیں؟ کیا مامون وہی نہیں ہے جس کے باپ ہارون رشید نے آپ کے والد موسی ابن جعفر (علیہ السلام) کو شہید کیا؟ صرف یہ نہیں تھا کہ بعض لوگ آکے نصیحت کرتے تھے بلکہ آپ سے الگ بھی ہو رہے تھے۔ یہ بے بصیرتی کا کھلا اور اہم بلکہ اہم ترین مصداق ہے۔

 اس سے حضرت ابوالفضل (علیہ السلام) جیسی ہستیوں کی اہمیت معلوم ہو جاتی ہے۔ حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) اور حضرت مسلم  جیسی ہستیوں کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے کہ اس زمانے میں جب بہت سے لوگ صحیح تشخیص نہیں دے پا رہے تھے، یہ ہستیاں امام کے ساتھ آئيں، صحیح تشخیص دی اور اپنے امام کی نصرت کی۔

 ظہور کے لئے حالات تیار کرنا، سبھی ادیان کی ذمہ داری

  آج ہم حضرت ولی عصر(علیہ السلام ) کے زمانے میں ہیں۔ اس وقت امام زمانہ (علہہ السلام) ہم سے کیا چاہتے ہیں؟ اس وقت حضرت ولی عصر(علیہ السلام ) کا مشن کیا ہے؟ اگر آپ نے لوگوں سے نصرت طلب کی۔ یہ بہت سنجیدہ سوال ہے۔ بہت اہم سوال ہے۔ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت ولی عصر(علیہ السلام) غیبت میں ہیں، آپ کی حکومت نہیں ہے، اس لئے یہ وقفے اور بے کاری کا زمانہ ہے؟ اس زمانے میں امام (علیہ السلام) کی ذمہ داری چھوٹی موٹی حاحت روائی ہے :جیسے کسی  بیمار کو شفا دے دیں، کوئی چالیس دن مسجد جمکران گیا تو اس کی حاجت پوری کر دیں، کوئی راستہ بھٹک گيا اور اس نے آپ سے توسل کیا تو آپ اس کو راستہ دکھا دیں اور منزل تک پہنچا دیں۔ جیسے گھر دلا دیں، زندگی کی سہولتیں فراہم کرا دیں۔ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ زمانہ غیبت  میں امام (علیہ السلام) کا کام یہی چھوٹی موٹی حاجتوں کو پورا کرنا ہے؟ اگر کوئي یہ سمجھتا ہے تو اس کو امام کی معرفت نہیں ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ مصروف ہستی حضرت ولی عصر (علیہ السلام ) کی ہے۔ خفیہ اور غیر محسوس طور پر سب سے زیادہ فعالیت اور سعی و کوشش میں آپ مصروف ہیں۔  

 آپ سب نے قرآن کریم میں خفیہ سعی و کوشش کا ایک نمونہ پڑھا ہے۔ سورہ کہف میں  ہے کہ حضرت خضر (علیہ السلام) مظلومین اور مومنین کے  لئے کام کرتے تھے لیکن خفیہ اور غیر محسوس طور پر۔ آپ ایسی گمنامی  میں رہ کے کام کرتے تھے کہ اگر خداوند عالم نے حضرت موسی (علیہ السلام) کو آپ کا تعارف نہ کرایا ہوتا تو وہ بھی آپ کو نہ پہچانتے۔  پروردگار عالم نے آپ کا تعارف کرایا کہ "موسی خضر علوم باطنی میں تم  سے برتر ہیں، جاؤ ان سے سیکھو۔ آپ کی دو تین ایسی پنہاں خدمات اور کاموں  کا ذکر بھی کیا گیا ہے جو آپ مظلومین اور مومنین کے لئے انجام دیتے تھے۔   

