اگر انسان حقیقی معنوں میں خداوند متعال سے اپنی خطاؤں، کمیوں اور کوتاہیوں کے سلسلے میں بخشش طلب کرے اور دل سے معافی مانگے تو خدائے متعال اس کا جواب دیتا ہے، یہ تو قرآن کی صاف و صریح آیت ہے ان لوگوں کے لئے خدا کا جواب کہ جنھوں نے استغفار کیا اور خداوند متعال سے عرض کی کہ ہماری نصرت و مدد فرما، یہ تھا؛ ’’فآتاھُمُ اللہُ ثوابّ الدُّنیا وَ حُسنَ ثَوابِ الآخرَۃ؛‘‘ "تو خدا نے انکو دنیا میں بھی صلہ عطا کیا اور آخرت کا بہترین ثواب بھی عنایت فرمایا" (سورہ آل عمران، آیت-148) آخرت سے پہلے دنیا میں ہی اس کا جواب (اللہ نے) دے دیا جس کا سبب وہ استغفار تھا جو انھوں نے کیا تھا پس قرآن نے سبق سکھایا ہے، دنیا کے مختلف میدانوں میں کامیابی کے لئے استغفار سے مدد لینا چاہئے، یعنی استغفار کے سلسلے میں ہماری نگاہ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ مثال کے طور پر صرف شخصی اور انفرادی گناہ کے سلسلے میں خود اپنے قلب پر لگے ہوئے گناہ کے دھبوں کو صاف کرنے کے لئے استغفار اور توبہ کرنا کافی ہے، جی نہیں!، استغفار قومی میدانوں میں بھی بڑے بڑے اجتماعی اور معاشرتی میدانوں میں بھی فائدہ پہنچاتا ہے، بڑے اجتماعی اور معاشرتی میدانوں میں بھی فائدہ پہنچاتا ہے اور اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ہم کو بڑی توفیقات (اس استغفار کے ذریعے) حاصل ہوتی ہیں۔

امام خامنہ ای

12 / اپریل / 2022