بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطاھرین

ہم یاد کرنا چاہیں گے مرحوم جناب امامی (2) رضوان اللہ تعالی علیہ کو۔ وہ واقعی اس مدرسے اور اس پورے سسٹم سے گہرا لگاؤ اور دلچسپی رکھتے تھے۔ ہم یہ بات ان کے بیانوں سے اور ان کی سرگرمیوں سے بہت واضح طور پر محسوس کرتے تھے۔ واقعی ان سے جتنا ممکن تھا انہوں نے محنت کی۔ وہ بڑی کوشش کر رہے تھے کہ یہ مدرسہ اپنے اہداف تک پہنچے۔

آپ واقف ہیں کہ مدرسہ شہید مطہری کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ انقلاب سے پہلے بہت بڑے اساتذہ اس مدرسے میں تھے، ان میں سے بعض سے  ہماری آشنائی تھی۔ مرحوم آقائے راشد یہاں تھے، مرحوم آقائے میرزا ابوالفضل نجم آبادی تہران کے عظیم علما میں تھے، ہم انہیں بہت قریب سے جانتے تھے۔ مرحوم شیخ الاسلام کاشمری اور ایسی ہی بعض دیگر ہستیاں اس مدرسے میں تدریس کے فرائض انجام دیتی تھیں۔ لیکن کوئی ثمرہ نہیں مل رہا تھا۔ اتنی تعداد میں اتنے اچھے اساتذہ کے موجود ہونے کے باوجود اس زمانے میں اس مدرسے سے کوئی بڑا ثمرہ نہیں نظر آیا۔ اس مدرسے میں جو طلبہ تھے، اب اس زمانے میں ہم جیسے طلبہ کے درمیان جن کی تہران آمد و رفت رہتی تھی یہ بات کہی جاتی تھی کہ وہ پڑھائی نہ کرنے والے طلبہ ہیں، نہ پڑھنے والے طلبہ۔ اس مدرسے میں طلبہ تھے لیکن اتنے اچھے اساتذہ کے موجود ہونے کے باوجود کوئی قابل توجہ نتیجہ نہیں تھا۔ اب شاید گوشہ و کنار میں کچھ لوگ رہے ہوں لیکن اس مدرسے سے جو توقع تھی وہ ثمرہ نہیں مل رہا تھا۔ انقلاب کے زمانے کے بالکل بر عکس۔ انقلاب کے دور میں بہت سارے متبحّر علما، بڑے علما مدرسے سے ہٹ کر دیگر کاموں میں مصروف ہوئے، حالات کا تقاضا بھی یہی تھا۔ نتیجے میں بہت سے تعلیمی مراکز میں، منجملہ خود مدرسہ شہید مطہری میں مدرّس عالم دین کی کمی پڑ جاتی تھی۔ بے شک کچھ بزرگ علما تھے، کچھ علمائے دین تھے، ان میں بعض کو ہم پہچانتے تھے، بعض الحمد للہ بہ قید حیات ہیں، بعض اس دنیا سے رخصت ہو گئے جن سے ہم واقف تھے، ان میں بعض کو میں قریب سے جانتا  تھا۔ بڑے عالم دین تھے، بہت اچھے تھے۔ مدرسے سے نکلنے والے علما کی اچھی تعداد تھی، یعنی بڑے فاضل طلبہ اور بہت اچھے طلبہ اس مدرسے سے تعلیم حاصل کرکے نکلنے لگے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ یہ ان عہدیداروں کی محنت کا ثمرہ تھا جنہوں نے شروع سے یہاں کام کیا۔ جناب امامی تو شروع سے ہی اس کے بڑے عہدیداروں میں تھے۔

یہ جو آپ نے کہا کہ مدرسے میں تبدیلی کی ضرورت ہے بالکل صحیح ہے۔ یعنی وقت کے تقاضے کے مطابق پروگراموں کو نو بہ نو اپ ٹو ڈیٹ کیا جائے۔ یہ فطری ہے۔ جب ہم تبدیلی کی بات کرتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بنیادی اصول کو بدل دیا جائے۔ بنیادی اصولوں کو ہاتھ نہیں لگانا چاہئے۔ اس لئے کہ یہ بنیادی اصول بالکل درست ہیں۔ تبدیلی پروگراموں میں ہونی چاہئے۔ یہ دیکھنا چاہئے کہ کس درس کی زیادہ ضرورت ہے۔ سماج میں کس درس کو زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ آج جو وسائل پیدا ہو گئے ہیں ان کی مدد سے، بیس سال پہلے اور چالیس سال پہلے یہ وسائل نہیں تھے، پتہ لگانا چاہئے کہ آج کس طرح کی تدریس ہونی چاہئے، یعنی یہ چیزیں اہم ہیں۔ پھر اس طرح کے  پروگرام ترتیب دینے کے بعد آپ اساتذہ کا انتخاب کیجئے، طلبہ کی درجہ بندی کیجئے، پروگرام تیار کیجئے تو پھر آپ کو اچھے ثمرات حاصل ہوں گے۔ اس پر توجہ دی جانی چاہئے۔

