رہبر انقلاب نے مسئلۂ فلسطین کو طاق نسیاں کی زینت بنا دینے کے لیے اختیار کی جانے والی معاندانہ پالیسیوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ مسلم اقوام کو ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہیے کہ مختلف افواہوں اور فضول اور لایعنی باتوں سے رائے عامہ، فلسطین اور غزہ کے مسئلے اور صیہونی حکومت کے جرائم کو بھلا دے۔
انھوں نے صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں کے مقابلے میں دنیا کے ڈٹ کر کھڑے ہو جانے کو ضروری بتایا اور کہا کہ امریکا حقیقی معنی میں صیہونی حکومت کی حمایت کر رہا ہے اور سیاست کی دنیا میں کبھی کبھی ایسی باتیں کی جاتی ہیں جن سے ممکنہ طور پر کچھ اور ہی مفہوم نکلتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ فلسطین اور غزہ کے مظلوم عوام کو نہ صرف صیہونی حکومت بلکہ امریکا اور برطانیہ کا بھی سامنا ہے اور یہ ممالک جرائم، قتل اور قتل عام کی روک تھام کرنے کے بجائے ہتھیار اور دیگر وسائل بھیج کر مجرم کو مضبوط بناتے ہیں اور اس کی مدد کرتے ہیں۔
آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ بعض وقتی نعرے، باتیں اور واقعات، مسئلۂ فلسطین کو بھلا دیے جانے کا سبب نہیں بننے چاہیے، کہا کہ خداوند متعال کی توفیق سے فلسطین، غاصب صیہونیوں پر فتحیاب ہوگا اور باطل محاذ کا یہ چند روزہ راج ختم ہو جائے گا۔ اسی طرح یہ لوگ شام میں جو کچھ کر رہے ہیں وہ ان کی طاقت کی نہیں بلکہ کمزوری کی نشانی ہے اور اس سے یہ مزید کمزور ہوں گے۔
انھوں نے امید ظاہر کی کہ ایرانی قوم اور مومن اقوام، ایک دن فلسطین کی سرزمین کے غاصبوں پر فلسطین کی فتح کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گي۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے ایک دوسرے حصے میں کام اور مزدور کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ عزیز محنت کشوں کو اپنی قدر سمجھنی چاہیے کیونکہ لوٹ مار، مفت خوری اور دوسروں کے مال پر دست درازی سے دور رہتے ہوئے حلال روزی روٹی کمانا اور اسی طرح اپنی محنت سے معاشرے کی ضرورتیں پوری کرنا، انسانی پہلو سے مزدور کی دو گرانقدر خصوصیات ہیں جو خداوند عالم کے نزدیک نیکی شمار ہوتی ہیں۔
انھوں نے کام کی اہمیت کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ کام انسانی زندگي کا انتظام چلانے اور اس کے جاری رہنے کا اصل ستون ہے اور اس کے بغیر زندگي مفلوج ہو جاتی ہے بنابریں اگرچہ علم اور سرمایہ، کام کی انجام دہی میں اہم اور مؤثر ہے لیکن مزدور کے بغیر کوئی بھی کام آگے نہیں بڑھتا اور یہ مزدور ہی ہے جو سرمائے میں روح پھونکتا ہے۔
آيت اللہ خامنہ ای نے رواں ہجری شمسی سال کا نام، "پروڈکشن کے لیے سرمایہ کاری" رکھے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مزدور کے عزم اور صلاحیت کے بغیر مالی سرمایہ کاری کا کوئي نتیجہ نہیں نکلتا اور اسی لیے اسلامی جمہوریہ کے بدخواہوں سمیت معاشرے کے دشمن، انقلاب کے آغاز سے لے کر اب تک اس بات کے درپے تھے کہ محنت کش معاشرے کو اسلامی جمہوریہ میں کام کے ماحول سے دور کر دیں اور اسے اعتراض کے لیے ورغلائيں۔
انھوں نے اسلامی انقلاب کے اوائل میں پیداوار کو ٹھپ کرنے کی کمیونسٹوں کی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آج بھی وہ محرکات پائے جاتے ہیں تاہم اس وقت بھی اور آج بھی ہمارے محنت کش، ان کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے ہیں اور انھوں نے ان کے منہ پر زوردار گھونسہ مارا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ مزدور جیسے اہم سرمائے کی حفاظت کا لازمہ یہ ہے کہ مختلف شعبے اپنی ذمہ داریوں پر عمل کریں۔
انہوں نے مزدوروں کی جاب سیکورٹی کے بارے میں کہا کہ مزدور کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس کا کام محفوظ رہے گا تاکہ وہ اپنی زندگی کے بارے میں منصوبہ بندی کر سکے اور اسے یہ اطمینان رہے کہ اس کا کام جاری رہنا، دوسروں کی مرضی پر منحصر نہیں ہے۔
انھوں نے کام کے ماحول کے کلچر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مارکسسٹ فلسفے میں کام اور زندگی کے ماحول، ایک دوسرے کے مخالف اور دشمنی والے ماحول ہیں اور مزدور کو کارخانے کے مالک کا دشمن ہونا چاہیے اور اس غلط سوچ کے ذریعے طویل مدت تک انھوں نے خود کو بھی اور دنیا کو بھی الجھائے رکھا لیکن اسلام، کام اور زندگی کے ماحول کو اتحاد، تعاون اور ایک دوسرے کی مدد کا ماحول سمجھتا ہے بنابریں کام کے ماحول میں دونوں فریقوں کو اپنائیت کے ساتھ کام کی پیشرفت میں مدد کرنی چاہیے۔