داعش کے سر ابھارنے سے لے کر اس کی نابودی تک شام کے بحران نے ایسے بے شمار دردناک جرائم کا مشاہدہ کیا ہے جنھیں داعش اور دیگر تکفیری گروہوں نے انجام دیا ہے۔ بڑی تعداد میں خطے کے بے قصور افراد، تکفیری انتہا پسندی کی بھینٹ چڑھے ہیں۔ ان ہی بھیانک جرائم میں سے ایک الراشدین نامی علاقے میں عام لوگوں کا قتل عام بھی ہے۔ الراشدین، حلب کے مغرب میں واقع ایک علاقہ ہے جو ایک طرف شامی فوج اور اس کی حلیف فورسز اور دوسری جبہۃ النصرہ کی قیادت میں تکفیری دہشت گردوں کے درمیان جنگ کی فرنٹ لائن سمجھا جاتا تھا۔

اپریل 2017 میں فریقین کے درمیان قیدیوں اور محصور خاندانوں کے تبادلے پر اتفاق ہوا۔ فوعہ اور کفریا نامی بستیوں کے مظلوم اور بے قصور عوام دو سال سے پوری طرح دہشت گردوں کے محاصرے میں تھے اور بڑی تعداد میں خواتین، بچے اور عمر رسیدہ افراد، جو استقامت دکھا رہے تھے، اس علاقے میں موجود تھے۔ دونوں بستیوں کے مردوں نے، جو ہر طرف سے مکمل محاصرے میں تھے، تکفیری گروہوں کے حملوں کا پوری شجاعت سے مقابلہ کیا۔ صرف فضائي راستے سے ان کالونیوں کے لوگوں کے لیے غذائي اشیاء، دوائيں اور ضروری چیزیں بھیجی جا سکتی تھیں اور کبھی کبھی تو تیز ہواؤں کی وجہ سے ہوائي جہاز سے پھینکی گئي امدادی اشیاء، مسلح گروہوں کے علاقوں میں جاکر گرتی تھیں۔

15 اپریل 2017 کو طے پایا تھا کہ کچھ دہشت گردوں کی رہائي کے بدلے میں، جنھیں جبہۃ النصرہ گروپ رہا کروانا چاہتا تھا، فوعہ اور کفریا کالونیوں کے تقریبا پانچ ہزار افراد کو، جن میں عورتیں، بچے اور معمر افراد شامل تھے، محاصرے سے آزاد کیا جائے۔ اس تبادلے میں وہ مرد شامل نہیں تھے جو کالونیوں میں رہ کر دفاع کر رہے تھے۔

بسوں کا ایک بڑا کارواں تیار ہوا اور ان پانچ ہزار عورتوں، بچوں اور بزرگوں کو لے کر فوعہ اور کفریا سے باہر نکلا اور الراشدین کے علاقے تک آيا۔ یہاں ایک چیک پوسٹ تھی جو جبہۃ النصرہ کے کنٹرول میں تھی۔ اگر بسوں کا وہ کارواں اس چیک پوسٹ سے گزر جاتا تو ان محفوظ علاقوں میں پہنچ جاتا تو شامی حکومت کے کنٹرول میں تھے۔

75 بسوں کے اس کارواں کی سبھی بسیں پوری طرح بھری ہوئي تھیں اور سیٹوں کے علاوہ سیٹوں کے درمیان کی جگہیں بھی بھری ہوئي تھیں تاکہ ان پانچ ہزار لوگوں کو محفوظ جگہ منتقل کیا جا سکے۔ جب بسوں کا یہ کارواں الراشدین کی چیک پوسٹ پر پہنچا تو وہاں اسے روک دیا گيا تاکہ تبادلے کے باقی بچے کام بھی انجام پا سکیں اور یہ کارواں شامی حکومت کے کنٹرول والے علاقوں میں جا سکے۔ وہاں اس کارواں کو کئي گھنٹے روکا گيا اور پھر ایک انتہائي تلخ اور دردناک واقعہ رونما ہوا۔ دھماکہ خیز مواد سے بھری ہوئي ایک پک اپ وہاں پہنچی اور اس بڑے کارواں میں شامل ہو گئي۔ اس میں بڑی مقدار میں چپس، چاکلیٹس اور مٹھائياں تھیں جن کے بچے شوقین ہوتے ہیں۔ پک اپ کے پچھلے حصے میں یہ چیزیں لدی ہوئي تھیں اور جب وہ وہاں پہنچی تو لاؤڈ اسپیکر سے اعلان کیا گيا کہ بچے آ کر مفت میں یہ چیزیں لے سکتے ہیں۔ گھنٹوں پہلے فوعہ اور کفریا سے نکلے ہوئے اور اس علاقے میں انتظار کرتے کرتے تھکاوٹ کا شکار ہو چکے بچے، بسوں سے نیچے اترے اور اس پک اپ کے پاس پہنچ گئے۔ وہاں بچوں کی ایک بھیڑ لگ گئي۔ اسی وقت تکفیری خودکش بمبار نے اپنی گاڑی کو دھماکے سے اڑا دیا۔ بڑا ہولناک منظر سامنے تھا۔ اس واقعے میں چھوٹے بڑے 150 بچے شہید ہوئے جبکہ 250 زخمی ہوئے۔

