بسم اللہ الرحمن الرحیم

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.

عزیز جوانو! خوش آمدید! برادران و خواہران عزیز اور خاص طور پر اس نشست میں موجود شہیدوں کے محترم اہل خانہ، آپ سب کی خدمت میں خیر مقدم عرض کرتا ہوں۔ یہ نشست، دراصل نوجوانوں کی نشست ہے، جوانوں کے پاکیزہ اور شفاف دلوں کی فضا ہے۔

میری پہلی بات، میری پہلی گزارش یہ ہے کہ آپ نوجوان اپنی جوانی کی روح کی پاکیزگي کے موقع سے فائدہ اٹھائیے اور شعبان کے مہینے کے ان مبارک ایام میں اور اس کے بعد ماہ رمضان میں اپنے آپ کو خداوند عالم سے زیادہ قریب کیجیے، خدا سے انس حاصل کیجیے، خدا سے مانگيے، خدا پر توکل کیجیے۔ ماہ شعبان کے اب کچھ ہی دن بچے ہیں، اس مہینے کے زیادہ تر ایام گزر چکے ہیں۔ دعا کا مہینہ، مناجات کا مہینہ، استغفار کا مہینہ، شعبان اس طرح کا مہینہ ہے۔ ان باقی بچے کچھ ایام کے لیے آپ عزیز نوجوانوں کو، چاہے وہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں، تاکید کے ساتھ میری نصیحت یہ ہے کہ دعاو استغفار اور صلوات سے غفلت نہ برتیے۔ دعا، پروردگار عالم سے آپ کے انس کو بڑھا دیتی ہے، خداوند متعال سے آپ کے رابطے کو مضبوط بناتی ہے، دعا و مناجات اس طرح کی ہوتی ہے۔ جب ہم استغفار کرتے ہیں تو در حقیقت استغفار کا مطلب یہ ہے کہ ہم خطا و تقصیر سے واپسی کی راہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ ہم سب نے خطائيں کی ہیں، غلطیاں کی ہیں، گناہوں کا ارتکاب کیا ہے، استغفار کا مطلب ان خطاؤں اور گناہوں سے واپسی کے راستے کا انتخاب ہے اور ماہ شعبان میں استغفار پر بہت زیادہ تاکید کی گئي ہے۔ آپ کہتے ہیں "استغفر اللہ و اتوب الیہ" اتوب الیہ کا مطلب ہے میں خدا کی طرف لوٹتا ہوں، خطا اور گناہ کی وجہ سے میں خدا سے دور ہو گيا تھا، اب میں خداوند متعال کی طرف واپس لوٹ رہا ہوں اور خدا اس واپسی کو قبول کرتا ہے۔ محمد و آل محمد پر درود بھیج کر اور صلوات بھیج کر درحقیقت ہم سب سے اچھے انسانی آئيڈیلز کی یاد کو اپنے ذہن میں زندہ کرتے ہیں۔ یہ عظیم ہستیاں، سب سے اچھے انسان اور پروردگار کی سب سے اچھی مخلوق تھیں۔ ان کی زندگي، ان کا درس، ان کی باتیں، ان کا کردار ہمارے لیے آئيڈیل ہے، وہ نمونۂ عمل ہیں۔ جب ہم صلوات بھیجتے ہیں تو دراصل ان کی یاد کو اپنے دل میں زندہ کرتے ہیں۔ تو یہ چیزیں مغتنم ہیں۔

یہ دعائيں جو آئي ہیں اور جنھیں ہم دعائے ماثورہ کہتے ہیں، دعائے ماثورہ یعنی وہ دعائيں جو ائمہ علیہم السلام سے منقول ہیں، ان سے ہم تک پہنچی ہیں جیسے صحیفۂ سجادیہ اور مفاتیح الجنان کی اکثر دعائيں، یہ صرف چاہنے اور مانگنے پر مبنی نہیں ہیں، صرف طلب کرنے اور خدا سے رابطے پر بھی مبنی نہیں ہیں، وہ اس سے بھی بالاتر ہیں۔ یہ دعائيں، الہی تعلیمات سے معمور ہیں۔ اعلی مضامین اور بلند اسلامی تعلیمات ان دعاؤں میں ہیں۔ ان دعاؤں میں ایسی ایسی باتیں ہیں جنھیں آپ کہیں اور تلاش نہیں کر سکتے۔ عرفے کے دن امام حسین علیہ السلام کی دعا میں، صحیفۂ سجادیہ کی دعاؤں میں، مناجات شعبانیہ میں، ایسے ایسے مضامین ہیں، ایسی ایسی الہی تعلیمات ہیں جو انسان کو کہیں اور نہیں ملیں گی۔ دعاؤں سے انسیت، مسلمان اور مومن کی معرفت کو بڑھا دیتی ہے، یہ بہت مغتنم ہے۔ بنابریں ہماری پہلی عرض یہ ہے کہ اپنے دلوں کو نورانی بنانے کے موقع کو، کہ آپ کے دل نورانی ہیں، پاکیزہ ہیں، بہت مغتنم سمجھیے۔ ماہ شعبان کے موقع کو اور ماہ رمضان کے موقع کو جو آنے والا ہے اور دوسرے تمام مواقع کو، دعا کرنے کے لیے، استغفار کرنے کے لیے، اللہ اور اس کے اولیاء سے توسل کرنے کے لیے غنیمت سمجھیے۔ یہ آپ سے ہماری پہلی گزارش ہے۔

