بسم ‌الله ‌الرّحمن‌ الرّحیم

 یا مقلّب القلوب و الابصار، یا مدبّر اللّیل و النّهار، یا محوّل الحول و الاحوال، حوّل حالنا الی احسن الحال.اَللّهُمَّ صَلِّ عَلی فاطِمَةَ وَ اَبیها وَ بَعلِها وَ بَنیها.(۱)

صدیقہ کبری حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت با سعادت اور عید نوروز کی مناسبت سے آپ تمام عزیز ہم وطنوں کو تبریک و تہنیت پیش کرتا ہوں۔ آپ تمام عزیز  ہم وطنوں، عظیم ملت ایران، عزیز نوجوانوں، گوناگوں طبقات و اصناف سے تعلق رکھنے والے آپ عوام کے لئے یہ عید با برکت ثابت ہو۔ میں خاص طور پر مبارکباد پیش کرنا چاہوں گا شہیدوں کے معزز اہل خانہ، جانبازوں (دفاع وطن میں لڑتے ہوئے جسمانی طور پر معذور ہو جانے والے سپاہی)، ایثارگروں (محاذ جنگ پر جاکر شجاعت کے جوہر دکھانے والے مجاہدین) اور اسی طرح ان تمام اقوام کو جو نوروز مناتی ہیں اس عید کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے آپ  عزیز ملت ایران کو ایک اور عید نوروز کی مبارکباد پیش کرنے کا موقع اس حقیر کو عنایت فرمایا۔ دعا کرتا ہوں کہ آپ ملت ایران کے لئے یہ نیا سال بہت اچھا، با برکت اور رہاہ و آسائش اور حفاظت و تحفظ سے معمور سال ہو، ان شاء اللہ 1396 کا سال تمام ملت ایران اور تمام دنیا کے مسلمانوں کے لئے خوشی شادمانی کا سال ہو۔ اس لمحے سے شروع ہونے والے اس سال میں ان شاء اللہ تمام ایرانی گھرانے تمام ایرانی شہری لطف و رحمت و برکت خداوندی سے بہرہ مند ہوں۔

اگر ہم بیتے ہوئے سال 1395 ہجری شمسی کا تجزیہ کرنا چاہیں تو ہمیں کہنا ہوگا کہ یہ سال بھی دوسرے تمام برسوں کی مانند خوشیوں اور غموں کا حامل تھا، تلخیوں اور شیرینی دونوں کا حامل رہا؛ یہاں مراد وہ تلخی و شیرینی ہے جس کا تعلق ملت ایران سے بحیثیت ایک قوم ہے، یہاں ذاتی مسائل مد نظر نہیں ہیں۔ گزشتہ سال شیریں لمحات بھی آئے، خوشی بھی ملی، اس خوشی کا تعلق قومی وقار سے، قومی سلامتی سے، ملت ایران کے اندر موجود جوان ہمت و حوصلے سے اور ملک بھر میں وسیع پیمانے پر انجام پانے والے مومنانہ اقدامات سے ہے۔ تلخی کا تعلق بنیادی طور پر اقتصادی و سماجی مسائل سے ہے جن کا میں ذکر کروں گا۔

سنہ 1395 ہجری شمسی میں ایران اور ہماری عزیز قوم کا وقار ساری دنیا میں بہت نمایاں رہا، سال کے آغاز سے لیکر اختتام تک۔ دنیا بھر میں ہمارے دشمنوں نے ملت ایران کی طاقت اور ملت ایران کی عظمت کا اعتراف کیا۔ ملت ایران کا تشخص اس سال مختلف امور میں ساری دنیا میں نمایاں طور پر نظر آیا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے سلسلے میں امریکی صدر نے گستاخی کی تو عوام نے 22 بہمن (1395 ہجری شمسی مطابق 10 فروری 2017) کو جوش و جذبے اور غیرت و حمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کا جواب دیا۔ یوم القدس کے موقع پر، رمضان ک مبارک مہینے میں، عوام کے عظیم اجتماعات سے اس ملک کی شناخت اور اس کے اہداف ساری دنیا کے سامنے آشکارا ہوئے۔

موجودہ پر تلاطم علاقائی و بین الاقوامی حالات میں وطن عزیز کی سیکورٹی ملت ایران کے لئے بہت بڑا اور بنیادی امتیاز رہا۔ آج ہمارے گرد و پیش میں، جو ہمارے پڑوس میں واقع ممالک میں؛ مشرق اور جنوب مشرق سے لیکر شمال مغرب تک واقع ملکوں میں بدامنی ہے، علاقہ بدامنی میں گرفتار ہے۔ ملت ایران مگر پورے سال پائیدار امن و سلامتی سے بہرہ مند رہی۔

میں جوان ہمت و حوصلے کا جو ذکر کیا تو وہ ملک بھر میں ہزاروں نوجوان گروہوں کی سرگرمیوں کے مشاہدے اور ان کے بارے میں ملنے والی اطلاعات کی بنیاد پر ہے۔ یہ گروہ علمی میدانوں میں، ثقافتی میدانوں میں، کھیل کود کے میدان میں، پیداواری شعبے میں مصروف کار ہیں، مشغول ہیں۔ وہ نئے کام اور نئے اختراعات انجام دے رہے ہیں اور ملک کے لئے مستقبل میں کام آنے والا سرمایہ جمع کر رہے ہیں۔