یہ بڑا ہی تلخ واقعہ تھا لیکن اس سے بھی زیادہ تلخ ایک دوسرا واقعہ ہوا۔ صرف چھوٹے بڑے بچوں کے شہید اور زخمی ہونے کی بات نہیں تھی بلکہ دھماکے کے بعد کی اس ہنگامہ خیز حالت میں بڑی تعداد میں بچوں، خاص طور پر بڑی لڑکیوں کو اغوا کر لیا گيا اور تکفیریوں نے ایک دوسرا بہیمانہ جرم انجام دیا۔

الراشدین کا علاقہ حلب کے مغرب میں اور ترکیے کے قریب ہے اسی وجہ سے بہت سے زخمیوں کو ترکیے کے اسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا جہاں وہ کچھ عرصے تک رہے۔ اس کے بعد جو رابطے ہوئے اور خود اسلامی جمہوریہ ایران نے شام اور ترکیے کی حکومتوں کے درمیان ثالثی کی حیثیت سے ان زخمیوں اور گمشدہ بچوں کے سلسلے میں جو اقدامات کیے، ان کی وجہ سے کچھ زخمی بچے اپنے گھر والوں کے پاس پہنچا دیے گئے لیکن افسوس کہ اس دن سے لے کر آج تک یعنی چھے سال سے زائد کے عرصے میں بڑی تعداد میں چھوٹی بڑی لڑکیاں اب بھی لاپتہ ہیں۔ یہ شام میں رونما ہونے والے سب سے ہولناک واقعات میں سے ایک ہے۔

افسوس کی بات ہے کہ ان کے بارے میں کچھ بھی معلومات نہیں ہیں اور کسی کو بھی یہ نہیں پتہ کہ یہ لڑکیاں کہاں ہیں؟ وہ شام کی سرزمین میں اور مسلح گروہوں کے کنٹرول والے علاقوں میں ہیں یا انھیں ترکیے پہنچا دیا گيا ہے اور وہاں ان کے ساتھ ناگوار واقعات پیش آئے؟

یہ بات ان کے گھر والوں کے دل میں ایک ناسور بن کر رہ گئي ہے۔ جب کوئي انسان شہید ہوتا ہے تو اسے دفن کرنے کے کچھ عرصے بعد اس کے گھر والوں کو قرار آ جاتا ہے لیکن جب کسی گھر کا کوئي فرد لاپتہ ہو جائے اور اگر وہ لڑکی ہو تو یہ کسی بھی فیملی کے لیے انتہائي دردناک بات ہوتی ہے اور اسے اپنی پوری عمر اسی درد میں گزارنی پڑتی ہے اور اس کا کوئي علاج اور کوئي چارہ بھی نہیں ہوتا۔

شام کے ان ہی غم رسیدہ گھرانوں میں، ایک ماں بیٹی بھی ہیں۔ اس گھر کا مرد شہید ہو چکا ہے اور دو بیٹیاں لاپتہ ہیں۔ اس فیملی کی ماں کو اس کی بیٹی کے ساتھ اس سال محرم میں "حسینیۂ معلیٰ" نامی پروگرام میں مدعو کیا گيا تھا، جہاں دونوں نے اپنی دردناک داستان سنائي۔ پروگرام کے آخر میں دونوں ماں بیٹی نے کہا کہ ان کی دلی آرزو ہے کہ وہ رہبر انقلاب اسلامی سے ملیں۔ ان کی اس درخواست کو قبول کر لیا گيا اور دونوں کو ایک بار پھر دعوت دی گئي اور وہ شام سے ایران پہنچیں تاکہ رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کر سکیں۔ یہ ملاقات  16 اگست 2023 کو ہوئي اور آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے بغور ان کی باتیں سنیں اور ان کے حق میں دعا کی۔