بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الطّیّبین الطّاھرین المعصومین سیّما بقیۃ اللہ فی الارضین.
آپ عزیزوں، نوجوانوں اور بچوں کا یہ بڑا بابرکت، جوش و جذبے سے معمور اور بڑا پرمغز جلسہ ہے۔ شکر گزار ہوں ان افراد کا جنہوں نے یہاں پروگرام پیش کئے، تقریر کی، ترانہ پڑھا، قرآن کی تلاوت کی، اسی طرح پروگرام کے محترم ناظم کا۔
13 آبان مطابق 4 نومبر کی جو تین مناسبتیں ہیں، ان میں دو مناسبتیں ایسی ہیں جن میں امریکیوں نے ملت ایران کو ضرب لگائی اور ایک موقع وہ ہے جب ملت ایران نے امریکیوں پر وار کیا۔ وہ دو مناسبتیں جب امریکہ نے ملت ایران کو چوٹ پہنچائی ان میں ایک 4 نومبر 1964 کو امام خمینی کی جلا وطنی تھی۔ امام خمینی کی جلا وطنی کی وجہ کیپیچولیشن قانون کی امام خمینی کی جانب سے مخالفت تھی۔ کیپیچولیشن ایک سیاسی اصطلاح ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی ملک کے کارکنوں کو کسی دوسرے ملک میں استثنیٰ حاصل ہو۔ یعنی ایران میں اس خائن پہلوی حکومت کے ہاتھوں جو چیز منظور کی گئی وہ یہ تھی کہ امریکی کارکنان کو ایران مین استثنیٰ حاصل ہو جائے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ جو بھی جرم کریں ایران کی عدالتوں کے پاس ان پر مقدمہ چلانے کا اختیار نہ ہو۔ یہ کیپیچولیشن قانون تھا۔ یہ شرمناک ترین قانون ہے۔ یعنی مثال کے طور پر کوئی بدمست امریکی سڑک پر گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے دس لوگوں کو کچل کر مار دے تو ایران کی عدالتوں کو یہ حق نہیں کہ اس شخص پر مقدمہ چلائیں۔ اسے امریکہ بھیجا جائے گا اور اس پر وہاں مقدمہ چلے گا۔ پہلوی حکومت میں اس قانون کو منظوری دی گئی۔ اس قانون کی مخالفت میں ایک آواز اٹھی، ایک بلند آواز، اور وہ آواز امام خمینی کی تھی۔ امام خمینی اٹھ کھڑے ہوئے، تقریر کی، کہا کہ ہم اس قانون کو برداشت نہیں کریں گے۔ (2) اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 4 نومبر کو امام خمینی کو گرفتار کر لیا گيا اور ایران سے جلاوطن کر دیا گيا۔ تو یہ حرکت امریکیوں کی تھی۔ یعنی امریکیوں نے ہم پر وار کیا۔
دوسری چوٹ طلبہ کا قتل عام تھا۔ ملت ایران کی انقلابی تحریک کے اوج کے زمانے میں، یقینا یہ انقلاب صرف پہلوی حکومت کے خلاف نہیں تھا، پہلوی حکومت اور امریکہ دونوں کے خلاف تھا، طاغوتی حکومت کی پولیس نے، شاہ کی پولیس نے اسی تہران یونیورسٹی کے سامنے طلبہ کا قتل عام کیا، گولیاں برسا دیں، متعدد طلبہ کو خاک و خون میں غلطاں کیا۔ یہ بھی 4 نومبر کے دن ہوا۔ یہ دو واقعات ایسے تھے جن میں امریکیوں نے ہم پر، ملت ایران پر وار کیا۔
انقلاب کی کامیابی کے (تقریبا) دس مہینے بعد 4 نومبر 1979 کی تاریخ تھی کہ طلبہ امریکی سفارت خانے کے اندر داخل ہو گئے اور اس سفارت خانے پر قبضہ کر لیا اور اس سفارت خانے کے اسرار اور خفیہ دستاویزات منظر عام پر لے آئے۔ امریکہ بے عزت ہوا۔ یہ ہمارا وار تھا، یہ امریکہ پر ملت ایران کی ضرب تھی۔ یہ تین واقعات ہیں۔
مجھے یہ عرض کرنا ہے: میں کہتا ہوں کہ آپ آج کے نوجوانوں کے پاس مختلف واقعات کا تجزیہ ہونا چاہئے، صرف جذبات کافی نہیں ہیں۔ میں اپنی اس بات کی وضاحت کروں گا۔ خود اسلامی انقلاب کے بارے میں آپ کے پاس تجزیہ ہونا چاہئے، مقدس دفاع کے بارے میں، آٹھ سالہ جنگ کے بارے میں تجزیہ ہونا چاہئے، گوناگوں واقعات جو 1980 کی دہائی میں ہوئے ان کے بارے میں بھی، 1990 کی دہائی میں جو ڈائیورژن ہوئے ان کا تجزیہ آپ کے پاس ہونا چاہئے۔ 2000 کے بعد کی دہائی میں اور 2010 کی دہائی میں جو واقعات رونما ہوئے ان کے بارے میں آپ کے پاس تجزیہ ہونا چاہئے۔ یعنی آپ کو معلوم ہو اور آپ سمجھیں کہ واقعہ کیا تھا، کہاں سے شروع ہوا، اس واقعے کی پشت پر کون تھا، اس واقعے کا نتیجہ کیا نکلا، یہ تجزیہ ہے۔
