18 جولائی نیلسن منڈیلا کا یوم پیدائش ہے۔ انھیں ساٹھ کے عشرے میں ایک دہشت گرد کی حیثیت سے جیل میں ڈال دیا گیا تھا اور سنہ 2008 تک امریکا کی دہشتگردوں کی لسٹ میں ان کا نام باقی رہا۔ ان کا جرم ایک ایسی حکومت کے خلاف جدوجہد کرنا تھا جس میں باہر سے آئی ہوئی جارح اقلیت، ہتھیاروں کے زور پر مقامی اکثریت کا استحصال کر رہی تھی۔ یہ حکومت، جسے قائم کرنے والے خود ہی "اپارتھائیڈ" کہتے تھے مغربی بلاک کی حمایت سے برسوں تک اپنی کسی بھی طرح کی مخالفت کی بدترین طریقے سے سرکوبی کرتی رہی اور حریت پسندوں کو دہشت گرد بتا کر جیلوں میں ٹھونستی رہی۔
آج 18 جولائی 2024 کو حماس کے مجاہدین کے طوفان الاقصیٰ آپریشن کو 9 مہینے سے زیادہ گزر چکے ہیں۔ حماس کے مجاہدین کی پیشانی پر بھی سنہ 1997 سے دہشتگرد کا عنواں چسپاں ہے۔ ان کا جرم، ایسی حکومت سے جدوجہد کرنا ہے جس میں باہر سے آنے والے حملہ آور اسلحے کی طاقت کے بل پر مقامی لوگوں کے خاتمے اور پورے علاقے پر قبضے کے درپے ہیں۔ یہ حکومت، جو دنیا بھر کے یہودیوں کے لیے ایک ملک کی تشکیل کے وعدے کے ساتھ وجود میں لائی گئی اور اسے بنانے والوں نے اسے اسرائیل کا نام دیا، مغربی بلاک کی حمایت سے برسوں سے نسل کشی اور مقامی لوگوں کو محدود کر کے نسلی تصفیے کے اپنے پروجیکٹ کو آگے بڑھا رہی ہے۔
اسرائیل اور اپارتھائیڈ دو سگے بھائی
اسرائیلی حکومت دینی و نسلی امتیاز کی بنیاد پر اور اپارتھائیڈ حکومت نسلی امتیاز کی بنیاد پر تشکیل پائی ہے لیکن ان دونوں کی پشت پر جو طاقت کام کر رہی ہے وہ مغرب کا سامراج ہے جو دیگر اقوام کے ذخائر پر زیادہ سے زیادہ تسلط کی راہ میں کسی بھی طرح کے ظلم سے دریغ نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کی بڑی طاقتوں نے اس وقت تک اپارتھائیڈ کی حمایت نہیں چھوڑی جب تک اس کی حمایت کا خرچ، اس کے منافع سے بڑھ نہیں گیا اور آج بھی وہی ممالک بڑی ڈھٹائی اور بے شرمی سے صیہونی حکومت کے جرائم کا جواز پیش کرتی ہے۔ اپارتھائیڈ حکومت کی عمر کے آخری برسوں میں اس کی مذمت اور اس وقت صیہونی حکومت کی حمایت کے سلسلے میں یہی دوہرا معیار، مغربی طاقتوں کی ریاکاری کی عکاسی کرتا ہے کیونکہ ان دونوں حکومتوں کے قوانین اور کردار سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے درمیان پوری طرح شباہت پائی جاتی ہے۔
سب سے پہلی اور سب سے اہم شباہت، مقامی لوگوں کی زمینیں ہڑپنا اور ان پر غاصبانہ قبضہ کرنا ہے۔ سفید فام اپارتھائیڈ حکومت نے جنوبی افریقا کے 80 فیصد سے زیادہ علاقوں پر غاصبانہ قبضہ کرنے کے بعد "بنتوستان" کے نام سے کچھ علاقے معین کر دیے تھے اور سیاہ فام باشندوں کو صرف انھی علاقوں میں رہنے کا حق تھا۔ اس کا صرف ایک نمونہ یہ ہے کہ سیاہ فاموں کی زمین کے ایک بڑے حصے پر غاصبانہ قبضہ کرنے کے بعد اپارتھائیڈ حکومت نے "ڈسٹرکٹ 6" کے نام سے موسوم ایک علاقے کو خالی کرنے کا حکم دیا اور اس علاقے کے 60 ہزار سیاہ فاموں کو بے گھر کر دیا۔
