بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا و حبیب قلوبنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ الله فی الارضین.
عزیز بھائیو اور بہنو! آپ سب کا خیرمقدم ہے۔ ہر سال حسینیہ میں مزدور بھائیوں سے یہ ملاقات میرے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ محنت اور مزدوروں کے مسائل دراصل پورے ملک کے مستقبل سے جڑے ہوئے ہیں۔
سب سے پہلے میں حضرت امام رضا علیہ السلام کی ولادت باسعادت کی مبارکباد پیش کرتا ہوں، اور اس بات کو نیک فال سمجھتا ہوں کہ ہماری یہ ملاقات حضرت کے یوم ولادت کے موقع پر ہو رہی ہے۔
ساتھ ہی میں اپنے عزیز شہید جناب رئیسی کو یاد کرنا چاہتا ہوں جو عوام کے مسائل، خصوصاً مزدور طبقے کے معاملات کو ہمیشہ اولین ترجیح دیتے تھے اور ان کے حل کے لیے سرگرم رہتے تھے۔
جناب وزیر نے جو کچھ یہاں بیان کیا، وہ سب درست اور بجا تھا؛ یعنی موجودہ خامیاں، ضرورتیں، اور جو کام ہونے چاہئیں، جنھیں انھوں نے یہاں تفصیل سے گنوایا، یہ سب ٹھیک ہیں۔ میری صرف ایک گزارش ہے کہ خود ان کی ذات، ان کا وزارت خانہ، اور حکومت کے بعض دیگر حصوں کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ ان باتوں کا اصل مخاطب وہ خود ہیں۔ میں دل سے دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے، انھیں توفیق عطا کرے کہ یہ کام سرانجام دے سکیں۔ اگر وہ عزم کریں اور ٹھان لیں، تو یقیناً کر سکتے ہیں۔
مزدوروں کے مسائل کے حوالے سے بہت سی ضروری باتیں کہی جا چکی ہیں؛ البتہ کچھ اچھے اقدامات بھی ہوئے ہیں، لیکن پھر بھی کچھ نکات پر زور دینے کی ضرورت ہے؛ چاہے یہ باتیں پہلے بھی کیوں نہ بیان کی جا چکی ہوں، انھیں دہرانا چاہیے۔ میں نے کچھ نکات نوٹ کیے ہیں جو حاضر خدمت ہیں۔
پہلا نکتہ: قدر و قیمت کے تعین کا معاملہ ہے۔ اس حصے کا اصل مخاطب — یعنی مزدور اور محنت کی قدر و قیمت — سب سے پہلے آپ خود مزدور بھائی ہیں، کہ اپنی قدر پہچانیں اور جان لیں کہ جو کام آپ کر رہے ہیں، وہ درحقیقت تخلیق کے نظام، معاشرے کے دھارے، اور روحانی اقدار و دینی تقاضوں کے مجموعے میں کس مقام پر ہے۔
ایک پہلو تو مزدور کی منزلت و مقام کا ہے، نہ صرف اس کے کام کی بنا پر، بلکہ اس کی انسانی حیثیت کی بنا پر۔ مزدور میں دو اہم خوبیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑی فضیلت رکھتی ہیں: پہلی خوبی: وہ اپنی محنت اور اپنی طاقت سے حلال روزی کماتا ہے۔ دوسروں پر 'کلّ' (2) بوجھ نہیں بنتا، مفت خوری نہیں کرتا، لوٹ مار نہیں کرتا، دوسروں کے مال کو اپنی طرف نہیں کھینچتا، بلکہ اپنی محنت سے (چاہے وہ کسی بھی قسم کی ہو) کماتا ہے۔ یہ ایک بڑا نیک عمل ہے، یہ ایک عظیم کام ہے۔ انسان کو اسی طرح زندگی گزارنی چاہیے۔ اپنے آپ پر انحصار کرتے ہوئے، اپنی قوت پر بھروسہ رکھتے ہوئے۔ یہی ہر انسان کے لیے مثالی زندگی کا نمونہ ہے۔
