قرآن کی روشنی میں

روحانیت پر توجہ، الہی اخلاقیات پر توجہ اور ساتھ ہی انسانی ضروریات کو بھی مدنظر رکھنا، وہ چیز ہے جو اسلام میں ہے، اسلام کا راستہ اعتدال کا راستہ ہے، انصاف کا راستہ ہے۔ انصاف کا ایک ہمہ گير معنی ہے، تمام میدانوں میں انصاف - یعنی ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھنا - یہ چیز مد نظر ہونی چاہیے، درمیانی انسانی راستہ "وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ اُمَّۃً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُھَدَاءَ عَلَى النَّاسِ (اسی طرح ہم نے تم کو ایک درمیانی امت بنایا ہے تاکہ تم عام لوگوں پر گواہ رہو۔ سورۂ بقرہ، آيت 143)

2025 May
کوئی دن ایسا نہیں گزرے کہ آپ قرآن نہ کھولیں اور قرآن کی تلاوت (یا سماعت) نہ فرمائیں، قرآن کا سننا اول تو ایمان کے سبب ایک فریضہ ہے، دوسرے یہ کہ رحمت الہی کی راہ ہموار کرتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: اور (اے مسلمانو!) جب قرآن پڑھا جائے تو کان لگا کر (توجہ سے) سنو اور خاموش ہو جاؤ تاکہ تم پر رحمت کی جائے۔ (سورۂ اعراف، آیت 204) یعنی قرآن کا سننا رحمت پروردگار کے دروازے کھول دیتا ہے۔ امام خامنہ ای 23 مارچ 2023
2025/05/12
April
قرآن مجید کہتا ہے: اور اگر ان بستیوں کے باشندے ایمان لاتے اور پرہیزگاری اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان و زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔ (سورۂ اعراف، آيت 96) یعنی ایمان اور تقویٰ کی خاصیت صرف یہ نہیں ہے کہ لوگوں کے دلوں کو آباد کیا جائے بلکہ لوگوں کے ہاتھ اور ان کی جیبیں بھی اس کے ذریعے بھر سکتی ہیں اور انسانوں کے دسترخوان بھی طرح طرح کی نعمتوں سے سج سکتے ہیں اور ان کے بازو قوی ہوسکتے ہیں، ایمان اور تقویٰ میں یہی خاصیت پائی جاتی ہے۔ امام خامنہ ای 2 جنوری 1998
2025/04/21
تمام انبیاء نے؛ پہلے نبی سے لے کر نبی مکرم و خاتم الانبیاء تک، اپنا ہدف و مقصد تعلیم اور نفس کا تزکیہ قرار دیا ہے۔ (یہ پیغمبر) اور ان کو پاکیزہ بناتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ (سورۂ جمعہ، آیت 2) تمام عبادتیں اور شرعی فرائض جن کی ادائیگی کا ہم کو حکم ہوا ہے در حقیقت اسی تزکیے یا اسی تربیت کے وسائل ہیں اور اس لیے ہیں کہ ہم کامل ہوجائیں۔ امام خامنہ ای 2 جنوری 1998
2025/04/14
خداوند عالم فرماتا ہے: ان سے کہا گیا تھا راہ خدا میں خرچ کریں لیکن انھوں نے وعدے پر عمل نہیں کیا، لہذا نفاق نے ان کے دل پر قبضہ کرلیا؛ تو (اس روش کا نتیجہ یہ نکلا کہ) خدا نے ان کی وعدہ خلافی کرنے اور جھوٹ بولنے کی وجہ سے یوم لقا (قیامت) تک ان کے دلوں میں نفاق قائم کر دیا۔ سورۂ توبہ، آيت 77) یعنی جب انسان اپنے خدا سے کیے ہوئے عہد کو پورا نہیں کرتا اور خلاف ورزی سے کام لیتا ہے تو نفاق اس کے قلب پر حاوی ہوجاتا ہے۔ اگر ہم بے توجہی سے کام لیتے اور خود کو خواہشات اور ہوا و ہوس کے حوالے کر دیتے ہیں تو ایمان مغلوب ہوجاتا اور عقل ہار جاتی ہے۔ امام خامنہ ای 9 اکتوبر 2005
2025/04/07
February
اللہ کی قوت و قدرت پر توجہ اور الہی وعدوں کی سچائی پر یقین تمام کاموں کی بنیاد ہے یعنی الہی وعدوں پر اطمینان رکھیں۔ اللہ نے فرمایا ہے: اور ہمارے عہد کو پورا کرو ہم تمھارے عہد کو پورا کریں گے۔ (سورۂ بقرہ، آيت 40) خدا کی راہ میں قدم بڑھاؤ، خداوند متعال مدد کرتا ہے، اب یہ صرف اللہ کا ایک وعدہ نہیں ہے۔ ہم اگر دیر سے یقین کرنے والوں میں ہوں، ان لوگوں میں ہوں جو کور باطن ہیں اور اللہ کے وعدوں کو صحیح نہیں مانتے تو بھی ہمارے تجربے (اسلامی انقلاب کی کامیابی) نے ہمیں یہ بات نمایاں طور پر دکھا دی ہے۔ امام خامنہ ای 18 اگست 2010
2025/02/24
