آیت اللہ خامنہ ای نے نماز جمعہ خطبوں میں تاکید کی کہ اسلام کے دفاعی احکام، اسلامی جمہوریہ ایران کے دستور اور عالمی قوانین کی رو سے خونخوار صیھونی حکومت کو سزا دینے کی ایران کی مسلح فورسز کی کارروائی پوری طرح درست تھی اور اسلامی جمہوریہ ایران اس تعلق سے جب بھی ذمہ داری کا احساس کرے گا اسے کسی تاخیر کے بغیر اور جلدبازی میں پڑے بنا طاقت و پائيداری کے ساتھ انجام دے گا۔

اس اجتماع میں جس میں بڑی تعداد میں مؤمن، انقلابی اور فرض شناس لوگ تہران کے امام خمینی مصلی اور اس کے آس پاس کی سڑکوں پر کئی کیلومیٹر کے دائرہ میں موجود تھے، آیت اللہ خامنہ ای نے مجاھد شھید سید حسن نصر اللہ کو دنیائے اسلام کی مایہ ناز، محبوب اور خطے کی قوموں کی ترجمان شخصیت بتایا اور کہا: استقامتی محاذ کے علمبردار اور مظلوموں کے بہادر محافظ کی شخصیت کا اثر ان کی شھادت کے بعد مزید پھیلے گا اور خطے کی اقوام اور مجاہد فی سبیل اللہ افراد ان کی شھادت کے پیغام یعنی اللہ پر زیادہ سے زیادہ توکل، زیادہ مضبوط اتحاد، صیہونی دشمن کی شکست اور اس کی نابودی تک بنا کسی تردد کے زیادہ طاقت سے جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔

رھبر انقلاب اسلامی نے مسلمانوں میں اتحاد پر مبنی قرآن کی تعلیم کی تشریح میں کہا کہ آپس میں لگاؤ، ھمدلی اور تعاون پر مبنی مسلمانوں میں دوستی، اللہ کی طرف سے حکیمانہ و کریمانہ مدد کا باعث بنتی ہے جس کے نتیجے میں دشمنوں پر کامیابی ملے گی اور اس راہ میں آنے والے موانع برطرف ہوں گے۔

انہوں نے اس الھی سیاست کے مدمقابل سامراج اور جارح قوتوں کی تفرقہ پھیلانے والی پالیسیوں کی نشاندہی کی اور کہا کہ اسلامی امت کو سامراج کی تفرقہ ڈالو اور حکومت کرو کی سیاست سے بہت نقصان پہونچا ہے لیکن آج کا دن مسلمانوں کے بیدار ہونے کا دن ہے، ایسا نہ ہو کہ یہ گندی سیاست پھر سے دہرائی جائے۔

 آیت اللہ خامنہ ای نے دشمن کی تفرقہ ڈالنے کے لئے فوجی، سیاسی، اقتصادی، سماجی اور ثقافتی لحاظ سے الگ الگ پالیسیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی قوم کا دشمن وہی دشمن ہے جو فلسطینی، لبنانی، مصری، شامی، عراقی، یمنی اور دوسری اسلامی قوموں کا دشمن ہے اور حملے و تفرقہ پھیلانے کے سبھی احکام ایک ہی کمانڈ روم سے جاری ہوتے ہیں اور الگ الگ اسلامی ملکوں میں انہیں نافذ کرنے کا انداز الگ ہوتا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کی کہ جو بھی قوم چاہتی ہے کہ دشمن کے مفلوج کر دینے والے محاصرے کا شکار نہ ہو، اسے بیدار ہو جانا چاہئے اور جس قوم کو دشمن نشانہ بنائے باقی قومیں اس کی مدد کے لئے دوڑ پڑیں ورنہ خود ان کا بھی وہی انجام ہوگا۔

انہوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ افغانستان سے یمن اور ایران سے غزہ، لبنان اور سبھی اسلامی ممالک تک عزت، خودمختاری اور دفاعی بیلٹ کو ہمیں مضبوط کر لینا چاہئے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے خاک وطن، اپنے گھر اور اپنے مفاد کی حفاظت کے لئے اسلام کے عقل و شرع پر مبنی دفاع سے متعلق واضح احکام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آئین اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق، حملہ آوروں و قابض طاقتوں کے مقابلے میں فلسطین اور دوسری قوموں کا دفاع کرنا پوری طرح شرعی اور مضبوط دلائل کا مبنی ہے اور کسی شخص، کسی مرکز اور بین الاقوامی ادارے کو اس تعلق سے اعتراض کا حق نہیں ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اسی طرح اسلام، عقل اور بین الاقوامی قوانین کی بنیاد پر ہر اس قوم کی مدد کو شرعی لحاظ سے صحیح بتایا جو حملہ آوروں سے خود کی حفاظت کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بنیاد پر کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ لبنان اور حزب اللہ نیز غزہ کے مظلوم عوام کی مدد کرنے اور فلسطینی قوم کی تحریک کو دی جانے والی حمایت پر اعتراض کرے۔

انہوں نے الاقصی فلڈ آپریشن کو جو گذشتہ برس انہیں دنوں واقع ہوا، عقل کی بنیاد اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق فلسطینی قوم کے حق میں اٹھایا جانے والا صحیج قدم بتایا اور فلسطینی عوام کے حق میں لبنانیوں کے دلیرانہ دفاع کو سراہا اور اسی بنیاد پر اسلامی جمھوریہ ایران کی مسلح فورسز کی کچھ دن پہلے صیہونی حکومت کے خلاف کی گئی شاندار کارروائی کو پوری طرح قانون اور شرع کے مطابق بتایا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ ہماری مسلح افواج کی کارروائی،  غاصب صیہونی حکومت کو اس کے جرائم کی نسبت کمترین سزا تھی جو خطے میں امریکہ کے اس خون آشام اور پاگل کتے کو دی گئی۔

انہوں نے اس تعلق سے اسلامی جمہوریہ کی طرف سے ہر فریضے کو پوری طاقت و استقامت سے انجام دئے جانے پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس فریضے کو انجام دینے میں نہ سستی دکھائیں گے، نہ ہی جلد بازی کریں گے اور جو کچھ فوجی اور سیاسی عہدیداروں کی نظر میں مناسب، منطقی اور صحیح ہوگا اسے صحیح  وقت پر انجام دیا جائے گا، جیسا کہ یہ کام ہوا اور مستقبل میں بھی ضرورت پڑنے پر ہوگا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے نماز جمعہ کا دوسرا خطبہ عربی زبان میں دیا اور کہا کہ خطاب تو تمام مسلمانوں سے ہے لیکن میرے خاص مخاطب لبنان اور فلسطین کے عوام ہیں۔ انہوں نے حزب اللہ کے سکریٹری جنرل شہید سید حسن نصر اللہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے منعقدہ پروگرام کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ضروری سمجھا کہ میرے بھائی، میرے عزیز، باعث افتخار، عالم اسلام کی محبوب ہستی، علاقے کی اقوام کی زبان گویا، لبنان کے گوہر درخشاں جناب سید حسن نصر اللہ رضوان اللہ علیہ کو خراج عقیدت کا پروگرام تہران کی نماز جمعہ میں منعقد ہو۔

آیت اللہ خامنہ ای کا کہنا تھا کہ ہم سب کے سب سید عزیز کی شہادت پر غمزدہ اور ان کے سوگوار ہیں۔ یہ بہت بڑا خسارہ ہے، اس نے واقعی ہمیں غمزدہ کر دیا۔ البتہ ہماری عزاداری افسردگی، ذہنی انتشار اور مایوسی کے معنی میں نہیں ہے۔ یہ سید الشہدا امام حسین ابن علی علیہما السلام کی عزاداری جیسی ہے: زںدگی دینے والی، سبق آموز، جوش و جذبہ پیدا کرنے والی اور امید آفرین۔

