قرآن کی روشنی میں

روحانیت پر توجہ، الہی اخلاقیات پر توجہ اور ساتھ ہی انسانی ضروریات کو بھی مدنظر رکھنا، وہ چیز ہے جو اسلام میں ہے، اسلام کا راستہ اعتدال کا راستہ ہے، انصاف کا راستہ ہے۔ انصاف کا ایک ہمہ گير معنی ہے، تمام میدانوں میں انصاف - یعنی ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھنا - یہ چیز مد نظر ہونی چاہیے، درمیانی انسانی راستہ "وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ اُمَّۃً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُھَدَاءَ عَلَى النَّاسِ (اسی طرح ہم نے تم کو ایک درمیانی امت بنایا ہے تاکہ تم عام لوگوں پر گواہ رہو۔ سورۂ بقرہ، آيت 143)

2025 September
صبر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ کر نتائج کا انتظار کرنے اور حادثوں کو برداشت کرتے رہنے کے معنی میں نہیں ہے، صبر کا مطلب ہے ثابت قدم رہنا، استقامت دکھانا اور اپنے صحیح اندازوں کو دشمنوں کے فریب اور دھوکا دھڑی کے ساتھ تبدیل نہ کرنا۔ چنانچہ اگر یہ ثابت قدمی اور استقامت، عقل و تدبیر اور باہمی مشورے کے ساتھ ہو، جیسا کہ قرآن میں آیا ہے:  اور ان کے (تمام) کام باہمی مشورے سے طے ہوتے ہیں۔ (سورۂ شوری، آیت نمبر 38) تو قطعی طور پر فتح و کامیابی نصیب ہوگی۔ امام خامنہ ای 22 مارچ 2020
2025/09/29
خدا کے سامنے غرور، بے جا طور پر خدا سے امید باندھنے اور میدان عمل میں کوئی اچھا کام کیے بغیر خدا سے جزا طلب کرنے کے مترادف ہے۔ خدا کے سامنے غرور وہی بلا ہے جو بنی اسرائیل پر نازل ہوئی تھی۔ خداوند عالم نے اس کے بارے ہیں فرمایا ہے: اور بنی اسرائيل پر ذلت و خواری اور افلاس و ناداری مسلط ہوگئی اور وہ الہی قہر و غضب میں گرفتار ہوگئے۔ (سورۂ بقرہ، آيت 61) ہمیں چاہیے کہ خود کو، اپنے دلوں کو اور اپنی روحوں کو پاک کریں اور اپنی معنوی طہارت کی فکر کریں، یقینا اس کی راہیں کھلی ہوئی ہیں، یہی پنج وقتہ نمازیں، یہی دعا کے وسائل، یہی نوافل اور نماز شب، یہ ساری چیز تہذیب نفس کی راہیں ہیں۔ امام خامنہ ای 19 جون 2006
2025/09/22
دشمن جب محسوس کرتا کہ آپ کمزور ہیں تو یہ احساس اسے حملے پر اکساتا ہے اور جب وہ محسوس کرتا ہے کہ آپ طاقتور ہیں تو اگر وہ حملے کا ارادہ رکھتا بھی ہے تو نظر ثانی پر مجبور ہوجاتا ہے۔ لہذا خداوند متعال فرماتا ہے: تاکہ تم اس (جنگی تیاری) سے خدا کے دشمن اور اپنے دشمن کو خوفزدہ کر سکو۔ (سورۂ انفال، آیت 60) یہ تیاری اور آمادگي جس پر قرآن مجید میں زور دیا گیا ہے، ملک میں امن و سلامتی کا قیام ہے۔ اسی لیے آپ دیکھتے ہیں ایک مدت تک امریکی بار بار کہا کرتے تھے: فوجی (کارروائی کا) آپشن میز پر ہے۔ اب کافی عرصے سے یہ بات دوہرائي نہیں جاتی۔ یہ بات بے وزن اور بے وقعت ہو گئی ہے، وہ جانتے ہیں کہ یہ بات بے معنیٰ ہو چکی ہے۔ یہ آپ کی توانائیوں کے سبب ہے۔ امام خامنہ ای 17 اگست 2023
2025/09/08
قرآن حکیم میں کئی مقامات پر "یسارعُونَ فِي الْخَيْرات" کا ذکر ہے: اور بھلائی کے کاموں میں تیزی کرتے ہیں اور یہی لوگ نیک لوگوں میں سے ہیں۔ (سورۂ آل عمران، آیت 114) گویا قرآن نے حقیقی معنوں میں فرمایا ہے کہ نیک کاموں میں اور مومنانہ تعاون میں باہمی مقابلہ آرائی اور سبقت سے کام لیجیے کہ آپ دوسروں سے پہلے اور بہتر شکل میں اقدام کر یں۔ یہ کام میری نگاہ میں بہت اہم ہے یعنی پیش قدمی، حتی یہ محرم میں کھانا کھلانا بھی، جو ان ایام میں بعض انجمنیں یا بعض افراد نذر کا اہتمام کرتے اور کھانا کھلاتے ہیں، اس طرح سے گھرانوں کی مومنانہ امداد کی جاسکتی ہے۔ انقلابی اقدامات اپنے حقیقی معنی میں در اصل یہ ہیں، جو ہونے چاہیے۔ امام خامنہ ای 22 جولائی 2020
2025/09/01
August
