بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
والحمد للہ ربّ العالمین والصّلاۃ والسّلام علی سیّدنا ونبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین الھداۃ المھدیّین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.
خواہران و برادران عزیز اور اسکولوں نیز یونیورسٹیوں کے میرے عزیز بچو! خوش آمدید۔
میں اپنی تقریر شروع کرنے سے پہلے ان باتوں کی طرف اشارہ کروں گا جو ان عزیز نوجوانوں نے سامراج سے مقابلے کے سلسلے میں تجویز کے عنوان سے بیان کی ہیں۔
میں یہ عرض کر دوں، سبھی جان لیں! ہمارے عزیز نوجوان بھی جان لیں کہ سامراج کے مقابلے میں ایرانی قوم کی آمادگی کے تعلق سے جو بھی ضروری اور مناسب ہے، چاہے فوجی پہلو سے ہو، اسلحہ جاتی اعتبار سے ہو اور چاہے سیاسی کام ہوں، جو بھی ضروری ہوگا، ہم وہ ضرور انجام دیں گے اور اس وقت الحمد للہ حکام اس کام میں مصروف ہيں۔ مطمئن رہیں کہ آج ہمارے عوام اور حکام عالمی نظام پر مسلط مجرمین اور عالمی سامراج کے مقابلے کی راہ میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ یقینا اس میں کوتاہی ہرگز نہیں کریں گے۔ اس کا یقین رکھیں۔
بات صرف انتقام کی نہیں ہے بلکہ ایک منطقی تحریک کی بات ہے۔ دین، اخلاق، شرع اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق مقابلے کی بات ہے۔ مطمئن رہیں کہ ایرانی عوام اور حکام اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی سستی اور کوتاہی نہیں کریں گے۔
نوجوانوں کے ساتھ میٹنگ فطری طور پر نورانی ہوتی ہے۔ نوجوانوں کے قلوب کمتر آلودہ اور زیادہ نورانی ہوتے ہیں۔ حیف ہوگا اگر میں آپ عزیز نوجوانوں کے اس اجتماع میں کوئی معنوی نصیحت نہ کروں۔ میں ذکر اور شکر کی تاکید کرتا ہوں۔ ہم جس راستے پر ہیں وہ مختصر نہیں ہے، آسان راستہ نہیں ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جس کو طے کرنے کی زیادہ ذمہ داری آپ نوجوانوں پر ہے۔ کل کی دنیا آپ کی ہے۔ کل کا ملک آپ کا ہے۔ کل کا عالمی نظام آپ کا ہے۔ آپ کا کام بہت سنگین ہے۔ اس راہ میں ہمت کی ضرورت ہے، معرفت کی ضرورت ہے، سعی وکوشش کی ضرورت ہے، لیکن سب سے زیادہ معنوی سہارے کی ضرورت ہے۔ اس سہارے کو آج میں دو لفظوں"ذکر" اور "شکر" میں بیان کروں گا۔
ذکر یعنی یاد خدا؛ یاد خدا سے غافل نہ ہوں۔ دعا ومناجات اور تلاوت قرآن سے دور نہ ہوں۔ میں ہمیشہ قرآن سے انسیت کی تاکید کرتا ہوں۔ قرآن کی معرفت حاصل کریں۔ اس سے آپ کو اس عظیم راہ میں بہت مدد ملے گی۔
شکر یعنی خدا کی نعمتوں کو پہچانیں اور انہیں فراموش نہ کریں۔ آپ کو خدا سے عظیم نعمتیں ملی ہیں۔ ایک ایسے نظام کی نعمت جس نے ظلم، سامراج، زور زبرستی، اور بین الاقوامی جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف جدوجہد کا بیڑا اٹھایا ہے۔ یہ عظیم ترین نعمت ہے۔ اس کے علاوہ دیگر نعمتیں بھی ہیں۔
