* خطبه اول

بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علیٰ سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفیٰ محمّد و علیٰ آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین. اللھمّ انّی احمدک و استعینک و استغفرک و اتوکّل علیک. و السّلام علیٰ ائمّۃ المسلمین و حماۃ المستضعفین و ھداۃ المؤمنین. قال اللہ تعالیٰ: وَ المُؤمِنونَ وَ المُؤمِناتُ بَعضُھم اَولِیاءُ بَعضٍ یَامُرونَ بِالمَعروفِ وَ یَنھَونَ عَنِ المُنکَرِ وَ یُقیمونَ الصَّلوۃَ وَ یُؤتونَ الزَّکوۃَ وَ یُطیعونَ اللہَ وَ رَسولَہُ اُولئِکَ سَیَرحَمُھُمُ اللہُ اِنَّ اللہَ عَزیزٌ حَکیمٌ. (2)

اپنے سارے عزیز بھائیوں اور بہنوں کو تقوائے الہی کو ملحوظ رکھنے کی دعوت دیتا ہوں، سفارش کرتا ہوں۔ اپنی گفتار اور اپنے عمل میں ہم محتاط رہیں اور الہی حدود سے خارج نہ ہوں۔ تقوی کے معنی یہی ہیں۔

جس آیت کی میں نے تلاوت کی اس میں مومنین کی ایک دوسرے سے وابستگي اور رابطے کا اہم موضوع اٹھایا گيا ہے۔ قرآنی بیان میں اس رابطے اور وابستگی کو 'ولایت' سے تعبیر کیا گیا ہے، مومنین کی آپس میں ایک دوسرے سے ولایت۔ یہ چیز قرآن کی کئی آیتوں میں آئی ہے۔ اس آیت میں ولایت و وابستگی کا ثمرہ رحمت خداوندی قرار دیا گيا ہے۔: اُولئِکَ سَیَرحَمُھُمُ اللہ۔ یعنی اگر آپ مسلمانوں میں آپسی رشتہ، رابطہ، تعاون اور ہمدلی ہو تو رحمت خداوندی آپ کے شامل حال ہوگی۔ اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے: اِنَّ اللہَ عَزیزٌ حَکیمٌ۔ عزت الہی اور حکمت الہی کا ذکر کرکے آیت کو ختم کیا گیا ہے۔ اس کا فلسفہ شاید یہ ہو کہ اس موقع پر رحمت خدا کا نزول عزت پروردگار اور حکمت الہی سے نسبت رکھتا ہے۔ چونکہ رحمت خداوندی میں بندوں پر اللہ کی جانب سے نازل ہونے والے گوناگوں فضائل شامل ہیں۔ ساری نعمتیں، سارے الطاف، زندگی کے سارے واقعات رحمت الہی سے عبارت ہیں۔ مگر اس آیت میں یہ رحمت در حقیقت عزت و حکمت سے نسبت رکھتی ہے۔ عزت الہی یعنی تمام عالم وجود پر پروردگار کی قدرت کا احاطہ و تسلط۔ حکمت الہی سے مراد ہے خلقت کے قوانین کا استحکام و پائیداری۔ شاید اس آیت میں ہماری توجہ اس مفہوم پر مرکوز کرائی گئی ہے کہ اگر مسلمانوں میں آپس میں اتحاد و اتفاق ہو تو عزت الہی اور حکمت خداوندی ان کی پشت پناہ قرار پائے گی۔ وہ بیکراں قدرت خداوندی کے فیوض سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں۔ اللہ کی سنتوں اور قوانین الہی کے تقاضوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

یہ ولایت کیا ہے؟ اس سے مراد ہے مسلمانوں کا باہمی رابطہ اور وابستگی۔ یہ مسلمانوں کے لئے قرآنی سیاست ہے۔ مسلمانوں کے لئے قرآنی سیاست یہ ہے کہ مسلم اقوام، مسلم جماعتیں آپس میں یکجہتی قائم کریں، گویا وعدہ کیا جا رہا ہے کہ اگر آپ مسلم اقوام نے آپس میں یکجہتی قائم کر لی تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ عزت الہی آپ کی پشت پناہ بن جائے گی۔ یعنی پھر آپ ساری رکاوٹیں کو عبور کر لیں گے، سارے دشمنوں پر فتحیاب ہو جائیں گے۔ حکمت الہیہ آپ کی پشت پناہ ہوگی۔ یعنی تمام قوانین خلقت آپ کی پیشرفت میں مددگار بنیں گے۔ یہ قرآنی منطق اور قرآنی سیاست ہے۔