ہم نے جس شخص کو کوئی برا کام کرتے نہیں دیکھا، ہم اس کی عام اور نارمل بات اعتماد کرلیتے ہیں جبکہ وہ ایک انسان سے زیادہ کچھ نہیں ہے، ممکن ہے وہ بعد میں مکر جائے لیکن ہم اعتماد کر لیتے ہیں! اب دیکھیے کہ خداوند متعال نے مومنین سے کتنے وعدے کیے ہیں، مدد کا وعدہ ، ہدایت کا وعدہ، تعلیم کا وعدہ: "خدا (کی نافرمانی) سے ڈرو اور اللہ تمھیں صحیح راستے کی تعلیم دے گا۔" (سورۂ بقرہ، آیت 282) حفاظت و نگہبانی کا وعدہ، دنیا کے امور میں امداد کا وعدہ، خدا نے ہم سے اتنے زیادہ وعدے کیے ہیں، یقیناً یہ وعدے غیر مشروط نہیں ہیں، ان کی کچھ شرطیں ہیں اور یہ شرطیں بہت دشوار بھی نہیں ہیں، ہم انھیں پورا کرسکتے ہیں۔ امام خامنہ ای 27 جولائی 2009
2025/02/18
میں آپ جوانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ قرآن کے ساتھ اپنی انسیت اور لگاؤ میں اضافہ کریں۔ جن لوگوں کا قرآن سے تعلق اور رابطہ ہے وہ اس تعلق کی قدر کریں! اگر ہم قرآن سے مانوس ہوگئے، قرآن سے قریب ہو گئے اور قرآنی باتیں ہمارے دل میں جگہ بنا لے گئيں تب ہم یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ امت اسلامیہ، خداوند متعال کی جانب سے وعدہ کی گئي عزت کو حاصل کر لے گی۔ "اور ساری عزت تو صرف اللہ، اس کے رسول اور مؤمنین کے لیے ہے۔" (سورۂ منافقون، آیت نمبر 8) خداوند عالم اس وقت یہ عزت، امت اسلامیہ کو عطا کرے گا۔ قرآن سے انسیت ہمارے دلوں میں پیدا ہوجائے تو اس کے آثار و برکات یہ ہیں۔ امام خامنہ ای 3 جون 2014
2025/02/11
ہمیں پورے وجود کے ساتھ اسلام کی راہ میں قدم بڑھاتے جانا چاہیے، ہم کو اپنا یہ ہدف نہیں بھولنا چاہیے کیونکہ استقامت کا مطلب ہے گمراہ نہ ہونا، اپنی راہ فراموش نہ کرنا اور سیدھے راستے کو گم نہ کرنا۔ یہ بات اس قدر حساس اور اہم ہے کہ خداوند متعال اپنے پیغمبر کو ان کی تمام تر عظمت کے ساتھ یہی نصیحت کرتا ہے: "فَاسْتَقِمْ كَمَآ اُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَكَ" (تو اے رسول! جس طرح آپ کو حکم دیا گیا ہے، آپ خود بھی اور وہ لوگ بھی جنھوں نے (کفر و عصیان سے) توبہ کر لی ہے اور آپ کے ساتھ ہیں (راہِ راست پر) ثابت قدم رہیں۔ سورۂ ہود، آیت 112) پوری توجہ کے ساتھ راہ پر ڈٹے رہیں، راستہ گم نہ کریں اور غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔ امام خامنہ ای 5 دسمبر 1990
2025/02/04
January
باطل گروہوں کا ہدف "ایام اللہ" پر پردہ ڈالنا یا اس طرح کے واقعات کے رنگ کو پھیکا بنا دینا ہے۔ یہ قرآن مجید کے نقطۂ نگاہ کے بالکل خلاف ہے۔ قرآن نے اس طرح کے ایام کی یاد اور ذکر کو باقی رکھنے کا حکم دیا ہے۔ "وَاذکُر فِی الکِتابِ مَریَمَ... وَاذکُر فِی الکِتابِ اِبراھیم ... وَاذکُر فِی الکِتابِ موسی ... وَ اذکُر عَبدَنا اَیّوب ... شاید دس سے زیادہ مقامات پر قرآن میں اس طرح آیا ہے: وَاذکُر، وَاذکُر (یاد کیجیے، یاد کیجیے) یہی قرآن کی منطق ہے۔ امام خامنہ ای 9 جنوری 2023
2025/01/28
خداوند قدیر نے اپنے پیغمبر سے فرمایا ہے: "اور آپ لوگوں (کی طعن و تشنیع) سے ڈر رہے تھے حالانکہ اللہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس سے ڈریں۔" (سورۂ احزاب، آیت 37) لوگوں سے ڈرنا نہیں چاہیے، اُن کی باتوں سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے۔ ہر وہ اقدام جو ملک میں بھلائی کی سمت میں کیا جائے تو دشمن کی طرف سے اس کے خلاف ایک بڑا مورچہ کھل جاتا ہے کیونکہ یہ لوگ اسی سوچ میں بیٹھے رہتے ہیں کہ کہاں سے چوٹ پہنچائیں۔ ان کا فکری محاذ یہی ہے کہ جب بھی ملک میں کچھ اہم، صحیح اور منطقی فیصلے کیے جائیں تو یہ اپنے وسیع پروپیگنڈوں کے ذریعے ان پر طرح طرح کے سوال کھڑے کر دیں اور اس پروپیگنڈہ سامراج کے  ذریعے جو صیہونیوں کے ہاتھ میں ہے، ان کی سرکوبی کر دیں، انھیں نابود کر دیں اور تباہ کردیں۔ امام خامنہ ای 3 جون 2020
2025/01/21