بسم ‌الله ‌الرّحمن‌ الرّحیم

الحمد‌ لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌ القاسم المصطفی محمّد و علی آله الطّیّبین الطّاهرین المعصومین.

تمام حاضرین محترم کو خوش آمدید کہتا ہوں، خاص طور پر مختلف اسلامی ملکوں سے تشریف لانے والے عزیز مہمانوں کو جنھوں نے اس پرشکوہ قرآنی پروگرام میں شرکت کی، بالخصوص قرآن کے محققین، اساتذہ اور جج صاحبان کو۔ اس شاندار پروگرام کا اہتمام کرنے والوں اور متعلقہ عہدیداروں کا شکر گزار ہوں، جنہوں نے اس پروگرام کو بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیا۔

سب سے پہلے تو کہوں گا کہ آپ نے جو کام کیا وہ نیک عمل ہے۔ آج پوری دنیائے اسلام میں جہاں بھی قرآن کے لئے کوئی کام انجام دیا جائے، قرآن فہمی کے تعلق سے کوئی اقدام عمل میں آئے یا قرآن کی ترویج کے لئے کوئی خدمت انجام دی جائے وہ تصور میں آنے والی ‏عظیم ترین حسنات میں سے ایک 'حسنہ' ہے۔ آپ کا یہ عمل 'حسنہ' ہے۔ نیتوں کو خالص اور لللہی بنائيے، نفسانی خواہشات سے اور گوناگوں رجحانات سے پاکیزہ بنائیے تاکہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں اسے شرف قبولیت حاصل ہو اور آپ اللہ تعالی کی بارگاہ میں اجر و ثواب کے حقدار قرار پائیں۔

ہمارے ملک میں بھی یہ قرآنی مہم بدستور جاری رہنا چاہئے، ہم قرآن سے دور ہیں، ہم قرآن سے بیگانہ ہیں، ہم قرآنی مفاہیم سے نا آشنا ہیں، ہمیں کچھ کرنا  ہوگا، ہمیں اتنی محنت کرنا چاہئے کہ قرآنی مفاہیم مسلم اقوام اور ہمارے ملکوں میں رائج مفاہیم اور عمومی بحثوں کا جز بن جائیں۔ میں اس سلسلے میں ان شاء اللہ کسی موقع پر گفتگو کروں گا۔

یہاں مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ قرآن کریم میں ایسے معارف ہیں، قرآن کریم کے اندر ایسے مفاہیم ہیں جو حقیقت میں امت اسلامیہ کی پروقار اور مقتدرانہ زندگی کی تعمیر کر سکتے ہیں، جو حقیقت میں امت اسلامیہ کو موجودہ مشکلات سے نجات دلا سکتے ہیں، قرآن کریم میں ایسے مفاہیم موجود ہیں۔ یہ مفاہیم عملی جامہ پہنیں اور عملی میدان میں نافذ ہوں اس کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ان مفاہیم کو اسلامی معاشرے کی رائے عامہ میں بالکل واضح اور نمایاں مفاہیم بنا دیا جائے۔ کچھ ایسا کرنا چاہئے کہ اسلامی معاشرے کے لئے یہ مفاہیم مسلمہ اور روشن ہو جائیں، کوئي چیز ان کے سد راہ نہ بن سکے۔ اسی مرحلے میں ہنوز ہم مشکلات سے دوچار ہیں، اس مرحلے میں ہمیں مشکلات در پیش ہیں، ہمیں کچھ ایسا کرنا ہوگا کہ یہ مفاہیم مصدقہ اور مسلمہ مفاہیم قرار پائیں، تمام عوامی طبقات کے درمیان مشترکہ افکار و نظریات میں تبدیل ہو جائیں، قرآن کے سلسلے میں یہ کام انجام دیا جانا ہے۔ یہ نشستیں، یہ جلسے، یہ تلاوت اور یہ حفظ، یہ سب کچھ ضروری ہے اور عمل نیک ہے لیکن اس کا مقدمہ ہے عمومی ادراک۔