اگلی بات، جسے آپ حاضرین اور پوری ایرانی قوم سے عرض کرنا میرے لیے لازمی ہے، انتخابات کا مسئلہ ہے، البتہ انتخابات کے بارے میں، میں نے بھی باتیں کی ہیں اور دوسروں نے بھی کی ہیں، ساتھ ہی بحمد اللہ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ نوجوان، مختلف مراکز میں، یونیورسٹیوں میں اور سڑکوں پر باتیں کرتے ہیں، بحث کرتے ہیں لیکن میں آج اس سلسلے میں بھی کچھ باتیں عرض کروں گا۔

بحمد اللہ پورے ملک میں مختلف مقامات پر انتخابی جوش و جذبہ دکھائي دے رہا ہے۔ انتخابی رجحان اور انتخابی جذبہ پوری طرح سے نمایاں ہے۔ ہمیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اچھی اور پسندیدہ بات تو یہ ہے کہ انتخابات، صرف یہی انتخابات نہیں جو دو دن بعد(2) ہونے والے ہیں بلکہ ملک کے سارے ہی انتخابات، بھرپور طریقے سے اور پوری قوت سے منعقد ہوں، کس لیے؟ آپ نوجوان، دلیل کو ماننے والے ہیں، مجھے واقعی خوشی ہے کہ میں یہ دیکھتا ہوں کہ انقلاب کے بعد ہمارے نوجوانوں نے استدلال کی طرف رجحان اور تحقیق و دقت نظر کی طرف رجحان کے لحاظ سے کئي گنا پیشرفت کی ہے۔ میں، انقلاب سے پہلے بھی نوجوانوں سے گھلا ملا رہتا تھا، ہماری ساری نشستیں نوجوانوں والی ہوتی تھیں، میں نوجوانوں کی پوری شناخت رکھتا تھا۔ انقلاب کے بعد سوال، جستجو، تجسس، تحقیق، سچائی کی پرکھ کا جذبہ نوجوانوں میں کئي گنا بڑھ گيا ہے اور یہ بہت اچھی چیز ہے، مطلب یہ ہے کہ نوجوان مختلف میدانوں میں جوش و جذبے سے کام لینے کے ساتھ ہی، دلیل کو ماننے والا بھی ہے، منطق کو سمجھنے والا بھی ہے۔ یہی ہمارے شہداء، جن میں سے اکثر آپ جیسے ہی نوجوان تھے، یعنی مقدس دفاع کے زمانے کے اور اسی طرح دفاع حرم کے زمانے کے زیادہ تر شہداء، بیس پچیس سال کے یا زیادہ سے زیادہ تیس پینتیس سال کے تھے۔ جوش کے ساتھ، جذبات کے ساتھ، ہیجان کے ساتھ جنگ کے میدانوں کی طرف گئے۔ ان کا ذہن تیز تھا، ان کی سوچ کام کرتی تھی، ان کے پاس منطق تھی، ان کے پاس دلیل تھی، اگر آپ ان کی سوانح حیات پڑھیں تو یہ باتیں محسوس کریں گے، وہ دلیل کے ساتھ آگے بڑھتے تھے۔ آج ہمارے جوان اسی طرح کے ہیں۔ میں اس سلسلے میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔

سب سے پہلے تو یہ کہ اگر ہم ایک جملے میں پرجوش اور مضبوط انتخابات کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہیں تو ہمیں کہنا ہوگا کہ مضبوط اور پرجوش انتخابات، ملک کو صحیح انتظام و انصرام کے ارکان میں سے ایک ہے، جس کے بارے میں، میں اپنی گفتگو کے دوران اجمال سے کچھ عرض کروں گا، یہ ملک کی پیشرفت کے اصلی ارکان میں سے ایک ہے، پیشرفت کی رکاوٹوں کو دور کرنے کے اہم ترین وسائل میں سے ایک ہے، مضبوط انتخابات میں یہ خصوصیات ہوتی ہیں۔

