جب رائے عامہ کو کنٹرول کرنا ممکن نہ ہو
7 اکتوبر 2023 کی دوپہر کو جب فلسطینی مجاہدین نے غزہ پٹی کے محاصرے کو توڑ دیا اور اس سے باہر نکل گئے تو صیہونی حکومت نے خود کو ایک بڑے میدان میں پایا۔ صیہونی ایک طرف تو مٹی میں مل جانے والی اپنی فوجی حیثیت و عزت کو بحال کرنے کے درپے تھے اور دوسری طرف وہ اس واقعے کو اپنی دائمی خواہش کو پورا کرنے یعنی فلسطین سے فلسطینیوں کو باہر نکالنے کے لیے ایک موقع کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ بنابریں جنگ، دو محاذوں پر شروع ہوئی؛ پہلا محاذ سامراجی تشریح اور دوسرا محاذ، اس تشریح کی بنیاد پر نسل کشی۔
جنگ کے بالکل ابتدائی لمحوں سے ہی صیہونیت کے حامی عفریت میڈیا اور مزاحمت اور فلسطین کے حامی میڈیا، آرٹ اور یونیورسٹیوں کے میدان میں سرگرم افراد کے درمیان عالمی سطح کا ایک بڑا کارزار گرم ہو گیا۔ دونوں طرف کے لوگوں نے ایک کلیدی عبارت کو اپنے ایجنڈے کا سرنامہ قرار دیا:
پوری دنیا کے لوگ ہر دن خبریں پڑھتے تھے۔ وہ دونوں تشریحوں کا موازنہ کرتے تھے اور مغربی ایشیا کے خطے میں جنگ کے سلسلے میں اپنے خیالات اور اندازوں پر نظر ثانی کرتے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی تبدیلی آ رہی ہے۔
فکری آئيڈیل کی تبدیلی(1)
جنگ کے ہر گزرتے دن کے ساتھ، ان میں سے کوئی ایک تشریح مضبوط اور دوسری کمزور ہو رہی تھی۔ مغربی دنیا، جس نے انسانی حقوق اور تمدن کے دعوے کے ساتھ کئي عشروں سے عالمی رائے عامہ کو اپنے کنٹرول میں لے رکھا تھا، صیہونی حکومت کی پشت پر کھڑی ہو گئي اور ہتھیار بھیج کر، انفارمیشن اور عسکری و مالی مدد کر کے پوری طرح سے میدان میں آ گئي۔ دوسری طرف مزاحمتی گروہ تھے جن کی پیشانی پر دہشت گرد ہونے کے دسیوں لیبل لگا دیے گئے تھے اور ان کے بارے میں دنیا کے لوگوں کا تصور، داعش جیسے دہشت گرد گروہوں سے ملتا جلتا تھا۔ اب واقعات یکے بعد دیگرے رونما ہو رہے تھے: صیہونی حکومت اسپتالوں پر بمباری کر رہی تھی اور مغرب اس کی حمایت کر رہا تھا۔ حماس، سات اکتوبر کے واقعے میں بچوں اور بزرگوں کے ساتھ اپنے افراد کے رحم دلانہ رویے کی تصاویر جاری کر رہی تھی اور صیہونی حکومت کے پروپیگنڈے پر پانی پھیر رہی تھی۔ صیہونی حکومت غزہ میں پانی، بجلی اور غذائی اشیاء نہیں جانے دے رہی تھی جبکہ رہا ہونے والے صیہونی فوجی قیدی بتا رہے تھے کہ ان کی نگہبانی کرنے والے حماس کے افراد انھیں بہترین کھانا اور دیگر وسائل فراہم کرتے تھے۔ صیہونی حکومت غزہ کے مظلوم لوگوں کو بھوکا رکھ کر، بے گھر بنا کر اور مسلسل ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی پر مجبور کر کے انھیں مزاحمتی تحریک کے خلاف اقدام کرنے کے لیے ورغلانے کی کوشش کرتی تھی تاہم غزہ کے لوگ ہر بار اپنے شہید بچوں کی لاش دیکھ کر خدا کی حمد بجا لاتے تھے اور قرآن کی تلاوت کرتے تھے۔ صیہونی حکومت، پناہ گزیں کیمپوں، اسکولوں اور کھانا تقسیم کرنے کی جگہوں جیسے لوگوں کے اکٹھا ہونے کے مقامات پر بمباری کرتی تھی جبکہ حماس کے مجاہدین نے شمالی غزہ کے علاقے میں، جو لوگوں سے خالی ہو چکا تھا، صیہونی حکومت کی جنگي مشین کو کئی مہینے تک زمیں بوس کیے رکھا۔ صیہونی حکومت مزاحمت کے رہنماؤں اور ان کے اہل خانہ پر بدعنوانی اور عالمی امداد سے غلط فائدہ اٹھانے کا الزام لگاتی تھی جبکہ مزاحمت کے رہنماؤں کے بچے عام لوگوں کے ساتھ اور غزہ کے خطروں سے بھرے علاقوں میں شہید ہو رہے تھے۔ صیہونی حکومت کے ان تمام جرائم کے لیے جو بھی چیز ضروری ہوتی تھی وہ امریکا اور دوسری مغربی طاقتیں فراہم کر رہی تھیں۔ حقیقی دنیا اور صیہونیت نواز میڈیا کے پروپیگنڈوں کے درمیان یہ واضح تضاد، صیہونی حکومت کی غاصبانہ قبضے کی تاریخ میں ایک عدیم المثال واقعے پر منتج ہوا۔ فلسطین اب صرف مسلم اقوام کا ہی نہیں، پوری دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ بن گیا تھا۔
سب سے بڑے مسئلے پر بھرپور توجہ
"ہمیں اپنی توانائي اس جگہ صرف کرنی چاہیے جو واقعی اہم ہو، جیسے غزہ میں فلسطینیوں کی زندگي کا مسئلہ۔"(2)
کوئي دن اور ہفتہ ایسا نہیں گزرتا جب کوئی فنکار، سیاسی کارکن، انفلواینسر یا اسی طرح کا کوئي شخص مغرب میں اس طرح کا جملہ نہ کہے اور فلسطین سے اپنی حمایت کا اظہار نہ کرے۔ یورپ کی پارلیمنٹس سے لے کر امریکی کانگریس تک، اسپورٹس اسٹیڈیمز سے لے کر جدید ترین کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی رونمائی کے پروگرام(3) اور کونووکیشن یا تقسیم اسناد کے پروگراموں(4) تک ہر جگہ غزہ، فلسطین اور نسل کشی کی بات ہے۔ البتہ میڈیا میں آنے والی یہ باتیں، برف کے پہاڑ کی نوک (tip of the iceberg) کی طرح ہیں۔ مغربی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق امریکا میں 13 ہزار سے زیادہ صیہونی مخالف مظاہرے ہوئے ہیں، یورپ میں اسی طرح کے 5 ہزار سے زیادہ مظاہرے ہوئے ہیں جبکہ لاطینی امریکا اور افریقا میں قریب 2 ہزار مظاہرے ہو چکے ہیں۔ ان میں شاید سب سے اہم امریکی اسٹوڈینٹس کا یونیورسٹی کیمپوں میں دھرنا اور صیہونی حکومت کے ساتھ اپنی اپنی یونیورسٹی کے تعاون کو رکوانے کے لیے ان کی کوشش تھی جسے امریکی حکومت نے بڑی شدت سے کچلنے کی کوشش کی اور پوری دنیا کی توجہ اس جانب مبذول ہو گئي۔ پوری دنیا میں اسرائیل اور اسرائیل سے متعلق کمپنیوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی تحریکوں کے سبب بھی میک ڈونلڈز اور اسٹار بکس جیسی کمپنیوں کو اربوں ڈالر کا خسارہ برداشت کرنا پڑا ہے۔
امریکا اور یورپ میں کرائے جانے والے تازہ ترین سروے کی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں صیہونی حکومت کی حمایت کی شرح اپنی کم ترین حد کو اور فلسطین اور مزاحمت کی حمایت کی شرح اپنی اعلی ترین حد کو پہنچ گئي ہے۔ بعض یورپی ممالک، صیہونی حکومت کو ہتھیاروں کی برآمد روکنے پر مجبور ہو گئے ہیں اور ہیگ کی عالمی عدالت نے نسل کشی کے سبب صیہونی حکومت کے مجرم سرغناؤں کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا ہے۔