میں نے مومنانہ سرگرمیوں کا ذکر  کیا تو اس سے مراد پورے سال بڑی دلچسپی اور گرمجوشی سے منعقد کئے جانے والے دینی اجتماعات و جلسات ہیں، جو ائمہ علیہم السلام کے امور سے متعلق تھے، دینی مسائل سے متعلق تھے؛ اعتکاف، عبادتیں، ماہ رمضان کے پروگرام، چہلم کا پیادہ سفر، عاشورا کے اہم پروگرام اور عشرہ محرم کے پروگرام یہ سب ہمارے ملک اور ہماری قوم کے لئے تعمیری اور مسرت بخش اقدامات ہیں۔

سختیاں اور تلخیاں بنیادی طور پر عوام کی اقتصادی اور معیشتی مشکلات سے متعلق ہیں۔ متوسط اور کمزور طبقات پورے سال ان مشکلات میں الجھے رہے اور آج بھی ہیں۔ چونکہ مجھے عوام  کی حالت کا علم ہے اس لئے میرا پورا وجود اس  تلخی کو محسوس کرتا ہے۔ عوام کی سختیاں، خاص طور پر کمزور طبقات، تہی دست طبقات کی تلخی جو اقتصادی مسائل اور اقتصادی مشکلات جیسے گرانی، بے روزگاری اور ان سماجی برائیوں سے پیدا ہوتی ہے، خود ان مشکلات کی جڑ بھی تفریق اور عدم مساوات جیسے اقتصادی وجوہات ہیں۔

ہم سب جوابدہ ہیں، اللہ کی بارگاہ میں بھی اور عوام کے سامنے بھی ہمیں جواب دینا ہے۔ میں نے 'اقدام و عمل' کے سال یعنی 1395 ہجری شمسی میں محترم حکام سے کہا کہ اقدام و عمل کے لئے ایک کمیشن تشکیل دیں جو تشکیل بھی پایا، بہت اچھے کام انجام پائے، جس کی رپورٹ ہمیں ملی، لیکن جو کچھ انجام پایا وہ عوام کی توقع اور امید سے بہت کم ہے۔ میں تقریر میں (2) تشریح کروں گا کہ متعلقہ عہدیداروں سے جو اعداد و شمار اور اطلاعات ملتی ہیں وہ حوصلہ بخش ہوتی ہیں اور بعض اطلاعات خامیوں کی نشاندہی کرتی ہیں، انھیں ایک ساتھ رکھ کر دیکھنا چاہئے۔

استقامتی معیشت ایک مجموعہ ہے۔ یہ مجموعہ اگر صرف استقامتی معیشت کے تحت زیر بحث لایا جائے گا تو ممکن ہے کہ اس کا اتنا اثر نہ ہو۔ میری نظر میں راہ حل یہ ہے کہ اس مجموعے کو اہم نکات میں تقسیم کیا جانا چاہئے اور ہر اہم اور کلیدی نکتے کے لئے ایک دورانیہ طے کیا جائے، عہدیداران، اہم افراد اور عوام سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ سب کے سب اس کلیدی نکتے کو عملی جامہ پہنانے پر اپنی توانائی صرف کریں۔ میری نظر میں راہ  حل یہ ہے کہ اس سال ہم ان کلیدی نکات کی صحیح نشاندہی کریں۔ میری نظر میں ایک کلیدی نکتہ ہے پیداوار، قومی پیداوار اور روزگار، بنیادی طور پر نوجوانوں کے روزگار کے مواقع۔ یہ کلیدی مسائل ہیں۔ اگر ہم ان دو چیزوں پر توجہ مرکوز کرنے میں کامیاب ہو جائیں اور تمام منصوبے اور اقدامات انھیں دو محوروں کے تحت انجام دیں، تو اندازہ یہی ہے کہ معاملات کافی حد تک آگے بڑھیں گے اور نمایاں کامیابیاں حاصل ہوں گی۔ ان دو کلیدی اور بنیادی نکات کی جو خصوصیات اور ثمرات ہیں ان شاء اللہ اپنی تقریر میں ان کی تشریح کروں گا۔ بنابریں میں اس سال کے لئے یہ نعرہ معین کرتا ہوں؛ 'استقامتی معیشت، پیداوار اور روزگار'۔ یعنی استقامتی معیشت تو ایک کلی عنوان  ہے، پیداوار اور روزگار کلیدی نکات کا حصہ ہیں جن پر سب کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ عزیز و محترم عہدیداران سے میرا اور عوام کا مطالبہ یہ ہے کہ ان دونوں نکات پر توجہ مرکوز کریں۔  منصوبہ بندی کے ساتھ کاموں کو انجام دیں اور عوام الناس کو سال کے آخر تک ان اقدامات کے نتائج سے آگاہ کریں۔

دعا کرتا ہوں کہ آپ سب حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا فداہ کی عنایتوں کے سائے میں رہیں، شہیدوں اور امام خمینی کی ارواح مطہرہ کی دعاؤں کے ساتھ مسرت و شادمانی اور سلامتی و آسائش سے آراستہ سال بسر کریں۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

 ۱) عوالم ‌العلوم، جلد ۱۱، صفحہ ۱۴

 ۲) ہجری شمسی سال کے آغاز پر حرم امام علی رضا علیہ السلام میں رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب