سوال: آپ نے اور آپ کے ہمراہ آئے وفد نے غزہ میں جنگ بندی اور صیہونی دشمن سے سخت ترین ٹکراؤ میں مزاحمت کی فتح کے بعد پہلی بار رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کا سب سے اہم نکتہ کیا تھا اور اس کے سلسلے میں آپ کا تجزیہ کیا ہے؟

جواب: سب سے پہلے تو میں یہ کہوں گا کہ رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات، فلسطینی قوم اور فلسطینی مزاحمت کے لیے بہت اہم ہے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ کچھ ہی دن پہلے حماس کے ہمارے بھائيوں کے ایک وفد نے ان سے ملاقات کی تھی۔ سیاسی و معنوی سطح پر اور دوسری سطحوں پر بھی فلسطینی مزاحمت کی حمایت میں ہم رہبر انقلاب کے رول پر پورا یقین اور اطمینان رکھتے ہیں اور اسی وجہ سے فلسطینی قوم اور مزاحمت رہبر انقلاب کی بہت قدردان ہے۔ یہیں سے ان سے ملاقات کی اہمیت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ رہبر انقلاب نے فلسطینی مزاحمت اور فلسطین، لبنان اور خطے میں مزاحمت کے کارناموں اور کامیابیوں کو بہت زیادہ سراہا۔ یہاں بھی ہم رہبر انقلاب اسلامی ایران کی حیثیت سے رہبر معظم سے ملاقات کی اہمیت کو سمجھ سکتے ہیں۔ فلسطین، لبنان اور پورے خطے میں مزاحمت کی حمایت میں ان کا بنیادی کردار تھا اور ہے۔

سوال: طوفان الاقصیٰ آپریشن کو شروع ہوئے پانچ سو سے زیادہ دن ہو گئے ہیں۔ جہاد اسلامی تحریک پہلے ہی دن سے دیگر اسلامی مزاحمتی گروہوں کے ساتھ رہی اور اس نے اسلام اور قرآن کی راہ میں بہت سارے شہیدوں کا نذرانہ پیش کیا۔ یہیں شہید سنوار اور شہید ہنیہ کو بھی یاد کرنا ضروری ہے۔  ہم نے شہید ہنیہ سے آخری بار آپ کے ساتھ ملاقات کی تھی۔ غزہ میں قیدیوں کے تبادلے کے عمل میں جہاد اسلامی کا کردار بھی بڑا واضح اور اہم ہے۔ اس جنگ میں فلسطینی گروہوں کے اتحاد کو آپ نے کیسا پایا اور کیا فلسطین کے مزاحمتی گروہوں کے اس اتحاد کو، اس جنگ میں مزاحمت کی اہم کامیابیوں میں سے ایک سمجھا جا سکتا ہے؟