مختلف دعاؤں میں یہ جملہ آیا ہے کہ "لاتجعلنی ناسیا لذکرک فیما اولیتنی ولاغافلا لاحسانک فیما اعطیتنی" (2) احسان الہی سے غلفت نہ کریں؛ خدا کی نعمتوں اور مہربانیوں سے غافل نہ ہوں۔
آپ کی یہی بیداری، آپ کی یہی آمادگی، آپ کا یہی جذبہ آور آپ کا یہی احساس توانائی کہ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ آگے بڑھ سکتے ہیں، دنیا کی کھوکھلی مادی طاقتوں سے ٹکر لے سکتے ہیں، بہت بڑی نعمت خدا ہے۔ خدا کی اس نعمت کو ہاتھ سے نہ نکلنے دیں۔ خدا کی نعمت کو پہچانیں اور اس سے اس کی صحیح جگہ پر استعمال کریں، یہ ہوگا شکر۔
یاد رکھیں کہ خدا کی مدد سے، خدا کے ساتھ دینے سے ، خدا کی ہدایت سے اور پروردگارکے مخلص اور صالح بندوں کی مدد سے ہم یہ راستہ طے کر سکتے ہیں۔
پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) آپ کے اہل بیت (علیہم السلام) اور اس راہ کے شہیدوں جیسے شہید نصراللہ، شہید سلیمانی، شہید سنوار اور دیگر شہدا کی روح سے مدد طلب کریں اور اس راستے پر آگے بڑھیں۔ یہ آج میرا پہلا جملہ اور پہلا نکتہ ہے۔
یہ مناسبت بہت اہم ہے۔ ان مناسبتوں کے تحفظ کے لئے فکری اور عملی کوششوں کی ضرورت ہے۔
یہ جو اسلامی جمہوریہ ایران میں ایک دن کو سامراج سے جدوجہد کے قومی دن کا نام دیا گیا ہے، یہ اس لئے ہے کہ ایرانی عوام تاریخی تجربے کو کبھی فراموش نہ کریں۔ ورنہ سامراج کے خلاف جدوجہد صرف ایک دن کی بات نہیں ہے بلکہ یہ ایک دائمی عمل ہے۔ آپ سامراج کے خلاف جدوجہد، ظلم و جارحیت کی علامتوں کے خلاف جدوجہد اور ظالمانہ عالمی نظام کے خلاف جدوجہد کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں۔ مجاہدت کے لئے کوئی خاص دن مخصوص نہیں ہے، لیکن ہم نے اس نام سے ایک دن اس لئے معین کیا ہے کہ ایرانی قوم کی تاریخ سے غفلت نہ برتی جائے۔
کچھ عناصر، عالمی لٹیرے امریکا اور علاقے میں اس کے عوامل کے خلاف ایرانی عوام کی اس آگاہانہ اور دلیرانہ تحریک کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنا اور پھر اس کی نفی کرنا چاہتے ہیں! ہمیں یہ نہیں ہونے دینا چاہئے۔ وہ ایرانی عوام کے تاریخی محفوظات کو مسترد کرنا چاہتے ہیں۔
امریکی جاسوسی اڈے کا مسئلہ ایسا ہے کہ نہ اس پر سوالیہ نشان لگ سکتا ہے اور نہ ہی اس حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کئے جا سکتے ہیں۔ لیکن کچھ عناصرعام لوگوں بالخوص نوجوانوں کے درمیان یہ بات پھیلا رہے ہیں کہ "کسی ملک کے سفارتخانے پر قبضہ کیوں کیا؟ یہ بین الاقوامی قوانین کے منافی اقدام تھا۔" اس طرح کی باتیں پھیلاتے ہیں۔ جو حقیقت وہ جان بوجھ کر عمدا چھپاتے ہیں، یہ ہے کہ امریکی سفارت خانہ، ابتدائے انقلاب میں، اس پر یونیورسٹی طلبا کا قبضہ ہونے سے پہلے تک، صرف ایک سفارتی اور انٹیلیحنس کا مرکز نہیں تھا، یہ بات تسلیم کہ دنیا کے سبھی سفارتخانے، جہاں وہ ہوتے ہیں، وہاں کی آشکارا اور خفیہ اطلاعات جمع کرکے اپنے مراکز کو منتقل کرتے ہیں، لیکن مسئلہ صرف یہ نہیں تھا، بلکہ مسئلہ یہ تھا کہ امریکی سفارت خانہ انقلاب کے خلاف اشتعال انگیز کرنے، اس کو ختم کرنے حتی حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی مبارک زندگی کے لئے خطرہ پیدا کرنے کے مرکز میں تبدیل ہو چکا تھا۔
