اس ملاقات میں انھوں نے بعثت نبوی کو دنیوی و اخروی سعادت کا سبب بتایا اور غزہ کے تلخ واقعے اور صیہونی حکومت کے جرائم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کی مصیبت، انسانیت کی مصیبت ہے اور یہ دکھاتی ہے کہ موجودہ عالمی نظام پوری طرح سے باطل ہے جو جاری نہیں رہ سکتا اور ختم ہو کر رہے گا۔
انھوں نے ایرانی قوم اور تمام مسلمانوں کو عید بعثت کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے بعثت نبوی کو تاریخ انسانیت کا سب سے مبارک اور سب سے عظیم واقعہ قرار دیا اور کہا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت سے انسان کی دنیوی و اخروی سعادت کا مکمل، حتمی اور دائمی نسخہ بعثت نبوی میں پیش کیا گيا۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے بے راہ روی، انحراف اور جاہلیت سے بھرے تاریک ماحول میں بعثت نبوی کے رونما ہونے اور اس وقت کی دنیا کے تمام بڑے تمدنوں میں انحراف و زوال کی تمام نشانیوں کے ظہور کو ایک غیر معمولی واقعہ بتایا اور کہا کہ بعثت کا مقصد، تنگ مادی ڈھانچے میں محصور انسان کے لیے عالَم غیب اور الوہیت یعنی ایمان اور انسان کے تزکیے یا دوسرے الفاظ میں اس کی کمیوں، برائيوں اور باطل کو دور کر کے اس کے عروج کے لیے راستہ کھولنا ہے۔
انھوں نے قرآن مجید کی آیتوں کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت اور دعوت توحید کو ہر زمانے کے لیے ایک پائدار حقیقت بتایا اور کہا کہ اس وقت بھی پیغمبر اکرم تعلیم و تزکیے کی حالت میں ہیں یعنی جیسے انھوں نے اُس وقت کے لوگوں کو بتوں سے دوری کی دعوت دی تھی، ان کی وہ دعوت اور خطاب آج بھی قائم ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی انقلاب کے وقوع پذیر ہونے کو عوام کی جانب سے بعثت کے پیغام اور اسی طرح امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی دعوت پر لبیک کہے جانے کا نتیجہ قرار دیا اور کہا کہ آگے چل کر بھی ہمارے عوام نے خداوند عالم کے فضل و کرم سے صحیح راستے پر چلنا جاری رکھا اور جب تک پیغمبر کی دعوت پر لبیک کہی جاتی رہے گی، تب تک ترقی و پیشرفت جاری رہے گي جو صرف معنوی اور اخروی پیشرفت نہیں ہے اور دنیوی اور اخروی زندگی کے بہترین نمونے کو حاصل کیا جا سکے گا۔
انھوں نے اپنے خطاب کے ایک دوسرے حصے میں غزہ کے مصائب جاری رہنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، غزہ کے مصائب کو عالم اسلام بلکہ پوری انسانیت کے مصائب اور موجودہ عالمی نظام کے ناکارہ پن کی نشاندہی کرنے والا بتایا اور کہا کہ آج امریکا، برطانیہ، بہت سے یورپی ممالک اور ان کے پٹھو ممالک صیہونی حکومت کے مجرم اور خون آلود ہاتھوں کی حمایت میں کھڑے ہیں اور اسی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ موجودہ عالمی نظام ناکارہ ہے، جاری نہیں رہ سکتا اور ختم ہو کر رہے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسپتالوں پر بمباری اور غزہ کے تقریبا تیس ہزار لوگوں کے قتل عام کو مغربی ثقافت و تمدن کی رسوائي اور فضیحت کا باعث بتایا اور کہا کہ ان جرائم کے پیچھے امریکا کا پیسہ، ہتھیار اور سیاسی امداد ہے اور جیسا کہ خود صیہونیوں نے اعتراف کیا ہے وہ امریکی ہتھیاروں کے بغیر ایک دن بھی جنگ جاری نہیں رکھ سکتے تھے، بنابریں امریکا بھی غزہ کے معاملے میں مجرم اور اس واقعے کا ذمہ دار ہے۔
انھوں نے غزہ کے معاملے سے دنیا کی بڑی طاقتوں اور مغربی حامیوں کے الگ ہو جانے کو اس بحران کے خاتمے کی راہ حل بتایا اور کہا کہ فلسطینی مجاہدین خود ہی میدان جنگ کو کنٹرول کرنے کی طاقت رکھتے ہیں جیسا کہ انھوں نے آج تک میدان جنگ کو کنٹرول کیا ہے اور ان کو کوئی بڑا نقصان نہیں پہنچا ہے۔
آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ حکومتوں کی ذمہ داری، صیہونی حکومت کی سیاسی، تشہیراتی اور عسکری امداد بند کرنا اور اس حکومت کو اشیائے صرف کی ترسیل روک دینا ہے، کہا کہ اقوام کی ذمہ داری اس بڑی ذمہ داری کو انجام دینے کے لیے حکومتوں پر دباؤ ڈالنا ہے۔
اس ملاقات کے آغاز میں صدر مملکت حجۃ الاسلام و المسلمین سید ابراہیم رئيسی نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ پیغمبر اکرم کی دعوت توحید، فکر، عدل اور الہی اقدار کی دعوت کے ہمراہ تھی۔ 
انھوں نے کہا کہ غزہ میں نسل کشی اور بچوں کے قتل عام نے مغربی طاقتوں کے انسانی حقوق کے تمام تر دعووں کی قلعی کھول دی اور یہ چیز عالمی اداروں کی نااہلی کی واضح علامت بھی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں پورا یقین ہے کہ غزہ اور فلسطین کے شہیدوں کا خون، صیہونی حکومت اور موجودہ غیر منصفانہ عالمی نظام کے خاتمے پر منتج ہوگا۔