اس کے برعکس سیاست، دشمنان اسلام کی سیاست ہے۔ یعنی دنیا کی استکباری طاقتوں اور دوسروں کے حقوق پر ڈاکا ڈالنے والوں کی سیاست۔ اس کی پالیسی "تفرقہ ڈالو اور راج کرو" کی پالیسی ہے۔ ان کی بنیادی پالیسی ہی تفرقہ اندازی ہے۔ تفرقہ اندازی کی اس پالیسی کو اسلامی ممالک میں آج تک گوناگوں حربوں کے ذریعے نافذ کیا جاتا رہا ہے۔ آج بھی وہ باز نہیں آئے ہیں، وہ سبب بنتے ہیں کہ مسلم اقوام کے دل ایک دوسرے کی طرف سے مکدر رہیں۔ لیکن اب قومیں بیدار ہو گئی ہیں۔ آج وہ دن ہے کہ امت اسلامی اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کے اس حربے کو ناکام کر سکتی ہے۔

میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ملت ایران کا جو دشمن ہے وہی ملت فلسطین کا بھی دشمن ہے، وہی ملت لبنان کا بھی دشمن ہے، وہی ملت عراق کا بھی دشمن ہے، وہی ملت مصر کا بھی دشمن ہے، وہی ملت شام کا بھی دشمن ہے، ملت یمن کا بھی دشمن ہے۔ دشمن ایک ہی ہے۔ بس الگ الگ ملکوں میں دشمن کی روشیں مختلف ہیں۔ کہیں نفسیاتی جنگ کے ذریعے، کہیں اقتصادی دباؤ کی مدد سے، کہیں دو ٹن وزنی بم کی مدد سے، کہیں اسلحے سے، کہیں مسکراہٹوں کے ذریعے ہمارے دشمن اپنی اس پالیسی کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں۔ مگر سب کا کمانڈ اینڈ کنٹرول روم ایک ہے۔ ایک ہی جگہ سے احکامات صادر ہوتے ہیں۔ ایک ہی جگہ سے مسلم آبادیوں اور مسلم اقوام پر حملوں کا فرمان جاری ہوتا ہے۔ اگر یہ پالیسی کسی ایک ملک میں کامیاب ہوئی، کسی ایک ملک پر اس نے غلبہ پیدا کیا تو اس ایک ملک کی طرف سے آسودہ خاطر ہونے کے بعد دشمن دوسرے ملک کی طرف بڑھے گا۔ اقوام کو چاہئے کہ ایسا نہ ہونے دیں۔

جو قوم بھی چاہتی ہے کہ دشمن کے مفلوج کن محاصرے میں گرفتار نہ ہو، اسے چاہئے کہ پہلے ہی اپنی آنکھیں کھلی رکھے، بیدار رہے، جیسے ہی دیکھے کہ دشمن کسی دوسری ملت کی سمت بڑھا ہے، خود کو اس مظلوم اور ستم رسیدہ قوم کے دکھ درد کا شریک جانے، اس کی مدد کرے، اس سے تعاون کرے تاکہ دشمن وہاں کامیاب نہ ہو سکے۔ اگر دشمن وہاں کامیاب ہو گیا تو دوسرے پوائنٹ کی جانب بڑھے گا۔ ہم مسلمان برسوں اس حقیقت سے غفلت برتتے رہے اور اس کا نتیجہ بھی ہم نے دیکھا۔ اب آج ہمیں غافل نہیں ہونا ہے۔ ہمیں اپنے ہوش و حواس بجا رکھنا چاہئے۔ ہمیں چاہئے کہ دفاعی بیلٹ کو، خود مختاری کی بیلٹ کو، عزت و وقار کی بیلٹ کو افغانستان سے یمن تک، ایران سے غزہ و لبنان تک سارے اسلامی ملکوں میں، ساری مسلم اقوام میں محکم کریں۔ یہ پہلا نکتہ ہے جو میں آج عرض کرنا چاہ رہا تھا۔