چونکہ آپ نے وہ زمانہ نہیں دیکھا ہے، اس لیے میں پہلے یہ نکتہ آپ نوجوانوں سے عرض کروں کہ یہ بیلیٹ باکس، یہ انتخابات آسانی سے ہمارے ملک اور ہماری قوم کے درمیان نہیں آئے ہیں، پہلے یہ باتیں ہی نہیں تھیں، ایسا کوئي راستہ ہی نہیں تھا۔ ایک عرصے تک مکمل آمریت تھی، اس کے بعد جب ظاہر طور پر انتخابات ہونے لگے تھے، تب وہ دکھاوے کے اور نمائشی انتخابات تھے، یعنی وہ کھوکھلے تھے، مطلب یہ کہ دربار میں یہاں تک کہ بعض غیر ملکی سفارتخانوں میں فہرستیں تیار ہو جاتی تھیں اور وہ فہرستیں دے کر کہتے تھے کہ یہ افراد رکن پارلیمنٹ بننے چاہیے! یہ وہ باتیں ہیں جو ہم نہیں، وہ خود کہتے ہیں۔ البتہ ہم اس وقت بھی یہ بات جانتے تھے، انقلاب سے پہلے کے زمانے میں ہمیں معلوم تھا کہ ووٹنگ اور انتخابات وغیرہ کا کیا مطلب ہے لیکن انقلاب کے بعد خود انھوں نے اعتراف کیا، اپنی کتابوں میں لکھا۔ یہ چیز کہ لوگ پورے محرکات کے ساتھ، شناخت کے ساتھ، ایمان کے ساتھ، توقع کے ساتھ اور امید کے ساتھ جائيں اور ووٹ ڈالیں، یہ آسانی سے ہاتھ نہیں آئی ہے، اس کام کے لیے ملک میں بہت زیادہ مجاہدت کی گئي ہے۔ اس مجاہدت کی شروعات، آئینی تحریک کے بعد سے ہوئي ہے لیکن زیادہ تر مجاہدت اور جدوجہد، امام خمینی رحمت اللہ کی تحریک میں اور اسلامی تحریک میں ہوئي جس میں عوام، امام خمینی کے پیچھے پیچھے چلے اور اس راہ کو طے کیا۔ سنہ 1962 سے لے کر کہ جب جدوجہد شروع ہوئي، 22 بہمن 1357 ہجری شمسی (11 فروری 1979) تک کہ جب انقلاب کامیاب ہوا اور یہ جدوجہد نتیجے تک پہنچی، ان سولہ برسوں میں ملک میں بہت زیادہ کوششیں ہوئيں، بہت زیادہ کام کیے گئے، لوگ جیلوں میں گئے، ایذائيں برداشت کیں، لوگوں سے حقائق بیان کرنے کا جہاد کیا گيا تاکہ اس کی راہ ہموار ہو سکے۔ سنہ 1978 سے عوام کی عمومی تحریک شروع ہوئي، امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے قدم بہ قدم اس تحریک کی قیادت کی، رہبری کی، درس دیے، سکھایا کہ کہاں آگے بڑھنا ہے، کیا کرنا ہے، کیا کہنا ہے، وہ حقیقی معنی میں "رہبر" تھے۔

انقلاب کے رہبر، امام خمینی رحمت اللہ علیہ اور جو بھی اس کا مدعی ہو، اس کا کام، دل کا کام ہے، فکر اور مغز کا کام ہے، وہ لوگوں کے دل اور ان کے افکار پر اثر ڈالتا ہے اور امام خمینی نے اثر ڈالا، لوگ میدان میں آئے یہاں تک کہ انقلاب کامیاب ہو گیا۔ اگر آپ نے انقلابوں کی تاریخ پڑھی ہوگي یا پڑھیں، البتہ افسوس کہ آج کے نوجوان کتابیں کم ہی پڑھتے ہیں، آپ کو اس سے زیادہ کتابیں پڑھنی چاہیے، ان علاقائی اور عالمی انقلابوں کی تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو دیکھیں گے کہ جب انقلاب آتا ہے تو ایک عرصے تک انقلابی آمریت کی حکمرانی ہوتی ہے یعنی عوام اور ووٹ وغیرہ کی کوئي بات ہی نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر فرانس میں اٹھارویں صدی کے آخر میں انقلاب آتا ہے، لوگوں نے انقلاب برپا کیا، وہ سڑکوں پر آئے اور انھوں نے جدوجہد کی لیکن انقلاب کے بعد ایک چھوٹے سے گروہ نے تمام امور کی زمام اپنے ہاتھ میں لے لی، تین چار سال تک وہ گروہ رہا، اس کے بعد ایک دوسرا گروہ آیا اور اس نے پہلے والے گروہ کا قلع قمع کر دیا، اسے کنارے لگا دیا، چار پانچ سال تک دوسرا گروہ رہا پھر ایک دوسرا گروہ آ گيا اور اس نے ان کا قلع قمع کر دیا، تقریبا دس بارہ سال تک یہی صورتحال جاری رہی اس کے بعد نیپولین سامنے آ جاتا ہے اور ان سب کو ختم کر دیتا ہے اور اپنی الگ آمریت قائم کر دیتا ہے، الیکشن کی کوئي بات ہی نہیں۔ اس سے بھی بری صورتحال سوویت انقلاب کی ہے۔ یہ دو انقلاب ہماری قریبی تاریخ کے سب سے اہم انقلاب ہیں۔