رہبر انقلاب اسلامی کے مطابق سید حسن نصر اللہ کا جسم ہمارے درمیان سے چلا گیا لیکن ان کی اصلی شخصیت، ان کی روح، ان کا راستہ، ان کی دور رس آواز بدستور ہمارے درمیان ہے اور باقی رہے گی۔ وہ ظالم اور لٹیرے شیاطین کے مقابلے میں مزاحمت کا بلند پرچم تھے، مظلوموں کی بولتی زبان اور بہادر محافظ تھے، مجاہدین اور حق پرستوں کی جرئت و  ڈھارس کا موجب تھے۔ ان کی مقبولیت اور گہری تاثیر کا دائرہ لبنان، ایران اور عرب ممالک کی حدود سے آگے تک پھیلا ہوا تھا اور اب ان کی اس شہادت سے ان کی تاثیر میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای نے لبنانی عوام کو سید حسن نصر اللہ کے عملی اور زبانی پیغام کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ وفادار ملت لبنان کے لئے ان کا سب سے اہم زبانی اور عملی پیغام یہ ہے کہ امام موسی صدر، عباس موسوی اور دیگر ممتاز شخصیات کے رخصت ہو جانے کی صورت میں آپ مایوس اور پریشان نہ ہوں، پیکار کی راہ میں شک و تردد سے دوچار نہ ہوں، اپنی کوششیں اور توانائياں بڑھائیے، اپنے اتحاد و یکجہتی میں اضافہ کیجئے۔ جارح و حملہ آور دشمن کے مقابلے میں جذبہ ایمان و توکل کی تقویت کرکے مزاحمت کیجئے اور اسے شکست دیجئے۔

انہوں نے کہا کہ میرے عزیزو! باوفا ملت لبنان! حزب اللہ اور امل کے جوشیلے جوانو! میرے فرزندو! آج بھی اپنی ملت، مزاحمتی محاذ اور عالم اسلام سے ہمارے شہید سید کی خواہش یہی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے صیہونی حکومت کے وحشیانہ حملوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پلید اور پست دشمن جب حزب اللہ یا حماس، یا جہاد اسلامی یا دیگر مجاہد فی سبیل اللہ تحریکوں کے مستحکم ڈھانچے کو کوئی بڑا نقصان نہیں پہنچا پا رہا ہے تو ٹارگٹ کلنگ، بمباری، قتل عام اور غیر مسلح افراد کو سوگوار کرکے اسے اپنی کامیابی ظاہر کر رہا ہے۔

رہبر انقلاب کا کہنا تھا کہ اس روئے کا نتیجہ عوام الناس کے غم و غصہ کی شدت، جذبات کا بھڑک جانا، زیادہ لوگوں، سرداروں، رہنماؤں اور جاں نثاروں کا سامنے آنا اور خوں آشام بھیڑئے کے گرد محاصرہ تنگ تر ہو جانا اور صفحہ ہستی سے اس کے شرمناک وجود کا خاتمہ ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ سید کی مدبرانہ کوششوں سے حزب اللہ نے مرحلہ بہ مرحلہ، صبر و تحمل کے ساتھ منطقی و فطری انداز میں نمو کا عمل طے کیا اور مختلف مواقع پر صیہونی حکومت کو پسپا کرکے دشمن کو اپنی موجودگی کا احساس کرایا۔ تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا ﴿سورہ ابراھیم آيت 25﴾

ان کا کہنا تھا کہ حزب اللہ واقعی شجرہ طیبہ ہے۔ حزب اللہ اور اس کے شجاع و شہید رہبر لبنان کی تاریخی و شناختی خصوصیات کا نچوڑ ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ زخمی اور لہولہان لبنان کا قرض ادا کرنا ہمارا اور تمام مسلمانوں کا فرض ہے۔ حزب اللہ اور شہید سید نے غزہ کا دفاع کرکے، مسجد الاقصی کے لئے جہاد کرکے اور غاصب و ظالم حکومت پر ضرب لگا کر پورے علاقے اور دنیائے اسلام کی حیاتی خدمت کی راہ میں قدم بڑھایا۔

