قرآن کی روشنی میں

روحانیت پر توجہ، الہی اخلاقیات پر توجہ اور ساتھ ہی انسانی ضروریات کو بھی مدنظر رکھنا، وہ چیز ہے جو اسلام میں ہے، اسلام کا راستہ اعتدال کا راستہ ہے، انصاف کا راستہ ہے۔ انصاف کا ایک ہمہ گير معنی ہے، تمام میدانوں میں انصاف - یعنی ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھنا - یہ چیز مد نظر ہونی چاہیے، درمیانی انسانی راستہ "وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ اُمَّۃً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُھَدَاءَ عَلَى النَّاسِ (اسی طرح ہم نے تم کو ایک درمیانی امت بنایا ہے تاکہ تم عام لوگوں پر گواہ رہو۔ سورۂ بقرہ، آيت 143)

2025 February
اللہ کی قوت و قدرت پر توجہ اور الہی وعدوں کی سچائی پر یقین تمام کاموں کی بنیاد ہے یعنی الہی وعدوں پر اطمینان رکھیں۔ اللہ نے فرمایا ہے: اور ہمارے عہد کو پورا کرو ہم تمھارے عہد کو پورا کریں گے۔ (سورۂ بقرہ، آيت 40) خدا کی راہ میں قدم بڑھاؤ، خداوند متعال مدد کرتا ہے، اب یہ صرف اللہ کا ایک وعدہ نہیں ہے۔ ہم اگر دیر سے یقین کرنے والوں میں ہوں، ان لوگوں میں ہوں جو کور باطن ہیں اور اللہ کے وعدوں کو صحیح نہیں مانتے تو بھی ہمارے تجربے (اسلامی انقلاب کی کامیابی) نے ہمیں یہ بات نمایاں طور پر دکھا دی ہے۔ امام خامنہ ای 18 اگست 2010
2025/02/24
ہم نے جس شخص کو کوئی برا کام کرتے نہیں دیکھا، ہم اس کی عام اور نارمل بات اعتماد کرلیتے ہیں جبکہ وہ ایک انسان سے زیادہ کچھ نہیں ہے، ممکن ہے وہ بعد میں مکر جائے لیکن ہم اعتماد کر لیتے ہیں! اب دیکھیے کہ خداوند متعال نے مومنین سے کتنے وعدے کیے ہیں، مدد کا وعدہ ، ہدایت کا وعدہ، تعلیم کا وعدہ: "خدا (کی نافرمانی) سے ڈرو اور اللہ تمھیں صحیح راستے کی تعلیم دے گا۔" (سورۂ بقرہ، آیت 282) حفاظت و نگہبانی کا وعدہ، دنیا کے امور میں امداد کا وعدہ، خدا نے ہم سے اتنے زیادہ وعدے کیے ہیں، یقیناً یہ وعدے غیر مشروط نہیں ہیں، ان کی کچھ شرطیں ہیں اور یہ شرطیں بہت دشوار بھی نہیں ہیں، ہم انھیں پورا کرسکتے ہیں۔ امام خامنہ ای 27 جولائی 2009
2025/02/18
میں آپ جوانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ قرآن کے ساتھ اپنی انسیت اور لگاؤ میں اضافہ کریں۔ جن لوگوں کا قرآن سے تعلق اور رابطہ ہے وہ اس تعلق کی قدر کریں! اگر ہم قرآن سے مانوس ہوگئے، قرآن سے قریب ہو گئے اور قرآنی باتیں ہمارے دل میں جگہ بنا لے گئيں تب ہم یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ امت اسلامیہ، خداوند متعال کی جانب سے وعدہ کی گئي عزت کو حاصل کر لے گی۔ "اور ساری عزت تو صرف اللہ، اس کے رسول اور مؤمنین کے لیے ہے۔" (سورۂ منافقون، آیت نمبر 8) خداوند عالم اس وقت یہ عزت، امت اسلامیہ کو عطا کرے گا۔ قرآن سے انسیت ہمارے دلوں میں پیدا ہوجائے تو اس کے آثار و برکات یہ ہیں۔ امام خامنہ ای 3 جون 2014