میں ان مفاہیم میں سے نمونے کے طور پر ایک مفہوم کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ ارشاد ہوتا ہے؛ فَمَن یَکفُر بِالطّاغوتِ وَ یُؤمِن بِاللهِ فَقَدِ استَمسَکَ بِالعُروَةِ الوُثقیٰ لَاانفِصامَ لَها؛ یہ ایک معرفت ہے، یہ ایک اصول ہے؛ طاغوت کی نفی اور اللہ پر ایمان۔ یعنی ہم تمام عالم وجود کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں؛ ایک حصہ طاغوت کے زیر تسلط ہے جس کی نفی کرنا چاہئے اور ایک حصہ اللہ کا فرمانبردار ہے، اس پر ایمان رکھنا چاہئے، اس پر یقین رکھنا چاہئے۔ یعنی کفر کے تشخص کے مد مقابل ایمانی تشخص۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو کفر کے تشخص میں ہے ہم ہمیشہ اس سے بر سر پیکار رہیں۔ اس کا مطلب قتال و جدال نہیں ہے اور نہ ہی اس کا مطلب قطع تعلق ہے، اسی طرح اس سے مراد معلومات کے لین دین کو ترک کر دینا بھی نہیں ہے، اس سے مراد ہے ایمانی تشخص کی خود مختاری اور ایمانی تشخص کی فصیل بندی، تاکہ انسان طاغوتی تشخص اور کفر کے تشخص کے سامنے اپنی حفاظت کر سکے، خود کو محفوظ رکھ سکے، اپنی تکمیل کر سکے اور ارتقائی عمل طے کر سکے۔

آج امت مسلمہ کی مشکل کیا ہے؟ سب سے بڑی مشکل مغربی کلچر کا اس پر غلبہ ہے، مغربی اقتصادیات کا اس پر تسلط ہے، مغربی سیاست کا اس پر غلبہ ہے، مشکلات یہی ہیں۔ آج بہت سے اسلامی ممالک میں اسلامی تشخص نام کی کوئی چیز باقی نہیں ہے۔ بے شک وہاں کے لوگ مسلمان ہیں، نماز بھی پڑھتے ہیں، روزہ بھی رکھتے ہیں، شاید زکات بھی دیتے ہوں مگر معاشرے کا تشخص اسلامی تشخص نہیں ہے۔ یعنی ایسی کوئی پہچان اور شناخت نہیں ہے جو حقیقت کفر اور حقیقت طاغوت کے مد مقابل نظر آتی ہو۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ وہ (مغربی طاقتیں) مداخلت کرتی ہیں، ان (اسلامی) ملکوں کی ثقافت میں مداخلت کرتی ہیں، ان کے عقائد میں مداخلت کرتی ہیں، ان کی معیشت میں مداخلت کرتی ہیں، ان کے سماجی روابط میں مداخلت کرتی ہیں، ان کی سیاست کو اپنی مٹھی میں جکڑے ہوئے ہیں۔ چونکہ اسلامی سماج کے اندر اور امت اسلامیہ کی سطح پر کوئی متحدہ تشخص نہیں ہے اس لئے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جنگ شروع ہو جاتی ہے، نفرتیں پیدا ہوتی ہیں، عدم اتفاق رائے کی کیفیت پیدا ہوتی ہے، یہ سب ہوتا ہے۔ آج دنیائے کفر اسی اسلامی تشخص کو پوری طرح مٹا دینے کے در پے ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی یہ تشخص باقی بچا ہے اسے مٹا دینا چاہتی ہے۔ تو یہ اسلامی اصول ہے؛  فَمَن یَکفُر بِالطّاغوتِ وَ یُؤمِن بِاللهِ فَقَدِ استَمسَکَ بِالعُروَةِ الوُثقیٰ لَاانفِصامَ لَها وَ اللهُ سَمیعٌ عَلیم؛(2) یہ ایک حقیقت ہے۔ اگر اس حقیقت کو ہم بخوبی سمجھ لیں اور اس پر عمل کریں، اسے اسلامی سماج کے اندر اور امت اسلامیہ کی سطح پر ایک عمومی فکر کے طور پر عام کر سکیں تو آپ دیکھیں گے کہ کیسی عظیم تبدیلی پیدا ہوگی؟! تو غور کیجئے کہ اسی حقیقت کی طرح سیکڑوں حقائق قرآن کریم میں موجود ہیں، ان سے دنیائے اسلام میں کیسی عظیم تبدیلی آ سکتی ہے؟! اگر اسی ایک حقیقت کو، اسی ایک معرفت کو ہم بخوبی سمجھ لیں، اس پر یقین کر لیں اور اسے عام کر لے جائیں تو کیا نتیجہ نکلے گا؟!