ایک اور اہم مسئلہ تہذیب نفس اور دینداری و تدین کا ہے۔ یہ مدرسہ حقیقی معنی میں دینداری کا مظہر ہونا چاہئے۔ یعنی حقیقت میں یہ نظر آئے کہ یہاں کا ماحول مدرسہ اور یونیورسٹی کا ماحول ہے۔ یعنی ایسی فضا جس میں دینی درسگاہ اور یونیورسٹی کے ماحول کی آمیزش ہو، ایسے افراد پیدا کر سکتی ہے جو علمی تبحر کے ساتھ ساتھ تقوی اور تزکیہ نفس کے مالک ہوں، یہ نظر آنا چاہئے، میرے خیال میں تہران میں یہ چیز بہت اچھی ہے۔

ان شاء اللہ اگر اس اقدام میں جو آپ نے شروع کیا ہے اور شروع کرنا چاہتے ہیں اگر اللہ کی توفیقات آپ کے شامل حال ہو جائیں تو مدرسہ شہید مطہری تہران کے مثالی مدرسے کا نمونہ اور مظہر بن سکتا ہے۔ اگر کوئی باہر سے آکر دیکھنا چاہے کہ تہران میں مدرسہ کیسا ہے تو ہمارے پاس دکھانے کے لئے کوئی مرکز نہیں ہے۔ مدرسہ شہید مطہری ایسا مرکز بن سکتا ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ بنیادی ستون، ادارہ جاتی اور تعلیمی و تدریسی ستون اس میں واضح طور پر نظر آئیں۔

بہرحال آپ الحمد للہ نوجوان ہیں، نوجوانی کی آمادگی اور نشاط آپ کے اندر ہے، آپ اس ادارے کو نئی رفتار دے سکتے ہیں۔ ہمارے دینی مدارس کو واقعی نئے اقدامات کی ضرورت ہے۔ بہت سارے کام ہیں جو انجام پانے ہیں۔ مثال کے طور پر قم میں انسان دیکھتا ہے کہ بہت سے موضوعات پڑھائے جاتے ہیں، ان کے بارے میں بحثیں ہوتی ہیں، طلبہ ان پر تحقیق کرتے ہیں۔ ہم اس سے پہلے اس بارے میں نہیں سوچتے تھے۔ تو اب محسوس ہوتا ہے کہ ابھی کتنا خلا موجود ہے، کتنے کام ہیں جو اب تک نہیں ہوئے ہیں۔ آپ یہاں بھی اسی نہج پر کام کیجئے۔

تزکئے اور منظم منصوبہ بندی کے علاوہ ایک اور مسئلہ نظم و ضبط کا ہے۔ اداروں کی توسیع بہت اچھی بات ہے، بشرطیکہ انسان بخوبی اس کا نظم و نسق چلا سکے۔ ایک خطرہ یہ رہتا ہے کہ کہیں نظم و ضبط نہ ختم ہو جائے۔ ملک کے مختلف شہروں میں متعدد مدارس ہیں، دینی مدارس، اسکول وغیرہ ہیں۔ ان کے لئے ڈسپلن کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی صحیح معنی میں مینجمنٹ کی ضرورت ہوتی ہے، نگرانی رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کاموں کو ایک شخص کے حوالے کر دینا اور دیگر افراد کے ہاتھوں میں ذمہ داری دیکر چھوڑ دینا صحیح نہیں ہے۔ اعلی مینیجمنٹ کو چاہئے کہ ہر جگہ نظر رکھے۔ بے شک جو لوگ بھی تعاون کر سکتے ہیں ان کی خدمات لینا چاہئے، اس میں کوئی شک نہیں، خاص طور پر نوجوان افراد کی خدمات لینا چاہئے، لیکن اعلی مینیجمنٹ کو چاہئے کہ نگرانی رکھے اور ایک جامع نظارت رکھے۔ نظم و ضبط قائم رکھئے۔ یہ آپ کے ہاتھ سے نکلنے نہ پائے۔ اگر آپ محسوس کریں کہ کسی جگہ کو چلا پانا مشکل ہو رہا ہے تو اسے بند کر دیجئے، اس سے نہ گھبرائیے کہ فلاں شہر میں فلاں یونٹ کو بند کرنا پڑ گیا، جب انسان اسے بخوبی چلا نہیں پا رہا ہے تو یہ صحیح ہے۔ اللہ آپ سب کو کامیاب کرے۔

خواتین و حضرات کی ایک تعداد یہاں موجود ہے تو اس مناسبت سے میں انتخابات (3) کے بارے میں بھی چند باتیں عرض کر دینا چاہتا ہوں۔