شروع میں ہمارے نوجوانوں کی توجہ اس نکتے پر نہیں تھی، وہ دوسری وجہ سے اس سفارت میں داخل ہوئے تھے، لیکن جب اس کے اندر داخل ہوئے تو انہيں دستاویزات ملیں جنہیں انھوں نے پڑھا۔
یہ جو میں تاکید کرتا ہوں کہ نوجوان کتابیں پڑھیں، اسناد اور دستاویزات کا مطالعہ کریں اور حقائق سے مطلع ہوں، یہ اسی لئے ہے۔
امریکی سفارت خانہ انقلاب کے ابتدائی لمحات، انقلاب کے ابتدائی دنوں سے ہی انقلاب کے خلاف شازش کا مرکز بن گیا تھا۔ البتہ شروع میں وہ چکرا گئے، سمجھ نہیں پائے کہ ہوا کیا ہے، لیکن جیسے ہی سراسیمگی سے باہر نکلے، فوجی بغاوت کی سازش اور منصوبہ بندی شروع کر دی۔ مختلف اقوام اور عناصر کو ورغلانا شروع کر دیا۔ تفرقہ انگیزی شروع کر دی۔ انقلاب کے خلاف مہم کے لئے پہلوی دور کی (خفیہ تنظیم) ساواک کی باقیات کو جمع کرنا شروع کر دیا۔ امریکی سفارت خانہ، سفارت خانہ نہیں تھا، بلکہ انقلاب کے خلاف مہمات کا مرکز تھا، ایرانی عوام کے خلاف سازش کا مرکز تھا، ایرانی عوام کےعظیم انقلاب کو ناکام بنانے کی سازش کا مرکز تھا۔ بنابریں یہ واقعہ بہت ممتاز اور ایک تاریخی واقعہ ہے۔ ناقابل فراموش واقعہ ہے۔ ہماری تاریخ میں ایک اہم موڑ ہے۔
فرض کریں جن لوگوں نے ایک دن یہ کام کیا تھا، وہی اب تذبذب میں پڑ گئے ہوں، ممکن ہے کہ بعض شک و تردد کا شکار ہو گئے ہوں، لیکن حقیقت امر یہ ہے کہ یہ کام بہت بڑا کام ، ضروری کام تھا۔ اسی لئے حضرت امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے اپنی اس گہری بصیرت کی بنا پر اس اقدام کی حمایت کی تھی، یونیورسٹی طلبا کی اس تحریک کی تائید کی تھی۔ یہ کام لازمی اور ضروری تھا۔
امریکی سامراج کے خلاف ایرانی عوام کی جدوجہد کی وجہ کیا ہے؟ یہ ایک سوال ہے۔ اس کا روشن، واضح اور مستند جواب یہ ہے کہ یہ جدوجہد ہماری قوم اور ملک پر امریکی حکومت کے ظالمانہ اور بے شرمانہ تسلط کا رد عمل ہے۔ یہ تسلط اس مخالفت کی وجہ ہے۔
حقائق میں تحریف کرنے والے مورخین یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایران اور امریکا کے درمیان 1979 کے نومبر کے اوائل سے اختلاف شروع ہوا! یہ جھوٹ ہے۔ امریکی ابتدائے انقلاب سے ہی بلکہ انقلاب سے پہلے سے ہی ایرانی عوام سے متصادم تھے اور ایرانی عوام کے خلاف انھوں نے ہر کوشش کی۔ کم سے کم 19 اگست 1953 سے (ایرانی عوام سے امریکا کی دشمنی جاری ہے) البتہ 19 اگست 1953 سے پہلے بھی امریکیوں کی موجودگی اور ان کی کوششوں کی داستان بہت طولانی ہے لیکن 19 اگست 1953 سب کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ ایران میں قومی اور عوامی حکومت اقتدار میں تھی، امریکی آئے اس اعتماد سے غلط فائدہ اٹھا کر جو حکومت کو ان پر تھا، خیانت کی اور اس حکومت کا تختہ الٹ دیا اور ظالم شاہی حکومت اقتدار میں لائے۔
ایرانی قوم نے طویل برسوں تک امریکی دشمنی کا سامنا کیا۔ 19 اگست کے واقعے کو ایرانی قوم نے محسوس کیا۔ آپ نوجوان حضرات کتابوں میں 1953 کے واقعات، ملی تحریک اور امریکی مداخلت کا مطالعہ کریں۔ جو اہل تحقیق ہیں وہ تحقیق کریں اور لکھیں۔ یہ ہماری قوم کی تاریخ کے اہم موڑ ہیں۔ ہماری تاریخ کے اہم موڑ ہیں۔
امریکیوں نے ایران میں فوجی بغاوت کروائی، تیس کے عشرے میں ساواک (شاہی حکومت کی انتہائی سفاک خفیہ تنظیم) تشکیل دی۔ جو حریت پسندوں اور مجاہدین آزادی کو ایذائیں دینے کا مرکز تھا۔ شاہ کی خفیہ تنظیم ساواک کے جرائم پیشہ کارندوں نے کتنے نوجوانوں، مومن انسانوں اور مجاہدین آزادی کو ایذائيں دیں۔ شاہ کی انٹیلیجنس کے اس مرکز میں جن لوگوں کو ایذائیں دی گئيں وہ یا مر گئے یا معذور ہو گئے۔ یہ ایرانی عوام نے قریب سے دیکھا ہے۔ ساواک کو کس نے بنایا تھا؟ ساواک امریکیوں نے بنائی تھی۔ اس کے کارندوں کو ایذائيں دینے اور ٹارچر کی ٹرینںگ بھی امریکیوں نے دی تھی۔ دسیوں ہزار امریکی مشیر مفت خوری کے لئے ایران لائے۔ وہ ایرانی فوج، انٹیلیجنس اور حکومت کے امور میں مداخلت بھی کرتے تھے اور جاسوسی بھی کرتے تھے۔ وہ ایرانی تہذیب و ثقافت بدلنے کی کوشش کے ساتھ ہی ایران پر امریکی تسلط میں روز افزوں اضافے کے مشن پر بھی کام کر رہے تھے۔
خبیث پہلوی حکومت امریکی مدد سے غاصب صیہونی حکومت کے قدم مضبوط کرنے کے عوامل میں شامل تھی۔
جن دنوں، یہ پورا خطہ، علاقے کی اکثر حکومتیں صیہونی حکومت سے روابط منقطع کر چکی تھیں، ایران کی شاہی حکومت صیہونی حکومت کو تیل دے رہی تھی، سہولتیں فراہم کر رہی تھی، اس کی پشت پناہی کر رہی تھی۔ یہ خیانت ناقابل فراموش ہے۔
افسوس کہ آج بھی بعض حکومتیں یہ کام کر رہی ہیں۔ آج بھی صیہونی حکومت علاقے میں وحشیانہ ترین جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے اور بعض حکومتیں اس کی مخالفت کرنے کے بجائے، اس کے مقابلے پر ڈٹ جانے کے بجائے، اقوام کی حمایت کرنے کے بجائے، فلسطین اور لبنان کے عوام کی حمایت کے بجائے، ظالم، خونخوار اور خبیث دشمن کی مدد کر رہی ہیں۔ اقتصادی مدد کر رہی ہیں حتی بعض فوجی مدد بھی کر رہی ہیں! مدد کرنے والے اسی علاقے کے ہیں۔ امریکا اپنی جگہ پر( اس کی مدد کر رہا ہے) مسئلہ، بین الاقوامی ظلم کے مقابلے کا ہے۔ ایرانی عوام کے لئے اسلامی تعلیمات کے مطابق ظلم کے خلاف مجاہدت فرض ہے۔ سامراج سے مقابلہ فرض ہے۔ سامراج یعنی ہمہ گیری اقتصادی، فوجی اور ثقافتی تسلط اور اقوام کی تحقیر۔ انھوں نے ایرانی عوام کی توہین کی جس پر ایرانی قوم نے سامراج کے خلاف جدوجہد شروع کی اور آئندہ بھی یقینا یہ جدوجہد جاری رکھے گی۔
اس سلسلے میں ایک بنیادی بات اس مجاہدت میں ایرانی قوم کی توفیق اور پیشرفت ہے۔ بعض یہ شبہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ "کیا امریکی حکومت اور امریکا جیسے طاقتور، جدید ترین اور پیشرفتہ سسٹم کا مقابلہ ممکن ہے؟ کیا اس کے خلاف جدوجہد کی جا سکتی ہے؟ ہاں، ایرانی قوم نے جدوجہد کی اور میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ یقینا آج تک ایرانی قوم کامیاب بھی رہی ہے۔ آج ایرانی قوم ، امریکا کے مقابلے میں، اس بڑے دشمن کے مقابلے میں، اس ہیبتناک بڑی طاقت کے مقابلے میں، جو صرف ایک گھڑکی سے اقوام کو خوفزدہ کرکے پیچھے دھکیل سکتی ہے، ڈٹ گئی، اور اس کو کمزورکر دیا۔ آج نوبت یہ آ گئی ہے کہ خود امریکا کے اندر طلبا تنظیمیں مغربی تہذیب، امریکی تمدن اور امریکی سرگرمیوں کے خلاف بیانات جاری کر رہی ہیں۔ یہ ہوا ہے۔
امریکی یونیورسٹی طلبا کی تنظیموں نے جو بیانات جاری کئے ہیں، ان میں وہ کہتی ہیں کہ "یہ ہم ہیں، ہم مغرب والے خود، مغربی تہذیب اور مغربی ثقافت کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں اور دنیا کی مظلوم اقوام اور ملکوں کی حمایت میں میدان میں اترے ہیں۔"
یہ بات انھوں اس بیان میں کہی ہے جو ابھی چند ماہ قبل جاری ہوا ہے۔
اس تحریک میں روز افزوں شدت آئے گی ۔ یقینا استقامتی محاذ ایرانی عوام اور دنیا کی مظلوم اقوام پیشرفت کریں گی۔
البتہ آج علاقے میں جو بڑے المیے رونما ہو رہے ہیں، لبنان اور غزہ میں جو ہو رہا ہے وہ بہت بڑا المیہ ہے۔ ایک سال میں پچاس ہزار لوگوں کی شہادت جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے، معمولی بات ہے؟!
امریکی انسانی حقوق کے دعوؤں کے ہمراہ، بے شرمی کے ساتھ ان جرائم کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ صرف حمایت ہی نہيں کر رہے ہیں بلکہ ان جرائم میں شریک ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر امریکی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکی بڑی بے شرمی کے ساتھ کہتے ہيں کہ "ہم صیہونی حکومت کی حمایت کریں گے، اس کی پشت پناہی کریں گے۔" یہ بات وہ صراحت کے ساتھ کہتے ہیں۔
یہ ایک عاقلانہ، خردمندانہ اور منطقی جدوجہد ہے۔ کوتاہ فکر اور کوتاہ بیں افراد، میں انہیں خائن نہیں کہہ رہا ہوں، عمدا خیانت کا الزام نہیں لگا رہا ہوں، لیکن کم سے کم وہ کوتاہ بیں تو ہیں، سامراج کے مقابلے میں ایرانی قوم کی جدوجہد کو غیر منطقی ظاہر کرنے کی کوشش نہ کریں۔ یہ تحریک غیر منطقی نہیں بلکہ منطقی، علاقلانہ اور انسانی نیز بین الاقوامی اصول وضوابط کے مطابق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اقوام عالم ایرانی قوم کو عزت کی ںگاہ سے دیکھتی ہیں۔ دشمنوں کے صحافتی اور ابلاغیاتی ذرائع، (پروپیگنڈہ ادارے) اس کے برعکس ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے۔
جب آپ آپریشن وعدہ صادق انجام دیتے ہیں تو جو ممالک آپ سے دور ہیں، ان کی سڑکوں پر بھی عوام نکل کر خوشیاں مناتے ہیں۔ یہ کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایرانی عوام کی تحریک اسلامی، قرانی، انسانی اور بین الاقوامی منطق کے مطابق ہے۔ یہ تحریک جاری رہنی چاہئے۔ البتہ اس کو صحیج روڈ میپ کے ساتھ جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔
آپ عزیز نوجوانو!عزیز طلبا وطالبات، پورے ملک میں موثر کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اپنے افکار کی تقویت کریں اور علم و دانش بڑھائيں۔ بغیر علم، بغیر فکر اور بغیر روڈ میپ کے کام صحیح طور پر انجام نہیں پا سکتا۔ مختلف شعبوں میں ہمیں علم، سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیشرفت کی ضرورت ہے۔
جو لوگ موجودہ امکانات ووسائل کے ساتھ بھرپور کوششوں میں مصروف ہیں، کام کر رہے ہیں، وہ دشمن کے مقابلے میں پیچھے نہیں ہٹیں گے اور دشمن کی کسی بھی کوشش کو بغیر جواب کے نہیں چھوڑیں گے؛ آپ اس سے مطمئن رہيں۔ جو لوگ ملت ایران کی نمائندگی میں دشمن سے مقابلہ کر رہے ہيں، وہ دشمن کی کسی حرکت کو فراموش نہیں کریں گے۔ ہرگز فراموش نہیں کریں گے۔ دشمن چاہے صیہونی حکومت ہو یا امریکا، وہ ایران، ایرانی قوم اور استقامتی محاذ کے مقابلے میں جو بھی کریں گے یقینا انہیں اس کا دنداں شکن جواب ملے گا۔
آج کوئی امریکی انسانی حقوق کے، جس کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے، فریب میں آنے والا نہیں ہے۔ آج لبنان میں جو حالت ہے، غزہ میں جو حالت ہے، فلسطین میں جو حالت ہے اور اس خطے میں غاصب صیہونی حکومت کے عوامل امریکی مدد سے، امریکی مداخلت سے اور امریکی مشارکت سے جو جرائم انجام دے رہے ہیں، ان کے پیش نظر ان بے معنی انسانی حقوق کی کوئی حمایت نہیں کر سکتا جن کا امریکا دعویدار ہے۔
آج الحمد للہ دنیا اس بات کو جانتی اور سمجھتی ہے کہ جو لوگ ان جرائم کے ساتھ انسانی حقوق کے دعوے کرتے ہیں اور سید حسن نصراللہ، ہنیہ، سلیمانی اور دیگر شہدا جیسے عظیم انسانوں کو دہشت گرد کہتے ہیں وہ خود دہشت گرد ہیں۔
جو کام ہونا چاہئے وہ اس راہ میں اقوام کی عمومی تحریک ہے۔ ہمارے نوجوان، دوسرے ملکوں کے نوجوانوں سے رابطہ رکھیں، ہمارے اسکولوں اور کالجوں کے طلبا علاقے کے اسلامی ملکوں کے اسکولی طلبا کے ساتھ رابطہ رکھیں اور ہماری یونیورسٹیوں کے طلبا حتی علاقے سے باہر کے ملکوں کے یونیورسٹی طلبا کے ساتھ بھی رابطہ برقرار رکھیں ۔ ان دنوں، رابطے کے ذرائع اور وسائل کم نہیں ہیں۔ آپ رابطے برقرار کر سکتے ہیں۔ ان کے لئے حقائق بیان کریں۔ دنیا کے سبھی نوجوانوں، دوسرے ملکوں کے نوجوانوں کو ان کے فرائض کی یاد دہانی کرائيں تاکہ سامراج کے خلاف دنیا میں ایک عظیم عمومی تحریک وجود میں آئے۔ یہ تحریک وجود میں آئے گی اور یہ اسلامی و انسانی تحریک اور استقامتی محاذ دنیا میں اپنی جگہ حاصل کرے گا اور یقینا دشمن کو شکست ہوگی۔
آج کا دن میرے لئے بہت اچھا تھا۔ یہ ملاقات بہت شیریں ہے۔ ان شاء اللہ خداوند عالم آپ سب کو محفوظ رکھے، آپ کی نصرت فرمائے۔ میں آپ سب کے لئے دعا گو ہوں۔ امید ہے کہ ان شاء اللہ خداوند عالم آپ سب کو توفیقات عنایت فرمائے گا۔
والسلام علیکم ورحمت اللہ
1۔ اس ملاقات میں پہلے چند اسکولی اور یونیورسٹی طلبا نے کچھ باتیں بیان کیں۔
2۔ اقبال الاعمال جلد 1 صفحہ 188