قرآن کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہم قرآن سے دور ہیں۔ قرآن سے ہماری اس دوری کا، دشمن غلط فائدہ اٹھا رہا ہے۔ دشمن ہمارے اندر روز بروز بے دینی کا جذبہ بھر رہا ہے، لا ابالی پن کا جذبہ عام کر رہا ہے، دشمن پر انحصار کی صورت حال کو فروغ دے رہا ہے۔ آپ اسلامی حکومتوں پر ذرا ایک نظر ڈالئے! اسلامی ملکوں کا ذرا جائزہ لیجئے! دیکھئے کہ وہ امریکا کے مقابلے میں، صیہونیت کے مقابلے میں، دشمن کے مقابلے میں لٹیروں کے مقابلے میں آج کس حالت میں ہیں؟! یہ قرآن سے دوری کا نتیجہ ہے۔ اگر ہم قرآن سے قریب ہوں تو یہ ساری مشکلات برطرف ہو جائیں گی، یہ ساری خامیاں دور ہو جائیں گی اور کفر کی شناخت کے مقابلے میں اسلامی تشخص نمایاں ہوگا۔ ہم جو کہتے ہیں کہ اگر قرآن پر عمل کریں تو ہماری زندگی سدھر جائیگی تو اس کا یہی مطلب ہے۔ قرآنی معارف ہیں جنھیں عوام الناس کے درمیان عمومی بحث میں تبدیل کر دیا جانا چاہئے۔ اس کثرت سے ان کا تذکرہ کیا جائے، ان کے بارے میں اس قدر کام کیا جائے، اتنا لکھا جائے، شعرا، ادبا اور فنکار ان کے بارے میں اتنا کام کریں کہ یہ معارف، اسلامی دنیا میں بدیہیات اور بالکل سامنے کے حقائق بن جائیں۔ یہ ناممکن نہیں ہے، یہ پہنچ سے دور نہیں ہے، کوئی یہ نہ سوچے کہ اگر ہم آج یہ کام شروع کریں تو سو سال لگ جائیں گے! نہیں، اگر اہل دل اور اہل دین کمربستہ ہو جائیں تو یہ کام بڑی تیزی سے انجام پائیں گے۔ اس انداز سے قرآن کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے۔

