اس بلاجواز اور غیر قانونی قرارداد کا جاری کیا جانا ایسے عالم میں ہے کہ بورڈ آف گورنرز کے تقریباً نصف اراکین نے اس کی حمایت میں ووٹ نہیں دیا، اور ایک دیگر قابل غور نکتہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دو مستقل اراکین نے اس کے خلاف ووٹ دیا ہے۔ اس قرارداد نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی ایک آلہ کار ادارہ ہے جو مغرب کے مفادات کی خدمت کرتا ہے اور بلاشبہ اس وقت یہ صورت حال زیادہ سنگین اور سنجیدہ ہو گئی ہے۔

پانچ ماہ قبل، آئی اے ای نے نے ایک جانبدارانہ اور ایران مخالف رپورٹ پیش کر کے ایک طرح سے صیہونی حکومت اور امریکا کے لیے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کا راستہ کھول دیا تھا اور ایک حیرت انگیز رویہ اختیار کرتے ہوئے نہ تو ان حملوں کی اور نہ ہی ایران کے جوہری سائنسدانوں اور ان کے اہل خانہ کے قتل کی مذمت کی۔

اس کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران نے اس ادارے کے ساتھ تعاون جاری رکھا اور اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے 9 ستمبر کو قاہرہ میں ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تاکہ فریقین کے درمیان معائنہ کے عمل کے سلسلے میں تعاون کا راستہ کھل سکے۔ تاہم اس کے باوجود تین یورپی ممالک نے امریکا کی حمایت اور معاونت سے جوہری معاہدے میں تنازعات کے حل کے میکنزم کا، جسے 'ٹرگر میکنزم' کہا جاتا ہے، غلط استعمال کیا اور ایران کے خلاف سلامتی کونسل کی قراردادوں کو بحال کرنے کی کوشش کی، حالانکہ ایران نے روس اور چین کے ساتھ مل کر اس عمل کو تسلیم نہیں کیا اور باضابطہ طور پر اعلان کر دیا کہ وہ اس کی پابندی نہیں کریں گے اور قانونی نقطۂ نظر سے اس اقدام کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

بہرحال ایران کے نقطۂ نظر سے، مغرب کی جانب سے 'ٹرگر میکینزم' کا غیرقانونی استعمال، قاہرہ سمجھوتے کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا اور اس نے اسے ختم کر دیا۔ قابل غور نکتہ یہی ہے کہ مغربی طاقتیں وہ چیز چاہتی ہیں جسے انھوں نے خود تباہ کر دیا ہے۔ اب امریکا سے یہ سوال پوچھا جانا چاہیے کہ کیا ٹرمپ اب تک بار بار ایران کی جوہری تنصیبات کی مکمل تباہی کا دعویٰ نہیں کر چکے ہیں؟ تو پھر اب وہ کس چیز سے خوفزدہ ہیں اور کس چیز کا معائنہ کرنا چاہتے ہیں؟! کس چیز کو تسلیم کیا جائے؟ ایران کی جوہری تنصیبات کی تباہی کے دعوے کویا پھر خدشات اور بہانے بازیوں کو؟!

مغربی طاقتیں امن اور استحکام کے بارے میں فکر مند نہیں ہیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو انھیں اس حکومت کی ایٹمی سرگرمیوں کے بارے میں فکر مند ہونا چاہیے تھی جس کے ہاتھوں سے غزہ میں نسل کشی کا خون اب بھی ٹپک رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کی جوہری تنصیبات اور سرگرمیوں کی کوئی نگرانی بھی نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ مغرب والے خود دوسروں سے بہتر جانتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران جوہری ہتھیاروں کے درپے نہیں ہے اور یہ معاملہ شروع سے ہی مکمل طور پر ایک سیاسی اور غیر تکنیکی معاملہ رہا ہے۔

اس معاملے کا واحد مقصد ایران پر غیرقانونی دباؤ ڈالنے اور پابندیاں عائد کرنے کے لیے بہانے پیدا کرنا ہے اور درحقیقت وہ اس بات پر برہم ہیں کہ ایران جیسا ملک، جو سخت ترین پابندیوں کا سامنا کر رہا ہے اور ہر قسم کی تخریب کاری کا نشانہ بنا ہوا ہے، یہ اہم اور بنیادی ٹیکنالوجی کیسے حاصل کر سکتا ہے اور دوسرے ممالک کے لیے ایک مثال بن سکتا ہے کہ مغرب کے آگے جھکے بغیر اور اس پر انحصار کیے بغیر بھی پیشرفت کی جا سکتی ہے۔

وہ اس وجہ سے طیش میں ہیں اور یورینیم کی افزودگي کی ایران کی مقامی انڈسٹری کو ختم کرنے پر ان کا بضد ہونا درحقیقت اپنی قومی خودمختاری کی حفاظت و تقویت کے ایران کے عزم کے مقابلے میں اپنی دھونس اور منہ زوری کو مسلط کرنے کی ان کی ایک کوشش ہے۔