پچیس سال پہلے 30 ستمبر کو، غزہ  پٹی میں دوسری انتفاضہ تحریک کے دوران ایک مختصر کلپ نے پوری دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لی۔ ایک باپ اور بیٹا، جنھوں نے مظاہرے میں شرکت کی تھی اور بے رحم صیہونی فوجیوں کے آ جانے کے بعد وہاں سے بھاگ نہ سکے تھے۔ "محمد الدرہ" اور اس کے والد جمال، ایک ڈرم کے پیچھے چھپ گئے تھے تاکہ انھیں صیہونیوں کی مسلسل فائرنگ سے بچ کر بھاگنے کا کوئی موقع مل سکے۔ انھیں موقع نہیں ملا، محمد کو گولی لگ گئی اور اس کے بے بس باپ کو، جسے اب ایمبولینس کے آنے کی بھی کوئی امید نہیں رہ گئی تھی، غم کی شدت سے اب فائرنگ کی بھی پروا نہیں تھی۔

اس لمحے کی کلپ ایک فرانسیسی ٹی وی چینل سے نشر ہوئی اور پوری دنیا کو متاثر کر گئی۔

اسلامی جمہوریۂ ایران میں، اس دن کو فلسطینی بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ یکجہتی اور ہمدردی کے دن کا نام دیا گیا ہے، تاکہ ہر سال اس المیے کے موقع پر، مسئلۂ فلسطین کی حقیقت کو ایران اور دنیا میں اجاگر کیا جا سکے۔ امام خامنہ ای نے بھی اس واقعے کو اس طرح بیان کیا: "ایک شہادت، جیسے اپنے باپ کی گود میں اس بچے کی شہادت، دنیا کی اقوام کے دلوں میں طوفان بپا کر دیتی ہے۔"(1)

اسلامی جمہوریۂ ایران اور ایرانی عوام اس حقیقت کو سمجھ چکے ہیں کہ فلسطین کے چھوٹے بڑے بچوں کی حقیقی حفاظت، محض باتوں اور میڈیا میں مذمت وغیرہ سے ممکن نہیں ہے بلکہ اس کے لیے میدان میں عملی قدم اٹھانا ضروری ہے۔ محمد کی شہادت کے بعد چھے سال سے بھی کم عرصے میں، فلسطینیوں کی جدوجہد، ایرانی عوام کی ہمہ گير حمایت اور مزاحمتی محاذ کی مدد سے، تحریک حماس محمد کے قاتلوں کو غزہ سے نکالنے اور جہاں تک اس سے ممکن تھا، فلسطینی بچوں کی حفاظت کرنے میں کامیاب ہوئی۔

ایران اور محاذ مزاحمت کے برعکس، دنیا کے بہت سے علاقوں میں لوگوں نے محمد کو بھلا دیا۔ انھوں نے محمد کے قاتلوں کے ساتھ تعلقات قائم  کر لیے اور ان کی ظالم حکومت کی ترقی اور استحکام میں مدد کی، یہاں تک کہ اس کی توسیع کے لیے، بڑے بڑے معاشی اور سیاسی منصوبے شروع کیے۔ یہ سب اس لیے کیا گیا تاکہ محمد الدرہ جیسا المیہ ہر سال فلسطین کے درجنوں دیگر بچوں اور غزہ کی ایک اور چھوٹی بچی یعنی ہند رجب کے ساتھ دہرایا جائے، جیسا کہ امام خامنہ ای نے اشارہ کیا: "آپ نے اپنے باپ کی گود میں مارے جانے والے بچے کو دیکھا؟! اس قسم کا یہ ایک ہی واقعہ نہیں تھا۔"(2) اور تاریخ نے دکھایا کہ اس کے بعد بھی یہ سلسلہ رکا نہیں۔

29 جنوری 2024 کو، صیہونی حکومت کے مجرم فوجیوں نے غزہ شہر میں ایک گاڑی پر، جس میں ہند اور اس کی فیملی سوار تھی، بے تحاشا فائرنگ کی۔ جتنی دیر تک گولیاں ہند اور اس کی فیملی کی گاڑی پر برس رہی تھیں، وہ ہلال احمر کے امدادی کارکنوں سے فون پر بات کر رہی تھی۔ تاہم صیہونیوں نے، جنھیں محمد کو مارنے کا تجربہ تھا، کسی بھی گواہ کو زندہ نہیں چھوڑا۔ انھوں نے ہند کی فیملی کے تمام اراکین اور یہاں تک کہ ہلال احمر کی امدادی ٹیم کو بھی قتل کر دیا۔

آج، 30 ستمبر، فلسطینی بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ یکجہتی اور ہمدردی کے دن کے موقع پر، شاید یہ سوال پوچھنا ضروری ہے کہ کیا ہند کی جان بچائی جا سکتی تھی؟

شاید اگر اس دن، جب محمد کا لہو غزہ کی زمین پر بہہ رہا تھا اور اسلامی جمہوریۂ ایران کوشش کر رہا تھا کہ اس پاکیزہ خون کے پیچھے چھپے ظلم کو دنیا کے سامنے لے آئے، دنیا کے دوسرے علاقوں کے لوگ صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے اور اس کے خاتمے میں مدد کرنے کا فیصلہ کر لیتے، تو ہند رجب آج زندہ ہوتی۔

محمد الدرہ کا خون، ہند رجب کی جان کی حفاظت کر سکتا تھا بشرطیکہ دنیا کے لوگ ان جرائم کو روکنے کے لیے بنیادی اور حقیقی قدم اٹھاتے۔

غزہ میں نسل کشی کو دو سال گزر چکے ہیں اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب صیہونی فوجیوں کے ہاتھوں فلسطینی بچوں کا خون نہ بہہ رہا ہو۔

ہند اور اس جیسے ہزاروں بچوں کا خون فلسطین کی اگلی نسل کے بچوں کی جان بچا سکتا ہے، بشرطیکہ ...

1. https://urdu.khamenei.ir/news/3859

2. https://urdu.khamenei.ir/news/3859