اب میں ایک موضوع چھیڑنا چاہتا ہوں اور وہ امریکہ سے ہماری مقابلہ آرائی کا موضوع ہے۔ ایک گھنٹا ہو گیا ہے کہ آپ مسلسل امریکہ کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں۔ اس میں تو کوئی شک نہیں، لیکن ماجرا کیا ہے؟ امریکہ سے ہماری مشکل کیا ہے؟ خود امریکی تو ملت ایران سے اپنی دشمنی کی وجہ سفارت خانے پر قبضے کے واقعے کو بتاتے ہیں۔ میں یہ جو بات کہنے جا رہا ہوں یہ ان سرگرمیوں پر توجہ اور ان کی اطلاع کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں جو انجام پا رہی ہیں اور انجام دی جائیں گی۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ عزیز نوجوان اس پر توجہ رکھیں۔ کچھ لوگ انہی کی بات کو (یہاں ملک کے اندر) دہرائيں گے۔ یعنی کیا؟ یعنی کہیں گے: "جناب یہ جو امریکہ ایران پر پابندیاں لگاتا ہے، ایران سے برا برتاؤ کرتا ہے، ایران میں دنگے فساد کرواتا ہے، مشکلات کھڑی کرتا ہے، تو ایران سے امریکہ کی دشمنیوں کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے طلبہ نے جاکر امریکہ کے سفارت خانے پر قبضہ کر لیا تھا۔" یہ بات خود امریکی کہتے ہیں اور وہ لوگ بھی جو ملک کے اندر ان کے پیروکار ہیں، یہی بات دہراتے ہیں۔ میری صدارت کے دور میں بھی امریکہ کے اس وقت کے ایک معروف صحافی نے نیویارک میں میرا انٹرویو کیا۔ اس کا پہلا پوائنٹ یہی تھا کہ ہمارے اور آپ کے اختلافات ہمارے سفارت خانے میں آپ کے گھس جانے اور اس پر قبضہ کر لینے کے واقعے سے شروع ہوئے۔ اس خیال کو ذہنوں میں بٹھانا چاہتے ہیں۔ جبکہ یہ بہت بڑا جھوٹ ہے۔ ماجرا یہ نہیں ہے۔ سفارت خانے کے واقعے سے 26 سال قبل 19 اگست کی بغاوت کا واقعہ ہوا۔ اس زمانے میں تو کوئی سفارت خانے میں داخل نہیں ہوا تھا۔ 1953 میں امریکیوں نے ایران میں ایک خود مختار حکومت کو جو امریکہ کی غلام نہیں تھی، مجرمانہ و ظالمانہ بغاوت کے ذریعے سرنگوں کر دیا۔ یہ امریکیوں کی دشمنی ہے۔ تو اسلامی جمہوریہ، ملت ایران اور اسلامی مملکت ایران سے امریکہ کی دشمنی کا سفارت خانے کے واقعے سے ربط نہیں ہے۔
سفارت خانے سے جو دستاویزات ملے، اسے تو آپ جانتے ہی ہیں، طلبہ نے اندر جاکر دستاویزات نکال لئے، امریکیوں نے بہت سارے دستاویزات پیپر شریڈر مشینوں میں ڈال کر ریزہ ریزہ کر دئے تھے۔ طلبہ نے بڑی محنت سے بیٹھ کر این باریک ریزوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا۔ اس وقت یہ سارے پیپر ستر اسی جلد کتب کی شکل میں موجود ہیں، ان سے ثابت ہو گيا کہ اسلامی انقلاب کامیاب ہونے کے فوری بعد سے ہی امریکی سفارت خانہ ایران کے خلاف سازش اور جاسوسی کا مرکز بن گیا۔ یہاں تک کہ امریکی سفارت خانے کے اندر بغاوت کروانے کی منصوبہ بندی ہوتی تھی کہ اسلامی انقلاب کے خلاف بغاوت کروائی جائے، خانہ جنگی کی منصوبہ بندی کی جاتی تھی۔ کوشش کر رہے تھے کہ ملک کے سرحدی صوبوں میں خانہ جنگی کروا دیں۔ منصوبے بناتے تھے کہ نو تشکیل شدہ انقلابی حکومت کے اندر کیسے دراندازی کریں۔ انقلاب مخالف ذرائع ابلاغ جو ملک کے اندر تھے انہیں مینیج کرتے تھے، گائیڈ کرتے تھے: یہ لکھئے، وہ کہئے، یہ من گڑھت بات پھیلائیے، وہ افواہ پھیلائیے! پابندیاں لگانے کے لئے منصوبہ بندی کرتے تھے۔ یعنی سفارت خانہ انقلاب کے فورا بعد سے ملک کے خلاف اور انقلاب کے خلاف سازش کا مرکز بنا ہوا تھا۔ بنابریں امریکہ کی دشمنی کا جاسوسی کے اس مرکز پر قبضے کے واقعے سے کوئی ربط نہیں ہے۔ اس سے مدتوں پہلے انہوں نے انقلاب کے خلاف اپنی سرگرمیاں شروع کر دی تھیں۔
