جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وحی نازل ہوئی تو یہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا تھیں جنہوں نے اپنی بے پناہ دولت، بے مثال پوزیشن اور ذاتی آرام کو چھوڑ دیا تاکہ رسول اللہ کی پہلی اور سب سے مضبوط و پائیدار مددگار بن سکیں۔ وہ مکے کے معاشرے میں ایک چمکتے ہوئے موتی کی طرح رہ سکتی تھیں لیکن انھوں نے ایک نئے تمدن کا بنیادی ستون بننے کا راستہ چنا۔ انھوں نے "ملکۂ قریش" سے "ام المؤمنین" بننے تک جو راستہ طے کیا، وہ ریشم اور سونے سے نہیں بلکہ بھوک، ایثار اور درخشاں ایمان سے ہموار ہوا۔
جاہلیت کے خلاف استقامت
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا ایسے معاشرے میں پیدا ہوئیں جسے قرآن "جاہلیت" کہتا ہے؛ ایسا زمانہ جب لڑکیوں کو زندہ دفن کیا جاتا تھا، عورتوں کو وراثت سے محروم رکھا جاتا تھا اور بیوی کو ایک بے وقعت چیز سمجھا جاتا تھا۔ تاہم حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے ان رسوم کو چیلنج کیا۔ انھوں نے اپنی تجارت کو بے انتہا فروغ دیا اور ان کے تجارتی قافلے پورے جزیرہ نمائے عرب میں پھیل گئے۔(2) کہا جاتا ہے کہ ان کے قافلے، پورے قریش کے دوسرے تمام قافلوں کے برابر تھے۔ اس کامیابی نے انھیں "ملکۂ قریش" کا خطاب دلایا اور اس سے بھی زیادہ اہم یہ بات تھی کہ اپنی پاک دامنی کی وجہ سے وہ "طاہرہ" کے نام سے مشہور ہو گئیں۔ تجارت کے ماحول میں جہاں مُنافع سب سے اہم تھا، اخلاقی اصولوں کی کوئی جگہ نہیں تھی اور رشوت کا لین دین عام تھا، حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا انصاف، سچائی اور امانت داری کے لیے جانی جاتی تھیں۔ اسلام کے ظہور سے پہلے، وہ ان حقوق کی پاسداری کرتی تھیں جن کی بعد میں اسلام نے توثیق کی: ملکیت میں خواتین کا حق، تجارت اور خودمختاری اور عزت و وقار کے ساتھ انتظامی ذمہ داری۔ وہ امیر تھیں، لیکن دولت انھیں اپنا قیدی نہ بنا سکی بلکہ یہ ان کی خدمت اور خیر خواہی کا وسیلہ بنی۔ ان کی خود مختاری اور کامیابی نے عورت کی کمزوری اور دوسروں پر انحصار کے عام خیال کو باطل کر دیا اور ایک مسلمان عورت کا نیا آئیڈیل پیش کیا: پوری عفت و عزت اور ترقی و پیشرفت کے ساتھ معاشرے میں سرگرم ایک عورت۔، لیکن ساتھ ہی پاکدامن اور بلند مرتبہ۔
پاکدامنی اور بصیرت کا نتیجہ، سب سے پہلے ایمان لانے کا شرف
پہلی وحی کے نزول کا واقعہ، انسان اور آسمان کی ملاقات کی داستان ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، وہ دیانتدار تاجر جو "امین" کے نام سے مشہور تھے، غار حرا میں طویل خلوت نشینی اور پہلی آیات کے نزول کے بعد ایک بدلی ہوئی کیفیت میں گھر لوٹے۔ یہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کا قلب مبارک تھا جو رسول اللہ کی پہلی پناہ گاہ بنا۔ انھوں نے صرف بیویوں والی تسلی پر اکتفا نہیں کیا اور آنحضرت پر وحی کے نزول کے واقعے کو خواب و خیال نہیں سمجھا، انھوں نے پورا ماجرا غور سے سنا اور پھر ان کی تصدیق کی۔ ان کا ایمان ایک شعوری اور سوجھ سمجھ کر کیا جانے والا فیصلہ تھا۔ پندرہ سال تک رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ گزاری گئی زندگی نے ان پر یہ بات ثابت کر دی تھی کہ جس شخص نے کبھی بھی جھوٹ نہیں بولا تھا، وہ اللہ کے بارے میں بھی ہرگز جھوٹ نہیں بولے گا۔
امام خامنہ ای کہتے ہیں: "انھوں نے اپنی پاکیزہ فطرت کے ساتھ، بات کی سچائی اور حقانیت کو فوراً سمجھ لیا ... ان کا قلب مبارک حقیقت کی طرف مجذوب ہو گیا اور وہ ایمان لے آئیں۔ پھر ہمیشہ اس ایمان پر ڈٹی رہیں۔"(3) اس یقین اور پشت پناہی نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنی رسالت جاری رکھنے کے لیے قوت بخشی کہ جب سبھی ان کے خلاف کھڑے ہوئے تھے۔
فتح سے پہلے، اپنی دولت و ثروت اور جان کا تحفہ