لیکن ایران میں 11 فروری کو انقلاب کامیاب ہوا، اس کے تقریبا پچاس دن بعد 12 فروردین (پہلی اپریل) کو امام خمینی نے عمومی استصواب رائے یا ریفرنڈم کا اعلان کر دیا تاکہ عوام اپنے ملک کے نظام کی نوعیت کا تعین کریں اور انھوں نے کیا، مطلب یہ کہ وہ فورا ہی عوام کو بیلیٹ باکس تک لے آئے، عوام پر اعتماد کا مطلب یہ ہے، بیلیٹ باکس کی اہمیت کا مطلب یہ ہے، فاصلہ بالکل نہیں آنے دیا۔ اس کے تقریبا ایک سال بعد ہی آئین کے لیے ماہرین اسمبلی کا الیکشن ہوا۔ اس کے بعد جو آئين پارلیمنٹ سے نکلا تھا اس پر ووٹنگ ہوئي جو اگلا الیکشن تھا، اس کے بعد صدارتی الیکشن ہوا، پھر پارلیمانی انتخابات ہوئے، ایک سال کے اندر کئي انتخابات ہوئے۔ یہ سب انقلاب کی برکتیں ہیں، انقلاب سے پہلے اس طرح کی کوئي بات ہی نہیں تھی۔ لوگوں نے جا کر ووٹ دیا، کچھ لوگ حامی تھے، کچھ مخالف تھے۔ بعض انتخابات بہت پرجوش اور بھرپور مشارکت کے ساتھ تھے، بعض میں مشارکت کچھ کم تھی لیکن لوگوں نے ووٹ ڈالا۔ میرے عزیزو! جان لیجیے کہ یہ الیکشن، بیلیٹ باکس، آپ کا انتخاب، آپ کا ووٹ، آپ کا دخیل ہونا ایسی چیز ہے جو آسانی سے ہاتھ نہیں آئي ہے، اسے بڑی زحمتوں سے حاصل کیا گيا ہے، جدوجہد کر کے حاصل کیا گيا ہے، بڑی بڑی قربانیاں دے کر حاصل کیا گيا ہے، قوم کی اجتماعی کوششوں سے حاصل کیا گيا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ہم الیکشن میں عوام کی شرکت پر کیوں زور دیتے ہیں؟ بعض لوگ تھے، شاید اب بھی ہوں جو یہ کہیں کہ جناب! کوئي الیکشن ہوتا ہے، کچھ لوگ شرکت کرتے ہیں، پھر ایک حکومت اقتدار میں آ جاتی ہے یا ایک حکومت یا ایک پارلیمنٹ اپنے کام کرتی ہے، ہمارا ماننا ہے کہ نہیں، الیکشن، بھرپور اور پرجوش طریقے سے منعقد ہونا چاہیے، اس میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شرکت کرنی چاہیے، کیوں؟ اس لیے کہ میدان میں لوگوں کی موجودگي، انتخابات میں ان کی بھرپور شرکت، ملک کا انتظام چلانے کے اہم میدانوں میں قوم کی موجودگي کی علامت ہے، یہ ملک کے لیے ایک عظیم ثروت ہے۔

اگر ہم دنیا سے یہ کہہ سکیں، میں عرض کروں گا کہ "دنیا" کا مطلب کیا ہے، یہ دکھا سکیں کہ ہماری قوم ملک کے اہم اور فیصلہ کن میدانوں میں موجود ہے تو گویا ہم نے ملک کو نجات دلائي ہے، ملک کو آگے بڑھایا ہے۔ یہ جو میں نے کہا کہ "اگر ہم دنیا کو دکھا سکیں" تو کس کو دکھا سکیں؟ دنیا کے بہت سے لوگوں اور بہت سی اقوام کو ہم سے کوئي مطلب نہیں ہے، ان کے لیے اس کی کوئي اہمیت نہیں ہے لیکن کچھ حکومتیں ہیں، دنیا میں ایسی پالیسیاں ہیں جو پوری طرح سے ایران کے مسائل، ایران اسلامی، اسلامی جمہوریہ اور اس وطن عزیز کے مسائل پر نظر رکھے ہوئے ہیں تاکہ یہ دیکھیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ امریکا، یورپ پر غالب پالیسیاں، صیہونی پالیسیاں، دنیا کے بڑے سرمایہ داروں اور بڑی کمپنیوں کی پالیسیاں، مختلف وجوہات سے، جن کی تشریح کی یہاں گنجائش نہیں ہے اور جن میں سے زیادہ تر کو آپ جانتے ہیں، بہت سی وجوہات کو ہم نے بیان کیا ہے، ایران کے داخلی مسائل پر نظریں جمائے ہوئے ہیں، وہ دیکھنا چاہتی ہیں کہ یہاں کیا ہوتا ہے۔ یہ جو دنیا کے سیاسی مبصرین کی بات ہم نے کی، وہ سب سے زیادہ عوام کی بھرپور موجودگی سے خائف ہیں، عوامی طاقت سے خوفزدہ ہیں، کیوں؟ اس لیے کہ وہ عوامی طاقت کو دیکھ چکے ہیں۔ وہ دیکھ چکے ہیں کہ اگر قوم میدان میں اتر پڑے تو یقینا مشکل پر غلبہ حاصل کر لے گی، جیسا کہ اسلامی انقلاب میں قوم میدان میں آئي اور اس نے اس حکومت کو دھول چٹا کر نیست و نابود کر دیا جس کی پشت پر امریکا، برطانیہ، یورپ اور سبھی تھے، یہ قوم ایسی ہے۔ انھوں نے دیکھا ہے کہ جب یہ قوم میدان میں آتی ہے تو، مقدس دفاع اور مسلط کردہ جنگ کے میدان میں اس نے اس صدام پر غلبہ حاصل کیا، اسے اپنی سرزمین سے باہر نکالا، دھول چٹائي اور ذلیل کر دیا جس کی حمایت امریکا، سابق سوویت یونین، عرب رجعت پسند اور دوسرے سبھی کر رہے تھے، یہ بات وہ دیکھ چکے ہیں۔ میدان میں ایرانی قوم کی موجودگي کا معجزہ وہ دیکھ چکے ہیں۔ اسی لیے وہ عوام کی موجودگي سے خائف ہیں اور اس وقت دیکھنا چاہتے ہیں کہ عوام کی موجودگي ہے یا نہیں، جب آپ ووٹ ڈالنے کے لیے میدان میں آتے ہیں تو وہ سمجھ جاتے ہیں کہ ہاں، ایرانی قوم نے بدستور میدان میں اپنی موجودگي کو قائم رکھا ہے۔