تو معاملہ اس شکل میں نہیں ہے جو امریکی ظاہر کرتے ہیں، ویسا نہیں ہے جیسا کچھ لوگ سادہ لوحی میں یا دیگر وجوہات کی بنا پر اور الگ الگ نیتوں سے ملک کے اندر پھیلاتے ہیں کہ: "جناب! یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ امریکہ جیسی طاقت اس قدر اسلامی جمہوریہ کے خلاف اقدامات کرتی ہے تو وجہ یہ ہے کہ آپ نے فلاں موقع پر ان کے سفارت خانے پر قبضہ کر لیا تھا۔" نہیں! امر واقعہ یہ نہیں ہے۔ تو امر واقعہ کیا ہے؟ اس بات کو ہم گہرائی سے سمجھ سکیں اس کے لئے ہمیں تھوڑا اور پیچھے جانا ہوگا۔ میں چاہتا ہوں اور میری خواہش ہے کہ آپ نوجوان اور بچے ان مسائل پر توجہ سے اور تفکر کے ساتھ کام کیجئے۔ کیونکہ مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے۔ ملک کو ترقی دلانے والے بازو آپ ہیں۔ ملک آپ کا ہے اور اسے آگے جانا ہے۔ قدرے گہرائی سے ہمیں مسائل کو پرکھنا چاہئے۔
ایران میں مغرب کی دراندازی کا سلسلہ انگریزوں سے شروع ہوا۔ پہلے وہ ایران میں داخل ہوئے۔ البتہ انہوں نے 1800 میں قاجاریہ حکومت کے دور میں دراندازی کی اور رفتہ رفتہ اپنا اثر و رسوخ بڑھاتے گئے۔ انگریزوں کا منصوبہ یہ تھا کہ ایران میں وہی کریں جو انہوں نے ہندوستان میں کیا۔ آپ جانتے ہیں کہ ہندوستان تقریبا ڈیڑھ سو سال برطانیہ کے قبضے میں رہا اور انگریزوں نے اس کی جان نکال لی۔ برطانیہ کی بیشتر دولت ہندوستان پر اس کے استعماری قبضے سے حاصل ہوئی ہے۔ یہ الگ تفصیلی موضوع ہے۔ وہی سب وہ ایران کے ساتھ بھی کرنا چاہتے تھے۔ یعنی پہلے ایک چھوٹی سی جگہ سے شروعات کریں اور پھر بتدریج دائرہ بڑھاتے جائیں۔ ملک کے اقتصادی وسائل پر قابض ہوں اور ملک کے اقتصاد کو اپنے کنٹرول میں لے لینے کے بعد ان کے لئے سیاسی تسلط کا راستہ آسان ہو جائے گا۔ بالکل اسی طرح جیسا انہوں نے ہندوستان میں کیا تھا۔ ہندوستان میں پہلے انہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی قائم کی، اس کے بعد آگے بڑھتے گئے اور ہندستان کا اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ ہندوستان برطانوی سامراج کا حصہ بن گیا۔ تقریبا ڈیڑھ سو سال یہ حالت رہی۔ وہ ایران میں بھی یہی کرنا چاہتے تھے۔ ان کے بالکل شروعاتی کاموں میں ایک تمباکو کو اپنے ہاتھ میں لینے کا واقعہ تھا۔ تنباکو تحریک کا نام تو غالبا آپ نے سنا ہی ہوگا۔ مقصد یہ تھا کہ ایران میں تنباکو کی زراعت اور خرید و فروخت سب برطانیہ کے ہاتھ میں رہے۔ اس زمانے کے حکومتی ادارے، وہ ناصر الدین شاہ کا زمانہ تھا، سمجھ نہیں پائے کہ اس کے کیا نتائج ہوں گے۔ انہوں نے قبول کر لیا۔ میرزا شیرازی، شیعہ مرجع تقلید نے سامرا میں رہتے ہوئے سمجھ لیا کہ اس قضیئے کے پیچھے کیا منصوبہ کارفرما ہے۔ ایک فتوے سے اس ایگریمنٹ کو روک دیا، وہ ختم ہو گیا۔ یہ ان کا پہلا کام تھا، یہ نہیں ہو پایا۔ پے در پے مختلف ایگریمنٹ اسی قسم کے کئے گئے۔ ان میں ایک بڑا اہم یگریمنٹ تھا جو 'وثوق الدولہ ایگریمنٹ' کے نام سے مشہور ہوا۔ 1919 عیسوی میں انگریزوں نے ایران کے اس وقت کے وزیر اعظم (4) کو بھاری رشوت دیکر یہ ایگریمنٹ کروایا۔ 