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے "اپنا سارا مال اسلام کی راہ میں خرچ کر دیا" لیکن یہ عبارت ان کے ایثار و قربانی کی گہرائی کو پوری طرح بیان نہیں کرتی۔ قرآن کریم فرماتا ہے: "تم میں سے جنھوں نے فتح (مکہ) سے پہلے مال خرچ کیا اور جنگ کی وہ اور وہ جنھوں نے فتح مکہ کے بعد مال خرچ کیا اور جنگ کی، برابر نہیں ہو سکتے (بلکہ پہلے والوں کا) درجہ بہت بڑا ہے۔" (سورۂ حدید، آیت 10) حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا اس آیت کی روشن مصداق ہیں۔ انھوں نے اس وقت اپنی ساری دولت و ثروت خدا کے دین پر قربان کی جب اسلام کا پرچم نہیں لہرایا تھا بلکہ یہ کام اس وقت کیا جب مسلمان تھوڑی تعداد میں تھے اور استہزاء اور ایذا رسانی کا نشانہ تھے۔ اس ایثار و قربانی کا اوج شعب ابی طالب میں مسلمانوں کے تین سال کے محاصرے کے دوران سامنے آيا، یہ وہ زمانہ تھا جب بھوک اور عسرت پورے خاندانوں پر چھائی ہوئی تھی۔ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے مسلمانوں کے لیے غذا فراہم کرنے کی خاطر اپنا سب کچھ نثار کر دیا اور خود بھوکی رہیں، یہاں تک کہ ان کے پاس ایمان کے سوا کچھ نہ بچا۔ انھوں نے اپنی دولت، آرام اور آخر میں اپنی جان کو رسالت پر قربان کر دیا۔ امام خامنہ ای نے اس ایثار کو امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی سخاوتوں سے تشبیہ دی ہے جنھوں نے بارہا اپنی آدھی یا پوری دولت صدقے میں دے دی۔ اس درجے کا ایثار، سنّت اسلامی میں سب سے بڑی فضیلتوں میں سے ہے۔(4)
پیغمبر کے گھر کی ماں
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی والدہ اور گیارہ اماموں کی نانی کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ رہبر انقلاب کہتے ہیں کہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کا گھر، اہل بیت علیہم السلام کا گہوارہ تھا۔ انھوں نے برسوں تک امام علی علیہ السلام کو اپنے بیٹے کی طرح پالا اور اس عظیم خاتون کی والدہ بنیں جن کی نسل سے باقی امام ہیں۔ اس معنی میں، وہ نہ صرف گیارہ اماموں کی ماں بلکہ سبھی بارہ اماموں کی روحانی ماں ہیں۔(5) امیرالمومنین علیہ السلام کے بچپن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ ان کی ہم نشینی کا ماحول فراہم کر کے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے نبوت اور امامت کے رشتے کی راہ ہموار کی۔ ان کا گھر روحانی پناہ گاہ اور معرفت الہی کا سرچشمہ بنا۔ حضرت خدیجہ اور پیغمبر کے گھر کی عظمت و منزلت صرف شیعوں ہی میں بلند نہیں ہے۔ اہل سنت کے بزرگ عالم ابن حجر عسقلانی بھی قرآن کی آیت اِنَّمَا يُرِيدُ اللَّہُ لِيُذْھِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَيْتِ (سورۂ احزاب، آيت 33) کی تفسیر میں لکھتے ہیں: "اہل بیت علیہم السلام کی اصل اور جڑ حضرت خدیجہ کبریٰ سلام اللہ علیہا ہیں۔ اس لیے کہ حسنین علیہما السلام، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے ہیں اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا حضرت خدیجۂ کبریٰ سلام اللہ علیہا کی بیٹی ہیں اور علی علیہ السلام حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے گھر میں پلے بڑھے، پھر ان کی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہا کی شادی علی علیہ السلام سے ہوئی۔ اس طرح واضح ہے کہ اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اصل اور بنیاد حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا ہیں۔"(6)
محبت و احترام سے لبریز شادی
قرآن مجید فرماتا ہے: "اور اس کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور تمھارے درمیان محبت اور رحمت (نرم دلی و ہمدردی) پیدا کر دی۔" (سورۂ روم، آیت 21) رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی مشترکہ زندگی، اس آیت کی مجسم تصویر تھی۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پناہ گاہ اور ان کی مہربانی کا سرچشمہ تھیں۔
ان کا رشتہ شروع سے ہی حیرت انگیز تھا اور اس زمانے کے عرب معاشرے کی سماجی رسومات کو چیلنج کرتا تھا۔ یہ ایک معزز خاتون اور طاقتور تاجر، حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا تھیں، جنھوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اعلیٰ سیرت کو پہچان کر ان کو شادی کا پیغام بھیجا۔