صیہونی حکومت نے بھی سنہ 1948 میں اپنی تشکیل کے وقت سے ہی، فلسطینیوں کو بری طرح بے گھر کرنا شروع کر دیا تھا۔ یوم النکبہ کے نام سے موسوم دن میں ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو ان کے گھر، گاؤں اور شہر سے نکال باہر کیا گیا اور انھیں ہمسایہ ممالک یا پناہ گزیں کیمپوں میں جا کر رہنے پر مجبور کیا گیا۔ سنہ 1967 میں بھی صیہونی فوج نے غرب اردن، غزہ پٹی اور بیت المقدس سے لاکھوں فلسطینیوں کو باہر نکال دیا اور فلسطینیوں کے 80 فیصد سے زیادہ علاقوں پر قبضے کی راہ ہموار کر دی۔ اپنی تشکیل کے بعد کے برسوں میں صیہونی حکومت نے لگاتار فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کر کے اور ان کی زرعی زمینیوں کو تباہ کر کے ان کی سرزمین پر غاصبانہ قبضہ کیا اور ان میں صیہونیوں کے لیے کالونیاں تعمیر کی ہیں۔
رفت و آمد کو محدود کرنا، نفسیاتی اور معاشی جنگ کے حربے
ایک دوسرا حربہ جسے اپارتھائیڈ اور صیہونی حکومت مقامی لوگوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کرتی رہی ہے اور صیہونی حکومت اب بھی استعمال کر رہی ہے، ان کی رفت و آمد کو محدود کرنا ہے۔ جنوبی افریقا میں سیاہ فام باشندوں کو بنتوستانوں سے باہر نکلنے کے لیے پرمٹ لینے کی ضرورت ہوتی تھی اور بغیر پرمٹ کے بنتوستان سے نکلنے پر انھیں گرفتار کر لیا جاتا تھا۔ صیہونی حکومت نے بھی اونچی اونچی دیواریں تعمیر کر کے اور تفتیشی چوکیاں بنا کر مقبوضہ فلسطین کو کئی علاقوں میں بانٹ دیا ہے اور ان علاقوں میں فلسطینیوں کی رفت و آمد کو اسرائیلی حکومت کی جانب سے دیے جانے والے پرمٹ سے مشروط کر دیا ہے۔ اہم بات یہ جاننا ہے کہ اس محدودیت سے ان حکومتوں کو کیا فائدے حاصل ہوئے اور ہو رہے ہیں۔ صیہونی حکومت مقبوضہ فلسطین میں لوگوں کی زرعی زمینوں اور ان کے گھروں، تعلیم کے حصول یا کام کے مقاموں کے درمیان رکاوٹیں پیدا کر کے انھیں معاشی اور سماجی طور پر مفلوج کرنے کا کام کر رہی ہے۔ اس محدودیت میں مقدس مقامات تک آمد و رفت بھی شامل ہے جو فلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ ہی عیسائیوں پر بھی لگائی گئی ہے۔ اس طرح کے بڑھتے ہوئے دباؤ طویل مدت میں دوسرے ملکوں کی طرف ہجرت میں اضافے کا سبب بنے ہیں۔ جنوبی افریقا میں بھی سیاہ فاموں کی آمد و رفت کو کنٹرول کیے جانے کی وجہ سے ان سے ان کی معاشی پیشرفت کے مواقع چھین لیے گئے اور اس سے سفید فاموں کی معاشی برتری کو یقینی بنایا گیا کیونکہ اچھی اور زرخیز زمینیں عام طور پر بنتوستانوں سے باہر ہوتی تھیں۔
قانونی تفریق
جنوبی افریقا میں سنہ 1970 میں پاس ہونے والے "سیاہ وطن" کے قانون کی رو سے سیاہ فام لوگ اس ملک کے باشندے شمار نہیں ہوتے تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ رائے دہی اور اپنے مستقبل کے تعین کے حق سے محروم تھے۔ ان کی شہریت چھیننے سے ان کی سرکوبی اور انھیں اپنی مرضی کی سزا دینے کی راہ ہموار ہوتی تھی۔ اپارتھائیڈ کے کنٹرول والے جنوبی افریقا میں کسی سیاہ فام کو بغیر پرمٹ کے بنتوستان سے نکلنے پر بغیر کسی عدالتی کارروائی کے لمبے عرصے تک حراست میں رکھنا بھی ممکن تھا۔ ایسی ہی قانونی تفریق مقبوضہ فلسطین میں موجود ہے جہاں غرب اردن میں دو طرح کے قانونی سسٹموں کو استعمال کیا جاتا ہے: اسرائیلی شہریوں کے لیے شہری قانون اور فلسطینی شہریوں کے لیے فوجی قانون۔ اسی طرح صیہونی حکومت کے قانون میں اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ فلسطینیوں کو بغیر کسی عدالتی کارروائی کے چھے مہینے تک حراست میں رکھا جائے اور اس حراست کی تجدید بھی کی جا سکتی ہے۔