بنابریں انتخابی میدان میں عوام کی موجودگي، قومی طاقت و اقتدار کا آئینہ ہے اور یہ وہ چیز ہے جس سے دشمن ہراساں ہے، یہ ہماری قومی سلامتی کا ستون ہے۔ ہمارا قومی اقتدار، قومی سلامتی کا ستون ہے، اگر دشمن یہ محسوس کر لے کہ آپ میں طاقت نہیں ہے، ایرانی قوم میں قوت نہیں ہے تو وہ آپ کی قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالے گا۔ ہر پہلو سے، یہ قومی طاقت و اقتدار، قومی سلامتی کا سہارا اور ضمانت ہے۔ قومی سلامتی سب کچھ ہے۔ اگر سیکورٹی نہ ہو تو کچھ بھی نہیں رہے گا۔ دشمن ہماری قومی طاقت کے خلاف ہے، اسی لیے آپ دیکھتے ہیں کہ اس سال جو 1402 (ہجری شمسی) تھا، چونکہ اس کے (آخری مہینے) اسفند میں الیکشن تھا تو سال کے پہلے مہینے 'فروردین' سے ہی دشمنوں نے اپنے ٹی وی چینلوں سے اور ویب سائٹوں سے انتخابات کی مخالفت شروع کر دی تھی تاکہ لوگوں کو مایوس کر دیں، تاکہ یہ کہیں کہ جناب کیا فائدہ، کچھ اثر نہیں پڑے گا، الیکشن کا کوئي اثر نہیں ہے! وغیرہ وغیرہ۔ وہ نہیں چاہتے، وہ ایرانی قوم کی قومی طاقت کو برداشت نہیں کر سکتے۔ اس لیے وہ ہر اس چیز کے خلاف ہیں جو قومی طاقت کی علامت ہو، منجملہ الیکشن۔

ملک کے اندر بھی بعض لوگ، انتخابات کے سلسلے میں سردمہری دکھاتے ہیں۔ میں کسی پر الزام نہیں لگا رہا ہوں لیکن سبھی کو یاددہانی کرا رہا ہوں کہ ہمیں الیکشن کو قومی مفادات کے نظریے سے دیکھنا چاہیے، جماعت اور دھڑے کے زاویے سے نہیں دیکھنا چاہیے، قومی مفادات کو نظر میں رکھیے۔ اگر الیکشن کمزور ہوگا تو کسی کو بھی فائدہ نہیں ہوگا۔ جو بھی ایران سے محبت کرتا ہے، جو بھی اپنے ملک سے، اپنی قوم سے اور اپنی قومی سلامتی سے محبت کرتا ہے، اسے جان لینا چاہیے کہ اگر الیکشن کمزور طریقے سے منعقد ہوا تو کسی کو بھی فائدہ نہیں ہوگا، سبھی نقصان اٹھائيں گے، سبھی چوٹ کھائيں گے، ایسا نہیں ہے کہ صرف کچھ لوگوں کو چوٹ پہنچے گي اور کچھ لوگ فائدہ اٹھائيں گے، نہیں، سبھی کو نقصان ہوگا۔ خیر تو یہ بات قومی طاقت کے مظاہرے کی تھی جس کے بارے میں ہم نے عرض کیا کہ الیکشن، ملک کی قومی طاقت کا مظہر  ہے۔