'وثوق الدولہ ایگریمنٹ' معیشت، سیاست، فوج، سسٹم، ایران کی ہر چیز کو انگریزوں کے قبضے میں دے سکتا تھا۔ یہ ایگریمنٹ ہوا لیکن شہید مدرس اس وقت کی (پارلیمنٹ) مجلس شورائے ملی میں اکیلے ہی اس ایگریمنٹ کی مخالفت میں کھڑے ہو گئے، اس کے مضمرات بیان کئے اور اسے کامیاب نہیں ہونے دیا۔ یہ ایگریمنٹ بھی کالعدم ہو گیا۔ دوسرے بھی ایگریمنٹ تھے۔ جیسے روئٹر ایگریمنٹ وغیرہ، ان میں بیشتر ایگریمنٹ علمائے دین نے ختم کئے، کالعدم کروائے، روکے۔
ظاہر ہے بعد میں انگریزوں نے علما سے اپنا انتقام لیا۔ برطانوی حکومت نے جب دیکھا کہ اس طرح کام نہیں چلے گا، ہندوستان میں اس نے جس منصوبے کے تحت کام کیا وہ ایران میں کیاماب نہیں ہوگا تو انہوں نے ایک راہ حل نکالی۔ غور سے سنئے! وہ راہ حل یہ تھی: انہوں نے سوچا کہ ایک ڈکٹیٹر سختگیر اور سو فیصدی پٹھو حکومت ایران میں تشکیل دیں تاکہ انہیں کوئی تشویش نہ رہے اور ایران میں وہ جو بھی کرنا چاہیں خود اسی حکومت کے ذریعے انجام دیں۔ قزاق رضاخان کو انہوں نے تلاش کر لیا۔ اس کو پہچانتے تھے، اسے انہوں نے دریافت کیا تھا۔ رضاخان وہی شخص تھا جس کی انگریزوں کو ضرورت تھی۔ ایسا شخص تھا جو بہت بے رحم، بڑا تند خو، بڑا گستاخ، غیر مہذب، ان پڑھ، علم و دانش سے بے بہرہ، غنڈہ صفت، بے تقوی، بے دین، ایک ایسا شخص انہوں نے تلاش کر لیا۔ قاجاری بادشاہ احمد شاہ کی خامیوں کا فائدہ اٹھایا اور رضا شاہ اور ایک دوسرے شخص، سید ضیاء طباطبائی جسے بعد میں برخاست کر دیا، ان دونوں کے ذریعے ایران میں بغاوت کروا دی۔ رضاخان کو پہلے چیف آف آرمی اسٹاف بنوایا اس کے بعد وزیر اعظم بنوا دیا اور پھر شاہ ایران کے عہدے پر بٹھا دیا۔ وہی سب جو انگریز ایران میں کرنا چاہتے تھے ہو گیا۔
اب سب سے پہلا کام رضاشاہ کے ہاتھوں جو انہوں نے کروایا (وہ یہ تھا کہ) علمائے دین کی صنف کو نشانہ بنایا، عوام کو مرعوب کر دیا۔ عوام کے اندر شدید خوف بٹھا دیا۔ جو کچھ ہمارے ماں باپ اور ہمارے بڑے ہم کو بتاتے تھے اس کے مطابق رضاشاہ کے زمانے میں سانس لینا دشوار تھا۔ خالی کمرے کے اندر بھی کسی کی ہمت نہیں تھی کہ رضاشاہ پر تنقید کرے۔ خالی کمرے میں اگر ایک کنبے کے دو تین افراد ہوں تو بھی کسی کی ہمت نہیں پڑتی تھی! عوام کو اس قدر ہراساں کر رکھا تھا۔ علما کو گوشہ نشینی پر مجبور کر دیا۔ ان کے عمامے اتروا لئے۔ دینی مدارس بند کروا دئے۔ دینی احکامات، جیسے حجاب کی کھلے عام مخالفت کر دی۔ وہ سارے کام جو انگریز ایران میں کروانا چاہتے تھے یعنی مالیاتی و اقتصادی وسائل پر اجارہ داری، وہ سب اس نے انجام دئے۔ وہ جو بھی چاہتے تھے اس نے انجام دیا۔ البتہ یہاں میں اشارہ کرتا چلوں کہ ایک تعداد مغرب زدہ اور مغرب کے مہرے روشن خیالوں کی تھی، البتہ سب مہرے نہیں تھے، کچھ تھے جو مہرے نہیں تھے لیکن مغرب زدہ تھے، مغرب پر فریفتہ تھے، وہ رضاخان کی حکومت پر رنگ و لعاب لگانے کا کام کرتے تھے۔ اللہ کی بارگاہ میں وہ بھی جوابدہ ہیں۔ وہ روشن خیال افراد بھی جن کے نام میں نہیں لینا چاہتا، ملت ایران پر مظالم میں رضاشاہ کے شریک جرم ہیں۔ یہ بھی ہے۔