جواب: مزاحمتی گروہ خاص کر کے حماس اور جہاد اسلامی پہلے ہی دن سے ایک دوسرے کے ساتھ ایک ہی صف میں اور ایک ہی مورچے میں کھڑے ہو گئے۔ ہم نے پہلے ہی دن اعلان کر دیا تھا کہ میدان میں ہم سب ایک ہی صف میں ہیں اور سیاسی میدان میں اور مذاکرات میں بھی ایک ہی نظریے کے ساتھ ہماری ایک ہی ٹیم ہے۔ فلسطینی مزاحمت کے تمام شہید خاص طور پر حماس اور جہاد اسلامی کے شہید، اس بڑی اور مبارک جنگ کے شہید ہیں۔ میں یہیں سے اعلان کرتا ہوں کہ فلسطینی قوم نے اس جنگ میں اپنے رہنماؤں اور کمانڈروں کا نذرانہ پیش کیا۔ برادر کمانڈر اسماعیل ہنیہ، برادر کمانڈر یحییٰ سنوار اور جہاد اسلامی اور حماس کے دوسرے بڑے کمانڈر شہید ہوئے۔ یہاں پر قدردانی، شکریے اور وفاداری کے طور پر مجھے لبنان میں اپنے بھائيوں، لبنانی مزاحمت اور ایک سال سے زیادہ عرصے میں ان کی جانب سے فلسطینی قوم اور مزاحمت کی حمایت و پشت پناہی کا بھی ذکر کرنا چاہیے۔ لبنانی مزاحمت بدستور، فلسطینی مزاحمت کی پشت پناہ ہے۔ سید بزرگوار، فلسطین کے سید الشہداء، جناب سید حسن نصر اللہ اور حزب اللہ کے بڑے بڑے کمانڈر، جہاد اور استقامت کی راہ میں شہید ہوئے۔ یہ سارے واقعات صیہونی دشمن سے ٹکراؤ میں مزاحمت کی جانب سے ایک واحد اور متحد موقف کے تحت سامنے آئے۔ مجھے یمن کے شہیدوں اور اسلامی جمہوریہ میں اپنے شہید بھائيوں کو بھی یاد کرنا چاہیے۔ مزاحمت ہر جگہ ، ایک صف ہو کر لڑی۔ میں خاص طور پر یہ کہوں گا کہ حماس اور جہاد اسلامی نے میدان جنگ میں اور مذاکرات کے میدان میں ایک محاذ میں رہ کر کام کیا۔ مذاکرات اور میدان جنگ میں ایک ہی انتظامی ٹیم تھی کیونکہ مزاحمت، ایک اور متحد ہے۔ اسی وجہ سے ہم یہ عظیم کامیابی حاصل کر سکے۔ اس تاریخی مزاحمت کا ایک بنیادی عنصر تھا اور وہ حماس اور جہاد اسلامی سمیت تمام مزاحمتی گروہوں کا ایک ہی محاذ میں بھرپور اتحاد تھا۔

سوال: آپ نے پشت پناہی والے محاذ کی طرف اشارہ کیا۔ آپ پشت پناہی کے محاذ کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ خاص طور پر اس لیے کہ ہم نے دیکھا کہ طوفان الاقصیٰ کی لڑائي، فلسطینی قوم کی پشت پناہی کے محاذ میں مزاحمت کی صفوں میں یکجہتی پر منتج ہوئي۔

جواب: سب سے پہلے تو میں یہ کہوں گا کہ طوفان الاقصیٰ کی لڑائی، خطے میں مزاحمتی گروہوں کے درمیان اتحاد کی تجلی تھی۔ یہ چیز پشت پناہی کے محاذ میں ہمارے لبنانی بھائيوں کی شرکت کے سائے میں ایک سال سے زیادہ کے عرصے میں ایک ہمہ گیر اور حقیقی جنگ کے دوران پوری طرح واضح تھی۔ حزب اللہ کی عظیم قربانیاں خطے میں مزاحمت کے درمیان اتحاد کی عکاس ہیں، جیسا کہ ان سے پتہ چلتا ہے کہ فلسطینی مزاحمت اور لبنانی مزاحمت کس طرح ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ تعاون قابل تعریف ہے۔ بنابریں حزب اللہ کے رہنماؤں کی شہادت خاص طور پر جناب سید حسن نصر اللہ کی شہادت، فلسطین کے لیے بھی ایک بڑا نقصان ہے۔ فلسطین اور فلسطینی مزاحمت، جناب سید حسن نصر اللہ کی شہادت کو فلسطین، لبنان، پوری امت اور پورے مزاحمتی محاذ کے لیے ایک بڑا نقصان سمجھتی ہے، جس طرح سے کہ اس لڑائي میں فلسطین کے بڑے رہنماؤں کی شہادت ہمارے لیے ایک بڑا نقصان ہے۔ بنابریں طوفان الاقصیٰ کی لڑائی نے تمام مزاحتمی گروہوں کو آپس میں متحد کر دیا اور امت مسلمہ کو فلسطینی قوم اور لبنانی مزاحمت کی پشت پر متحد کر دیا۔

