ان باتوں کے جھوٹ ہونے کو ثابت کرنے کے لیے نہ تو بہت زیادہ تحقیق کی ضرورت ہے اور نہ ہی زمینی جستجو کی۔ آپ کو بس کچھ مہینے پہلے کی کچھ باتوں کو ذہن میں لانا ہوگا تاکہ آپ کو یاد آ سکے کہ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے پچھلے مراحل میں، غزہ میں باقی بچے ہوئے ان بیس فوجی مردوں سے پہلے، تمام خواتین اور بزرگ قیدیوں کو ترجیحی بنیاد پر صیہونی حکومت کے حوالے کیا جا چکا ہے۔(1) ان تمام دنوں میں جب صیہونی حکومت اپنی پوری طاقت سے غزہ پر بمباری کر رہی تھی اور اپنے ہی قیدیوں کو مار کر دباؤ کے اس ہتھیار کو مزاحمت کے ہاتھ سے چھیننے کی کوشش کر رہی تھی، حماس کی اسپیشل فورسز زیرزمین سرنگوں اور متعدد پناہ گاہوں میں ان قیدیوں کی جان بچانے میں مصروف تھیں۔ لیکن اب، جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کے بعد اچانک چند خواتین قیدیوں کی جان، صیہونی پروپیگنڈہ مشینری کا سب سے اہم مسئلہ بن گئی ہے۔

پرانے اور مضحکہ خیز حربے

قیدیوں کے تبادلے کے پچھلے مرحلے اور القسام بریگیڈ کی جانب سے انھیں صیہونی حکومت کے حوالے کیے جانے کی پرشکوہ تقریب کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے۔(2) اسی تقریب میں ایک اسرائیلی قیدی نے کئی ماہ تک اپنی حفاظت کرنے کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے فلسطینی محافظ کی پیشانی کو بوسہ دیا تھا۔ ابھی کچھ مہینے پہلے ہی کی بات ہے کہ وہ خاتون قیدی جسے غزہ میں مکمل عزت و تحفظ کے ساتھ رکھا گیا تھا اور بعد میں تبادلے کی صورت میں اسے رہا گیا تھا، اپنے ہی گھر میں ایک اسرائیلی جم ٹرینر کے جنسی حملے کا شکار ہو گئی۔(3) القسام کے مجاہدین کی شرافت اور عزت 7 اکتوبر 2023 کے دن ہی واضح ہو گئی تھی اور جب بھی صیہونی حکومت کی پروپیگنڈا مشینری نے ان پر جنسی تشدد اور بچوں کو قتل کرنے اور جلانے کا الزام لگانے کی کوشش کی، رائے عامہ میں اس کی ساکھ مزید گرتی چلی گئی۔(4) نسل کشی کے دوران یہ اسرائیلی فوجی ہی تھے جنھوں نے فلسطینی عوام اور مجاہدین کا حوصلہ کمزور کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر غزہ کی خواتین کے کپڑوں کی تصاویر شیئر کیں(5) اور انتہائی بے رحمی کے ساتھ دو سال تک انھیں زندگی کی بنیادی ترین ضروریات اور حفظان صحت کے وسائل سے محروم رکھا۔(6) اب یہی مجرم جھوٹ بول کر دنیا کے سامنے اپنی ایک مختلف تصویر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسے عالم میں جب صیہونی حکومت اور اس کی پروپیگنڈا مشینری اپنی تاریخ کے سب سے کمزور موڑ پر ہے، اس قسم کے واضح اور مضحکہ خیز جھوٹ پھیلانے کی کوشش، درحقیقت بہت اہم حقائق کی عکاسی کرتی ہے۔

مرتی ہوئی مشینری اور ایک نئی ترکیب

سبھی اس بات سے واقف ہیں کہ کس طرح طوفان الاقصیٰ آپریشن نے فلسطین کے معاملے پر صیہونیوں کے بیانیے پر غلبہ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ رائے عامہ میں اسرائیل کی ناکامی کا یہ سلسلہ امریکا تک پھیل گیا ہے جو اس حکومت کا سب سے بڑا حامی ہے۔ تازہ سروے کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ اس تنازعے کی تاریخ میں پہلی بار امریکی عوام کی آدھے سے زیادہ تعداد صیہونی حکومت کے بارے میں منفی رائے رکھتی ہے۔(7) اسی وجہ سے نیتن یاہو نے جنگ کے دوران بارہا "پروپیگنڈا جنگ میں شکست"(8) کی بات کی ہے اور ہر بار سوشل میڈیا کے "الگورتھم کی تبدیلی" اور صیہونیت مخالف اور بے نقاب کرنے والے مواد کی نشر و اشاعت کو روکنے کے لیے طاقت کے استعمال کی ضرورت پر زور دیا ہے۔(9)

