جس وقت تقوا اور پرہیزگاری کی بات ہوتی ہے، انسان کا ذہن شرع مقدس کے ظواہر، محرمات و واجبات کی رعایت کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے جو سامنے کی چیز ہے، نماز پڑھتے رہیں، رقومات شرعیہ ادا کرتے رہیں، روزہ رکھیں، جھوٹ نہ بولیں۔ یقیناً یہ سب چیزیں اہم ہیں لیکن تقویٰ دوسرے پہلوؤں کا بھی حامل ہے، ہم میں سے زیادہ تر لوگ جن کی طرف سے غفلت برتتے ہیں۔ دعائے مکارم اخلاق میں ایک جملہ ہے جو ان پہلؤوں کی وضاحت کرتا ہے: ’’اللّھمّ صَلِّ عَلَی مُحمدٍ وّ آلِ محمد، وَ حلّنی بِحِلیَۃِ الصَّالِحین، وَ اَلْبِسَنی زیَنۃِ الْمُتَّقین‘‘ خداوند متعال سے التجا کرتے ہیں کہ پروردگارا! مجھے صالحین کے زیور سے مزین کر دے اور پرہیزگاروں کے لباس سے آراستہ کردے۔ اچھا تو یہ پرہیزگاروں کا لباس کیا ہے؟ اس وقت یہ دلچسپ شرح دیکھنے کو ملتی ہے، ’’فی بَسطِ العدل‘‘ پرہزگاروں کا لباس عدل و انصاف برقرار کرنا ہے، ’’وَ کَظمِ الغَیظِ‘‘ اور غصے کو پی جانا ہے ... ’’وَ اِصلاح ذات البین‘‘ آپس میں آگ بھڑکانے، اِدھر کی اُدھر لگانے، اِن کو اُن کا دشمن بنانے اور اِن کے اُن کے راز برملا کرنے کے بجائے اصلاح ذات البین کریں، مومن بھائیوں کے درمیان، برادران اسلامی کے درمیان مصالحت اور بھائی چارگی ایجاد کریں، یہ سب تقویٰ ہے۔
امام خامنہ ای
18 / اگست / 2010