ہم اور آپ ایک متدین فرد کی حیثیت سے جو کام بھی ہم سے ہو سکتا ہے، چاہے ایک مجلس برپا کرنے کی حد تک، کسی مجلس میں جانے، گھر پر ایک پرچم لگانے، حضرت ولی عصر(علیہ السلام ) کے جزئی کاموں کو یاد کرنے کی حد تک، جو بھی ہم سے ہو سکتا ہے، حضرت ولی عصر(علیہ السلام ) کے ظہور کے لئے انجام دیتے ہیں۔ زمین پر خدا کی حکومت کے لئے۔ تو کیا خود حضرت (ولی عصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) جو تمام مومنین کے سردار ہیں خود کوئي کام نہیں کرتے ہوں گے؟ اصلی کام تو آپ ہی انجام دیتے ہیں۔ بنابریں حضرت (امام زمانہ علیہ السلام) کی اصلی ذمہ داری یہ ہے: ظہور کی تیاری۔

 حضرت ابوالفضل العباس (علیہ السلام) کی ہستی ایسی ہی تھی کہ آپ اپنے امام کے مشن کو جانتے تھے، آپ کے ساتھ آئے اور آخر تک آپ کا ساتھ دیا۔   أَشْهَدُ لَکَ بِالتَّسْلِیمِ وَ التَّصْدِیقِ وَ الْوَفَاءِ وَ النَّصِیحَةِ لِخَلَفِ النَّبِیِّ. یہ امام صادق (علیہ السلام ) فرماتے ہیں: عموجان  میں آپ کی تسلیم و رضا کی گواہی دیتا ہوں۔  حضرت ابوالفضل (علیہ السلام) محو سیدالشہاد تھے۔ حضرت ابوالفضل (علیہ السلام) کو امام حسین سے وہی نسبت تھی جو رسول سے امیر المومنین کو تھی۔ پیغمبر کے زمانے میں امیرالمومنین نہ زیادہ تقریریں کرتے تھے نہ بولتے تھے۔ یہ آپ کے خطبات پیغمبر کے بعد کے زمانے کے ہیں۔ آپ کی ساری توجہ صرف پیغمبر پر تھی اور  مطیع پیغمبر تھے۔ حضرت ابوالفضل علیہ السلام بھی اسی طرح (محو و مطیع  امام حسین تھے)۔

    حضرت ابوالفضل علیہ السلام کے لئے جنگ کی کوئی اہمیت تھی نہ صلح کی۔ آپ کے نزدیک جو  چیز اہمیت رکھتی تھی وہ اپنے امام کے سامنے سراپا تسلیم  تھی۔ اس کی اہمیت تھی کہ اپنے امام کے سامنے تسلیم ہوں۔  أَشْهَدُ لَکَ بِالتَّسْلِیمِ وَ التَّصْدِیقِ، آپ نے سید الشہدا کے بارے میں ذرہ برابر تردد سے کام نہیں لیا۔ جب تقریبا سب شہید ہو گئے، آپ کے لئے امان نامہ لائے۔ وہ گھٹیا شخص امان نامہ لایا اور آواز دی عباس تمھارے لئے امان نامہ لایا ہوں۔ حضرت ابوالفضل (علیہ السلام) نے اس کو جواب تک نہ دیا۔ امام حسین نے فرمایا کہ اس کو جواب دو اگرچہ وہ فاسق ہے۔ مولا عباس نے پوچھا کیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ تمھارے لئے امان نامہ لایا ہوں۔ سب کچھ ختم ہو گیا۔ حسین کا کام ختم ہو گیا۔ سمجھو حسین مارے گئے۔ تم کم سے کم اپنی جان بچا لو۔ میں نے تمھارے لئے امیر عبیدللہ ابن زیاد سے امان نامہ لے لیا ہے۔ حضرت ابواالفضل (علیہ السلام ) نے فرمایا خدا کی لعنت ہو تجھ پر اور تیرے امیر پر اور اس امان نامے پر جو تو میرے لئے لایا ہے۔ میں امان میں رہوں اور فرزند رسول امان میں نہ رہے۔ خدا کی لعنت ہو تجھ پر۔ آپ نے ذرہ برابر تردد نہیں کیا۔