عالم اسلام میں تمام مسائل، فلسطین کے محور کے گرد گھومتے ہیں۔ خلیج فارس کے ساحلی عرب ممالک کے ساتھ ایران کے تعلقات میں، امریکا اور مغرب کے ساتھ عرب ملکوں کے روابط میں، بنگلادیش، انڈونیشیا، ملیشیا اور پاکستان میں عوام کے ملین مارچ میں اور ان سب سے بڑھ کر صیہونی حکومت کے ساتھ مزاحمتی محاذ کی تقریبا بیس مہینے سے جاری جنگ میں، غزہ کا مسئلہ سب سے مرکزی مسئلہ رہا ہے۔
صیہونی حکومت ایک محاذ ہار چکی ہے اور دنیا منتظر ہے
صیہونی حکومت کی تشکیل کے وقت سے ہی، صیہونیوں نے اپنے آپ کو ایک نسل کشی کی قربانی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے یہ ظاہر کیا کہ وہ بغیر سرزمین والے ایسے مظلوم لوگ ہیں جو بغیر لوگوں والی سرزمین پر پہنچے ہیں اور انھیں اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ اسرائيل کے لوگ، "مسلمان دہشت گردوں" اور "وحشی عربوں" کے تشدد کی قربانی تھے اور تمدن کی اس جنگ میں انھوں نے مشرق وسطی میں واحد جمہوریت تشکیل دی تھی۔ یہ سرکاری پروپیگنڈا، ان سبھی چیزوں کا پشت پناہ تھا جو پچھلے ستر برسوں میں اسرائيل میں رونما ہوئي تھیں اور طے پایا تھا کہ اکیسویں صدی کے آغاز میں، اپنے آخری ہدف یعنی فلسطین پر مکمل قبضے کو حاصل کر لے۔
آج یہ تشریح یا پروپیگنڈا جڑ سے ختم ہو چکا ہے اور اس کے تمام نتائج پر بھی بات ہونے لگی ہے۔ غزہ کے عوام کی استقامت نے بات یہاں تک پہنچا دی ہے کہ "کیا تم حماس کی مذمت کرتے ہو؟" کہنے والی اونچی اونچی آوازیں بھی اب اپنے میڈیا میں صیہونی حکومت کے حکام سے سوال کر رہی ہیں۔(5) اب اہم سوال پوچھنے اور حقائق بیان کرنے کے لیے کوئی حدبندی نہیں رہ گئی ہے:
اسرائيل ایک ملک نہیں ہے۔
صیہونیوں کو اپنے دفاع یا فلسطین کی زمین پر غاصبانہ قبضے کا کوئی حق نہیں ہے۔
صیہونی حکومت کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
فلسطین کے لوگوں کو خود اپنی آئندہ حکومت کا انتخاب کرنا چاہیے۔
آج، جس طرح سے ان جملوں کو کہنا معیوب نہیں ہے، اسی طرح انھیں عملی جامہ پہنانے کے لیے اقدام بھی معیوب نہیں ہونا چاہیے۔ رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ خامنہ ای نے اس سال کے اپنے پیغام حج میں اسی بات پر تاکید کرتے ہوئے کہا ہے: "غزہ کے عوام کی حیرت انگیز مزاحمت نے مسئلۂ فلسطین کو عالم اسلام اور دنیا کے تمام آزاد منش انسانوں کی توجہ کا سب سے بڑا مرکز بنا دیا ہے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور اس مظلوم قوم کی حمایت کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔"
یہ تاریخی انصاف کے نفاذ کا ایک تاریخی موقع ہے اور ہم سب اس عدالت میں انصاف کے نفاذ کے ذمہ دار ہیں۔