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خوبیوں کی تعریف کرتے ہوئے اپنی سہیلی "نفیسہ" کے سامنے اپنے دل کا راز کھولا اور ان کو واسطہ بنایا کہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس جائیں۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی مالی تنگدستی پر تشویش کا اظہار کیا تو نفیسہ نے یہ پیغام پہنچایا کہ خدیجہ ایسی خاتون ہیں جنھیں کوئی مالی تنگی نہیں ہے اور اپنے معاشی امور کے لیے انھیں کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔
اس وقت کے نام نہاد معاشرتی اقدار کی یہ خلاف ورزی، جس کے تحت ایک مالدار خاتون نے ایک غریب مرد کو شادی کا پیغام دیا تھا، ایک ایسے تعلق کی بنیاد بنی جو معاشرتی توقعات پر نہیں بلکہ باہمی احترام پر قائم تھا۔ اپنی پچیس سالہ مشترکہ زندگی میں، جو حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی وفات کے وقت تک جاری رہی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دوسری شادی نہیں کی۔ اس دور کو ایک گہرے پیار، سکون اور رفاقت سے بھرپور دور قرار دیا جا سکتا ہے جو بعد میں رسالت کے سامنے آنے والے مشکل برسوں کے مقابلے کی بنیاد بنا۔(7)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: "وہ مجھ پر تب ایمان لائیں جب لوگوں نے مجھے جھٹلایا، انھوں نے اس وقت میری تصدیق کی جب سب نے مجھے جھوٹا کہا، انھوں نے تب اپنے مال سے میری مدد کی جب دوسروں نے مجھے محروم کیا، اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعے مجھے اولاد عطا کی جبکہ دوسری بیویوں سے نہیں دی۔"(8) ان دونوں کی محبت اور باہمی احترام تمام جوڑوں کے لیے ایک مثال ہے؛ ایمان اور ایثار پر مبنی ایک رشتہ۔ وہ طوفانوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے ایک مضبوط قلعہ تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کبھی ان کو فراموش نہیں کیا۔
عورتوں اور مردوں کے لیے ایک جاوداں نمونۂ عمل
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی زندگی عورت کے بارے میں ہر غلط تصور کو توڑ دیتی ہے: وہ ایک ہی وقت میں پاکدامن اور طاقتور، مالدار اور متواضع بیوی اور ماں ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ایک بااثر خاتون تھیں۔ انھوں نے دکھا دیا کہ حقیقی عزت ایمان، خدمت اور اخلاص میں ہے۔
امام خامنہ ای زور دے کر کہتے ہیں کہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی عظمت زیادہ تر طاق نسیاں کی زینت بنتی رہی ہے حالانکہ وہ ایک ایسا نمونۂ عمل ہیں جو زمانے سے بالاتر ہے، وہ عورت کی دو غلط تصویروں کا جواب ہیں: ایک قدیم جاہلیت میں جہاں عورت کو بوجھ سمجھا جاتا تھا اور لڑکی کو زندہ در گور کر دیا جاتا تھا، اور دوسری جدید جاہلیت میں جہاں عورت کو ایک سامان اور استعمال کی چیز میں بدل دیا گیا تھا۔ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا "تیسری راہ" کی نمائندگی کرتی ہیں: ایمان اور خدمت کی بنیاد پر پاکیزگی اور خود مختاری کی راہ۔ اسی وجہ سے وہ تاریخ کی چار بہترین خواتین میں شمار ہوتی ہیں؛ حضرت مریم سلام اللہ علیہا، حضرت آسیہ سلام اللہ علیہا اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ساتھ۔(9) نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے خدیجہ کے لیے جنت میں ایک ایسے محل کا وعدہ کیا ہے جس میں نہ کوئی شور ہے اور نہ کوئی تکلیف۔"(10) ان کی وراثت خاموش حمایت نہیں بلکہ اسلام کی بنیاد رکھنے میں ایک فعال اور فیصلہ ساز کردار کی تھی، انھوں نے اپنی عقل، اثر و رسوخ اور بے پایاں دولت و ثروت کو خدا کے پیغام کی خدمت میں لگا دیا۔ یہ قربانی کسی بھی تلوار سے زیادہ بلند آواز تھی؛ ایک ایسا انتخاب جس نے نومولود اسلام کو تباہی سے بچایا اور ایک نئی دنیا کی بنیاد رکھی۔
1. https://farsi.khamenei.ir/video-content?id=36746
2. https://al-islam.org/khadijatul-kubra-short-story-her-life-sayyid-ali-asghar-razwy/chapter-2-early-life Bihar al-Anwar, Vol. 16, pp. 21-22
3. https://farsi.khamenei.ir/video-content?id=36746
4. https://farsi.khamenei.ir/video-content?id=36746
5. https://farsi.khamenei.ir/video-content?id=36746
6. فتح الباری بشرح صحیح الامام البخاری، ج 7، ص 169
7. https://al-islam.org/khadijatul-kubra-short-story-her-life-sayyid-ali-asghar-razwy/chapter-4-marriage
8. بحارالانوار، ج 16، ص 12
9. اصول کافی، ج. 1، ص 458
10. بحارالانوار، ج 16، ص 12