ایسا لگتا ہے کہ صیہونی اپنے سامنے جو نیا محاذ کھولیں گے وہ سائبر اسپیس میں رائے عامہ کی جنگ کا میدان ہے۔ اسی مقصد کے تحت ٹک ٹاک کا پلیٹ فارم، جو امریکی نوجوانوں کی رائے اور عمومی کلچر کی تشکیل میں کافی مؤثر ہے، امریکی حکومت کی براہ راست مداخلت سے اسرائیل کے حامی سرمایہ داروں کو بیچ دیا گیا اور انھوں نے بھی کھل کر ٹک ٹاک پر اسرائیل کی حمایت میں مواد ڈالنے کی ضرورت کا اعلان کیا ہے۔(10) نیتن یاہو نے واضح طور پر ایکس جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے اور خواتین قیدیوں کے بارے میں یہ جو جھوٹی کیمپین جاری ہے، وہ اسی حربے کے استعمال کی شروعات کی عکاسی کرتی ہے۔(11)

صیہونی حکومت اور اس کی مرتی ہوئی پروپیگنڈا مشینری اچھی طرح جانتی ہے کہ اچانک ہی سینسرشپ اور گھٹن کا ماحول بنانے کی طرف جانے سے وسیع پیمانے پر رد عمل ہوگا اور شاید اس کے، موجودہ ناکامی سے بھی زیادہ سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ اسی لیے اس نے تقریباً ایک مہینے پہلے سے ہی اپنی شبیہ کو بہتر بنانے اور موجودہ صورت حال سے نکلنے کے لیے مختلف میڈیا کیمپینز چلائی ہیں تاہم صیہونی حکومت کی پروپیگنڈا مشینری کی کمزوری کی نشانیاں اس وقت سب سے زیادہ واضح ہو جاتی ہیں جب ان کیمپینز کے شروع ہونے کے بعد ہی ان مواد اور ان کے پھیلاؤ کے نیٹ ورک کی مشابہت اتنی واضح تھی کہ بہت سے سوشل میڈیا کارکن اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔ اس تعاون کے پس پردہ جو حقائق تھے وہ بڑی تیزی سے باہر لیک ہو گئے اور پتہ چل گیا کہ صیہونی حکومت اور اس کے حامی انٹرنیٹ انفلوئنسرز کو لاکھوں یا یہاں تک کہ دسیوں لاکھ ڈالر ادا کر رہے ہیں۔(12) وائٹ واشنگ اور سرکوبی کرنے والے ایک ورچوئل ڈھانچے کی طرف بڑھنے کا خیال اب بھی صیہونیوں کے ایجنڈے میں ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ فی الحال اور ان بے سود طریقوں کے بعد ہمیں ان کی طرف سے مزید پیچیدہ اور پوشیدہ حربوں کا انتظار کرنا چاہیے۔

تاہم شکست کھانے والی تازہ ترین کیمپین میں ایک اہم نکتہ پوشیدہ ہے جس پر توجہ دینا بے جا نہ ہو گا۔

سامراج کی گھناؤنی لیکن کامیاب چال

صیہونیوں کی تازہ ترین آن لائن کیمپین ایک کامیاب چال کو دوبارہ میدان میں اتارنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اسلامی ثقافت اور خواتین کے حقوق کے درمیان تضاد اور مخالفت پیدا کرنے کی ان کی کوششیں خطے کے دیگر تنازعات میں ان کے لیے بارہا فائدہ مند ثابت ہو چکی ہیں اور انہیں امید ہے کہ اس بار بھی یہ چال کارگر ثابت ہوگی۔ امریکا اور صیہونی حکومت نے ابراہیم معاہدے (Abraham Accord) کے آغاز کے بعد سے ہی 2018 اور 2019 میں سوڈان میں اور 2020 اور 2021 میں ایران میں اس حربے کو استعمال کیا ہے۔ عورتوں کے نام پر دو بڑے اسلامی ممالک کی حیثیت سے سوڈان کی تقسیم اور ایران کے خلاف عدیم المثال حملے، شاید خطے میں مغرب کی جارحانہ پالیسیوں پر عمل کی سب سے اہم تمہید کی حیثیت رکھتے تھے، یہ پالیسی جو طوفان الاقصیٰ کے واقعے، غزہ کی نسل کشی، لبنان، شام، یمن اور ایران پر حملے جیسے واقعات میں اپنے عروج کو پہنچ گئی۔