آج میری زیادہ گفتگو لبنانی اور فلسطینی بھائیوں سے ہے جو مشکلات سے دوچار  ہیں۔ دوسرے خطبے میں یہ باتیں ان سے عرض کروں گا۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اسلام کے دفاعی احکامات نے ہمیں ہمارے فریضے سے آگاہ کر دیا ہے۔ اسلام کے دفاعی احکام نے بھی، ہمارے آئین نے بھی اور بین الاقوامی قوانین نے بھی، ویسے ان قوانین کی نگارش میں ہمارا کوئی رول نہیں رہا ہے، مگر حتی ان قوانین میں بھی یہ چیز جو میں عرض کرنے جا رہا ہوں مسلّمہ حقائق کا درجہ رکھتی ہے۔ وہ چیز یہ ہے کہ ہر قوم کو اپنی سرزمین کا، اپنے گھر کا، اپنے ملک کا، اپنے مفادات کا ہر جارح کے مقابلے میں دفاع کرنے کا حق ہے۔ اس بات کا یہ مطلب ہے۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ ملت فلسطین کو پورا حق ہے کہ اس دشمن کے مقابلے میں جس نے اس کی سرزمین پر قبضہ کر رکھا ہے، اس کے گھر پر قبضہ کر لیا ہے، اس کی کھیتیوں کو تباہ کر دیا ہے، اس کی زندگی کو تباہ کر دیا ہے، دفاع کرے۔ ملت فلسطین کو یہ حق حاصل ہے۔ یہ بہت مدلل بات ہے جس کی تایید آج عالمی قوانین بھی کرتے ہیں۔

فلسطین کس کا ہے؟ فلسطینی عوام کون ہیں؟ یہ قابض کہاں سے آئے ہیں؟ ملت فلسطین کو ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا حق ہے۔ کوئی بھی عدالت، کوئی بھی مرکز، کوئی بھی بین الاقوامی ادارہ ملت فلسطین پر اعتراض کا حق نہیں رکھتا کہ وہ کیوں غاصب صیہونی حکومت کے خلاف سینہ سپر ہوکر کھڑی ہے۔ کسی کو حق نہیں ہے۔ جو لوگ ملت فلسطین کی مدد کر رہے ہیں وہ بھی در اصل اپنے فریضے پر عمل کر رہے ہیں۔ کوئی بھی کسی بھی بین الاقوامی قانون کی رو سے ملت لبنان اور حزب اللہ لبنان پر اعتراض کا حق نہیں رکھتا کہ وہ کیوں غزہ کی اور فلسطینی عوام کے قیام کی حمایت کر رہی ہے۔ یہ ان کا فریضہ تھا، انہیں یہ کرنا ہی تھا۔ یہ تو اسلامی حکم بھی ہے، عقل کا تقاضہ بھی ہے اور بین الاقوامی اور عالمی منطق بھی ہے۔ فلسطینی اپنی سرزمین کے لئے لڑ رہے ہیں، ان کا دفاع قانونی ہے، ان کی مدد قانونی ہے۔