یہ لڑائی، علاقائی اور عالمی اقوام کی سطح پر اہم تھی اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتی رہی اور مزاحمت نے لوگوں کے دلوں میں گھر بنا لیا اور اسے زبردست عزت و محبت حاصل ہوئي۔ جی ہاں، اگرچہ چیلنجز اور نقصانات کافی بڑے ہیں لیکن اس کے مقابلے میں بڑی اور تاریخی کامیابیاں بھی حاصل ہوئي ہیں۔ مثال کے طور پر سنہ 1982 میں صیہونی دشمن، لبنان میں گھسنے میں کامیاب ہو گیا تھا اور اس نے جنوبی لبنان کے علاقے پر تین مہینے تک قبضہ جمائے رکھا تھا لیکن آج دشمن کو بہت زیادہ نقصان ہوا ہے اور وہ لبنان میں کچھ کلو میٹر بھی آگے نہیں بڑھ سکا۔ دشمن اسی طرح غزہ میں مزاحمت کو بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کر سکا اور غرب اردن میں فلسطینی عوام اس وقت بھی صیہونی دشمن سے لڑ رہے ہیں۔ آج ہم ایسی پوزیشن میں ہیں کہ ایک متحدہ اور طے شدہ سوچ کے ساتھ لڑ سکیں اور اپنی قوم اور سرزمین کا دفاع کر سکیں۔ مزاحمتی گروہوں کا ایک موقف اور ایک سوچ ہے اور ہم ان شاء اللہ بدستور مزاحمت کرتے رہیں گے۔ ہم ان تمام سازشوں کو ناکام بنا دیں گے جن کے ذریعے سرزمین فلسطین اور فلسطینی قوم کو نشانہ بنایا گيا ہے۔

سوال: مزاحمت نے اپنی استقامت سے حالیہ دنوں میں صیہونیوں اور امریکیوں کے تمام اندازوں اور توقعات کو نقش بر آب کر دیا۔ آپ کے خیال میں ایسا کس طرح ممکن ہوا؟

جواب: سمجھوتے کے دوسرے مرحلے کو شکست سے دوچار کرنے کی کوشش کے سلسلے میں سامنے آنے والی سبھی خبریں ایک گھٹیا عالمی پروپیگنڈے کا حصہ ہیں۔ اسرائيل، اپنے قیدیوں کو رہا کرانے کے لیے سمجھوتے پر عمل کرنے کے لیے مجبور ہے، خاص طور پر اس لیے کہ باقی بچے قیدیوں میں فوجی اور جنرل ہیں۔ بنابریں اسرائیل ہمیں پوائنٹس دینے پر مجبور ہے اور وہ کوئي نئي جنگ شروع نہیں کرے گا۔  یہ بات قطعی اور واضح ہے۔ میں فلسطینی قوم اور فلسطینی گھرانوں کو اطمینان دلاتا ہوں کہ اسرائيل کچھ نہیں کر سکے گا کیونکہ پچھلے دنوں اور پچھلے ڈیڑھ سال میں وہ جو کر سکتا تھا، اس نے کر لیا۔ اس دوران امریکا نے نہ صرف اسرائيل کی حمایت کی بلکہ اس کے ساتھ مل کر لڑتا بھی رہا۔ اس نے تل ابیب کو ٹیکنالوجی دی اور اس کے ذریعے اسلامی جمہوریہ کے میزائیلوں کا مقابلہ کرنے میں مدد کی۔ بہت سے دوسرے معاملوں میں بھی اس نے اس طرح کی مدد کی۔ بنابریں میڈیا میں نیتن یاہو کے ذریعے سمجھوتے کو ناکام بنانے کی کوشش کے سلسلے میں جو کچھ کہا جا رہا ہے، اس کی کوئي اہمیت نہیں ہے کیونکہ صیہونیوں کو اس سمجھوتے کی ضرورت ہے۔ ہمیں بھی پورا یقین اور اطمینان ہے کہ جو کچھ سمجھوتے میں طے ہوا ہے، وہ عملی جامہ پہنے گا۔ سمجھوتے کو ناکام بنانے کے سلسلے میں کیے جانے والے تمام دعوے پوری طرح سے غیر اہم ہیں۔ میں ایک بنیادی مسئلے کے بارے میں بھی متنبہ کر رہا ہوں اور کہہ رہا ہوں کہ عرب ملکوں کا موقف متحدہ ہونا چاہیے اور انھیں، سیاسی محاذ پر مستقبل میں منعقد ہونے والی سربراہی کانفرنس میں دشمن کو ایسا کوئي پوائنٹ نہیں دینا چاہیے جو فلسطینی قوم کے مفادات کے خلاف ہو۔