2025/02/11
ہمیں پورے وجود کے ساتھ اسلام کی راہ میں قدم بڑھاتے جانا چاہیے، ہم کو اپنا یہ ہدف نہیں بھولنا چاہیے کیونکہ استقامت کا مطلب ہے گمراہ نہ ہونا، اپنی راہ فراموش نہ کرنا اور سیدھے راستے کو گم نہ کرنا۔ یہ بات اس قدر حساس اور اہم ہے کہ خداوند متعال اپنے پیغمبر کو ان کی تمام تر عظمت کے ساتھ یہی نصیحت کرتا ہے: "فَاسْتَقِمْ كَمَآ اُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَكَ" (تو اے رسول! جس طرح آپ کو حکم دیا گیا ہے، آپ خود بھی اور وہ لوگ بھی جنھوں نے (کفر و عصیان سے) توبہ کر لی ہے اور آپ کے ساتھ ہیں (راہِ راست پر) ثابت قدم رہیں۔ سورۂ ہود، آیت 112) پوری توجہ کے ساتھ راہ پر ڈٹے رہیں، راستہ گم نہ کریں اور غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔ امام خامنہ ای 5 دسمبر 1990
2025/02/04
January
باطل گروہوں کا ہدف "ایام اللہ" پر پردہ ڈالنا یا اس طرح کے واقعات کے رنگ کو پھیکا بنا دینا ہے۔ یہ قرآن مجید کے نقطۂ نگاہ کے بالکل خلاف ہے۔ قرآن نے اس طرح کے ایام کی یاد اور ذکر کو باقی رکھنے کا حکم دیا ہے۔ "وَاذکُر فِی الکِتابِ مَریَمَ... وَاذکُر فِی الکِتابِ اِبراھیم ... وَاذکُر فِی الکِتابِ موسی ... وَ اذکُر عَبدَنا اَیّوب ... شاید دس سے زیادہ مقامات پر قرآن میں اس طرح آیا ہے: وَاذکُر، وَاذکُر (یاد کیجیے، یاد کیجیے) یہی قرآن کی منطق ہے۔ امام خامنہ ای 9 جنوری 2023
2025/01/28
خداوند قدیر نے اپنے پیغمبر سے فرمایا ہے: "اور آپ لوگوں (کی طعن و تشنیع) سے ڈر رہے تھے حالانکہ اللہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس سے ڈریں۔" (سورۂ احزاب، آیت 37) لوگوں سے ڈرنا نہیں چاہیے، اُن کی باتوں سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے۔ ہر وہ اقدام جو ملک میں بھلائی کی سمت میں کیا جائے تو دشمن کی طرف سے اس کے خلاف ایک بڑا مورچہ کھل جاتا ہے کیونکہ یہ لوگ اسی سوچ میں بیٹھے رہتے ہیں کہ کہاں سے چوٹ پہنچائیں۔ ان کا فکری محاذ یہی ہے کہ جب بھی ملک میں کچھ اہم، صحیح اور منطقی فیصلے کیے جائیں تو یہ اپنے وسیع پروپیگنڈوں کے ذریعے ان پر طرح طرح کے سوال کھڑے کر دیں اور اس پروپیگنڈہ سامراج کے  ذریعے جو صیہونیوں کے ہاتھ میں ہے، ان کی سرکوبی کر دیں، انھیں نابود کر دیں اور تباہ کردیں۔ امام خامنہ ای 3 جون 2020
2025/01/21