آيت اللہ خامنہ ای نے مغربی ایشیا کے خلاف مغربی طاقتوں کی سازش کو بے نقاب کرتے ہوئے کہا کہ غاصب حکومت کی سلامتی کی حفاظت پر امریکہ اور اس کے ہمنواؤں کا زور اس علاقے کے وسائل کو ہڑپنے اور اسے دنیا کی بڑی جنگوں میں استعمال  کرنے کے مقصد سے اس حکومت کو ایک حربے میں تبدیل کرنے کی مہلک پالیسی پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔ ان کی پالیسی اس حکومت کو علاقے سے مغربی دنیا کے لئے انرجی کی سپلائی اور مغرب سے پروڈکٹ اور ٹیکنالوجی اس علاقے میں لانے کے دروازے میں تبدیل کرنا ہے۔ اس کا مطلب غاصب حکومت کے وجود کی گارنٹی فراہم کرنا اور پورے علاقے کو اس کا محتاج بنا دینا ہے۔ مجاہدین کے خلاف اس حکومت کا سفاکانہ اور بے لگام رویہ اسی پوزیشن میں پہنچنے کی لالچ کا نتیجہ ہے۔

تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یقینا یہ صیہونی و امریکی خواب خیال باطل اور محال شئے ہے۔ یہ حکومت وہی شجرہ خبیثہ ہے جو زمین کی سطح سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے اور قول پروردگار کے مطابق اسے کوئی بقا نہیں ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے صیہونی حکومت کے خاتمے کو یقینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ خبیث حکومت بنیاد سے عاری، مصنوعی اور ناپائيدار ہے اور صرف امریکہ کی مدد سے اس نے بہ مشکل اپنا وجود باقی رکھا ہے۔ لیکن اذن الہی سے وہ زیادہ نہیں ٹک سکے گی۔ اس دعوے کی واضح دلیل یہ ہے کہ اس وقت دشمن غزہ اور لبنان میں اربوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد امریکا و کئی مغربی حکومتوں کی وسیع مدد کے باوجود کچھ ہزار مردان جنگ اور مجاہد فی سبیل اللہ افراد کے مقابلے میں جو محصور بھی ہیں اور باہر سے ان کی ہر طرح کی مدد روک دی گئی ہے، شکست کھا گئی، اس کی ساری کامیابی بس گھروں، اسکولوں، اسپتالوں اور غیر مسلح افراد کے ہجوم والی جگہوں پر بمباری کرنا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے غزہ میں جاری مزاحمت کی قدردانی کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں مزاحمت نے دنیا کی آنکھوں کو خیرہ کر دیا، اسلام کو عزت دی۔ غزہ میں تمام تر شرانگیزیوں اور پست حرکتوں کے مقابلے میں اسلام سینہ سپر ہوکر کھڑا ہے۔ کوئی بھی آزاد سوچ رکھنے والا انسان ایسا نہیں جو اس استقامت کو سلام نہ کرے اور سفاک و خوں آشام دشمن پر لعنت نہ بھیجے۔

رہبر انقلاب اسلامی کے مطابق طوفان الاقصی اور غزہ و لبنان کی ایک سال کی مزاحمت نے غاصب حکومت کو اس حالت میں پہنچا دیا کہ اس کا سارا ہم و غم اپنے وجود کو بچانا ہے، یعنی وہی فکرمندی جو وجود میں آنے کے ابتدائی برسوں میں اسے لاحق رہتی تھی۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ فلسطین و لبنان کے مجاہد مردوں کی جدوجہد نے صیہونی حکومت کو ستر سال پیچھے دھکیل دیا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ اس علاقے میں جنگ، بدامنی اور پسماندگی کی اصلی وجہ صیہونی حکومت کا وجود اور ان حکومتوں کی موجودگی ہے جو دعوی کرتی ہیں کہ علاقے میں امن و آشتی کے لئے کوشاں ہیں۔ علاقے کی سب سے بڑی مشکل اغیار کی دخل اندازی ہے۔ علاقے کی حکومتیں اس علاقے میں امن و سلامتی قائم کرنے پر قادر ہیں۔ اس عظیم اور نجات بخش ہدف کے لئے قوموں اور حکومتوں کی کوششوں اور جدوجہد کی ضرورت ہے۔