شکر کی حقیقت یہ ہے کہ انسان، نعمت کو خدا کی عطا کردہ مانے۔ یہ نہیں کہ زبان سے کہے بلکہ اپنے پورے وجود سے اس بات پر یقین رکھے کہ اس کے پاس جو بھی نعمت ہے، وہ خدا کی دی ہوئي ہے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ یہ سوچنے لگے کہ اس نعمت کو اس نے خود حاصل کیا ہے۔ یہ چیز اللہ کے غضب اور نعمت کے سلب ہونے کا سبب بنے گي کہ "انّما اُوتیتہ علیٰ علمٍ" اگر میں یہ کہوں کہ یہ علم اور یہ دولت و ثروت میں نے خود حاصل کیا ہے تو یہ غلط ہے۔ قرآن مجید اس طرح فرماتا ہے: مَا اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللَّہ (سورۂ نساء، آيت 79) آپ تک جو اچھی چیز (نعمت) پہنچتی ہے، وہ اللہ کی طرف سے ہے۔ "َمَا بِكُم مِّن نِّعْمَۃٍ فَمِنَ اللَّہ" (سورہ نحل، آیت 53) تمہارے پاس جو بھی نعمت ہے وہ سب اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ دعاؤں میں بھی ہمیں سکھایا گيا ہے کہ خداوند متعال سے عرض کریں: "مَا بنا مِن نِّعْمَۃٍ فَمِنک وحدک لا شریک لک لا الہ الّا انت" (نماز عصر کے بعد امام موسی کاظم علیہ السلام کی دعا) ہمارے پاس جو بھی نعمت ہے، وہ تیری ہی عطا کردہ ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو خدا کی نعمت کے قابل اور اس نعمت کا محافظ سمجھیں۔

امام خامنہ ای

28/5/1997