مغربی تھنک ٹینکس نے سامراج مخالف اور اسلامی گروہوں کے درمیان ایک بنیادی اختلاف کی درست شناخت کی ہے۔ فلسطین کے اصل اور اہم حامی، جو زیادہ تر مسلم گروہوں اور دنیا میں "بائیں بازو" کے نام سے مشہور گروہوں پر مشتمل ہیں، خواتین کے حقوق کے معاملے میں بنیادی اختلافات رکھتے ہیں۔ امریکا اور صیہونی حکومت، جو پرانے سامراجیوں کی چالوں کے وارث ہیں(13) رائے عامہ کے درمیان میں اپنی سابقہ پوزیشن پر واپس لوٹنے کے لیے ایک بار پھر اب اس متنازعہ مسئلے پر سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں اور اس تفرقے کے ذریعے نئی کامیابیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

فلسطین کے حامیوں کے درمیان عورت کے مسئلے میں اختلاف رائے کی جڑیں بہت گہری ہیں لیکن اسے فلسطین کے مسئلے میں ان کے آپسی تعاون میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ جس طرح گزشتہ دو برس میں فلسطینی خواتین کے صبر اور استقامت نے دنیا کے بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں اسلام کے بارے میں موجود غلط مفروضوں کی اصلاح کر دی ہے، اسی طرح غزہ کی خواتین کی یہ جدوجہد اور صبر، عورت کے بارے میں اسلام کے حقیقی نقطۂ نظر کی تشریح کی راہ ہموار کر سکتا ہے اور میڈیا کے پروپیگنڈوں سے ہٹ کر ایک مشترکہ فہم پیدا کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ جس طرح "مسئلۂ فلسطین" بین الاقوامی سیاست اور ملکوں کی اندرونی سیاست(14) کے میدان کی بہت سے پہیلیوں کو حل کرنے کی کلید ثابت ہوا ہے، اسی طرح یہ دنیا میں "عورت کے مسئلے" کو حل کرنے کی کلید بھی بن سکتا ہے۔

 

تحریر: محمد مہدی رحیمی، خبر نگار اور محقق

 

  1. https://www.reuters.com/world/middle-east/israeli-hostages-rescues-releases-ceasefire-talks-2025-10-08/
  2. https://www.haaretz.com/middle-east-news/palestinians/2025-02-24/ty-article/.premium/arab-social-media-sees-hostages-kiss-at-handover-as-sign-of-hamas-benevolence/00000195-33df-d871-a5bf-b3df88b60000
  3. https://www.aa.com.tr/en/middle-east/-safer-when-she-was-with-hamas-global-reactions-to-ex-hostage-raped-in-israel-after-her-release/3561024
  4. https://www.aljazeera.com/news/2024/3/21/october-7-forensic-analysis-shows-hamas-abuses-many-false-israeli-claims
  5. https://www.aljazeera.com/news/longform/2025/4/16/israeli-soldiers-filmed-themselves-destroying-gaza-see-the-video-evidence
  6. https://english.khamenei.ir/news/10611/No-International-Women-s-Day-for-Gazan-women
  7. https://www.pewresearch.org/politics/2025/10/03/how-americans-view-the-israel-hamas-conflict-2-years-into-the-war/
  8. https://www.facebook.com/reel/784519767911187
  9. https://www.youtube.com/watch?v=1I56MjHDl5k&t=2256s
  10. https://www.trtworld.com/article/a15a62e96b14
  11. https://www.aa.com.tr/en/middle-east/netanyahu-admits-using-social-media-as-weapon-to-influence-us-opinion-amid-gaza-genocide/3700646
  12. https://english.almayadeen.net/news/politics/-israel--pays-influencers--7k-per-post-to-whitewash-gaza-gen
  13. https://english.khamenei.ir/news/11393/Weaponizing-women-s-rights-How-imperialists-justify-invasions
  14. https://www.youtube.com/watch?v=taXIbXYt6YY