بنابریں یہ سارے حملے اور طوفان الاقصی آپریشن جو گزشتہ سال انہیں ایام میں انجام دیا گيا، (3) بالکل صحیح اور بین الاقوامی قوانین کی رو سے منطقی قدم تھا۔ اس میں فلسطینی حق بجانب تھے۔ لبنانیوں کا فلسطینی عوام کے دفاع کے لئے دلیری سے کھڑے ہو جانا بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ وہ بھی قانونی، عقلمندانہ، منطقی اور جائز اقدام تھا۔ کسی کو یہ حق نہیں کہ ان پر تنقید کرے کہ آپ ان کے دفاع کے لئے کیوں آگے آئے۔ دو تین شب قبل ہماری مسلح فورسز کا درخشاں کارنامہ بھی پوری طرح قانونی اور جائز اقدام تھا۔ (4) ہماری مسلح فورسز نے جو کیا وہ علاقے میں امریکہ کے پاگل کتے، خوں آشام انتظامیہ، بھیڑیا صفت حکومت کے حیران کن جرائم پر غاصب صیہونی جکومت کو دی جانے والی کم ترین سزا تھی۔ اس تعلق سے اسلامی جمہوریہ کا جو بھی فریضہ ہوگا اسے پوری قوت، استحکام اور تیقن کے ساتھ انجام دے گی۔ فریضے پر عمل آوری میں نہ تو ہم لیت و لعل سے کام لیں گے اور نہ عجلت و جلدبازی کریں گے۔ لیت و لعل بھی نہیں کریں گے، کوتاہی بھی نہیں کریں گے اور عجلت پسندی کا شکار بھی نہیں ہوں گے۔ جو منطقی اقدام ہے، عقلی اقدام ہے، جو سیاسی و عسکری عہدیداران کی نظر میں صحیح ہوگا وہ اپنے وقت پر، اپنے موقع پر انجام دیا جائے گا۔

دوسرے خطبے میں لبنان کے مسائل پر بات ہوگی اور اس خطبے میں ہمارا خطاب علاقے کے ممالک میں رہنے والے ہمارے عرب بھائیوں سے ہے۔ لہذا یہ خطبہ عربی زبان میں دوں گا۔

بِسمِ اللَهِ الرَّحمٰنِ الرَّحیمِ. وَ العَصرِ * اِنَّ الاِنسانَ لَفی‌ خُسرٍ * اِلَّا الَّذینَ آمَنوا وَ عَمِلُوا الصّالِحاتِ وَ تَواصَوا بِالحَقِّ وَ تَواصَوا بِالصَّبرِ. (5)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

والحمد للہ رب العالمین، احمدہ و استعینہ و استغفرہ و اتوکل علیہ و اصلی و اسلّم علی حبیبہ الرسول الاعظم، سیدنا محمد المصطفی و آلہ الطاھرین سیما علی امیر المومنین و حبیبتہ الزھراء المرضیۃ و الحسن و الحسین سیدی شباب اھل الجنۃ و علی بن الحسین زین العابدین و محمد بن علی الباقر و جعفر ابن محمد الصادق و موسی بن جعفر الکاظم و علی ابن موسی الرضا و محمد بن علی الجواد و علی بن محمد الھادی و الحسن ابن علی الزکی العسکری و الحجۃ بن الحسن القائم المھدی صلوات اللہ علیھم اجمعین و اسلم علی صحبہ المنتجبین و من تبعھم باحسان الی یوم الدین و علی حماۃ المستضعفین و ولاۃ المومنین۔

میں نے ضروری سمجھا کہ میرے بھائی، میرے عزیز، باعث افتخار، عالم اسلام کی محبوب ہستی، علاقے کی اقوام کی زبان گویا، لبنان کے گوہر درخشاں جناب سید حسن نصر اللہ رضوان اللہ علیہ کو خراج عقیدت کا پروگرام تہران کی نماز جمعہ میں منعقد ہو اور کچھ نکات بھی سب کی خدمت میں عرض کر دوں۔

اس خطبے میں خطاب تمام عالم اسلام سے ہے لیکن میری عزیز ملت لبنان و فلسطین اس کے خصوصی مخاطب ہیں۔ ہم سب کے سب سید عزیز کی شہادت پر غمزدہ اور ان کے سوگوار ہیں۔ یہ بہت بڑا خسارہ ہے، اس نے واقعی ہمیں غمزدہ کر دیا۔ البتہ ہماری عزاداری افسردگی، ذہنی انتشار اور مایوسی کے معنی میں نہیں ہے۔ یہ سید الشہدا امام حسین ابن علی علیہما السلام کی عزاداری جیسی ہے: زںدگی دینے والی، سبق آموز، جوش و جذبہ پیدا کرنے والی اور امید آفرین۔

سید حسن نصر اللہ کا جسم ہمارے درمیان سے چلا گیا لیکن ان کی اصلی شخصیت، ان کی روح، ان کا راستہ، ان کی دور رس آواز بدستور ہمارے درمیان ہے اور باقی رہے گی۔