غفلت وہی چیز ہے کہ جس سے قرآن میں بار بار پرہیز اور گریز پر تاکید کرتے ہوئے ہم کو خبردار کیا گیا ہے۔ سورۂ انبیاء کی آیت 97 میں کہا گيا ہے: ہائے افسوس! ہم اس سے غفلت میں رہے۔ کافر قیامت میں اس طرح فریاد کریں گے: ہم پر وائے ہو، ہم غفلت میں متبلا تھے۔ یہ غفلت بہت بڑی بلا ہے لہذا نافلۂ شب سے متعلق دعاؤں میں سے ایک دعا میں یوں آیا ہے: اے خدا! ہم غفلت سے تیری بارگاہ میں پناہ مانگتے ہیں۔ یعنی غفلت، ذکر کی ضد ہے۔ قرآن بھی ذکر ہے۔ آپ جتنا زیادہ قرآن سے مانوس ہوں گے اتنا ہی زیادہ ذکر انجام پائے گا۔ امام خامنہ ای 3 مارچ 2022
2025/08/18
سورۂ حج کی اکتالیسویں آیت نے ہم سب کے لیے فرائض واضح کر دیے ہیں: یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار عطا کریں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے۔ نماز قائم کرنا ایک الہی اور اسلامی حکومت کا فریضہ ہے کہ وہ خدا کی بندگی، خدا کی طرف توجہ اور روحانیت کی طرف توجہ کو فروغ دینے پر توجہ دے۔ یہ سب فرائض کا حصہ ہیں، امربالمعروف اور نہی عن المنکر نماز کی طرح، زکوۃ کی طرح فرائض کا حصہ ہے اور ایک روایت کے مطابق امر بالمعروف ان تمام الہی احکام کے درمیان حتیٰ جہاد سے بھی زیادہ بالاتر ہے۔ امام خامنہ ای 28 جون 2022
2025/08/10
اگر انسان صحیح سمت میں قدم اٹھائیں گے تو صحیح سمت میں آگے بڑھیں گے۔ سورۂ رعد (کی گیارہویں آیت کے ایک حصے) میں ارشاد ہوتا ہے: بے شک اللہ کسی قوم کی اس حالت کو نہیں بدلتا جو اس کی ہے جب تک قوم خود اپنی حالت کو نہ بدلے۔ آیت کے سیاق سے پتہ چلتا ہے (یہ آیت) اسی مثبت پہلو کو بیان کررہی ہے کہ جب تم اپنے اندر صحیح و مثبت تبدیلیاں پیدا کروگے تو خداوند متعال بھی تمھارے حق میں مفید و مثبت حادثے رونما کرے گا اور مفید و مثبت حقیقتیں وجود میں آئیں گی۔ امام خامنہ ای 3 جون 2020
2025/08/04
July
خداوند کریم نے فرمایا ہے: اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمھاری مدد کرے گا اور تمھیں ثابت قدم رکھےگا۔ (سورۂ محمد، آیت 7) کیا اس سے زیادہ واضح انداز میں کہا جاسکتا ہے؟ اگر تم خدا کی راہ میں قدم اٹھاؤگے، خدا کے دین کی نصرت کروگے تو خدا بھی تمھاری نصرت و مدد کرے گا۔ یہ الہی سنت ہے، یہ ناقابل تبدیل ہے۔ اگر تم نے دین خدا کو نئی حیات عطا کرنے کی راہ میں قدم بڑھایا تو خدا بھی تمھاری نصرت و مدد کرے گا، یہ بات قرآن نے کہی ہے، اس قدر واضح اور صاف صاف اللہ کا وعدہ ہے۔ ہم نے بھی عملی طور پر اس کا تجربہ کیا ہے۔ امام خامنہ ای 6 جولائی 2018
2025/07/28
ایسا کوئی زمانہ فرض نہیں کیا جاسکتا کہ (جس میں خطرہ نہ ہو) لہذا مقابلے کے لیے ہمیشہ تیار رہنا ضروری ہے۔ یہ (قرآن کا) حکم ہے: (اے مسلمانو!) تم جس قدر استطاعت رکھتے ہو ان (کفار) کے لیے قوت و طاقت اور بندھے ہوئے گھوڑے تیار رکھو تاکہ تم اس (جنگی تیاری) سے خدا کے دشمن اور اپنے دشمن کو اور ان کھلے دشمنوں کے علاوہ دوسرے لوگوں (منافقوں) کو خوفزدہ کر سکو۔ (سورۂ انفال، آیت 60) خود کو تیار و آمادہ رکھیے، کتنا؟ جس قدر بھی آپ سے ممکن ہے، جتنا بھی آپ کے اندر قوت و توانایی ہے۔ یہ آمادگی خطرے سے محفوظ رکھتی ہے۔ امام خامنہ ای 16 اپریل 2023
2025/07/21
توبہ، یعنی (خدا کی جانب) واپسی، آپ جس مقام پر بھی فائز ہوں، کمال کے جس مرتبے پر آپ پہنچ چکے ہوں، تب بھی استغفار کی ضرورت ہے۔ خداوند متعال نے اپنے نبی سے فرمایا ہے: اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کیجیے اور اس سے مغفرت طلب کیجیے۔ (سورۂ نصر، آیت 3) خداوند عالم نے بارہا پیغمبر سے فرمایا ہے کہ استغفار کیجیے جبکہ وہ معصوم ہیں، ان سے کبھی گناہ سرزد نہیں ہوتا لیکن ان سے بھی خدا فرماتا ہے: استغفار کیجیے۔ ہم اور آپ تو یقیناً استغفار اور توبہ کے بہت ضرورتمند ہیں۔ امام خامنہ ای 16 جنوری 1998
2025/07/14