اب رضا شاہ ہو گیا ایران میں برطانیہ کا ایجنٹ۔ اسی درمیان دوسری عالمی جنگ ہو گئی۔ دوسری عالمی جنگ میں اپنے مزاج کے مطابق وہ جرمنی کی طرف مائل ہو گیا۔ ہٹلر کی نوعیت کے کام اسے بھی پسند تھے۔ اس کا رجحان جرمنوں کی طرف ہو گیا۔ انگریز سمجھ گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ اب یہ کام کا آدمی نہیں رہا۔ اس لئے 1941 میں رضا شاہ کو برخاست کر دیا۔ خود ہی اقتدار میں لائے اور خود انہوں نے ہی برخاست کر دیا۔ اسے معزول کر دیا اور اس کے بیٹے کو طے شدہ شرطوں پر اس کی جگہ پر بٹھا دیا کہ تم یہ کام کرو، اس طرح کام کرو، اس طرح کا برتاؤ رکھو۔ اس نے کہا بہ سر و چشم! یہاں تک کہہ دیا کہ تم فلاں ریڈیو نشریات نہ سننا۔ اس نے کہا جیسا حکم! اس حد تک! تو یہاں تک برطانیہ کا حکم چلا۔
1940 کی دہائی برطانیہ کی طاقت کے تدریجی زوال کی دہائی ہے۔ عوام نے تحریک چلائی، ہندوستان آزاد ہوا۔ کچھ دیگر ممالک بھی افریقا وغیرہ میں آزاد ہو گئے۔ برطانیہ کمزور ہو گیا۔ برطانیہ کی کمزوری کا یہ نتیجہ ہوا کہ امریکہ بیچ میدان میں پہنچ گیا۔ 1940 کی دہائی کے وسط میں امریکہ کے پاؤں ایران میں پڑے۔ پہلے تو بڑی خوش روئی کے ساتھ، نرمی کے ساتھ، ٹرومین فور پوائنٹ پرگرام (5) اور اس طرح کی چیزوں کے ذریعے جن کی تفصیلات زیادہ ہیں۔ یہاں تک کہ بعض مواقع پر انگریزوں کے مخالفین کی آواز میں اپنی آواز ملا دی، ساتھ دیا، کہ نگاہیں اس کی طرف مائل ہوں۔ افسوس کہ وہ بعض سیاسی رہنماؤں کو جو برطانیہ سے لگاؤ نہیں رکھتے تھے اپنی طرف مائل کر لے گیا۔ ایران میں امریکہ کا رویہ ایسا تھا۔ پہلے بڑی نرمی کے ساتھ داخل ہوا اور یہ تاثر پیدا کیا کہ ایران میں اس کے کوئی استعماری عزائم نہیں ہیں۔ یہ سلسلہ اس وقت تک چلا جب ایران میں ایک نیشنلسٹ حکومت آ گئی، مصدق کی حکومت۔ اتفاق سے مصدق اپنی سطحی فکر کے باعث، تساہلی یا سادہ لوحی کے باعث، آپ جو چاہیں اس کو نام دیں، امریکہ کے بارے میں حسن ظن رکھتا تھا۔ مصدق برطانیہ کا مخالف تھا اور امریکیوں کی حمایت کی اسے بڑی امید تھی۔ اغیار کی مدد کی آس میں رہنا یہی ہے۔ جب یہ حکومت بن گئی اور ظاہر ہو گیا کہ یہ تو امریکہ کی تابع نہیں ہے اور تابعدار نہیں ہو سکتی تو امریکیوں نے 19 اگست کی بغاوت کروا دی، حکومت گرا دی اور ایران میں وحشت ناک اقدامات انجام دئے۔
جب امریکیوں کے چہرے سے نقاب اتر گئی اور پتہ چلا کہ یہ ایران کی ہمدرد اور دوست حکومت نہیں ہے، پھر تو انہوں نے جو دل میں آیا کیا۔ امریکیوں نے ملک کی تقدیر اپنے ہاتھ میں لے لی، سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے ملک کو مکمل طور پر اپنا دست نگر بنا لیا۔ صیہونی حکومت کے لئے ایران کے دروازے کھول دئے۔ امریکیوں نے یہ کام کیا۔ صیہونی حکومت کے لئے امریکیوں نے ایران کے دروازے کھول دئے۔(ہولناک خفیہ ایجنسی) ساواک کی تشکیل کی۔ ساواک عوام کے ساتھ، اعتراض کرنے والوں کے خلاف، مخالفین کے خلاف انتہائی بے رحمانہ اقدامات کا مرکز تھی، وہ معمولی سی بھی مخالفت کو بے رحمی سے کچل دینے والی ایجنسی تھی۔ یہ سب امریکی تسلط کے دور میں ہوا۔ یہ 1950 اور 1960 کی دہائی میں ہوا۔ دسیوں ہزار کی تعداد میں امریکی فوجی مشیر ایران لائے گئے اور ان کے بھاری اخراجات ملت ایران کے دوش پر ڈال دئے گئے۔ ہتھیار ان کے ہاتھ میں، ہتھیاروں کی خریداری ان کے ہاتھ میں، کس سے خریدا جائے، کس قیمت پر خریدا جائے، کس طرح اس کی قیمت ادا کی جائے، کس طرح ہتھیاروں کی سپلائی ہو، یہ سب کچھ امریکیوں کے ذمے اور امریکیوں کے ہاتھ میں تھا۔ بدعنوانی پھیلانے کا سلسلہ منصوبہ بندی کے ساتھ جاری تھا۔ یعنی 1950 اور 1960 کی دہائیوں میں، 1960 کے اواخر اور 1970 کی دہائی کے اوائل میں یہ اپنے اوج پر پہنچ گیا۔ اخلاقی بے راہروی امریکہ کی منصوبہ بندی کے ساتھ ایران میں پھیلائی جا رہی تھی کہ نوجوانوں کو کرپشن میں دھکیل دیا جائے۔ ظاہر ہے جب جوان کرپشن مین ڈوب جائے تو اس میں مزاحمت کی قوت باقی نہیں رہتی، استقامت کا جذبہ باقی نہیں رہتا۔ یہ لوگ ایرانی نوجوان کو ناکارہ بنا دینا چاہتے تھے۔ علمی میدان میں پیچھے، ٹیکنالوجی میں پیچھے، اخلاقی بے راہروی میں آگے، ہولناک طبقاتی فاصلہ۔ یہ سب کچھ امریکیوں کے تسلط اور امریکیوں کے گہرے اثر و رسوخ کے زمانے میں ایران میں ہوا۔
