حدیث کی روشنی میں

2024 February
مفضل ابن عمر نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ امام نے ایمان کی تکمیل کے لئے چار خصلتوں کا ذکر فرمایا ہے: "یُحسِنُ خُلُقہَ" سب سے پہلے اپنا اخلاق اچھا کیجئے، گھر کے اندر بیوی بچوں، ماں اور باپ سے، اپنے رفقائے کار سے، معاشرے میں، عام لوگوں سے اچھے اخلاق کا مظاہرہ کیجئے۔ اس کے مقابل بداخلاقی ہے۔ یہ بد اخلاقی، ان کاموں کو، جو آپ ایمان کے ساتھ، اپنے صالح عمل کے ساتھ انجام دیتے ہیں، خراب اور ناقص کردیتی ہے۔ خوش اخلاقی بہت بڑی نعمت اور بہت بڑی نیکی ہے۔ "وَ تَسخُو نَفسُہ" دوسرے یہ کہ اس کے نفس میں سخاوت ہو، بخیل، کنجوس لوگوں میں نہ ہو۔"وَ یُمسِکُ الفَضلَ مِن قَولِہ" تیسرے یہ ہے کہ زیادہ باتیں نہ کرے (البتہ) جہاں بولنا ضروری ہو، موقع ومحل بولنے کا متقاضی ہو، وہاں سکوت رضامندی کی دلیل ہے، وہاں چپ رہنا جائز نہیں ہے۔بعض مقامات پر چپ رہنے کا گناہ، بولنے سے زیادہ ہے۔ "وَ یُخرِجُ الفَضلَ مِن مالِہ" اور مومن کی چوتھی خصلت یہ ہے کہ اپنا اضافی مال جو اس کی ضرورت سے زیادہ ہو، خارج کردیتا ہے یعنی اضافی مال، جتنا بھی اس کی ضرورت سے زیادہ ہے، اسے اپنے پاس نہیں رکھتا بلکہ دوسروں کو عطا کردیتا ہے۔ امام خامنہ ای 20 نومبر 2018  
2024/02/02
January
"مَن وَفى للہِ عَزَّ وَ جَلَّ بِما یَجعَلُ عَلى نَفسِہِ لِلنّاس" ایک تو یہ کہ واجبات انجام دے؛ اس جملے کا مطلب یہی ہے؛ یعنی وہ حقوق جو خداوند متعال نے اپنے لئے، بندوں کے کندھوں پر رکھے ہیں، انھیں ادا کرے۔ " وَ صَدَقَ لِسانُہُ مَعَ النّاسِ‘‘ دوسرے (یہ کہ) اس کی زبان لوگوں کے ساتھ بھی صادق ہو، لوگوں سے جھوٹ نہ بولے۔ تیسرے (یہ کہ ) تمام برے کاموں سے خدا کے سامنے اور لوگوں کے سامنے حیا کرے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ برے کام کرتا ہی نہیں کیونکہ اگر اس کا کوئی گناہ ہی نہ ہوگا تو وہ "مُحِّصَت‌‌ ذُنوبُہ" کیسے کہلائے گا؛ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ اس کے اندر گناہ کے ادراک کی حالت ہو اور وہ گناہ سے شرم کرے۔ "وَحَسُنَ خلقہ مع اہلہ" چوتھے (یہ کہ) اپنے گھر والوں کے ساتھ خوش اخلاق ہو۔ یہ وہ بلا ہے جس میں بہت سے نیک اور مومن انسان تک مبتلا ہو جاتے ہیں اور اپنے بال بچوں کے ساتھ بد اخلاقی سے پیش آتے ہیں، بدروئی، سختی اور چڑچڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں اور یہ بہت ہی بری چیز ہے۔  امام خامنہ ای 15 فروری 2004  
2024/01/26