سوال: جلد ہی شہید سید حسن نصر اللہ اور شہید سید ہاشم صفی الدین کے جلوس جنازہ کا پروگرام منعقد ہونے والا ہے۔ جیسا کہ آپ نے فرمایا، ان شہیدوں نے فلسطینی قوم کی حمایت اور قدس شریف کی آزادی کی راہ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس پروگرام میں شرکت کے لیے فلسطین کے مزاحمتی گروہوں کا کیا منصوبہ ہے اور کیا ہم اس پروگرام میں فلسطینی مزاحمت کی مضبوط موجودگي دیکھیں گے؟ صیہونی دشمن کے لیے اس موجودگی کا کیا پیغام ہے؟

سب سے پہلے تو میں کہوں گا کہ ایسا پروگرام منعقد ہونا چاہیے جو شہید سید حسن نصر اللہ اور شہید سید ہاشم صفی الدین کے شایان شان ہو۔ فلسطین کے تمام مزاحمتی گروہ پوری طاقت کے ساتھ ان دو شہیدوں کے جلوس جنازہ کے پروگرام میں شرکت کریں گے۔ میں یہ بات تکلفاً نہیں کہہ رہا ہوں، جناب سید حسن نصر اللہ شہید فلسطین، شہید اسلام اور شہید قدس ہیں اور ہم سب کے دلوں میں ہیں۔ فلسطینی قوم اور فلسطینی مزاحمت کی حیثیت سے ہم، ہمیشہ جہاد اور مزاحمت کے اس عظیم مظہر اور نمونۂ عمل کے وفادار رہیں گے۔ وہ ایسے شہید ہیں جو ہمارے درمیان سے چلے گئے اور آج ہم مزاحمتی محاذ میں ان کی دوری اور فراق کو محسوس کرتے ہیں۔ ہمیں خداوند عالم سے ان کے لیے اجر کی دعا کرنی چاہیے اور جناب سید حسن نصر اللہ اور ان تمام برادران کی یاد کو باقی رکھنا چاہیے جو اس لڑائی میں ہمارے درمیان سے چلے گئے۔ جی ہاں! وہ ہمارے درمیان سے چلے گئے لیکن انھوں نے ہم پر اپنا بڑا اثر ڈالا اور فلسطینی مزاحمت کی حمایت کی ایک عظیم اور گہری تاریخ رقم کی۔ انھوں نے ایک سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہنے والی حالیہ جنگ میں، فلسطینی مزاحمت کی حمایت اور اس کی پشت پناہی میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کی۔ یہ چیز خطے میں مزاحمت کے درمیان پائے جانے والے اتحاد کی عکاسی کرتی رہے۔ فلسطینی مزاحمت کے شانہ بشانہ حزب اللہ کی تاریخی استقامت بھلائي نہیں گئي اور کبھی فراموش نہیں کی جائے گی۔ ان شاء اللہ جلوس جنازہ کے پروگرام میں اور جناب سید حسن نصر اللہ کو الوداع کہنے کی غرض سے ہماری موجودگی بہت اہم اور بڑی ہوگی۔ فلسطینی قوم کبھی بھی ان عظیم شہیدوں کو فراموش نہیں کرے گی۔