وہ ظالم اور لٹیرے شیاطین کے مقابلے میں مزاحمت کا بلند پرچم تھے، مظلوموں کی بولتی زبان اور بہادر محافظ تھے، مجاہدین اور حق پرستوں کی جرئت و  ڈھارس کا موجب تھے۔ ان کی مقبولیت اور گہری تاثیر کا دائرہ لبنان، ایران اور عرب ممالک کی حدود سے آگے تک پھیلا ہوا تھا اور اب ان کی اس شہادت سے ان کی تاثیر میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔

آپ وفادار ملت لبنان کے لئے ان کا سب سے اہم زبانی اور عملی پیغام یہ ہے کہ امام موسی صدر، عباس موسوی اور دیگر ممتاز شخصیات کے رخصت ہو جانے کی صورت میں آپ مایوس اور پریشان نہ ہوں، پیکار کی راہ میں شک و تردد سے دوچار نہ ہوں، اپنی کوششیں اور توانائياں بڑھائیے، اپنے اتحاد و یکجہتی میں اضافہ کیجئے۔ جارح و حملہ آور دشمن کے مقابلے میں جذبہ ایمان و توکل کی تقویت کرکے مزاحمت کیجئے اور اسے شکست دیجئے۔

میرے عزیزو! باوفا ملت لبنان! حزب اللہ اور امل کے جوشیلے جوانو! میرے فرزندو! آج بھی اپنی ملت، مزاحمتی محاذ اور عالم اسلام سے ہمارے شہید سید کی خواہش یہی ہے۔

پلید اور پست دشمن جب حزب اللہ یا حماس، یا جہاد اسلامی یا دیگر مجاہد فی سبیل اللہ تحریکوں کے مستحکم ڈھانچے کو کوئی بڑا نقصان نہیں پہنچا پا رہا ہے تو ٹارگٹ کلنگ، بمباری، قتل عام اور غیر مسلح افراد کو سوگوار کرکے اسے اپنی کامیابی ظاہر کر رہا ہے۔

نتیجہ کیا نکلا؟ اس روئے کا نتیجہ عوام الناس کے غم و غصہ کی شدت، جذبات کا بھڑک جانا، زیادہ لوگوں، سرداروں، رہنماؤں اور جاں نثاروں کا سامنے آنا اور خوں آشام بھیڑئے کے گرد محاصرہ تنگ تر ہو جانا اور صفحہ ہستی سے اس کے شرمناک وجود کا خاتمہ ہے۔

عزیزو! غمزدہ دلوں کو اللہ کے ذکر اور اس سے طلب نصرت کے ذریعے سکون ملے گا، ویرانیاں دور ہوں گی اور آپ کے صبر و استقامت سے عزت و وقار میں اضافہ ہوگا۔

عزیز سید تیس سال تک سخت پیکار میں قائد کے فرائض انجام دیتے رہے اور حزب اللہ کو ایک ایک قدم کرکے بلندیوں پر پہنچایا۔ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا. (6)

سید کی مدبرانہ کوششوں سے حزب اللہ نے مرحلہ بہ مرحلہ، صبر و تحمل کے ساتھ منطقی و فطری انداز میں نمو کا عمل طے کیا اور مختلف مواقع پر صیہونی حکومت کو پسپا کرکے دشمن کو اپنی موجودگی کا احساس کرایا۔ تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا. (7)

حزب اللہ واقعی شجرہ طیبہ ہے۔ حزب اللہ اور اس کے شجاع و شہید رہبر لبنان کی تاریخی و شناختی خصوصیات کا نچوڑ ہیں۔

ہم ایرانی بہت قدیم ایام سے لبنان اور اس کی خصوصیات سے آشنا ہیں۔ محمد بن مکی العاملی شہید، علی بن عبد العال کرکی، زین الدین العاملی شہید، حسین بن عبد الصمد العاملی، ان کے بیٹے محمد بھاء الدینی المعروف بہ شیخ البھایی اور دیگر دینی ہستیاں اور علما سربداران اور صفوی حکومتوں میں آٹھویں، دسویں اور گیارہویں صدی ہجری میں اپنے علم کی برکتوں سے فیض پہنچاتے رہے ہیں۔