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے: صبر کی تین قسمیں ہیں: مصیبت پر صبر، اطاعت (و عبادت) پر صبر اور گناہ و معصیت پر صبر۔ تو جو شخص مصیبت میں صبر سے کام لیتا ہے اور سکون کے ساتھ اس مصیبت کو گزار دیتا ہے اسے خداوند کریم تین سو درجے عطا کرتا ہے جن میں سے ایک درجے سے دوسرے درجے کے درمیان زمین اور آسمان جتنا فاصلہ ہے۔ جو کوئي اطاعت پر صبر کا مظاہرہ کرتا ہے، خدائے عظیم اسے چھے سو درجے عطا کرتا ہے جن میں ہر درجے کا دوسرے درجے سے درمیانی فاصلہ زمین کی تہہ سے عرش تک کا فاصلہ ہے اور جو شخص گناہ پر صبر کرتا ہے خدائے رحیم اسے نو سو درجے عطا کرتا ہے جن میں دو درجوں کا درمیانی فاصلہ زمین کی آخری تہہ سے عرش کے آخری طبقے کا فاصلہ ہے۔ (الكافي، جلد 2، صفحہ 191) امام خامنہ ای 24 اکتوبر 2021
2024/01/11
2023 December
ہم سب کے یہاں کمزوریاں پائی جاتی ہیں، ہم خطروں سے دوچار ہوسکتے ہیں اور کتنی ایسی کمزوریاں ہیں کہ حادثوں سے روبرو ہونے پر انسان فطری طور پر ان کمزوریوں سے دوچار ہو جاتا ہے۔ ہم اپنی کمزوریوں کو پہچانیں، اگر انسان اپنے غرور اور بے توجہی سے نکل جائے، خدا کی طرف متوجہ ہو جائے اور خدا سے مدد طلب کرے۔ ماہ رجب کی دعاؤں میں سے ایک دعا ہے: "خابَ الوافِدونَ عَلىٰ غَیرِکَ وَ خَسِرَ المُتَعَرِّضونَ اِلّا لَکَ وَ ضاعَ المُلِمّونَ اِلّا بِک" صرف خانۂ خدا کے در پر جانا چاہئے، اگر ہم کسی دوسرے کے گھر کے دروازے پر گئے تو مایوس لوٹیں گے۔ اگر ہم خدا کے سوا کسی بھی دوسرے کی طرف اپنے ہاتھ پھیلائیں گے تو ہم خالی ہاتھ لوٹیں گے۔ دنیا کے تمام ذرائع الہی وسائل ہیں، وہ مسبب الاسباب ہے، ہمیں ان اسباب سے کام لینا چاہیے، ان سے استفادہ کرنا چاہیے لیکن نتیجہ اور اثر خدا سے طلب کرنا چاہیے۔ امام خامنہ ای 20 مارچ 2020  
2023/12/22
ایک روایت میں ہے کہ ایک جوان رسول خدا کے سامنے سے گزرا، جوان ٹھیک ٹھاک صحت مند لگ رہا تھا۔ پیغمبر کو یہ جوان اچھا لگا، بظاہر آپ نے اس کو آواز دی اور اس سے دو سوال کیے۔ ایک تو یہ کہ فرمایا کیا تمہاری شادی ہوگئی ہے؟ کہنے لگا: "نہیں" پھر آپ نے فرمایا : کیا کرتے ہو؟ بولا کچھ نہیں بے روزگار ہوں۔ پیغمبر فرماتے ہیں: "سقط من عینی" یہ جوان میری نظروں سےگرگیا۔ ابھی پیغمبر کو جس کا کردار اور دوسری باتیں مثلاً اس کی حرکتیں اچھی لگی تھیں، یہ سن کر کہ وہ بے روزگار پھر رہا ہے، نظروں سے گرگیا۔ صرف اس لئے کہ کام کی فکر نہیں ہے، اسلام کام کو اتنی زیادہ اہمیت دیتا ہے کہ کاروبار حیات کو ایک انسانی معیار سمجھتا ہے اور اس کی قدر و قیمت کا قائل ہے۔ امام خامنہ ای 5 جون 2003  
2023/12/01
November