دوسری خوبی: جو اسی قدر اہم ہے، یہ کہ مزدور دوسروں کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ آپ لوگ صنعتی، زرعی اور خدماتی مصنوعات تیار کر کے عوام تک پہنچاتے ہیں — یعنی دوسروں کی زندگیوں میں مدد کر رہے ہیں۔ انسانی اعتبار سے یہ دونوں نکات نہایت قیمتی ہیں، نیکی ہیں۔ اگر ہم قدر کا موازنہ کریں، تو کوئی شخص عبادت گزار ہو لیکن اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی زندگی کے لیے کوئی محنت نہ کرتا ہو، تو وہ اس مزدور سے کم تر ہے جو محنت کرتا ہے، کام کرتا ہے۔ تو یہ قدر و قیمت کی بات ہے۔ یہ محنت کش کا مرتبہ و مقام ہے، اس کے کام کی حیثیت سے، اس کی انسانی قدر و قیمت کے پہلو سے۔
دوسرا نکتہ: محنت کی قدر و قیمت کا معاملہ، جو انتہائی اہم اور نمایاں ہے۔ محنت انسانی زندگی کے نظام کا ایک بنیادی ستون ہے۔ اگر محنت نہ ہو تو انسانی زندگی مفلوج ہو جائے۔ سرمایہ بے شک اثر رکھتا ہے، سائنس یقیناً مؤثر ہے، لیکن سرمایہ اور سائنس ورک فورس (یعنی مزدور) کے بغیر کسی کام کے نہیں، ان سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ مزدور ہی سرمائے کے بے جان ڈھانچے میں روح پھونکتا ہے۔ ہم نے اس سال "پروڈکشن کے لیے سرمایہ کاری" کا نعرہ دیا ہے۔ بہت خوب! لیکن یاد رکھیے کہ سب سے بڑا سرمایہ خود مزدور ہے۔ سرمایہ کاری کریں، مگر یہ ذہن نشین رکھیں کہ یہ مالی سرمایہ کاری مزدور کے ارادے، اس کی صلاحیتوں اور اس کی خواہش کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی۔ محنت کا یہی کردار ہے: یہ معاشرے کی استحکام اور بقا کے بنیادی ستونوں میں سے ایک ہے۔
اسی لیے تو آپ دیکھتے ہیں کہ ہر معاشرے کے دشمن، بالخصوص اسلامی جمہوریہ ایران کے مخالفین، انقلاب کے اولین دن سے لے کر آج تک یہ کوشش کرتے رہے ہیں کہ کسی طرح مزدور طبقے کو اسلامی جمہوریہ کے دائرے میں کام کرنے سے روکیں، انہیں اعتراض کے لئے بھڑکائیں۔ میں اس سلسلے میں کئی واقعات جانتا ہوں جن کا یہاں ذکر مناسب نہیں۔ پہلے کمیونسٹ اور مارکسسٹ تھے جو اس کوشش میں تھے کہ مزدور طبقات پر قبضہ کر کے صنعتی یونٹوں کو اچانک بند کر دیں، جس سے معیشت مفلوج ہو جائے۔ آج بھی یہی عزائم موجود ہیں۔ پہلے کمیونسٹ تھے، آج سی آئی اے اور موساد کے ایجنٹ اسی کوشش میں ہیں۔ لیکن دونوں ادوار میں ہمارے مزدوروں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ان کو دندان شکن جواب دیے۔