بحمد اللہ اسلامی جمہوریہ میں قرآن سے قربت کے تعلق سے ہماری کامیابیاں کم نہیں ہیں، ہم قرآن سے بہت دور تھے، طاغوتی شاہی دور میں اس ملک میں قرآن بالکل متروک ہو چکا تھا۔ ہمارے اسکولوں میں، ہمارے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں قرآن کا دور دور تک پتہ نہیں تھا، ہمارے معاشرے میں قرآن کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ بے شک قرآنی نشستیں ہوتی تھیں مگر قرآن متروک تھا۔ اس کے نمونے ہم نے تہران میں، مشہد میں اور دیگر جگہوں پر قریب سے دیکھے تھے اور کچھ جگہوں کے بارے میں دوسروں سے سنا تھا۔ کچھ لوگ آتے تھے، قرآن کی ذرا سی تلاوت ہو جاتی تھی اور قصہ تمام۔ حفظ قرآن، قرآن سے انسیت، قرآن کی دائمی تلاوت، قرآنی علوم و معارف کی ترویج، یہ چیزیں بہت کم تھیں۔ اسلامی انقلاب نے ہمیں قرآن سے قریب کر دیا، قرآن سے آشنا کر دیا۔ آج ہم فخر کرتے ہیں کہ قرآن سے ہماری دلچسپی بڑھی ہے، قرآن کے تعلق سے اشتیاق بڑھا ہے، ہمیں فخر ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو قرآن میں دلچسپی ہے۔ آج اس ملک میں اگر کہیں بھی، کسی بھی شہر میں قرآنی نشست کا اعلان ہو جاتا ہے تو وہاں نوجوانوں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔ آپ خود بھی  تمام شہروں میں، تمام قرآنی محفلوں میں مجمع دیکھ رہے ہیں، مجمع ہو جاتا ہے، لوگ سنتے ہیں، بیٹھتے ہیں۔ یہ اسلامی انقلاب کی برکتوں کا نتیجہ ہے، یہ اسلام کی برکت سے ہوا ہے۔

جو لوگ قرآن سے شغف رکھتے ہیں اور اس سے متعلق امور کی انجام دہی میں مصروف ہیں، وہ اس کام کو ترک نہ کریں، پوری سنجیدگی اور لگن سے کام کرتے رہیں۔ یہ نہ کہئے کہ اب تو ہم اس منزل پر پہنچ گئے ہیں لہذا اب کام پورا ہو گیا ہے۔ ہرگز نہیں، قرآن سے متعلق کام اور قرآن کے لئے انجام دیا جانے والا کام کبھی ختم نہیں ہوتا۔ ہمیں بہت محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ سب کو محنت کرنی ہوگی، سب کو کام کرنا ہوگا، ہمیں قرآن سے خود کو مانوس بنانا چاہئے۔ ہمارے خاندانوں کو، ہمارے نوجوانوں کو، ہمارے عوام کو قرآن سے مانوس ہونا چاہئے۔ قرآن کو حفظ کر لینا قرآن سے مانوس ہونے کی تمہید ہے۔ اس طرح کی نشستوں کا تواتر سے انعقاد قرآن سے انس کا راستہ ہے۔ قرآن سے انسیت کے بڑے فوائد ہیں، بہت زیاد منفعتیں ہیں، اس سے ہمیں قرآنی معارف و مفاہیم کا ادراک ہوگا۔

دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ کو اجر و ثواب سے نوازے۔ ان گزشتہ برسوں میں جن لوگوں نے اس راہ میں صعوبتیں اٹھائیں، اللہ تعالی اپنا لطف و کرم ان کے شامل حال فرمائے۔ ان میں بعض افراد جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں، اللہ ان کے درجات بلند کرے، جو بقید حیات ہیں اللہ انھیں طول عمر دے اور ہمارے معاشرے کے لئے انھیں محفوظ رکھے۔ اللہ تعالی ہمارے قائد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو ان کے اجداد طاہرین کے ساتھ محشور فرمائے، قیامت میں اہل قرآن کے ساتھ محشور فرمائے، ہمیں بھی اہل قرآن میں قرار دے!

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

 

۱) یہ ملاقات تہران میں آٹھ دنوں تک جاری رہنے والے قرآن کریم کے بین الاقوامی مقابلوں کے بعد انجام پائی۔

2) سوره‌ بقره،  آیت نمبر ۲۵۶ کا ایک حصہ؛ «جو بھی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لائے یقینا وہ مستحکم سہارے سے وابستہ ہو گیا جس سے وہ جدا نہیں ہوگا اور خداوند عالم سننے والا اور جاننے والا ہے۔