زخمی اور لہولہان لبنان کا قرض ادا کرنا ہمارا اور تمام مسلمانوں کا فرض ہے۔ حزب اللہ اور شہید سید نے غزہ کا دفاع کرکے، مسجد الاقصی کے لئے جہاد کرکے اور غاصب و ظالم حکومت پر ضرب لگا کر پورے علاقے اور دنیائے اسلام کی حیاتی خدمت کی راہ میں قدم بڑھایا۔ غاصب حکومت کی سلامتی کی حفاظت پر امریکہ اور اس کے ہمنواؤں کا زور اس علاقے کے وسائل کو ہڑپنے اور اسے دنیا کی بڑی جنگوں میں استعمال  کرنے کے مقصد سے اس حکومت کو ایک حربے میں تبدیل کرنے کی مہلک پالیسی پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔ ان کی پالیسی اس حکومت کو علاقے سے مغربی دنیا کے لئے انرجی کی سپلائی اور مغرب سے پروڈکٹ اور ٹیکنالوجی اس علاقے میں لانے کے دروازے میں تبدیل کرنا ہے۔ اس کا مطلب غاصب حکومت کے وجود کی گارنٹی فراہم کرنا اور پورے علاقے کو اس کا محتاج بنا دینا ہے۔ مجاہدین کے خلاف اس حکومت کا سفاکانہ اور بے لگام رویہ اسی پوزیشن میں پہنچنے کی لالچ کا نتیجہ ہے۔

یہ حقیقت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اس حکومت پر پڑنے والا ہر وار خواہ وہ کسی بھی شخص اور تنظیم کی طرف سے ہو پورے علاقے بلکہ پوری انسانیت کی خدمت ہے۔

یقینا یہ صیہونی و امریکی خواب خیال باطل اور محال شئے ہے۔ یہ حکومت وہی شجرہ خبیثہ ہے جو زمین کی سطح سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے اور قول پروردگار کے مطابق اسے کوئی بقا نہیں ہے. (8)

یہ خبیث حکومت بنیاد سے عاری، مصنوعی اور ناپائيدار ہے اور صرف امریکہ کی مدد سے اس نے بہ مشکل اپنا وجود باقی رکھا ہے۔ لیکن اذن الہی سے وہ زیادہ نہیں ٹک سکے گی۔ اس دعوے کی واضح دلیل یہ ہے کہ اس وقت دشمن غزہ اور لبنان میں اربوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد امریکا و کئی مغربی حکومتوں کی وسیع مدد کے باوجود کچھ ہزار مردان جنگ اور مجاہد فی سبیل اللہ افراد کے مقابلے میں جو محصور بھی ہیں اور باہر سے ان کی ہر طرح کی مدد روک دی گئی ہے، شکست کھا گئی، اس کی ساری کامیابی بس گھروں، اسکولوں، اسپتالوں اور غیر مسلح افراد کے ہجوم والی جگہوں پر بمباری کرنا ہے۔

آج رفتہ رفتہ مجرم صیہونی گینگ بھی اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ حماس و حزب اللہ کو ہرگز شکست نہیں دے سکے گا۔

لبنان اور فلسطین کے ثابت قدم عوام! شجاع مجاہدین اور صابر و قدر شناس عوام! یہ شہادتیں، یہ زمین پر بہنے والا خون آپ کی تحریک کو کمزور نہیں مستحکم تر بنائے گا۔ ایک سال (1981)  کے موسم گرما کے تقریبا تین مہینے میں اسلامی مملکت ایران کی کئی درجن ممتاز شخصیات کو قتل کر دیا گيا، جن میں سید محمد بہشتی جیسی عظیم ہستی بھی شامل تھی، رجائی جیسے صدر اور باہنر جیسے وزیر اعظم شامل تھے، آیت اللہ مدنی، قدوسی، ہاشمی نژاد وغیرہ جیسے علما شامل تھے۔ ان میں سے ہر ایک ملّی یا مقامی سطح پر انقلاب کے ستونوں میں شمار ہوتے تھے اور ان کا چلا جانا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ لیکن انقلاب کی پیش قدمی رکی نہیں، وہ پسپا نہیں ہوا بلکہ اس کی رفتار مزید تیز ہو گئی۔

اس وقت بھی علاقے میں مزاحمت کو ان شہادوں کی وجہ سے پسپائی نہیں ہوگی، مزاحمت فتحیاب ہوگی۔

غزہ میں مزاحمت نے دنیا کی آنکھوں کو خیرہ کر دیا، اسلام کو عزت دی۔ غزہ میں تمام تر شرانگیزیوں اور پست حرکتوں کے مقابلے میں اسلام سینہ سپر ہوکر کھڑا ہے۔ کوئی بھی آزاد سوچ رکھنے والا انسان ایسا نہیں جو اس استقامت کو سلام نہ کرے اور سفاک و خوں آشام دشمن پر لعنت نہ بھیجے۔

طوفان الاقصی اور غزہ و لبنان کی ایک سال کی مزاحمت نے غاصب حکومت کو اس حالت میں پہنچا دیا کہ اس کا سارا ہم و غم اپنے وجود کو بچانا ہے، یعنی وہی فکرمندی جو وجود میں آنے کے ابتدائی برسوں میں اسے لاحق رہتی تھی۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ فلسطین و لبنان کے مجاہد مردوں کی جدوجہد نے صیہونی حکومت کو ستر سال پیچھے دھکیل دیا ہے۔

اس علاقے میں جنگ، بدامنی اور پسماندگی کی اصلی وجہ صیہونی حکومت کا وجود اور ان حکومتوں کی موجودگی ہے جو دعوی کرتی ہیں کہ علاقے میں امن و آشتی کے لئے کوشاں ہیں۔ علاقے کی سب سے بڑی مشکل اغیار کی دخل اندازی ہے۔ علاقے کی حکومتیں اس علاقے میں امن و سلامتی قائم کرنے پر قادر ہیں۔ اس عظیم اور نجات بخش ہدف کے لئے قوموں اور حکومتوں کی کوششوں اور جدوجہد کی ضرورت ہے۔

اللہ اس راہ پر چلنے والوں کے ساتھ ہے۔ "و انّ اللہ علی نصرھم لقدیر" (9) اللہ کا سلام ہو شہید رہنما نصر اللہ پر، شہید ہیرو ہنیہ پر اور مایہ ناز کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی پر۔

بِسمِ اللَهِ الرَّحمنِ الرَّحیمِ‌ * اِذا جاءَ نَصرُ اللَهِ وَ الفَتحُ * وَ رَاَیتَ النّاسَ یَدخُلونَ فی‌ دینِ اللهِ اَفواجاً * فَسَبِّح بِحَمدِ رَبِّکَ وَ استَغفِرهُ اِنَّهُ کانَ تَوّاباً.(10)

والسّلام علیکم و رحمة ‌الله و برکاته

 

1 نماز جمعہ تہران کے مصلائے امام خمینی میں پڑھی گئی۔

2 سورہ توبہ آیت 71

3  فلسطینی مزاحمتی تنظیموں نے 7اکتوبر 2023  کو طوفان الاقصی کے نام سے بڑا آپریشن کیا جس میں ہزاروں صیہونی ہلاک اور زخمی ہوئے اور سیکڑوں کو قید کر لیا گيا۔

4  ایران کے وعدہ صادق 2 فوجی آپریشن کی طرف اشارہ ہے جو شہید اسماعیل ہنیہ، سید حسن نصر اللہ اور شہید جنرل عباس نیل فروشان کی ٹارگٹ کلنگ اور بیروت کے ضاحیہ علاقے پر صیہونی حکومت کے شدید حملوں کے جواب میں ایرانی فورسز نے کیا۔ اس آپریشن میں اسرائیل کے اندر فوجی اور سیکورٹی مراکز کو نشانہ بنایا گیا۔

5  سورہ عصر

6 سورہ فتح آیت 29

7 سورہ ابراہیم آیت 25

8 سورہ ابراہیم آیت 26

9 سورہ حج آیت 39

10 سورہ نصر