ایک بنیادی فرق
جنوبی افریقا کی اپارتھائیڈ حکومت اپنی معاشی پیشرفت کے لیے سیاہ فام افرادی قوت کو استعمال کرتی تھی۔ اگرچہ نسلی امتیاز اور امتیازی سلوک تعلیم و تربیت اور نقل و حمل جیسے بنیادی ضرورت کے شعبوں میں بھی جاری تھا لیکن اس افرادی قوت کی شدید ضرورت کے پیش نظر جنوبی افریقا کے عوام نے متعدد میدانوں میں سول نافرمانی کر کے اور ہمہ گیر مظاہرے کر کے اس حکومت کو گرا دیا۔ اگرچہ اپارتھائیڈ حکومت بھی سنہ 1960 میں شارپ ولے قتل عام، سنہ 1976 میں سوویٹو کے قیام کی سرکوبی، اپنے مخالفین کو جیل میں ڈالنے، انھیں موت کی سزا دینے یا عوامی مخالفتوں کو کچلنے جیسے اقدامات کر رہی تھی لیکن اس کا موازنہ صیہونی حکومت کی درندگی اور سفاکیت سے نہیں کیا جا سکتا۔ صیہونی حکومت، سر زمین فلسطین کو اس کے باشندوں کے بغیر چاہتی ہے۔ اسی وجہ سے اس نے اپنی ناجائز تشکیل کے زمانے سے ہی فلسطینی عوام کے خلاف انتہائی سفاکانہ اور خونریز حملے کیے ہیں اور وہ کھل کر فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے باہر نکالنے کے اپنے ارادے کا اظہار کرتی رہی ہے۔ اپارتھائیڈ حکومت اور صیہونی حکومت کے درمیان یہ فرق اس بات کا سبب بنا ہے کہ ان دونوں حکومتوں کے خلاف جدوجہد بھی دو الگ الگ طریقوں سے کی جائے۔ اگر نیلسن منڈیلا، برسوں تک جیل میں رہ کر اس نسلی امتیاز سے اپنے عوام کی آزادی کی راہ میں قدم اٹھا سکے تو فلسطین میں یہ قدم زیر زمینی سرنگوں میں گرمی اور زندگی کا دباؤ برداشت کر کے اور صیہونی فوج سے جنگ کر کے اٹھایا جاتا ہے۔ اگر آرچ بشپ ڈیسمنڈ ٹوٹو کے جلوس، اپارتھائیڈ کے جسم پر وار کرتے تھے تو غزہ کے فلسطینیوں کی واپسی کی ریلی اور ان کی سفارتی کوششوں کے تلخ تجربے نے دکھا دیا ہے کہ صیہونی حکومت پر وار، مظاہروں کے ذریعے نہیں بلکہ اس طفل کش حکومت کے وحشیانہ حملوں پر صبر کر کے اور استقامت کرنے والی ایک نسل کی پرورش کر کے کیا جا سکتا ہے۔
اسی تناظر میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای نے مسئلۂ فلسطین کا حل، صیہونی حکومت کے خاتمے اور اس کے بعد تمام فلسطینیوں کے درمیان کرائے جانے والے ایک ریفرنڈم کو بتایا ہے: "فلسطینی قوم کی ہمہ گیر مجاہدتیں، سیاسی مجاہدتیں، فوجی مجاہدتیں، اخلاقی اور ثقافتی مجاہدتیں جاری رہنی چاہئے، یہاں تک کہ وہ لوگ جنھوں نے فلسطین پر قبضہ کیا ہے، فلسطینی عوام کی مرضی کے سامنے جھک جائیں۔ سبھی فلسطینی عوام سے، چاہے وہ مسلمان، عیسائی یا یہودی فلسطینی ہوں، وہ لوگ بھی جنھیں فلسطین سے باہر جلاوطن کر دیا گیا ہے، وہ بھی فلسطینی ہیں، ان سب کے درمیان ریفرنڈم کرایا جائے اور وہ اس بات کا فیصلہ کریں کہ فلسطین میں کس نظام کی حکمرانی ہو اور سب اس کو تسلیم کریں، اس وقت تک جدوجہد جاری رہنی چاہیے اور جاری رہے گی اور خدا کے لطف و کرم سے، توفیق الہی سے اور نصرت الہی سے اس پُرامن انسانی مجاہدت میں، جس کو دنیا کے سبھی عقلاء تسلیم کرتے ہیں، فلسطینی قوم غالب ہوگی اور ملک فلسطین، فلسطینی عوام کو واپس ملے گا۔" (5 جون 2019)