پرسوں ایران میں پھر الیکشن ہے۔ یہ الیکشن بہت اہم ہے۔ ہم نے پہلے بھی کہا تھا۔ البتہ پہلے مرحلے کے الیکشن میں لوگوں کی شرکت اتنی نہیں تھی جتنے کی توقع تھی۔ جتنی ہمیں توقع تھی اور جتنا اندازہ لگایا جا رہا تھا، ٹرن آؤٹ اس سے کم تھا۔ مختلف لوگ الیکشن میں لوگوں کی شرکت کے بارے میں اندازے لگا رہے تھے اور سارے اندازے اس چیز سے زیادہ تھے جو حقیقت میں سامنے آئي۔ اس کے کچھ اسباب ہیں۔ جو لوگ سیاست سے تعلق رکھتے ہیں، سماجیات اور سماج کے مسائل پر نظر رکھتے ہیں؟ وہ ان اسباب کا تجزیہ کرتے ہیں۔ جو چیز یقینی ہے وہ یہ ہے کہ اگر کوئي یہ سوچتا ہے کہ جن لوگوں نے ووٹ نہیں دیا ہے، ان کا یہ عمل سسٹم کی مخالفت کی وجہ سے تھا تو وہ سخت غلط فہمی میں ہے۔ یہ سوچ اور یہ اندازہ سو فیصد غلط ہے۔ ہاں ممکن ہے کہ کچھ افراد ایسے ہوں جنھیں کوئي اعلی عہدیدار پسند نہ ہو یا کچھ لوگ ہوں جو سسٹم سے ہی ناخوش ہوں، ایسا نہیں ہے کہ ملک میں اس طرح کے لوگ نہیں ہیں، کیوں نہیں، ملک میں ایسے لوگ بھی ہیں اور وہ بڑی آزادی سے کھل کر اپنی بات کہتے ہیں، ہم ان کی بات سنتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ مطلب یہ کہ ایسا نہیں ہے کہ وہ لوگ چھپے ہوئے ہوں، نظروں سے دور ہوں اور انھیں دیکھا نہ جاتا ہو۔ ہم جانتے ہیں کہ ایسے لوگ ہیں اور ہم انھیں پہچانتے ہیں۔ وہ اس سسٹم اور اسلامی حکومتی نظام سے بہت زیادہ متفق نہیں ہیں۔ ایسے لوگ ہیں لیکن ہر اس شخص کو جو ووٹ نہ ڈالے، ان سے جوڑ دینا بہت بڑی غلطی ہے۔ اس غلطی کا ارتکاب نہیں کرنا چاہیے۔ مشکلات ہیں، پریشانیاں ہیں، کام ہے، حوصلہ نہیں ہے، وقت نہیں ہے، اس کام کے لیے مختلف طرح کی رکاوٹیں ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ الیکشن کے اس سیکنڈ راؤنڈ میں لوگ بھرپور انداز میں شرکت کریں گے اور یہ چیز اسلامی نظام کی عزت میں اضافہ کرے گي۔ یہ چیز ہم نے بار بار عرض کی ہے، عوامی مشارکت، اسلامی جمہوری نظام کے لیے سہارا ہے، باعث افتخار ہے، سربلندی کا سبب ہے۔ اگر عوام کی مشارکت زیادہ واضح، بہتر اور زیادہ روشن ہو تو اسلامی جمہوری نظام کو یہ طاقت حاصل ہوگي کہ وہ اپنی بات کو، اپنے اہداف کو، اپنے مقاصد کو، چاہے وہ ملک کے اندر ہوں اور چاہے ملک کی اسٹریٹیجی کے تناظر میں ہوں، عملی جامہ پہنا سکے اور یہ ملک کے لیے بہت بڑا موقع ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ خداوند عالم، ہم سب کے دلوں کی اس چیز کی طرف ہدایت کرے گا جس میں اس کی مرضی ہے اور وہ سبھی لوگ جو اسلام کو چاہتے ہیں، اسلامی جمہوریہ کو چاہتے ہیں، ملک کی پیشرفت چاہتے ہیں، ملک کے حالات کی بہتری اور کمیوں کے خاتمے کو پسند کرتے ہیں وہ اپنے ووٹوں کے ذریعے اس بات کو جمعے کے دن جو پرسوں ہے، پیش کریں اور دکھا دیں اور خداوند عالم انھیں اس بات کی توفیق دے کہ وہ بہترین امیدوار کا انتخاب کریں، ایسا شخص جو ان شاء اللہ ملک میں ان اہداف کو عملی جامہ پہنا سکے۔

والسّلام علیکم و رحمۃ الله و‌ برکاتہ

1 اس ملاقات کے آغاز میں مدرسہ عالی شہید مطہری کے سربراہ حجت الاسلام و المسلمین عبد العلی توجہی نے تقریر کی۔

2 آیت اللہ محمد امامی کاشانی

3 چودہویں صدارتی انتخابات کے دوسرے  راؤنڈ کی پولنگ 5 جولائی  2024 کو ہونی ہے۔