اس کے علاوہ انتخابات کے اور بھی اچھے نتائج ہیں۔ ان میں سے ایک نتیجہ یہ ہے کہ اگر الیکشن مضبوط ہوا تو منتخب ہونے والا امیدوار بھی مضبوط ہوگا۔ مثال کے طور پر اگر ہم پارلیمانی انتخابات میں، ابھی ہمارے سامنے جو الیکشن ہے وہ پارلیمانی الیکشن ہے، بھرپور اور مضبوط طریقے سے شرکت کریں گے تو ہماری پارلیمنٹ بھی مضبوط ہوگي۔ مضبوط پارلیمنٹ بڑے بڑے کام کر سکتی ہے، بڑے بڑے قدم اٹھا سکتی ہے کیونکہ اس کا سہارا مضبوط ہے۔ صدارتی الیکشن اگر پرجوش اور عوام کی بڑی تعداد میں شرکت کے ساتھ ہو تو صدر کے ہاتھ، حکومت کے ہاتھ بڑے کاموں کے لیے، بڑے اقدامات کے لیے کھلے ہوں گے، ایسا ہی تو ہے۔ بنابریں مضبوط الیکشن کا نتیجہ، ملک کی پیشرفت ہے، ملک کا مفاد ہے، ملک کی مشکلات کا دور ہونا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہے۔ اسی لیے ہم نے کہا کہ مضبوط الیکشن، پیشرفت کے ستونوں میں سے ایک ہے۔

ایک دوسرا نتیجہ، الیکشن میں شرکت کرنے والوں خاص طور پر آپ نوجوانوں کی سیاسی بالیدگي ہے۔ یہ ہمارے لیے بہت اچھا موقع ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو، انتخابات کے دوران، گفتگو اور مباحثوں میں، موازنوں میں، دلائل پیش کرنے میں، کسی امیدوار کے حامیوں کی باتوں میں، اس کے مخالفوں کی باتوں میں، اس زبانی اور فکری لین دین میں، سیاسی پختگي گي حاصل ہوتی ہے۔ ہمارے نوجوان کو جو یہ سیاسی بالیدگي، یہ سیاسی تجزیے کی طاقت حاصل ہوتی ہے، کوئي معمولی چیز نہیں ہے، بہت گرانقدر ہے، خاص طور  پر ہمارے ملک کے لیے۔ جب ہمارے نوجوان کی سیاسی تجزیے کی طاقت بڑھ جائے گی تو پھر دشمن کے حربے ناکام ہو جائيں گے، بے اثر ہو جائيں گے۔ جب نوجوان میں تجزیے کی صلاحیت آ جاتی ہے تو وہ دشمن کو پہچان لیتا ہے، اس کے حربوں کو پہچان لیتا ہے، اس کے کام کو پہچان لیتا ہے، دشمن سے مقابلوں کی راہوں کو تلاش کر لیتا ہے، تجزیے کی یہ صلاحیت میرے خیال میں، بہت ہی اہم نتائج میں سے ایک ہے۔ بنابریں قوم کی ہر فرد کو، ان سبھی کو جو ان باتوں کے مخاطَب ہیں، جان لینا چاہیے کہ ووٹ ڈالنا، بڑے نتائج لانے والا ایک آسان کام ہے۔ الیکشن میں شرکت کرنا تو سخت کام نہیں ہے، ایک آسان کام ہے، اس میں کچھ خرچ بھی نہیں ہوتا لیکن اس کے نتیجے بہت بڑے بڑے نکلتے ہیں جن میں سے بعض کا میں نے ذکر کیا۔

آپ لوگ نوجوان ہیں اور زیادہ تر پہلی بار ووٹ ڈالیں گے، مجھے اپنی نوجوان نسل پر، ملک کی نوجوان نسل پر بہت اعتماد ہے۔ نوجوان ہر میدان میں آگے بڑھنے اور آگے بڑھانے والے ہیں، اشتیاق دلانے والے ہیں، اس میدان میں بھی ایسا ہی ہے، اس میدان میں بھی نوجوان علمبردار بن سکتے ہیں، لوگوں کو آگے بڑھا سکتے ہیں، اشتیاق پیدا کر سکتے ہیں، سارے نوجوان خود بھی شرکت کریں اور دوسروں کو بھی شرکت کے لیے ترغیب دلائيں۔ آپ نوجوانوں کا ایک کام یہی ہے، والدین، ساتھیوں، رشتہ داروں، محلے والوں اور سبھی متعلقین کو استدلال کے ساتھ ترغیب دلائيں، یہ ایسا کام ہے جو ممکن ہے۔ البتہ ممکن ہے بعض لوگ واقعی شرکت نہ کر پائيں۔ یعنی ہم سبھی کو الیکشن میں شرکت کی ترغیب دلاتے ہیں لیکن ہو سکتا ہے کہ بعض لوگ واقعی ایسے ہوں جو کسی بھی وجہ سے الیکشن میں شرکت نہ کر پائيں، ان سے ہم کچھ نہیں کہتے لیکن کچھ لوگ ہیں جو الیکشن کے سلسلے میں عدم دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں، افسوس کہ اس طرح کے لوگ بھی ہیں۔ خود بھی عدم دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی شرکت نہ کرنے کی ترغیب دلاتے ہیں۔ میرے خیال میں ان لوگوں کو ان باتوں پر کچھ زیادہ غوروفکر کرنا چاہیے۔ ووٹ نہ ڈالنے کا کوئي فائدہ نہیں ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ ووٹ ڈالنا، ممکن ہے بے فائدہ ہو، تو یہ بھی تو ممکن ہے کہ فائدہ مند ہو، یعنی ووٹ ڈالنے میں فائدے کا بھی امکان پایا جاتا ہے، ووٹ نہ ڈالنے میں کسی فائدے کا امکان نہیں ہے۔ ووٹ نہ ڈالنے کا کوئی نتیجہ نہیں ہے لیکن ووٹ ڈالنے میں نتیجے کا امکان ہے۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ یقینا نتیجہ نکلتا ہے لیکن جسے تذبذب ہے اسے بھی کہنا چاہیے کہ نتیجے کا امکان ہے۔ بنابریں ووٹ نہ ڈالنے کے پیچھے کوئي ٹھوس دلیل نہیں ہے کہ ہم کہیں کہ ووٹ نہیں ڈالنا چاہیے۔ المختصر یہ کہ ووٹ نہ دینے سے کسی مشکل کا حل نہیں نکلے گا۔ کچھ لوگوں کے ووٹ نہ دینے سے ملک کا کوئي بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ اس سے نقصان ہی ہوگا کیونکہ اگر آپ ووٹ نہیں دیں گے تو کوئي دوسرا تو ووٹ دے گا ہی، آپ جس شخص کے لیے چاہتے ہیں کہ وہ منتخب نہ ہو، ممکن ہے وہی جیت جائے، اگر آپ ووٹ ڈالتے تو ممکن ہے اسے جیتنے سے روک دیتے، ایک ووٹ سے یا بہت سارے ووٹوں سے۔ کل ملا کر میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جو بھی ایران سے پیار کرتا ہے، جو بھی اسلامی جمہوریہ سے پیار کرتا ہے، جو بھی انقلاب سے پیار کرتا ہے، جو بھی قومی طاقت سے پیار کرتا ہے، جو بھی پیشرفت کو پسند کرتا ہے، اسے انتخابات میں سرگرمی سے حصہ لینا چاہیے۔ الیکشن میں شراکت بھرپور اور پرجوش ہونی چاہیے۔

الیکشن ایک موقع ہے، اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے، یہ ملک کے حق میں بھی ہے اور دشمنوں کو بھی ناامید کرتا ہے، یہ امریکی سیاستدانوں، سی آئي اے، خبیث اور ظالم صیہونیوں اور دوسروں کو جو ہمارے ایک ایک مسئلے پر نظریں جمائے ہوئے ہیں، مایوس کر دیتا ہے، انتخابات میں شرکت، دشمنوں کو مایوس کر دیتی ہے۔ یہ ہماری بنیادی بات ہے۔

ایک سوال سب سے موزوں امیدوار کے بارے میں پوچھا جاتا ہے۔ کیونکہ جو لوگ امیدوار کی حیثیت سے الیکشن کے میدان میں اترتے ہیں وہ سب کے سب صلاحیت رکھنے والے ہیں یعنی نگہبان کونسل اور دیگر نگراں اداروں نے ان کے بارے میں تحقیق کی ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ لوگ صلاحیت رکھتے ہیں، تو یہ سب صلاحیت رکھنے والے اور موزوں ہیں لیکن آپ سب سے زیادہ موزوں شخص کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں۔ وہ کون ہے؟ وہ کون ہے جس میں زیادہ صلاحیت ہے؟ میں نے یہاں پر دو تین معیارات لکھے ہیں:

جو بھی دین کی پابندی میں، دینی اعمال اور دینی احکام کی پابندی میں بہتر اور آگے ہو، جو بھی ملک کی خودمختاری کے سلسلے میں اور دنیا کی اس طاقت اور اس طاقت پر منحصر نہ ہونے پر زیادہ اصرار کرتا ہو اور واقعی ملک کی خودمختاری کا خواہاں ہو، جو بھی پوری سنجیدگي سے بدعنوانی سے لڑنے کا عزم رکھتا ہو کہ بدعنوانی سے لڑنا چاہیے، جو بھی قومی مفادات کے سلسلے میں زیادہ سنجیدہ ہو، یعنی اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر قربان کرنے کے لیے تیار ہو اور قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دیتا ہو، جس میں بھی یہ خصوصیات ہوں، وہ زیادہ موزوں ہے۔ دین کا مسئلہ، خودمختاری کا مسئلہ، بدعنوانی سے لڑنے کا مسئلہ اور قومی مفادات کا مسئلہ۔ دھڑے بندی اور پارٹی بازی کو دور رکھے، مختلف معاملوں میں دیکھیں کہ کون سی چیز قومی مفادات سے میل کھاتی ہے اور ملک کی عزت، ملک کے سکون اور ملک کی پیشرفت کے لیے زیادہ مناسب ہے، اسے اپنے، پارٹی کے اور قومی مفادات کے ٹکراؤ میں ترجیح دے۔ میرے خیال میں سب سے زیادہ موزوں ایسا شخص ہے اور یہ چیز آپ کو مطالعہ کر کے، باتوں پر غور کر کے، باخبر اور آگاہ لوگوں کی باتیں سن کر سمجھنی چاہیے اور یہ سخت کام نہیں ہے، ناممکن کام نہیں ہے، جہاں تک انسان کی توانائي ہے۔ مثال کے طور پر میں جب ووٹ دینا چاہتا ہوں تو مثال کے طور پر تہران کے امیدواروں کی فہرست لائي جاتی ہے، مختلف فہرستیں ہوتی ہیں، سبھی کو تو انسان نہیں جانتا، بعض کو جانتا ہے اور بعض کے بارے میں دوسروں سے پوچھتا ہے، بعض کے بارے میں اسے ان لوگوں کی وجہ سے اطمینان ہو جاتا جنھوں نے اس کی تجویز دی ہے، مثال کے طور پر فرض کیجیے کہ کچھ لوگوں کا نام انسان تہران کے امیدواروں کے طور پر لکھتا ہے اور بیلیٹ باکس میں ڈال دیتا ہے۔ جہاں تک ممکن ہے اس سلسلے میں دقت نظر سے کام لینا چاہیے۔