انسان اگر صحیح سمت میں قدم اٹھائیں تو صحیح سمت میں ہی آگے بڑھیں گے اور اگر غلط راہ پر لگ جائیں تو غلط راہوں پر ہی بڑھتے چلے جائیں گے۔ سورۂ رعد (کی آیت گیارہ) میں ارشاد ہوتا ہے: "بے شک اللہ کسی قوم کی اس حالت کو نہیں بدلتا جو اس کی ہے جب تک قوم خود اپنی حالت کو نہ بدلے۔" یعنی جب آپ خود اپنے اندر صحیح تبدیلیاں لائیں گے تو خداوند متعال بھی آپ کی زندگی میں مثبت حوادث اور حقیقتیں وجود میں لائےگا۔ امام خامنہ ای 1 جون 2020
2025/01/15
پیغمبر اسلام کی بعثت کا ایک بہت ہی اہم خزانہ، جس کی طرف افسوس کہ زیادہ توجہ نہیں دی جاتی، اپنے بدخواہوں کے مقابل اٹل اور ناقابل رسوخ ہونا ہے۔ انسانی معاشروں کو جو چوٹیں پہنچی ہیں، ان میں سے ایک ان کے دشمنوں کا ان کے درمیان اثر و رسوخ پیدا کرلینا ہے جس کا ذکر اس آیت "اشداء على الكفار" میں موجود ہے، "اشداء" عمل میں سختی کے معنی میں نہیں ہے، اشداء یعنی سخت ہونا، مضبوط و مستحکم ہونا، ناقابل رسوخ ہونا، اشداء کا یہ مطلب ہے۔ "اشداء على الكفار" یعنی کفار کو اجازت نہ دینا کہ وہ معاشرے میں اثر و رسوخ پیدا کریں۔ امام خامنہ ای 18 فروری 2023
2025/01/07
2024 December
اگر آپ نے مجاہدت کی تو اللہ کی طاقت آپ کی پشت پناہ بن جائے گی، وہ لشکر جس کا کوئي پشتپناہ نہ ہو، کچھ نہیں کرسکتا، جس لشکر کی پشت پناہی ہوتی ہے، وہ ہر کام کرسکتا ہے۔ اب اگر وہ لشکر کہ جس کی پشتپناہ اللہ کی طاقت ہو تو کیا وہ شکست کھا سکتا ہے؟ خدا کی طاقت ان ہی کی پشتپناہ بنتی ہے جو میدان میں اتر پڑتے ہیں، قدم بڑھاتے ہیں۔ کوشش کرتے ہیں خود کو ہر کام کے لئے تیار کر لیں، یہ لوگ الہی قوت پر بھروسہ کرتے ہیں۔ "یہ اس لیے ہے کہ اللہ، اہلِ ایمان کا سرپرست ہے اور جو کافر ہیں ان کا کوئی سرپرست اور کارساز نہیں ہے۔" (سورۂ محمد آیت 11) یہ قرآن کی آیت ہے۔ خدا تمھارا مولا و سر پرست ہے، تمھارا مولا وہ ہے جس کے اختیار میں تمام عالم وجود ہے۔ امام خامنہ ای 23 مئی 2016
2024/12/31
خداوند عالم فرماتا ہے: ہم نے آپ پر یہ کتاب نازل کی ہے کہ انسانوں کو آپ "ظلمات" سے نکال کر نور تک پہنچا دیں۔ ظلمات کیا ہے؟ ظلمات وہ تمام چیزیں ہیں جنھوں نے پوری تاریخ میں انسان کی زندگی کو تاریک اور تلخ کر دیا ہے، زہر آلود کر دیا ہے۔ یہ سب ظلمات ہیں۔ جہالت، ظلمت یعنی تاریکی ہے، غربت تاریکی ہے، ظلم تاریکی ہے۔ امتیازی سلوک تاریکی ہے، شہوات میں ڈوب جانا تاریکی ہے، اخلاقی برائیاں اور سماجی نقائص یہ سب ظلمات ہیں۔ یہ بشریت کے بہت گہرے درد اور مسائل ہیں۔ پیغمبر اعظم نے ان تمام مسائل کا حل، فکری حل بھی اور عملی حل بھی بشریت کے سامنے پیش کیا ہے۔ اگر ان مسائل سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہو تو علاج یہ ہیں۔ پیغمبر کی شریعت اور قرآنی تعلیمات، بشریت کے مسائل کا علاج ہیں۔ یہ پیغمبر اسلام نے بشریت کو پیش کیا ہے۔ امام خامنہ ای 3 اکتوبر 2023
2024/12/24