ہم نے کہا کہ سب سے بڑا سرمایہ مزدور ہے۔ یعنی مزدور کا اثر پیسے، سائنسی تحقیق اور دیگر عوامل سے بڑھ کر ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ "ہم اس سرمایے کے ساتھ کیا کریں؟" یہی وہ نقطہ آغاز ہے جہاں سے مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے ہماری ذمہ داریاں شروع ہوتی ہیں۔ ان ذمہ داریوں کا کچھ حصہ ممکنہ طور پر میرا ہے، کچھ وزیر محترم کا، کچھ سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کا، کچھ عوام الناس کا، اور کچھ میڈیا کا۔ مختصراً، ہم سب کے ذمہ مزدوروں کے تعلق سے کچھ فرائض ہیں۔
مزدور اپنا کام بحسن و خوبی انجام دے سکے، کام کا معیاری نتیجہ دے سکے، دوسروں کی مدد کر سکے اور خود بھی اپنے پیروں پر کھڑا ہو، اس کے لئے اس کو کچھ چیزوں کی ضرورت ہے۔ ان ضرورتوں میں سے ایک روزگار کی سیکورٹی ہے۔ ایک ضرورت حفاظتی انتظامات ہیں۔ کام کی جگہ پر حادثات، جو بعض اوقات مزدوروں کو پیش آتے ہیں، انتہائی افسوسناک ہیں۔ یہ معاشرے پر کاری ضرب ہیں۔ تو ایک ضرورت حفاظتی انتظامات ہیں۔ ایک ضرورت معاشی فکرمندیوں کا ازالہ ہے۔ یعنی یہ سارے کام انجام پانے چاہئے۔ اب میں ان میں سے کچھ نکات پر مختصراً روشنی ڈالتا ہوا آگے بڑھ جاؤں گا۔
پہلا نکتہ ملازمت کی سیکورٹی ہے۔ مزدور کو یہ اطمینان ہونا چاہیے کہ اس کا روزگار جاری رہے گا۔ تاکہ وہ اپنی منصوبہ بندی کر سکے، اسے یہ فکر نہیں ہونی چاہیے کہ کل کیا ہوگا، کب تک یہ کام رہے گا۔ اس کی ملازمت کا جاری رہنا دوسرے فرد کے ارادے پر منحصر نہیں ہونا چاہئے۔ ملازمت کی سیکورٹی یہ ہے۔ یہ سیکورٹی فراہم کی جانی چاہئے۔ کچھ عرصہ پہلے مختلف بہانوں سے کئی فیکٹریاں بند کر دی گئی تھیں، جو ملازمت کی حفاظت کے خلاف تھا۔ کبھی رپورٹ ملتی ہے کہ فلاں فیکٹری بند کر دی گئی، جب ہم پوچھتے کہ کیوں بند ہوئی؟ تو خام مال کی کمی یا مشینری کے فرسودہ ہونے جیسی باتیں بتائی جاتی تھیں۔ حالانکہ یہ مسائل حل طلب ہوتے ہیں، ان کا حل نکالنا چاہیے، فیکٹری نہیں بند کرنا چاہیے۔
ایک اور مسئلہ جیسا کہ میں پہلے بھی اشارہ کر چکا ہوں، (3) فیکٹریوں کا بند کرنا ایک خیانت آمیز عمل تھا۔ اصل ماجرا یہ تھا کہ اس زمین کی قیمت بڑھ چکی تھی، تو مشینری کو کسی طرح بیچ دیا جائے، مزدوروں کو معاوضہ دیکر ہٹا دیا جائے، اور زمین سے زیادہ مالی فائدہ اٹھایا جائے۔ پیسے کے لئے! یہ سب پیسے اور ذاتی لالچ کی خاطر کیا گیا۔ اس معاملے پر نگراں اداروں اور عدالتی نظام کو خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ یہ ایک بنیادی اہمیت کا کام ہے۔ متعلقہ سرکاری محکمے بشمول وزارتِ محنت اور دیگر اداروں کے، اس کی روک تھام کریں۔
ہمیں جو رپورٹ دی گئی اس کے مطابق شہید رئیسی کی حکومت نے آٹھ ہزار بند پڑی فیکٹریوں کو دوبارہ فعال کیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ کام ممکن ہے۔ چاہے فیکٹری مکمل بند ہو یا صرف ایک تہائی یا چوتھائی گنجائش بھر کام کر رہی ہو، اسے دوبارہ پوری طرح چلایا جا سکتا ہے۔ ہمارے اس عزیز شہید کا یہ ایک بڑا کارنامہ تھا، جس کا ذکر انہوں نے مجھ سے کئی بار کیا۔ لہٰذا ملازمت کا تحفظ پہلا اہم نکتہ ہے۔