اس دشمنی کو جاری رکھا۔ جب انقلابی تحریک زور پکڑ گئی اور انہیں خطرہ محسوس ہونے لگا تو اپنے اقدامات کی رفتار تیز کر دی۔ یہاں تک کہ انقلاب کی کامیابی کو جب محض ایک ہفتہ بچا تھا امریکہ کا ایک بڑا جنرل جس کا نام ہائزر تھا تہران آیا کہ اگر ممکن ہو تو بغاوت کروا دے اور لاکھوں بلکہ دسیوں لاکھ لوگوں کو قتل کروا دے۔ ان کے ارادے ایسے تھے۔ ہایزر یہ کرنا چاہتا تھا۔ البتہ انقلابی تحریک اس منزل پر پہنچ چکی تھی کہ ان کی ساری تدابیر عبث تھیں۔ امام خمینی جیسی ہستی کا عزم راسخ ان کے مقابل تھا۔ وہ بغاوت کروانا چاہتے تھے، مارشل لا کا اعلان کر دیا۔ امام خمینی نے عوام سے کہا سڑکوں پر نکلئے۔ امام خمینی نے مارشل لا کو ناکام کر دیا، ان کا منصوبہ ناکام ہو گیا، وہ شکست کھا گئے۔ ہایزر نے جب دیکھا کہ کوئی فائدہ نہیں ہے تو ایران سے چلا گیا۔ البتہ اگر وہ چار پانچ دن اور رکا ہوتا تو شاید انقلاب کے بعد پھانسی پر لٹکائے جانے والی ابتدائی افراد میں ہوتا۔ اس کی قسمت تھی کہ جلدی بھاگ گیا۔
تو امریکہ اور ایران کا مسئلہ یہ ہے۔ یہ جو آپ کہتے ہیں 'امریکہ مردہ باد' یہ صرف ایک نعرہ نہیں ہے، ایک نظریہ ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے جو میں نے بیان کی۔ امریکیوں نے برسہا برس سے 1940 کے عشرے کے اواسط سے لیکر انقلاب کی کامیابی تک یعنی 1970 کے عشرے کے آخر تک تیس سال ایران میں عوام کے خلاف جو بھی کر سکتے تھے کیا، جیسی چاہتے تھے ضرب لگائی۔ مالی اعتبار سے بھی، اقتصادی اعتبار سے بھی، سیاسی اعتبار سے بھی، سائنسی اعتبار سے بھی اور اخلاقیاتی لحاظ سے بھی۔ انقلاب اس طرح کے حالات میں کامیاب ہوا۔ انقلاب ایسی بد عنوان حکومت اور تخریبی بیرونی غلبے کے مقابلے میں تھا اور توفیق خداوندی سے، ملت ایران کی ہمت و حوصلے سے اور امام خمینی کی قیادت کی برکت سے فتح سے ہمکنار ہوا۔
جو کام ہایزر ایران میں کرنا چاہتا تھا آج وہی کام امریکی غزہ میں انجام دے رہے ہیں۔ ماجرا وہی ہے۔ فلسطین میں وہی کام کر رہے ہیں۔ صیہونی جو مقبوضہ فلسطین پر، مظلوم فلسطین پر حکمرانی کر رہے ہیں، انہیں امریکی حمایت اور پشت پناہی حاصل ہے۔ اگر امریکہ کی حمایت نہ ہوتی، اگر امریکہ کی طرف سے اسلحہ جاتی مدد نہ ملتی تو بد عنوان، جعلی اور جھوٹی صیہونی حکومت پہلے ہفتے میں ہی ختم ہو جاتی، سرنگوں ہو جاتی۔ ان کی پشت پر امریکی ہیں۔ آج غزہ میں جو واقعات ہو رہے ہیں، اگر ان کا بس چلتا تو ایران میں ایسے ہی حالات پیدا کرتے۔ ایک عدیم المثال المیہ ہے۔ تین ہفتے کے اندر تقریبا چار ہزار بچے ان کے ہاتھوں قتل کر دئے گئے! تاریخ میں کہاں ایسی کوئی چیز رونما ہوئی؟ امت اسلامیہ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ماجرا کیا ہے۔ میدان کو بخوبی پہچانے۔ میدان غزہ و اسرائیل (کی مقابلہ آرائی) کا میدان نہیں ہے، حق و باطل کا میدان ہے۔ استکبار و ایمان کا میدان ہے۔ ایک طرف ایمان کی طاقت ہے اور دوسری جانب استکباری قوت ہے۔ البتہ استکباری قوت فوجی دباؤ، بمباری، المیے اور جرائم کے سہارے آگے بڑھتی ہے مگر ایمان کی طاقت توفیق خداوندی سے ان سب پر غلبہ حاصل کر لے گی۔