ایک مزدور کی توانائیوں کے ارتقا کے حالات فراہم کرنا سب کا فریضہ ہے۔ حدیث موجود ہے:’’ مَن‌ ظَلَمَ‌ اَجیراً اَجرَہُ اَحبَطَ اللہُ عَمَلَہُ وَ حَرَّمَ عَلَیہِ ریحَ الجَنَّۃ؛‘‘ اگر کوئی ایک مزدور پر ظلم کرتا ہے، اس کی مزدوری کے سلسلے میں اور اجرت دینے میں ظلم وناانضافی سے کام لیتا ہے تو اس کے تمام کار خیر نابود ہو جاتے ہیں۔ نابود یعنی حبط و ضبط کر لئے جاتے ہیں، تباہ و برباد ہوجاتے ہیں،’’وَ حَرَّمَ عَلَیہِ ریحَ الجَنَّۃ‘‘: اور خداوند متعال اس شخص پر جنت کی خوشبو حرام کر دیتا ہے۔ یعنی ایسا ہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ظلم کیا ہے؟ ظلم کیا صرف یہ ہے کہ اس کی مزدوری نہ دیں؟ جی ہاں! یہ بہت بڑا ظلم ہے لیکن صرف اتنی سی بات نہیں ہے ! میرا خیال و احتمال یہ ہے کہ مزدور کی فلاح کے لئے کوئی اقدام نہ کرنا اور یہی اس طرح کے مسائل مثلا بیمہ، حفظان صحت، تعلیم اور مہارت، مثال کے طور پر تعلیم اور اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے میدان فراہم نہ کرنا یہ سب بھی ظلم ہے۔ امام خامنہ ای 25 مئی 2003  
2023/11/24
قالَ‌ اِبلیسُ‌ لَعنَۃُ اللہِ‌ عَلَیہِ‌ لِجُنودِہِ اِذا استَمکَنتُ مِنِ ابنِ آدَمَ فی ثَلاثٍ لَم اُبالِ ما عَمِلَ فَاِنّہُ غَیرُ مَقبُول  اس روایت کی سند ابلیس ملعون تک پہنچتی ہے، یہ لعین اپنے لشکریوں سے یوں خطاب کرتا ہے: اگر مجھ کو اولاد آدم کی تین چیزوں پرتسلط حاصل ہو جائے تو پھر اس کا غم نہیں رہے گا کہ انسان اب بھی اچھے کام انجام دے رہا ہے اور وہ اب بھی ممکن ہے کامیابیوں کے مدارج طئے کرے۔ نہیں میں اب آسودہ خاطر ہو جاؤں گا کیونکہ وہ جو کام بھی انجام دے گا قبول نہیں کیا جائے گا۔ اہم بات یہ ہے کہ میں ان تین باتوں کا کوئی انتظام کر لوں اور اولاد آدم کے ان تین کاموں پر تسلط حاصل کر لوں، اگر قابو پا گیا تو میں فکرمندی سے آزاد ہو جاؤں گا۔ وہ تین باتیں کیا ہیں؟  اِذَا استَکثَرَ عَمَلَہ وَ نَسیَ ذَنبَہ وَ دَخَلَہُ العُجب  ایک بات تو یہ ہے کہ وہ اپنے کام کا زیادہ خیال کرے۔   دوم یہ کہ وہ اپنے گناہوں کو فراموش کر دے۔ اور تیسرے یہ کہ اس کے اندر خود پسندی و خود ستائی پیدا ہو جائے۔  امام خامنہ ای  25 مئی 2003    
2023/11/17
دعا قبول ہونے کی شرطوں میں سے ایک یہ ہے کہ دعا خلوص اور پوری توجہ سے کی جائے۔ کبھی کبھی صرف زبان سے کہا جاتا ہے "خدایا! مجھے معاف کردے، خدایا! میرے رزق میں اضافہ کردے، خدایا! میرا قرض ادا کردے۔" دس سال تک انسان اس طرح سے دعائیں کرتا رہے، بالکل مستجاب نہیں ہوتیں۔ اس طرح سے دعا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ دعا کی شرطوں میں ایک یہ ہے جیسا کہ ارشاد ہوا ہے: ’’اِعلَموا انَّ اللہ لا يقبل الدعاء عن قلب غافل" خداوند متعال اس شخص کی دعا، جس کا دل اپنی دعا کی طرف سے کہ کیا مانگ رہا ہے اور کس سے مانگ رہا ہے، غافل اور بے توجہ ہو، قبول نہیں کرتا۔ ظاہر ہے اس طرح سے کی جانے والی دعا مستجاب نہیں ہوتی۔ گڑگڑا کر اور پوری سنجیدگی کے ساتھ دعا کرنا چاہئے۔ خداوند عالم کے سامنے گریہ و زاری کے ساتھ دیا کیجئے اور بار بار اپنی خو اہش کو دوہرائیے۔ اس صورت میں یقینا خداوند متعال آپ کی دعاؤں کو مستجاب کرے گا۔ امام خامنہ ای 17 فروری 1995          
2023/11/10
October
بعض اوقات انسان جتنی بھی دعا کرے قبول نہیں ہوتی اس کا سبب کیا ہے؟ روایات میں آیا ہے اگر دعا کی شرطیں موجود نہ ہوں تو دعا مستجاب نہیں ہوتی۔ بزرگان دین نے فرمایا ہے: جو کام نہ ہوسکتے ہوں، خداوند متعال سے ان کی خواہش نہ کیا کرو۔ ایک روایت میں آیا ہے ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ایک صحابی نے پیغمبر کی موجودگی میں دعا کی اور کہا: خدایا مجھ کو کسی مخلوق کا محتاج قرار نہ دینا۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: اس طرح نہ کہو! یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ خدایا مجھ کو کسی کا محتاج نہ کرنا، یہ انسانی مزاج اور فطرت کے خلاف ہے، یہ الہی سنت اور اس فطرت کے خلاف ہے جو پروردگار نے انسانی وجود میں ودیعت کی ہے۔ یہ دعا مستجاب نہیں ہوگی۔ اس شخص نے عرض کی: اے اللہ کے رسول ! تو میں کس طرح دعا کروں ؟ فرمایا کہو خدایا! اپنے بندوں کے درمیان مجھے شر پسندوں کا محتاج نہ بنانا، مجھے بخیل و پست انسانوں کا محتاج نہ کرنا۔ یہ صحیح ہے، یہ ہو سکتا ہے! اس بات کی خدا سے خواہش کر سکتے ہیں، بنابریں خدائے متعال سے اگر کوئی ایسی بات چاہی جو انہونی ہو اور دنیا کی عام سنتوں کے خلاف ہو تو وہ دعا پوری نہیں ہوتی۔ امام خامنہ ای 17 فروری 1995       
2023/10/27
یہ بعثت، در اصل عقل و فکر، اخلاق و عادات اور قانون کے میدانوں میں لوگوں کی عمومی تربیت تھی۔ یہ وہ چیزیں ہیں کہ انسان کی ترقی و کمال کی طرف گامزن ایک آسودہ زندگی کو ان کی سخت ضرورت ہے؛ حلم و بردباری اخلاق ہے؛ قرآنی آیت میں بھی "یزکّیھم و یعلّمھم الکتاب و الحکمۃ" کے اندر تزکیہ کو مقدم قرار دیا گیا ہے یہ اخلاقی تربیت ہے۔ آج ہم کو اس اخلاقی تربیت کی بہت زیاد ضرورت ہے ہم ایرانی عوام کو بھی اس جغرافیائي حدود میں واقع اسلامی معاشروں کو بھی اور عالم اسلام کے دیگر تمام مسلمانوں کو بھی اس پورے عالم اسلام، عظیم امت اسلامیہ اور مسلمان معاشروں کی یہ اولین ضرورتوں میں سے ہے۔ امام خامنہ ای 20 جولائی 2009     
2023/10/20