ساتھ ہی یہ بات بھی واضح رہے کہ مزدور کی ملازمت کے تحفظ کا تعلق کاروباری شخص کی کام کے تحفظ سے جڑا ہوا ہے۔ سرمایہ کار کو بھی یہ اعتماد ہونا چاہیے کہ اس کی سرمایہ کاری محفوظ ہے۔ ہمارا رویہ ایسا ہو کہ وہ محسوس نہ کرے کہ اس کی سرمایہ کاری اس کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگی۔ اسے بھی کام اور سرمائے کا تحفظ ملنا چاہئے۔ درست پالیسی یہ ہے کہ ہم اس طرح کام کریں کہ مزدور کو بھی ملازمت کی سیکورٹی حاصل ہو اور دوسرے فریق کو بھی تحفظ ملے۔
اگلا نکتہ جو کام کے تعلق سے اہم ہے اور میں نے نوٹ کر رکھا ہے وہ مزدور کی ہنرمندی و مہارت میں اضافہ ہے۔ ہمارا اہم فریضہ ہے کہ ہم اپنے مزدور بھائیوں کو زیادہ ماہر بنائیں۔ اگر مزدور اپنے کام میں ماہر ہو جائے تو پیداوار بہتر، معیاری اور نمایاں ہو گی، جو کارخانہ دار، مزدور اور پورے معاشرے کے لیے فائدہ مند ہے، سب کے لئے فائدے مند ہیں۔ یہ بہت اہم ہے۔ ہمارے پاس ہنر سکھانے کے لیے ادارے موجود ہیں۔ ابھی راستے میں وزیر محترم نے بھی مجھے بتایا اور میں جانتا بھی ہوں کہ تکنیکی اور پیشہ ورانہ تربیت گاہیں اس سلسلے میں بہترین ذریعہ ہیں۔ ہمارے نوجوان جو یونیورسٹی کی تعلیم کے بجائے ہنر سیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں، وہ مستقبل کے بہترین لیبر ثابت ہوتے ہیں۔ یہ نوجوان ملک کی خدمت کر سکتے ہیں، اپنی زندگی کے معیار کو بلند کر سکتے ہیں اور عوام الناس کے معیار زندگی کو بھی اوپر لے جا سکتے ہیں۔
تکنیکی اور پیشہ ورانہ تربیت گاہوں کے ساتھ ساتھ، جو بہت اہم ہیں اور میں ان کے بارے میں تاکید بھی کر چکا ہوں، خود بڑی صنعتی کمپنیاں بھی اپنے کام کے ساتھ ساتھ کارکنوں کی مہارت کو بڑھانے کے لیے تربیتی پروگرام چلا سکتی ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے۔ یہ وہ کام نہیں جنہیں انجام دینا ضروری ہے۔ بڑی کمپنیاں یہ کام کر سکتی ہیں۔ ٹریننگ پروگرام رکھیں، کوتاہ مدتی ٹریننگ ورکشاپ رکھیں۔ اپنے کارکنوں کو ضروری مہارت سکھائیں تاکہ وہ بہتر انداز میں اور پوری مہارت کے ساتھ کام انجام دے سکیں۔
ایک اور اہم نکتہ جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا مزدور کے تحفظ کا ہے، اس کے جسمانی تحفظ کا۔ گزشتہ دو تین سال میں کانوں میں پیش آنے والے المناک حادثات سے ہم سب واقف ہیں، لیکن یہ مسئلہ صرف کانوں تک محدود نہیں۔ دیگر جگہوں سے بھی مجھے رپورٹیں ملیں۔ دیگر صنعتوں میں بھی حفاظتی انتظامات کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ اس کی نگرانی ہونی چاہئے۔ ٹیکنیکل حفاظتی اقدامات اور سوشل سیکورٹی کے لحاظ سے اس طرح کام کیا جائے کہ مزدوروں کی جان کی حفاظت یقینی بنے۔