ہمارے دل خون ہیں ان رنج و آلام پر جن سے فلسطین کے عوام اور خاص طور پر غزہ کے لوگ روبرو ہیں، ہمیں تکلیف ہے۔ لیکن جب بغور جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ میدان میں جو فاتح ہے وہ غزہ کے عوام ہیں، فلسطین کے عوام ہیں۔ وہ بڑے عظیم کام انجام دینے میں کامیاب ہوئے۔ پہلی چیز یہ کہ غزہ کے عوام نے اپنے صبر سے، اپنی استقامت سے، نہ جھکنے کے عزم سے، انسانی حقوق کا جھوٹا نقاب امریکہ، فرانس، برطانیہ وغیرہ کے چہرے سے اتار دیا، انہیں رسوا کر ڈالا۔ غزہ کے عوام نے اپنے صبر سے انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ دیا۔ آج آپ دیکھئے کہ دنیا میں کیا حالات ہیں۔ خود انہی مغربی ممالک میں، برطانیہ میں، فرانس میں، اٹلی میں یہاں تک کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ میں، عوام کثیر تعداد میں سڑکوں پر نکلتے ہیں اور اسرائیل کے خلاف اور بہت سے معاملات میں امریکہ کے خلاف نعرے لگاتے ہیں۔ یہ رسوا ہو گئے۔ ان کے پاس واقعی کوئی چارہ نہیں ہے، وہ (عوام کو) سمجھا نہیں سکتے۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ کوئی احمق نکل کے آتا ہے اور کہتا ہے کہ "برطانیہ میں عوامی اجتماع ایران کروا رہا ہے۔" شاید 'بسیج' (ایرانی رضاکار فورس) کی لندن برانچ یہ کروا رہی ہے، بسیج کی پیرس برانچ نے یہ کروایا ہے! (6) جو کھلی بے شرمی آج مغربی سیاسی رہنما اور مغربی ذرائع ابلاغ کر رہے ہیں اس کا ایک نمونہ یہ ہے کہ فلسطینی مجاہدین کو دہشت گرد کہتے ہیں۔ جو اپنے گھر کا دفاع کرے وہ دہشت گرد ہے؟ جو اپنے وطن کا دفاع کر رہا ہے وہ دہشت گرد ہے؟ جب جرمنوں نے دوسری عالمی جنگ میں آکر پیرس پر قبضہ کر لیا تھا اور پیرس کے لوگ جرمنوں کے خلاف لڑ رہے تھے، تو کیا فرانسیسی جانباز دہشت گرد تھے؟ کیسے وہ جانباز سپاہی ہو گئے اور فرانس کے مایہ ناز افراد بن گئے، جبکہ حماس کے جوان اور جہاد اسلامی کے جوان دہشت کرد ہیں؟! بے شرم لوگ! غزہ کے عوام اور فلسطینی مجاہدین نے دنیا کے جھوٹوں کو بے نقاب کر دیا۔
طوفان الاقصی آپریشن سے جو بڑے اہم کام ہوئے ان میں ایک یہ تھا کہ اس نے دکھا دیا کہ کیسے ایک چھوٹا سا گروہ، ان (دشمنوں) کے مقابلے میں یہ لوگ ظاہر ہے بہت کم ہیں، ان کی تعداد کم ہے، بہت محدود وسائل و ذرائع کے ساتھ مگر ایمان اور عزم راسخ کے سہارے کیسے دشمن کی برسوں کی مجرمانہ کوششوں کے تمام نتائج کو چند گھنٹوں کے اندر مٹی میں ملا سکتا ہے، ہوا میں اڑا سکتا ہے، دنیا کی متکبر و استکباری حکومتوں کو حقیر ثابت کر سکتا ہے۔ فلسطینیوں نے غاصب صیہونی حکومت کو بھی اور غاصب حکومت کے حامیوں کو بھی حقیر ثابت کر دیا، اپنے عمل سے، اپنی شجاعت سے، اپنے اقدام سے اور آج اپنے صبر کے ذریعے۔ یہ بہت بڑا سبق ہے۔ البتہ (صیہونیوں کے) ان جرائم نے پوری انسانیت کو ہلا کر رکھ دیا، سب لرز اٹھے۔