غزہ کا مسئلہ آج عالم اسلام کا بنیادی مسئلہ ہے، جیسا کہ ہم نے بار بار عرض کیا ہے۔ میں نے اب سے کچھ دن پہلے ایک گفتگو میں کہا تھا(2) کہ غزہ کے مسئلے نے، غزہ کے واقعے نے، دنیا میں اسلام کو بھی متعارف کرایا۔ پتہ چل گيا کہ اسلامی ایمان وہ عنصر ہے جو اس طرح طاقت و استقامت کو وجود عطا کرتا ہے کہ بمباری تلے لوگوں نے مزاحمت کی، گھٹنے نہیں ٹیکے، دشمن کے سامنے اپنے ہاتھ کھڑے نہیں کیے، دشمنوں کے اتنے زیادہ جرائم کے باوجود انھوں نے دنیا کے سامنے اسلام کا تعارف کرایا، اسلام یہ ہے، اسلامی ایمان یہ ہے، اسی کے ساتھ انھوں نے مغربی ثقافت و تمدن کا بھی تعارف کرا دیا۔ مغربی ثقافت و تمدن وہ چیز ہے جو خود سے نکلنے والی پالیسیوں کو اس بات پر مجبور کر دیتی ہے کہ وہ ان جرائم کو دیکھیں لیکن یہ اعتراف نہ کریں کہ یہ نسل کشی ہے، اس بات کے لیے تیار نہ ہوں کہ حقیقی معنی میں اس نسل کشی کو رکوائیں۔ ہاں زبانی طور پر تو وہ کچھ باتیں کہتے ہیں لیکن جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ان جرائم کو رکوانے کی باری آتی ہے تو وہ ویٹو کر دیتے ہیں! مغربی تمدن یہ ہے۔ امریکا اور مغرب کی غیر انسانی پالیسیوں کی شرمناک صورتحال اس حد کو پہنچ گئي ہے کہ آپ نے سنا ہی ہوگا کہ امریکی فضائيہ کا ایک افسر خودسوزی کر لیتا ہے۔(3) اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کلچر کے پروردہ نوجوان کے لیے بھی یہ بات بہت بھاری ہے۔ اس کے ضمیر کو بھی چوٹ پہنچتی ہے۔ البتہ ایک شخص کے بجائے ہزار لوگوں کو خودسوزی کرنی چاہیے تھی لیکن بدعنوانی کا دلدل انھیں ایسا نہیں کرنے دیتا۔ اتفاق سے کسی ایک شخص کا ضمیر جاگ گيا اور اس نے خود سوزی کر لی۔ مغربی کلچر نے اپنا تعارف کرا دیا، اپنے چہرے سے نقاب ہٹا دی، اپنی پول کھول دی کہ وہ کتنا بدعنوان ہے، کتنا منحرف ہے، کتنا ظالم ہے۔

ہمیں امید ہے کہ خداوند عالم اسلام و مسلمین اور فلسطین خاص طور پر غزہ کو اپنی مکمل نصرت عطا فرمائے گا اور ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ خداوند عالم ایرانی قوم کو ایسے انتخابات نصیب فرمائے گا جو اس کے لیے مطلوبہ، مناسب اور اس کے شایان شان ہوں گے۔

و السّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

  1. پارلیمنٹ کے بارہویں دور کے اور ماہرین اسمبلی کے چھٹے دور کے انتخابات پہلی مارچ 2024 کو منعقد ہوں گے۔
  2. صوبۂ خوزستان کے 24 ہزار شہیدوں پر دوسری قومی کانفرنس منعقد کرنے والی کمیٹی سے ملاقات میں خطاب (24/2/2024)
  3. امریکی فضائيہ کا ایک افسر ایرون بوشنل جس نے غزہ کے خلاف جنگ اور فلسطینیوں کے خلاف جرائم اور ان کی نسل کشی میں صیہونی حکومت کے ساتھ امریکا کے تعاون پر احتجاج کرتے ہوئے 25 فروری 2024 کو واشنگٹن میں صیہونی حکومت کے سفارتخانے کے سامنے خودسوزی کر لی جو اس کی موت پر منتج ہوئي۔