اگلا نکتہ، مزدوروں کی حمایت کا ایک اہم پہلو مقامی مصنوعات کی ترویج ہے جس پر میں کئی سال سے زور دے رہا ہوں، تاکید کر رہا ہوں۔(4) یہ ہماری چھٹے پروگرام میں بھی شامل تھا۔(5) اگرچہ بعض لوگوں نے اس پر صحیح عمل نہیں کیا، لیکن جہاں تک عمل ہوا، مفید ثابت ہوا۔ جب ہم مقامی طور پر تیار شدہ مصنوعات خریدتے ہیں، تو درحقیقت ہم اپنے ملک کے مزدور اور سرمایہ کار کی مدد کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ہم وہی چیز غیر ملکی خرید لیں، تو اس کا مطلب ہے کہ ہم اس دوسرے ملک کے مزدور اور سرمایہ کار کو ترجیح دے رہے ہیں۔ کیا یہ انصاف ہے؟ کیا یہ انسانی رویہ ہے؟
بے شک کچھ بہانے موجود ہیں؛ مثلاً یہ کہ اندرون ملک مصنوعات کا معیار ایسا ہے، ویسا ہے۔ نہیں! بعض معاملات میں اندرون ملک مصنوعات کا معیار بہت اچھا بھی ہے۔ کچھ سامان اور گھریلو استعمال کی چیزوں اور دیگر اشیاء میں اپنی مصنوعات کا معیار بیرون ملک سے اگر بہتر نہیں تو کم بھی نہیں ہے۔ ہمیں اسے ایک عام ثقافت بنانا چاہیے، ایک رائج رواج کے طور پر؛ ہر ایرانی اپنا فرض سمجھے کہ ایرانی مال استعمال کرے، سوائے ان چیزوں کے جو ملک میں پیدا نہیں ہوتیں۔ جو چیزیں ملک میں تیار ہوتی ہیں، ان کا استعمال سب اپنا فرض سمجھیں۔ ہمیں اسے ایک ثقافت بنانا چاہیے۔
میں نے سنا ہے کہ حال ہی میں کسی ادارے نے اعلان کیا ہے کہ ایسے مصنوعات کی درآمد پر پابندی ختم کر دی گئی ہے جن کے مشابہ مصنوعات ملک میں موجود ہیں۔ یہ پابندی کیوں ختم کی جائے؟ جو چیزیں ملک میں بن رہی ہیں، انہیں فروغ دیں۔ اگر ان کا معیار اچھا نہیں ہے، تو معیار پر کام کریں۔ میں نے کچھ سال پہلے یہاں گاڑیوں کے بارے میں بات کی تھی — جب کہا جاتا تھا کہ ملکی گاڑیوں کا ایندھن کا استعمال زیادہ ہے — میں نے کہا تھا (6) کہ اگر اقتصادی محاصرے اور سائنسی محاصرے کے باوجود، جب دنیا کے علم کے مالک ممالک ہمارے سائنسدانوں اور طلباء کے لیے دروازے بند کر دیتے ہیں، تو ایرانی سائنسدان بڑے بڑے کام کر دکھاتا ہے۔ اگر ایرانی نوجوان ایسا میزائل بنا سکتا ہے، ایسا ہتھیار بنا سکتا ہے، ایسی مصنوعات تیار کر سکتا ہے کہ دشمن حیران رہ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اس کام کے احترام میں کھڑا ہو جاتا ہوں، (7) تو وہ ایسی گاڑی بھی بنا سکتا ہے جس کا ایندھن کم خرچ ہو، جس کی کوالٹی بہتر ہو۔ ہمیں اسی پر کام کرنا چاہیے، اس پر توجہ دینا چاہیے۔
یہ تو بڑا آسان راستہ ہے کہ کہہ دیا: "ٹھیک ہے، راستہ کھول دو کہ باہر سے چیز آئے" لیکن یہ ملک کے نقصان میں ہے، یہ مزدور طبقے کے نقصان میں ہے، یہ پورے ملک کے نقصان میں ہے۔ اس لیے، مزدور کی حمایت کا ایک اہم نقطہ یہی ہے کہ ہم ملکی مصنوعات استعمال کریں اور اسے ایک ثقافت بنا دیں۔
ایک اہم کام جس کے بارے میں میرا خیال ہے کہ حکام کی طرف سے جامع اور مکمل منصوبہ بندی کی ضرورت ہے — اور جو لیبر کے لیے بھی فائدہ مند ہے، اور سرمایہ کار کے لیے بھی — وہ یہ ہے کہ مزدور کو پیداوار کے منافع میں شریک کیا جائے۔ اگر مزدور کو یہ احساس ہو کہ جس قدر اس مال کا منافع بڑھے گا، اُس کا حصہ بھی اُتنا ہی بڑھے گا، تو وہ کام کو بہتر طریقے سے کرنے کی ترغیب پائے گا۔ یعنی یہ چیز مزدور کو یہ ترغیب دلائے گی کہ وہ کام کو زیادہ بہتر، مکمل اور عمدہ طور پر انجام دے۔ یہ اُس حدیث کی عملی تصویر ہوگی جسے میں بار بار دہراتا رہا ہوں:" رَحِمَ اللہ اِمرَاً عَمِلَ عَمَلاً فَاَتقَنَہ" (۸) یعنی محکم اور عمدہ کام۔
آج دنیا میں کچھ ایسے کارخانے ہیں جو کوئی مصنوع تیار کرتے ہیں تو اپنی پراڈکٹ پر کارخانے کے قیام کی تاریخ لکھتے ہیں۔ وہ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ یہ کارخانہ سو سال پہلے قائم ہوا تھا۔ کسی صنعتی یونٹ کا (ہم نے صنعتی پیداوار کی مثال دی ہے، باقی شعبہ جاتِ پیداوار بھی اسی طرح ہیں، حتیٰ کہ بعض خدماتی شعبے بھی) یہ طریقہ کار کہ وہ اِس طرح کام کرے کہ سو سال تک اُس کے گاہک موجود رہیں اور وہ اِس پر فخر کرے — یہ بہترین چیز ہے۔ اور یہ کاریگروں کو کارخانے کے منافع میں شریک کرنے سے ہی حاصل ہوگا۔ یہ ایک اہم کام ہے۔
ایک اور اہم نکتہ جس کی طرف انہوں (۹) نے اشارہ کیا — وہ کاریگروں کے رہائشی مسائل کا معاملہ ہے۔ اگر بڑے صنعتی یونٹس اور کاریگر رہائشی کوآپریٹو سوسائٹیز کے درمیان (جہاں ایسی کوآپریٹیو موجود ہوں) تعاون ہو تو یہ مزدوروں کی سب سے بڑی مدد ہوگی۔ اگر کوآپریٹو موجود نہیں ہے تو وہ کوآپریٹو قائم کرسکتے ہیں، اس کے قیام میں مدد دے سکتے ہیں، یا پھر بڑے کارخانوں کے قریب ہی رہائشی یونٹس بنا سکتے ہیں۔ اس طرح رہائش کا مسئلہ، جو سب سے اہم پریشانیوں میں سے ایک ہے، ختم ہو جائے گا اور کاریگروں کا ذہن اس پہلو سے پرسکون رہے گا۔ مزدوروں کی مدد کا یہ ایک انتہائی اہم ذریعہ ہے۔
ایک اور موضوع جو میں نے یہاں نوٹ کیا ہے وہ کام کی جگہ کے ثقافتی ماحول کا مسئلہ ہے۔ دیکھیں، مارکسیوں اور کمیونسٹوں کے فلسفے میں کام کی جگہ تضاد کا مرکز ہے، دشمنی کا ماحول ہے۔ یعنی ان کے نزدیک مزدور کو فیکٹری مالک کا دشمن ہونا چاہیے - یہی ان کا فلسفہ ہے۔ ان کے خیال میں کام کی صنف کی پوری حرکت ایک دوسرے کے خلاف جدوجہد اور تضاد پر مبنی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ تضاد کا یہ اصول تاریخ میں، معاشرتی مسائل میں، سیاسی معاملات میں اور اقتصادی امور میں جاری و ساری ہے۔ انہوں نے برسوں تک لوگوں کو اس غلط سوچ میں الجھائے رکھا، نہ صرف خود کو بدبخت بنایا بلکہ دنیا کے بہت سے لوگوں کو بھی تباہی میں ڈال دیا۔ اسلام بالکل اس کے برعکس بات کرتا ہے۔
اسلام زندگی کے ماحول کو، کام کے ماحول کو، تاریخ کے ماحول کو، اتحاد و ہم آہنگی اور مشترکہ فکر کا گہوارہ قرار دیتا ہے۔ جو لوگ قرآن میں غور و فکر اور تحقیق کرتے ہیں، وہ "زوجیت" کی تعبیر، "زوج" کے لفظ اور "زوجیت" کے تصور کو قرآن میں تلاش کریں: "سُبحانَ الَّذی خَلَقَ الاَزواجَ کُلَّھا مِمّا تُنبِتُ الاَرضُ وَ مِن اَنفُسِھِم وَ مِمّا لا یَعلَمون" (۱۰)۔ یعنی کائنات کی ہر چیز میں ہم آہنگی، ہمدردی، تعاون اور باہمی افزائش کا تصور موجود ہے۔ کام کے ماحول کے بارے میں بھی یہی بات ہے؛ یہاں باہمی افزائش ہونی چاہیے۔ دونوں طرف سے خلوص دل کے ساتھ (نہ کہ صرف زبانی جمع خرچ کے طور پر) ایک دوسرے کی مدد کی جانی چاہیے۔
آخری نکتہ یہ ہے کہ جب ہم مزدور کے بارے میں بات کرتے ہیں، تو صرف صنعتی مزدور ہی مراد نہ ہو۔ تعمیراتی مزدور، کھیتوں میں کام کرنے والا مزدور، سبزی منڈی کا مزدور، اور گھروں میں محنت کرنے والی مزدور خواتین - جو آج کے دور میں مواصلاتی ذرائع اور اس جیسی سہولیات کی برکت سے گھر بیٹھے کام کرکے روزگار کماتی ہیں - ان سب کا بھی خیال رکھا جانا چاہیے۔ بیمے کے لحاظ سے، اور دیگر مختلف پہلوؤں سے ان پر بھی توجہ دی جانی چاہیے۔
میں دنیا میں اقوام کے خلاف روا رکھی جانے والی متعصبانہ پالیسیوں کے بارے میں ایک بات عرض کرنا چاہوں گا۔ فلسطین کے مسئلے کو فراموش کرانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں؛ مسلمان اقوام کو اس کی اجازت نہیں دینی چاہیے، ہرگز اجازت نہیں دینی چاہیے۔ مختلف قسم کی افواہوں، بے تکی باتوں اور نئے نئے بے معنی مسائل کو اٹھا کر وہ ذہنوں کو فلسطین کے اہم مسئلے سے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ذہنوں کو فلسطین کے مسئلے سے ہٹنے نہیں دینا چاہیے۔ صیہونی ریاست کی طرف سے غزہ اور فلسطین میں کیا جانے والا ظلم کوئی ایسا معاملہ نہیں ہے جسے نظر انداز کیا جا سکے۔ پوری دنیا کو اس کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے - نہ صرف خود صیہونی حکومت کے خلاف، بلکہ صیہونی حکومت کے حامیوں کے خلاف بھی (۱۱)۔ جی ہاں، آپ کی تشخیص بالکل درست ہے؛ امریکی حقیقی معنوں میں اس کی حمایت کر رہے ہیں۔ اب سیاسی دنیا میں بعض ایسی باتیں کہی جاتی ہیں جو اس کے برعکس تاثر دے سکتی ہیں، لیکن معاملے کی حقیقت یہ نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مظلوم فلسطینی قوم، غزہ کے مظلوم عوام آج صرف صیہونی ریاست کا سامنا نہیں کر رہے ہیں۔ وہ امریکہ کا سامنا کر رہے ہیں، برطانیہ کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہی وہ طاقتیں ہیں جو اس مجرم ریاست کو اس طرح تقویت پہنچا رہی ہیں، ورنہ ان کا فرض تو یہ تھا کہ اسے روکتیں۔ تم نے انہیں ہتھیار دیے، تم نے انہیں سہولیات فراہم کیں؛ جب بھی وہ کمزور پڑتے ہیں، تمہاری طرف سے ہی انہیں مدد ملتی ہے۔ اب جبکہ تم دیکھ رہے ہو کہ وہ کس طرح ظلم ڈھا رہے ہیں؛ اتنی بڑی تعداد میں قتل، اس قدر خونریزی، یہ تمام مظالم! ضروری ہے کہ ان کے خلاف کھڑا ہوا جائے۔ امریکہ کا فرض تھا کہ وہ ان مظالم کو روکتا؛ نہ صرف یہ کہ وہ ایسا نہیں کر رہا، بلکہ مدد بھی فراہم کر رہا ہے۔ لہٰذا پوری دنیا کو چاہیے کہ وہ صیہونی ریاست کے خلاف بھی کھڑی ہو اور اس کے حامیوں کے خلاف بھی - منجملہ امریکہ کے خلاف - حقیقی معنوں میں مزاحمت کرے۔ کچھ نعروں، چند باتوں اور چند عارضی واقعات کو فلسطین کے اہم مسئلے کو بھلانے کا ذریعہ نہیں بننے دینا چاہیے۔
بے شک میرا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ کی توفیق اور اس کی عظمت و جلال کے سایہ میں، فلسطین صیہونی قابضوں پر ضرور غالب آئے گا۔ یہ واقعہ ضرور رونما ہوگا۔ باطل کو چند روز کی چھوٹ ہے، تھوڑی دیر کے لیے اس کی ریشہ دوانی ہوگی، مگر یہ مٹ جانے والا ہے۔ یقیناً یہ جائے گا، اس میں کوئی شک نہیں۔ یہ ظاہری صورتحال جو نظر آ رہی ہے، اب وہ جو کچھ شام اور دیگر مقامات پر کر رہے ہیں اور جو پیش قدمی دکھا رہے ہیں، یہ طاقت کی علامت نہیں بلکہ کمزوری کی نشانی ہے، اور ان شاء اللہ مزید کمزوری کا باعث بھی بنے گا۔ ہماری دعا ہے کہ ایرانی قوم اور دیگر مومن اقوام اس دن کو - جب فلسطین حملہ آوروں اور غاصبوں پر فتح یاب ہوگا - اپنی آنکھوں سے دیکھیں، ان شاء اللہ۔
والسّلام علیکم و رحمۃ الله و برکاتہ
(1) اس ملاقات کے آغاز میں وزیر محنت و سماجی فلاح ڈاکٹر احمد میدری نے کچھ اہم نکات پیش کیے۔
(2) دوسروں پر بوجھ بننا
(3) صدر جمہوریہ اور کابینہ کے اراکین سے ملاقات میں خطاب (2018/08/29)
(4) مزدوروں سے ملاقات کے موقع پر خطاب (2022/05/09)
(5) چھٹے ترقیاتی پروگرام کی کلی پالیسیاں (2015/06/30)
(6) صنعتی یونٹس سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب (2020/05/06)
(7) یوسی رابین (صیہونی ریاست کے سابق میزائل ڈیفنس آرگنائزیشن کے سربراہ) کے 2015 کے بیان کی طرف اشارہ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ "میں ان انجینئرز کے احترام میں اپنا ہیٹ اتارتا ہوں جنہوں نے یہ میزائل تیار کیے"۔
(8) مسائل علی بن جعفر اور مستدرکات، صفحہ 93 (تھوڑے سے فرق کے ساتھ)
(9) وزیر محنت و سماجی امور
(10) سورۃ یٰسین، آیت 36؛ " پاک ہے وہ ذات جس نے سب اقسام کے جوڑے جوڑے پیدا کئے ہیں خواہ (نباتات) ہو جسے زمین اگاتی ہے یا خود ان کے نفوس ہوں (بنی نوع انسان) یا وہ چیزیں ہوں جن کو یہ نہیں جانتے۔"
(11) حاضرین کے امریکہ مردہ باد کے نعرے