یہ میں نے چند روز قبل بھی کہا (8) اور آج پھر دہراتا ہوں کہ اسلامی دنیا سے اس سے زیادہ توقعات ہیں۔ اسلامی حکومتیں جان لیں کہ اگر آج فلسطین کی مدد نہ کی، جو بھی جس طرح بھی ممکن ہے مدد کرے، تو فلسطین کے دشمن کو، اسلام کے دشمن کو اور انسانیت کے دشمن کو گویا انہوں نے تقویت پنچائی ہے۔ کل یہی خطرہ ان کے سر پر منڈلائے گا۔ اسلامی حکومتوں کو جس چیز پر سختی سے زور دینا چاہئے وہ ان جرائم کا فورا بند کیا جانا ہے جو غزہ میں ہو رہے ہیں۔ یہ بمباری فوری طور پر رکنی چاہئے۔ صیہونی حکومت کو تیل اور ضروری اشیاء کی سپلائی بند کر دیں۔ اسلامی حکومتیں صیہونی حکومت کے ساتھ اقتصادی تعاون نہ کریں، سارے عالمی اداروں میں بلند آواز میں ان جرائم کی، ان المیوں کی، بغیر ہچکچائے، بلا تامل مذمت کریں۔ ایسا نہ ہو کہ کسی اسلامی اجتماع میں یا عرب اجتماع میں جو چند افراد بیان دیں وہ بھی مبہم باتیں کریں، ہچکچاتے ہوئے بیان دیں۔ انہیں چاہئے دو ٹوک انداز میں بولیں۔ واضح ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ صیہونی حکومت کی مذمت کی جانی چاہئے۔ ساری دنیائے اسلام کو چاہئے کہ صیہونی حکومت کے خلاف متحد ہو جائے۔
البتہ صیہونی حکومت کو جو ضرب پڑی ہے وہ ناقابل تلافی ہے۔ یہ میں شروع میں بھی کہہ چکا ہوں، ایک بار پھر تاکید کے ساتھ کہتا ہوں، دوہراتا ہوں۔ رفتہ رفتہ خود صیہونی حکومت کے افراد کے بیانوں میں بھی یہ نظر آنے لگا ہے کہ جو ضرب ان پر پڑی ہے، ایسی ضرب نہیں ہے جس کی بھرپائی کی جا سکے، اس کا تدارک نہیں کر سکتے۔ صیہونی حکومت لاچار ہوکر رہ گئی ہے، سرگرداں ہے، خود اپنے عوام سے جھوٹ بول رہی ہے۔ یہ جو فلسطینیوں کے قبصے میں موجود اپنے قیدیوں کے بارے میں اظہار تشویش کر رہے ہیں، یہ در اصل اپنے عوام سے بھی جھوٹ بول رہے ہیں۔ یہ دروغ گوئی اپنی لاچارگی کی وجہ سے کر رہے ہیں۔ اس وقت صیہونی حکومت متحیر ہے، لاچار ہو گئی ہے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کیا کرے۔ وہ جو بھی کر رہی ہے سراسیمگی میں کر رہی ہے۔ یعنی سمجھ ہی نہیں پا رہی ہے کہ کیا کرے۔ اگر امریکہ کی مدد نہ ہوتی اور نہ رہے تو طے ہے کہ چند دن میں وہ مفلوج ہو جائے گی۔
دنیائے اسلام یہ نہ بھولے کہ اس اہم اور فیصلہ کن مسئلے میں اسلام کے مقابل، ایک مسلم قوم کے مقابل، مظلوم فلسطین کے مقابل جو کھڑا ہوا ہے وہ امریکہ ہے، فرانس ہے، برطانیہ ہے۔ یہ دنیائے اسلام فراموش نہ کرے، اسے سمجھے! اپنے لین دین میں، اپنے معاملات میں، اپنے تجزیوں میں یہ نہ بھولے کہ کون کھڑا ہے اور ان مظلوم عوام اور مظلوم قوم پر ظلم کر رہا ہے۔ یہ صرف صیہونی حکومت نہیں ہے۔
البتہ ہمیں شک نہیں کہ "اِنَّ وَعدَ اللہ حَق» اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ وَ لا یَستَخِفَّنَّکَ الَّذینَ لا یوقِنون۔ (9) جن لوگوں کو اللہ کے وعدے پر یقین نہیں ہوتا وہ اپنی بد گمانیوں سے آپ کو متزلزل نہ کر دیں، آپ کا ارادہ کمزور نہ کر دیں۔ ان شاء اللہ حتمی فتح جو زیادہ دور نہیں، فلسطین کے عوام اور فلسطین کی ہوگی۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1) اس ملاقات کے آغاز میں تین طلبہ نے ملکی امور اور غزہ کے حالات کے سلسلے میں چند اہم نکات بیان کئے۔
2) صحیفہ امام جلد 1 صفحہ 415 عوامی اجتماع سے خطاب مورخہ 26 اکتوبر 1964
3) میرزا حسن خان وثوق الدولہ
4) ٹرومین پوائنٹ فور پروگرام امریکہ کے صدر ہیری ٹرومین کی تقریر کے چوتھے پوائنٹ کی طرف اشارہ کرتا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ مالدار ممالک کی ایک اخلاقی ذمہ داری غریب ممالک کی مدد کرنا ہے۔
5) حاضرین کی ہنسی
6) فلسطینی مزاحمتی تنظیموں نے سنیچر 7 اکتوبر 2023 کو طوفان الاقصی نام سے بہت بڑا آپریشن شروع کیا اور چند گھنٹوں میں ہی بڑی تعداد میں صہونیوں کو ہلاک اور قید کر لیا۔
7) صوبہ لرستان کے شہدا پر قومی سیمینار کے منتظمین سے خطاب 25 اکتوبر 2023
8) سورہ روم آیت نمبر 60 کا ایک حصہ